Sayyed Muhammad Hussein Fadlallah

Sayyed Muhammad Hussein Fadlallah

آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ

Born: نومبر ۱۶، ۱۹۳۶
Died: جولائی ۴، ۲۰۱۰
Birth Place: نجفِ اشرف
View Books

Biography

فقیہ، مجتہد، ادیب، شاعر اور مجاہد آیت اﷲ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اﷲ ۹ شعبان المعظم ۱۳۵۴ ھ مطابق ۱۹۳۶ء کو شہرِ علم و عرفاں نجفِ اشرف کے ایک لبنانی گھرانے میں پیدا ہوئے-

نجفِ ِ اشرف میں اپنی طویل اقامت کے دوران آپ نے اپنے والدِ گرامی آیت اﷲ العظمیٰ سید عبد الرؤ ف فضل اﷲؒ سمیت آیت اﷲ محمود شاہرودیؒ ‘ آیت اﷲ شیخ حسین حلیؒ ‘ ملا صدر البازوریؒ ‘ آیت اﷲ العظمیٰ سید محسن الحکیمؒ اور آیت اﷲ العظمیٰ سید ابو القاسم خوئی ؒ سے کسبِ فیض کیا- آپ نے نجفِ اشرف میں فکری تربیت اور ترقی یافتہ اندازِ تبلیغ کے سلسلے میں پائے جانے والے خلا اور کمی کو محسوس کرتے ہوئے تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا-اس سلسلے میں آپ نے ۱۳۸۰ ھ میں آیت اﷲ العظمیٰ شہید سید محمد باقر الصدر ؒ اور آیت اﷲ شیخ محمد مہدی شمس الدین ؒ کی ہمراہی میں ’’جماعۃ العلما‘‘ کی طرف سے ایک مجلے ’’الاضواء‘‘ کا آغاز کیا-اس مجلے کی اشاعت کے پہلے سال اس کا اداریہ ’’رسالتنا‘‘ کے عنوان سے شہید سید محمد باقر الصدر ؒ تحریر فرمایا کرتے تھے‘ پھر دوسرے سال سے مسلسل چھ سال تک ’’کلمتنا‘‘ کے عنوان سے اداریہ آیت اﷲ فضل اﷲ تحریر کرتے رہے-آپ کے تحریر کیے ہوئے یہ تمام اداریے بعد میں ایک مستقل کتاب ’’قضا یاناعلی ضوء الاسلام‘‘ کے نام سے شائع ہوئے- آیت اﷲ سید محمدحسین فضل اﷲ اور آیت اﷲ شہید سید محمد باقر الصدؒ ر کی رفاقت ‘ ہمراہی اور ہمکاری علمی اور تعلیمی و تربیتی میدانوں کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات اور انقلابی تنظیموں کی تشکیل جیسے امور میں بھی جاری رہی-خاص طور پر ’’حرکتِ اسلامی عراق‘‘ کی تشکیل میں آپ نے فعال کردار ادا کیا ‘جس نے بعد میں’’حزب الدعوۃ الاسلامےۃ‘‘ کا نام اختیار کیا-اس وقت تک عراق کے انقلابی شیعہ باقاعدہ منظم نہ ہوئے تھے اور ان کی کوئی جانی پہچانی سیاسی تنظیم نہیں تھی- ۱۹۶۶ ء میں آیت اﷲ سید محمد حسین فضل اﷲ شیعیانِ لبنان کی ایک کثیر تعداد کے اصرار اور اپنے والدِ گرامی کے حکم پر (جو خود شیعیانِ لبنان کے مرجع تھے) مستقل قیام کی نیت سے لبنان تشریف لے گئے -اُس وقت سے اب تک آپ لبنان میں قرآنی تعلیمات کی بنیادوں پر کئی جواں نسلوں کی تربیت کر چکے ہیں-سیاسی ‘ دینی اور تعلیمی و تربیتی میدانوں میں آپ کی سرگرمیوں کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ اس کا احاطہ اور مکمل بیان ایک مستقل کتاب ہی میں ممکن ہے-یہاں ہم اسی قدر کہنے پر اکتفا کریں گے کہ آیت اﷲسیدمحمدحسین فضل اﷲ ہمارے زمانے کے ایک انتہائی مستعد اور فعال ترین عالم ہیں‘ جو چار عشروں سے زیادہ مدت سے معاصر نسلوں کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ ادا کر رہے ہیں اور اس راستے پر بغیر کسی سستی کے مسلسل گامزن ہیں- آیت اﷲسید محمدحسین فضل اﷲ دنیائے علم و دانش کی منتخبِ روزگار شخصیات میں ایک خاص اور نمایاں مقام رکھنے کے باوجود عام لوگوں کی اصلاح و تہذیب اور اُن کی ہدایت و رہنمائی کی طرف سے کبھی غافل نہیں رہے اور آپ نے لوگوں