Rehbar-e-Moazzam Ayatullah Syed Ali Khamenai

Rehbar-e-Moazzam Ayatullah Syed Ali Khamenai

رہبر معظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای

Born: ۲۸ صفر۱۳۵۸ ھ، ۱۷ جولائ ۱۹۳۹
Birth Place: مشہد مقدس، خراسان، ایران
View Books

Biography

امام خمینی (رہ) نے فرمایا :

" آقای خامنہ ای اسلام کے سچے وفادار اور خدمتگذار ہیں اسلام کی خدمت ان کی دلی تمنا اور آرزو ہے وہ اس سلسلے میں بے مثل اورمنفرد شخصیت کے حامل ہیں میں ان کو عرصہ دراز سے اچھی طرح جانتا ہوں

" ولادت سے مدرسہ تک رہبر عظیم الشان حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید علی خامنہ ای، حجۃ الاسلام والمسلمین مرحوم حاج سید جواد حسینی خامنہ ای کے فرزند ہیں، آپ تیر مہینے کی ۱۷ جولائ ۱۹۳۹ ش مطابق۲۸ صفر۱۳۵۸ ھ ق کو مشہد مقدس میں پیدا ہوئے، آپ اپنے والدین کی دوسری اولاد ہیں، آپ کے والد سید جواد خامنہ ای اکثر علماءاور دینی مدرسین کی طرح قناعت پسنداور سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی تھے، انکی سادہ زندگی کے مثبت اثرات ان کے اہل و عیال پر بھی مرتب ہوئے اور وہ بھی ان کی طرح قناعت پسنداور سادہ زندگی بسر کرنے کے عادی ہوگئے رہبر عظیم الشان اپنی زندگی کی پہلی یاد داشت بیان کرتے ہوئے اپنی اور گھر والوں کی زندگی کے حالات کو اس طرح بیان فرماتے ہیں :

" میرے والد، مشہورو معروف عالم دین اور بہت ہی متقی و پرہیزگارتھے وہ اکثرخلوت پسند اور گوشہ نشیں رہتے تھے ہماری زندگی بہت سخت گزرتی، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بعض اوقات ہمارے گھر رات کا کھانا نہیں بنتا تھا ! میری والدہ بڑی مشقت سے ہمارے لئے رات کا کھانا مہیا کرتیں اور یہ رات کا کھانا” روٹی اور کشمش “ہوتا تھا

" لیکن وہ گھر کہ جس میں آقای سید جواد کے اہل و عیال زندگی بسر کرتےتھے، اس کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی اس طرح بیان فرماتے ہیں : ” میرے والد کا مکان جہاں میں پیدا ہوا اور میری زندگی کے ابتدائی چار، پانچ سال وہیں گزرے وہ ساٹھ یا ستر میٹر مربع جگہ پر مشتمل تھاجو مشہد کے ایک ایسے محلہ میں واقع تھا، جہاں غریب لوگ رہتے تھے، اس مکان میں صرف ایک کمرہ اور ایک تاریک تہہ خانہ تھا، جس میں گھٹن محسوس ہوتی تھی ! والد بزرگوار کے پاس اکثرمہمان (ایک عالم دین کی حیثیت سے ملاقات اور مسائل پوچھنے کے لئے) آتے جاتےتھےاور جب تک مہمان ان کے پاس رہتے تھے اس وقت تک ہم سب اس تاریک تہہ خانے میں چلے جاتے تھے بعدمیں میرے والد کے کچھ عقیدتمندوں نےہمارے مکان سے ملحقہ چھوٹا سا زمین کا قطعہ خرید کر ہمارے مکان میں اضافہ کردیااور اس طرح ہمارے مکان میں تین کمرے ہوگئے “ رہبر معظم انقلاب اسلامی کا بچپن ایک غریب لیکن روحانی اور معنوی خاندان اور صاف و ستھرے ماحول میں گزرا، قرآن مجید کی تعلیم کے لئے آپ چار سال کی عمر میں اپنے بڑے بھائی سید محمد کے ہمراہ مکتب بھیج دئیے گئے، اس کے بعد ان دونوں بھائیوں کے داخلے ایک ایسے اسلامی مدرسہ ” دارالتعلیم دیانتی “میں کرائے گئے جو نیا تاسیس ہوا تھا، اور ان دونوں بھائیوں نے ابتدائی تعلیم اسی مدرسہ میں حاصل کی. حوزہ علمیہ میں آپ نے انٹر کالج میں تعلیم کے ساتھ ہی ( عربی گرائمر پر مشتمل کتاب جامع المقدمات ) اور صرف و نحو کی تعلیم کا آغاز کردیا تھا، اس کے بعد آپ حوزہ علمیہ میں وارد ہوئے اور اپنے والد محترم اور دیگر اساتذہ سے ادبیات اور مقدمات کی تعلیم حاصل کی، آپ حوزہ علمیہ میں داخلے اور روحانیت کے راستے کو انتخاب کرنے کی وجہ اس طرح بیان فرماتے ہیں :

