امام حسین ؑ نے کیوں قیام فرمایا؟

امام ؑ کی اصلاحی تحریک کا عنوان: سیرتِ پیغمبر ؐاور سیرتِ علی ؑ کا احیا

امام حسین ؑ نے کیوں قیام فرمایا؟   •   آیت اللہ ابراہیم امینی

ان وجوہات کی بنا پر امام حسین ؑ سمجھتے تھے کہ اصلاح کاعمل ناگزیرہے، اور یہ اصلاح پیغمبر ؐاور علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت کا احیا تھییہ دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین ؑ کا ہدف اور مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے پیغمبر اسلامؐ اور امیر المومنین علی ؑ کی سیرت کا احیا تھایعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر احیا کا وسیلہ ہے، خود ہدف اور مقصد نہیںہدف درحقیقت پیغمبر اسلام ؐ اور حضرت امیرؑ کی سیرت کو زندہ کرناتھا۔

اموی حکومت کی دونمایاں خصوصیات:حدودِ الٰہی کا تعطل اور علانیہ فسق وفجور

امام حسین ؑ نے جب مکہ سے کوفہ کے ارادے سے اپنے سفر کا آغاز کیا، تو اثنائے راہ میں آپ ؑ کی ملاقات فرزدق سے ہوئیامام ؑ نے اس سے عراق کے حالات دریافت کیےاس نے جواب دیا:

لوگوں کے دل آپ ؑ کے ساتھ ہیں لیکن اُن کی تلواریں آپ ؑ کے خلاف ہیں۔

امام ؑ نے اُس سے اپنے سفر کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّ ھٰؤُلاٰءِ قَوْمٌ لَزِمُوا طٰاعَۃَ الشَّیْطٰانِ وَتَرَکُواطٰاعَۃَ الرَّحْمانِ وَ أَظْہَروُا الْفَسٰادَ فِی الْأَرْضِ وَاَبْطَلُوا الْحُدُودَ وَشَرِبُوا الْخُمُورَ وَ اسْتَأْثَروُا فی أَمْوٰالِ الْفْقَرٰاءِ وَالْمَسٰاکیٖنَ۔ وَأَنا أَوْلیٰ مَنْ قٰامَ بِنُصْرَۃِ دیٖنِ اللّٰہِ وَاعْزٰازِ شَرْعِہِ وَالْجِہٰادِ فیٖ سَبیٖلِہِ لِتَکُونَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلَیٰا۔ (۱)

یعنی

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شیطان کی اطاعت کی ہے، رحمن کی اطاعت کو ترک کردیاہے۔

البتہ یہاں ممکن ہے ” ھٰؤُلاٰءِ“ حکام کی جانب اشارہ ہو (اور زیادہ یہی معنی ظاہر ہوتے ہیں) اور ممکن ہے پورے معاشرے کے لیے ہو۔

ان لوگوں نے فساد کو ظاہر کیا ہے۔

بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی فساد کا مرتکب ہوتا ہے، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی فساد کا اظہار کرتا ہے، علیٰ الاعلان فسق وفجور کا مرتکب ہوتا ہےاِن لوگوں کے بارے میں امام ؑ فرماتے ہیں کہ انہوں نے زمین پر فساد کو ظاہر کیا ہے، یہ لوگ درحقیقت فساد کو رواج دینے والے ہیںیہ ایک اہم اور خطرناک مسئلہ ہے۔

انہوں نے حدودِ الٰہی کو معطل کردیا ہے۔

یعنی شرعی حدود پر عمل نہیں کرتےان کا اندازِ حکومت کچھ اور ہےپیغمبر ؐ نے حکومت کی تھی لیکن اُن کی حکومت دینی اور اسلامی قوانین کی حدود میں تھیلیکن ان لوگوں نے اس اندازِ حکومت کو ترک کردیا ہے، حدودِ الٰہی کو قدموں تلے روند ڈالا ہے۔

یہ لوگ شراب پیتے ہیں۔

حالانکہ شراب نوشی اسلام میں حرام ہے۔

فقرا اور مساکین کے مال کو اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں۔

فقرا کے حقوق ادا نہیں کیے جاتے، بیت المال کومن مانے طریقے اور اپنی حکومت کے استحکام کے لیے استعمال کرتے ہیں، فقرااور محتاجوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال نہیں کرتےجبکہ پیغمبر اسلام ؐکے دور میں اس کا استعمال عوام الناس اور فقرا کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے کیاجاتا تھادلائل یہ ثابت کرتے ہیں اور خود پیغمبر اکرم ؐ نے بھی اسی طرح عمل کیا اور امیر المومنین ؑ بھی اسی طرح عمل کرنا چاہتے تھےمگر افسوس کہ آپ ؑ کو بکثرت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

جب عنانِ حکومت اُن لوگوں کے ہاتھ میں آئی، تواُن کاطرزِ عمل یہ کہہ رہا تھا کہ یہ اموال ہمارے اختیار میں ہیں، ہم مسلمانوں کے حاکم ہیں، اس مال کواپنی حکومت کی حفاظت کے لیے خرچ کریں گے، اب فقرا کا جو حال ہوہوا کرے!!!