میں مذہب و دیانت اور اسلامی اخلاق کی ترویج کے عمل سے کبھی بے اعتنائی نہیں برتی- یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ آیت اﷲسیدمحمدحسین فضل اﷲ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کو ایک فکر کی صورت میں انسانوں کی عقل و ذہن میں داخل کرناچاہیے اور اسکے ساتھ ساتھ اسے احساس ‘ جذبات اور عشق کی صورت میں انسانی قلب میں جاگزیں کرنا چاہیے اور اسلام کو انسانی فکر و شعور اور جذبات و احساسات کا حصہ بناکر ہی لوگوں کی شخصیت اور کردار و عمل میں رچایا بسایا جاسکتا ہے- مذکورہ نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے تربیت و تہذیب اور اصلاح و نصیحت کے لیے آیت اﷲ فضل اﷲ نے جو متنوع دستور العمل (programme) اپنایا وہ اس قابل ہے کہ اس کا بغور جائزہ لیا جائے اور کلمۂ اسلام کی سر بلندی ‘ اسلامی تہذیب کے نفاذ اور بشر ساختہ تہذیبوں پر اسکے غلبے کے لیے کوشاں افراد اور ادارے اس پروگرام سے استفادہ کریں-اس پروگرام کے اہم اجزا درجِ ذیل ہیں- * تفسیر قرآن کے ہفتہ وار جلسوں کا انعقاد ‘ان جلسوں کے بعد سوال وجواب کی باقاعدہ نشست کا اہتمام ہوتا ہے‘جس کے دوران جلسے کے شرکا آیت اللہ فضل اللہ کی خدمت میں اپنے سوالات اور اعتراضات پیش کرکے ان کے جواب حاصل کرتے ہیں- * ہر شبِ جمعہ خطاب اور دعائے کمیل کی تلاوت ‘ جس میں خواتین و حضرات کی ایک کثیر تعداد شریک ہوتی ہے- * نمازِ جمعہ کی اقتدا جس میں تیس ہزار سے زائد افراد شرکت کرتے ہیں- * خواتین کے لیے گاہ بگاہ مخصوص فکری اور علمی مجالسِ مذاکرہ کاانعقاد‘ جن کے دوران بعض صاحبِ نظر لبنانی خواتین خواتین کی معاشرتی‘ گھریلو اور دوسری مشکلات اور اسلام میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے اپنے اعتراضات اور سوالات اٹھاتی ہیں اور آیت اﷲ فضل اﷲ ان سوالات اور اعتراضات کے قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیتے ہیں اور ان کی مشکلات کے حل کی جانب اُن کی رہنمائی کرتے ہیں- * آپ کا اہم ترین اقدام نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اسکولوں کا قیام ہے ‘ جن کی تفصیل درج ذیل ہے: - آپ کے زیر سرپرستی نو (پرائمری ‘ سیکنڈری اور ٹیکنیکل) تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں‘ جن میں تقریباً ۱۴ ہزار طلبازیورِ علم سے آراستہ ہورہے ہیں- - ان تعلیمی اداروں میں سے کچھ صرف لڑکیوں کے لیے مخصوص ہیں‘ جن میں سے ایک آموزش گاہِ حضرت خدیجۃ الکبریٰ علیہاالسلام ہے ‘ جس میں تقریباً دو ہزار طالبات زیر تعلیم ہیں -ان طالبات کی ایک بڑی تعداد شہدا کی بچیوں اور یتیم لڑکیوں پر مشتمل ہے ‘جن کی اقامت کا انتظام اس مدرسے کی جدید ترین سہولتوں سے آراستہ عمارت ہی میں کیا گیا ہے- - یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگہداشت کے لیے چھ مراکز قائم ہیں ‘جن میں تین ہزار سے زائد یتیم بچے اور بچیاں مقیم ہیں-ان مراکز میں دوسرے مدارس کی مانند پرائمری سے قبل کی تعلیم بچوں اوربچیوں کو ایک ساتھ دی جاتی ہے اور اسکے بعد پرائمری سے لڑکوں اور لڑکیوں کی کلاسیں علیحدہ علیحدہ کردی جاتی ہیں- * بیروت میں ایک عظیم الشان اسلامی مرکز کا قیام ‘جو مسجدِ امامین الحسنین ؑ ‘ حضرت فاطمہ زہرا ؑ کے نام سے منسوب ایک بڑے آڈیٹوریم اور تحقیقاتی مرکز پر مشتمل ہے- * لبنان