" اس معنوی اورنورانی راستے کو انتخاب کرنے کا اصلی سبب میرے والد ماجد تھے اورمیری والدہ ماجدہ بھی اس سلسلہ میں میری بہت تشویق کیا کرتی تھیں اور یہ راستہ انھیں بہت پسند تھا

" آپ نے”جامع المقدمات “ ” سیوطی “ ” مغنی“ جیسی(عربی ) ادبیات کی کتابوں کومدرسہ

" سلیمان خان

" اور

" نواب

" کے مدرسین کے پاس حاصل کیا، آپ کے والد ماجد بھی اپنے بیٹوں کے دروس پر نظارت کیا کرتے تھے آپ نے” کتاب معالم “بھی اسی دور میں تمام کرلی تھی، اس کے بعد ”شرائع الاسلام “اور ” شرح لمعہ“ کو اپنے والد ماجد سے اور ان کا کچھ حصہ ” مرحوم آقای میرزا مدرس یزدی“ سے حاصل کیا، رسائل و مکاسب کو مرحوم حاج شیخ ہاشم قزوینی کے پاس پڑھا اور سطح میں فقہ و اصول کے باقی دروس اپنے والد ماجد کے پاس تمام کئے اور اس طرح آپ نےمقدمات اور سطح کے دروس کوحیرت انگیز طور پر ساڑھے پانچ سال کی مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچادیا آپ کے والد ماجد مرحوم سید جواد نے ان تمام مرحلوں میں اپنے بیٹے کی ترقی اور پیش رفت میں اہم اور نمایاں کردار ادا کیا، رہبر عظیم الشان نے منطق و فلسفہ کے موضوع پر کتاب ” منظومہ سبزواری“ کوپہلے مرحوم آیت اﷲ میرزا جواد آقا تہرانی اور اس کے بعد ” شیخ رضا ایسی“ کے پاس حاصل کیا حوزہ علمیہ نجف اشرف میں آیت اﷲ العظمی خامنہ ای (مدظلہ)نے مشہد مقدس میں عظیم مرجع آیت اﷲ العظمیٰ میلانی کے پاس ۱۸ سال کی عمر سے فقہ و اصول کے دروس خارج کا آغاز کردیا تھا، آپ ۱۳۳۶ھ ش میں عتبات عالیات کی زیارت کی غرض سے نجف اشرف پہنچ گئے اور حوزہ علمیہ نجف کے عظیم مجتہدین جیسے سید محمد محسن حکیم، سید محمود شاہرودی، میرزا باقر زنجانی، سید یحییٰ یزدی اور میرزا حسن بجنوردی کے دروس خارج سے کسب فیض کیا آپ نے حوزہ علمیہ نجف اشرف کے درس و تدریس اور تحقیق کے ماحول کوبہت پسند کیا لیکن آپ کے والد ماجد آپ کے وہاں رہنے پر راضی نہ ہوئے جس کی بنا پرآپ نجف اشرف سےکچھ ہی عرصے کےبعد اپنے والد کی مرضی کےمطابق انکے پاس مشہد واپس تشریف لے آئے حوزہ علمیہ قم میں آیت اﷲ العظمی خامنہ ای فقہ و اصول اور فلسفہ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ۱۳۳۷ ھ ش سے ۱۳۴۳ ھ ش تک حوزہ علمیہ قم میں مشغول رہے اور آیت اﷲ العظمیٰ بروجردی (رہ)، امام خمینی(رہ)، شیخ مرتضیٰ حائری یزدی (رہ) اور علامہ طباطبائی(رہ) جیسے بزرگ علماء کے محضر سےکسب فیض کیا ۱۳۴۳ھ ش میں رہبر انقلاب کو اپنے والد ماجد کے خط کے ذریعہ معلوم ہوا کہ آپ کے والد کی ایک آنکھ کی بینائی ” موتیا بندھ“ کی وجہ سے زائل ہوگئی ہے آپ اس خبر سے بہت افسردہ اورغمگین ہوئے اور ”قم میں تعلیم جاری رکھنے یا مشہد واپس جا کر والد ماجد کی خدمت کرنے “ کے درمیان پس و پیش میں پڑ گئے، غور و فکر کرنے کے بعدآپ اس نتیجے پر پہنچے گئےکہ خدا کی خاطر قم سے مشہد کے لئے ہجرت اختیارکریں اور اپنے والد ماجد کی وہاں جاکر خدمت اوردیکھ بھال کریں، آپ اس بارے میں فرماتے ہیں : ” میں باپ کی خدمت کرنےمشہد چلا گیا اور خدا وند عالم نے مجھے بہت زیادہ توفیقات عطا فرمائیں، بہرحال میں اپنا فریضہ اور ذمہ داری ادا کرنے میں مشغول ہوگیا، اگر میں زندگی میں کامیاب ہوا ہوں اور مجھے توفیق حاصل ہوئی ہے تواس بارے میں میرا عقیدہ یہ ہے کہ یہ اسی نیکی کی وجہ سے ہے کہ جو میں نے اپنے والد ماجد، بلکہ ماں باپ دونوں کے ساتھ کی تھی “ آیت اﷲ العظمی خامنہ ای نے ان دو راستوں ( ١- قم میں تحصیل علم، ٢- مشہد میں والدین کی خدمت ) میں صحیح راستے (مشہد میں والدین کی خدمت ) کو انتخاب کیا، بعض اساتذہ اور ملنے جلنے والوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ آپ نے اتنی جلدی قم کیوں چھوڑ دیا، اگر رہ جاتے تو مستقبل میں ایسے بن جاتے اور ویسے ہوجاتے لیکن آپ کے تابناک اور روشن مستقبل نے بتادیا کہ آپ کا انتخاب صحیح تھا اور تقدیر الٰہی نےآپ کے لئے بہترین انجام رقم کردیا تھا، کیا اس وقت کوئی تصور کرسکتا تھا کہ ایک ۲۵ سالہ بااستعداد جوان عالم کہ جو خدا کی رضا اور والدین کی خدمت کی خاطر قم سے مشہد روانہ گیا، ۲۵ سال بعد مسلمانوں کے رہبر اور ولی امر ایسے بلند مقام اور منزلت پر فائز ہوجائےگا؟ ! آپ نے مشہد مقدس میں درس سے ہاتھ نہیں کھینچا اورتعطیلات کے ایام یا سیاسی جد و جہدو فعالیت، جیل اور سفر کے علاوہ اپنی فقہ واصول کی تعلیم کو ۱۳۴۷ ھ ش تک مشہد کے بزرگ علماء بالخصوص آیت اللہ العظمی میلانی کے محضر میں پابندی کے ساتھ جاری رکھا، اسی طرح آپ جب ۱۳۴۳ ھ ش میں مشہد میں مقیم ہوگئے تو آپ نے تحصیل علم اورضعیف و بیمار باپ کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ فقہ و اصول اور دینی تعلیم سے جوان طالب علموں اور اسٹوڈینٹس کو آگاہ اور روشناس کرانا شروع کردیا تھا سیاسی جد و جہد آیت اﷲ العظمی خامنہ ای خود فرماتے ہیں کہ

" میں امام خمینی (رہ) کا فقہی، اصولی، سیاسی اور انقلابی شاگرد ہوں

" لیکن مجاہد اعظم اور شہید راہ خدا ” سید مجتبیٰ نواب صفوی “ کے ذریعہ آپ کے پہلے سیاسی، جہادی مرحلےاور طاغوتی طاقت کے ساتھ مقابلہ اور جد وجہد کا آغاز ہوا، جس وقت نواب صفوی چند فدائیان اسلام کے ہمراہ ۱۳۳۱ھ ش میں مشہد گئے اور مدرسہ سلیمان خان میں اسلام کے احیاء و بقا اور الٰہی احکام کی حاکمیت “ کے موضوع پر ولولہ انگیز اور پرجوش تقریر کی جس میں ایرانی عوام کو برطانوی سامراج کے مکر وفریب اورشاہ کی خیانتوں سے آگاہ کیا اس وقت آیت اﷲ خامنہ ای جو مدرسہ سلیمان خان کے جوان طالب علم تھے، نواب کی شعلہ بیانی سے بہت متاثرہوئے، آپ فرماتے ہیں : ”اسی وقت انقلاب اسلامی کی چنگاری نواب صفوی کی شعلہ بیانی کے ذریعہ میرے وجود میں آگئی تھی اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ میرے دل میں پہلی آگ مرحوم صفوی نے روشن کی تھی “ امام خمینی (رہ) کی تحریک کے ہمراہ آیت اﷲ خامنہ ای نے ۱۳۴۱ھ ش میں اس وقت میدان سیاست میں قدم رکھا کہ جب آپ قم میں مقیم تھے اور محمدرضا شاہ پہلوی کی اسلام دشمن پالیسی اور امریکہ نواز سیاست کے خلاف امام خمینی (رہ) کی انقلابی تحریک کاآغاز ہوا آپ اس وقت سیاسی جدو جہد کے میدان میں وارد ہوگئے اور پورے سولہ سال تک بہت سے نشیب و فراز، شکنجے، شہر بدری اور جیل جانے کے باوجود آپ نے جد و جہد کا سفر جاری رکھا اور اس راستے میں پیش آنے والے کسی بھی خطرے سے آپ ہراساں نہیں ہوئے آپ پہلی بار محرم ۱۳۸۳ھ ق میں امام خمینی(رہ) کی جانب سے آیت اﷲ میلانی اور خراسان کے دیگر علماءتک پیغام پہنچانے پر مامور ہوئے اس پیغام میں علماءکے لئے محرم الحرام میں تبلیغ کرنے کا طریقہ کار، شاہ کی امریک