 

امام ؑ کی تحریک اسلام کی حفاظت کے لیے دفاعی جہاد

مذکورہ کلمات سے پتا چلتا ہے کہ امام حسین ؑ کے مدینہ سے نکلنے اور اس طویل سفر کے آغاز کا سبب ان خرابیوں کا مشاہدہ اور اُن کی اصلاح کا عزم تھا۔ آپ ؑ فرماتے تھے کہ میں دین خدا کی نصرت، اس کی شریعت کی بالادستی اور اس کی راہ میں جہاد کے سلسلے میں سب سے زیادہ ذمے دار ہوں۔

امام حسین ؑ کے قیام کا محرک(motive) اُس وقت کے مسلمانوں کی ابترحالت اور خاص کر اُس زمانے کی حکومتوں کا طرزِ عمل تھا کہ جس کی وجہ سے حدودِ الٰہی معطل تھے، فقرا بُرے حال میں تھے اور بیت المال کے اموال ناجائز مدوں میں خرچ ہو رہے تھےحضرت ؑ اس صورتحال کے خاتمے کے لیے قیام چاہتے تھے اور ا س قیام کے لیے خود کو دوسروں سے زیادہ ذمے دار سمجھتے تھےکیونکہ آپ ؑ نواسۂ رسولؐ اور امامِ مسلمین تھے اور ان حالات کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔

پس معلوم ہوا کہ امام ؑ کا یہ اقدام ایک قسم کا جہاد تھا، اسلام کے تحفظ کے لیے دفاعی جہاد تھاایرانی عوام کی اسلامی تحریک بھی اسی طرح تھی، اور رہبر انقلاب امام خمینیؒ کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ تحریک ایک دفاعی جہاد ہے۔

امام حسین ؑ نے بصرہ کے معززین کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:

وَقَدْبَعَثْتُ رَسُولی اِلَیْکُمْ بِھٰذَاالْکِتٰابِ، وَأَنَاأَدْعُوکُمْ اِلیٰ کِتٰابِ اللّٰہِ وُسُنَّۃِ نَبیِّہِ۔ فَاِنَّ السُّنَّۃَ قَدْاُمیٖتَتْ وَاِنَّ الْبِدْعَۃَ قَدْاُحیِیَتْ۔ (۱)

میں نے اِس خط کے ہمراہ اپنا سفیر تمہاری جانب روانہ کیا ہے، اور تمہیں کتابِ خدا اور سنتِ رسول کی طرف دعوت دیتا ہوںدرحقیقت سنت مردہ ہوچکی ہے(یعنی لوگ اِس پر عمل پیرا نہیں۔ ) اور بدعت زندہ ہوگئی ہے۔“

یعنی وہ چیزیں جو دین کا جز نہیں دین کے اندر داخل کردی گئی ہیں۔ اگر تم میری بات سنو اور میرے فرمان کی اطاعت کرو، تو میں راہِ راست کی جانب تمہاری رہنمائی کروں گایہ راہِ راست وہی سیرتِ پیغمبرؐ اور سیرتِ علی ؑ ہے یعنی وہی خالص اور حقیقی اسلام ہے۔

البتہ یہاں امام ؑ نے یہ توفرمایا ہے کہ میں راہِ راست کی جانب تمہاری راہنمائی کروں گا، لیکن یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ راہِ راست حکومت کا قیام ہے یا کوئی دوسری چیزیہاں بھی امام ؑ نے اپنی تحریک کا مقصد سنت کا احیا اور بدعت کا خاتمہ بیان کیا ہے۔

جب مروان نے امام حسین ؑ سے کہا کہ وہ یزید کی بیعت کرلیں، تو امام ؑ نے اس کے جواب میں جو کلمات ادا کیے وہ بھی آپ ؑ کے قیام کے مقصد کو واضح کرتے ہیں:

اِنّٰالِلّٰہِ وَاِنّٰاالَیْہِ رٰاجِعُونَ وَعَلیَ الْاِسْلاٰمِ اَلسَّلاٰمُ اذْ قَدْبُلِیَتِ الأُمَّۃُ بِرٰاعٍ مِثْلِ یَزیٖدَ۔

جب لوگ یزید جیسے شخص کی حکومت میں مبتلا ہوجائیں، تو اسلام کو خداحافظ کہہ دینا چاہیے۔ (۲)

اِن کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین ؑ یزید کی حکومت کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اِسے اسلام و مسلمین کے لیے خطرناک سمجھتے تھے اور اسی بنا پر اس کی بیعت کو ناجائز قرار دیتے تھے۔

آپ ؑ نے اسی گفتگو کے ذیل میں فرمایا:

وَلَقَدْسَمِعْتُ جَدّیٖ یَقُولُ:أَلْخِلاٰ فَۃُ مُحَرَّمَۃٌ عَلیٰ اٰلِ ابی سُفْیٰان۔

میں نے اپنے نانا سے سنا ہے، انہوں نے فرمایاتھا کہ خلافت آلِ ابی سفیان پر حرام ہے۔

پتا چلا کہ امام حسین ؑ کا مقصد یزید کی خلافت کے خلاف قیام تھا اور یہ تحریک امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک صورت تھیایک دوسرے مقام پر امام ؑ نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:

یٰاأَخی وَاللّٰہِ لَوْلَمْ یَکُنْ فی الدُّنْیٰا مَلْجَأً وَلاٰمَأْویً لَمٰابٰایَعْتُ یَزیٖدَ بْنَ مُعٰاوِیَۃَ۔

اے میرے بھائی! اگر مجھے دنیا میں کوئی بھی جائے پناہ نہ ملے، تب بھی میں یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کروں گا۔ (۳)

امام حسین ؑ کے یزید ابن معاویہ کی بیعت نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یزید خلیفۂ رسولؐ کے عنوان سے مسلمانوں پر حکومت کرتا تھا، اس کی رفتار و گفتار پیغمبر کی رفتار و گفتار سمجھی جاتی تھی، لہٰذا اس کے وہ اعمال و افعال بھی جو اسلام اور سیرتِ پیغمبرؐکے برخلاف تھے، پیغمبر ؐاور اسلام ہی کے حساب میں شمار کیے جاتے اور یہ ایک بہت بڑا خطرہ تھا۔

۱موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۳۶

۲موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۸۴

۳موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۸۹