میں مختلف علاقوں میں ثقافتی مراکز کا قیام-مثلاً بقاع میں ثقافتی مرکز امام حسن عسکری ؑ اور مسجدِ اہلِ بیت ؑ ‘ جبلِ عامل میں ثقافتی مرکز امام علی ؑ ‘ جلالا میں ثقافتی مرکز امام حسینؑ طرابلس میں ثقافتی مرکز اہلِ بیتؑ اور ہرمل میں مسجدِ امام جعفر صادقؑ - آیت اﷲ سیدمحمدحسین فضل اﷲ احیائے اسلام کے لیے سرگرمِ عمل اسلامی تحریکوں کے فکری قائدین میں سے ہیں اور مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے اسلامی انقلاب کے زبردست حامی اور مدافع کے طور پر جانے جاتے ہیں-صہیونی ایجنٹ اب تک تین مرتبہ آپ پر قاتلانہ حملے کر چکے ہیں‘ دو مرتبہ یہ حملے مکمل طور پر ناکام رہے ‘جبکہ ایک حملے میں گولی آپ کے پاؤں پر لگی جس کا اثر اب بھی ظاہر ہے اور اس طرح آپ بھی عالمی اسلامی انقلاب کے جانبازوں کی صف میں شامل ہیں- آیت اﷲ فضل اﷲ کی تالیفات کی ایک کثیر تعداد منظر عام پر آچکی ہے ‘جن میں سے چند معروف اور اہم یہ ہیں: قرآنِ کریم سے متعلق ۱-اسلوب الدعوۃ فی القرآن ۲-الحوار فی القرآن ۳-من وحی القرآن (۲۵ جلدیں) ۴-من عرفان القرآن ۵-حرکۃ النبوۃ فی مواجھۃ الانحراف ۶-دراسات و بحوث قرآنےۃ فقہ سے متعلق ۱-المسائل الفقھےۃ (دو جلدیں) ۲-الفتاویٰ الواضحۃ ۳-فقۃ الحیاۃ ۴-کتاب الجہاد ۵-کتاب النکاح ۶-القرعۃ والاستخارۃ ۷-الیمین والعھد والنذر ۸-الاجارۃ ۹-رسالۃ فی الرضاع ۱۰-فقہ الشریعۃ ۱۱-الصید و الذباحۃ ۱۲-دلیل المناسک ۱۳-مناسک الحج ۱۴-الشرکۃ فکرِ اسلامی سے متعلق ۱-خطوات علی طریق الاسلام ۲-قضایا نا علی ضوء الاسلام ۳-الاسلام و منطق القوۃ ۴-الحرکۃ الاسلامےۃ ھموم وقضایا ۵-من اجل الاسلام ۶-مفاہیم اسلامےۃ عامۃ (۱۰ اجزاء) ۷-فی آفاق الحوارالاسلامی المسیحی ۸-دنیا الشباب ۹-دنیا المراۃ ۱۰-تاملات اسلامےۃ حول المراۃ ۱۱-قراء ۃ جدیدۃ لفقہ المراۃ الحقوقی (دوجلدیں) ۱۲-الوحدۃ الاسلامیۃ بین الواقع والمثال ۱۳-قضایااسلامےۃ معاصرۃ ۱۴-اسئلۃ ورد ود من القلب ۱۵-المرجعےۃ وحرکۃ الواقع ۱۶-الاسلام والسمیحیۃ ۱۷-الاسلام وفلسطین ۱۸-الاسلامیون وتحدیات المعاصرۃ ۱۹-الاسلام والمشروع الحضاری ۲۰-تحدی الممنوع ۲۱-خطاب الاسلامیین والمستقبل ۲۲-مع الحکمۃ فی خط الاسلام ۲۳-الندوۃ (۱۲ جلدیں) ۲۴-الجمعۃ منبرو محراب ۲۵-صلاۃ الجمعۃ الکلمۃ والموقف ۲۶-من وحی عاشوراء ۲۷-حدیث عاشوراء ۲۸-احادیث عاشوراء ۲۹-علی طریق کربلاء ۳۰-تاملات فی آفاق الامام موسیٰ الکاظم ؑ ۳۱-فی رحاب اھل البیتؑ (۲ جلدیں) ۳۲-آفاق اسلامےۃ ۳۳-فی رحاب الدعاء ۳۴-للانسان والحیاۃ ۳۵-حوارات فی الفکروالاجتماع والسیاسۃ ۳۶-روی و مواقف (۳ اجزاء) ۳۷-المعالم الجدیدۃ للمرجعےۃ الشیعےۃ ۳۸-تاملات فی الفکر السیاسی الاسلامی ۳۹-صراع الارادات ۴۰-الھجرۃ والاغتراب ۴۱-ارادۃ القوۃ ۴۲-بینات ۴۳-شرح خطبہ الزہراء (س) ۴۴-الفقیہ والامۃ (تاملات فی الفکر السیاسی والمنہج الاجتہادی و الحرکی عند الامام الخمینی ؒ) ۴۵-فی آفاق الروح (شرح صحیفہ سجادیہ- (۲ جلدیں) شعری مجموعے ۱-یا ظلال الاسلام (رباعیات) ۲-قصائد من اجل الاسلام والحیاۃ ۳-فی ظلال الشباب ۴-اناشید للسائرین فی طریق اﷲ ۵-علی شاطی ء الوجدان ان کے علاوہ مختلف بین الاقوامی سیمینارز میں آپ کے علمی مقالات اور فکری نشستوں میں آپ کے بیش قیمت اظہارِ خیال بھی گراں قدر علمی سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں-