نہی عن المنکرکا پہلا مرحلہ‘ بیعت سے انکاراور حکومتِ یزید کوناجائز قرار دینا
امام حسین ؑ نے کیوں قیام فرمایا؟ • آیت اللہ ابراہیم امینی
اِن حالات میں وہ لوگ (بنی امیہ) فرزندِ رسول حسین ابن علی ؑ سے یزید کے لیے بیعت لینا چاہتے تھےیعنی وہ چاہتے تھے کہ امام حسین ؑ بیعت کے ذریعے یزید کی حکومت اور اُس کے اعمال کی صحت پر مہرِ تصدیق ثبت کریں اور انہیں اسلام کے مطابق قرار دیں۔
واضح بات ہے کہ امام حسین ؑ یہ نہیں کرسکتے تھے اور نہی عن المنکرکا پہلا قدم آپ ؑ کا یزید کی بیعت سے انکار اور اُس کی حکومت کو غیر قانونی قرار دیناتھا۔
اپنے نانا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرقدِ مطہر سے وداع کے موقع پر امام حسین ؑ نے جو کلمات ارشاد فرمائے وہ بھی آپ ؑ کی تحریک کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہیں، آپ نے فرمایا:
بِاَبیٖ اَنْتَ وَاُمّیٖ لَقَدْخَرَجْتُ مِنْ جَوارِکَ کُرْھاًوَفُرِّقَ بَیْنیٖ وَ بَیْنَکَ حَیْثُ اَنّیٖ لَمْ اُبٰایِعْ لِیَزیدَ بْنِ مُعٰاوِیَۃَ شٰارِبِ الْخُمُورِوَرٰاکِبِ الْفُجُورِوَھٰااَنَاخٰارِجٌ مِنْ جَوٰارِکَ عَلَی الْکَرٰاہَۃِ فَعَلَیْکَ مِنّیِ السَّلاٰمُ۔
اے رسول اللہ! آپؐ پر میرے ماں باپ فدا ہوںمیں بحالتِ مجبوری آپؐ کے جوار سے نکل رہاہوںمیرے اورآپؐ کے درمیان جدائی آپڑی ہےکیونکہ میں یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کرناچاہتا، جو شراب خوراور فاسق ہے۔ میں مجبوری کے عالم میں آپ کے جوار سے نکل رہا ہوں۔ آپ پر میرا سلام ہو(۱)
مذکورہ کلمات اور ان ہی جیسے دوسرے کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین ؑ کی تحریک کا مقصد حکومت کی اصلاح اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی تھا۔ آپ ؑ کا ہدف سیرتِ پیغمبرؐ کا احیا اور بدعتوں کا خاتمہ تھا۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے امامؑ کے مرحلہ بہ مرحلہ اقدامات اور مؤقف
امام حسین ؑ کے بعض بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑ اس فریضے کی انجام دہی کے لیے مرحلہ بہ مرحلہ اور قدم بقدم آگے بڑھے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب آپ ؑ مدینہ میں تھے اور اُن لوگوں (بنی امیہ) نے آپ ؑ سے بیعت لینا چاہی، تو آپ ؑ نے ان کے مطالبۂ بیعت کی مخالفت کا فیصلہ کیااور مدینہ چھوڑ دیاکیونکہ اگرآپ ؑ مدینہ میں رہتے، توآپ ؑ کو بیعت پر مجبور کردیاجاتااِس موقع پرآپ ؑ کو مکہ کے سوا کوئی دوسری مناسب جگہ نظر نہیں آئیکیونکہ ایک تو یہ مدینہ سے نزدیک تھا، اور دوسرے ایک مقدس و محترم شہر اور حجاج اور زائرین کے جمع ہونے کی جگہ تھابنابرایں آپ ؑ پر لازم تھا کہ مدینہ چھوڑ کر مکہ تشریف لے جائیں اور اس ذریعے سے امربالمعروف اور نہی عن المنکرکریںالبتہ انجامِ کار کیا ہوگا؟ یہ دوسرا موضوع ہے جو فی الحال پیشِ نظر نہیںچنانچہ جب مدینہ سے نکلتے وقت عبداللہ ابن مطیع نے امام ؑ سے اُن کی منزل کے بارے میں سوال کیا، توآپ ؑ نے فرمایا:
أَمّٰا فی وَقْتی ھٰذٰاأُریٖدُ مَکَّۃَ فَاِذٰاصِرْتُ اِلَیْھٰااِسْتَخَرْتُ اللّٰہَ تَعٰالیٰ فی أَمْری بَعْدَ ذٰلِکَ۔
اِس وقت میں مکہ کا قصد رکھتا ہوں، پس مکہ پہنچ کر خدا سے اپنے کام کے بارے میں طلبِ خیر کروں گا(۲)
یہ پہلا مرحلہ ہےمیں اس جملے سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ حضرت ؑ کا قصد اپنے فریضے کی انجام دہی تھا اور فریضے کی انجام دہی کی صورت ہر مرحلے میں مختلف تھیفریضے کی انجام دہی مدینہ میں یہ تھی کہ بیعت نہ کریں اور وہاں سے نکل جائیں، بعد میں کیاہوگا، اور کیا کرنا پڑے گا، یہ بعد کی بات ہے۔
مکہ میں بھی امام ؑ نے حالات اور پیش آنے والے واقعات کے مطابق فیصلہ کیامیرے خیال میں امام خمینیؒ نے بھی اپنی جدوجہد کے دوران اسی طریقۂ کار کی پیروی کی، قدم بقدم آگے بڑھے اور صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کیے اور اپنا فریضہ انجام دیااپنی جدوجہد کے آغاز میں فرمایا کہ حکومت کے دین مخالف اقدامات پر خاموش نہیں رہا جاسکتا، ہمارا فرض ہے کہ اِن پر اپنی مخالفت کااظہارکریںاس زمانے میں امام خمینی ؒ محض بیانات جاری کرنے پر اکتفا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جوں جوں قوت میں اضافہ ہوا اُسی تناسب سے بڑے بڑے فیصلے کیےیہاں تک کہ پیرس سے واپسی پر بہشتِ زہرا ؑ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
ہم عوام کی تائید اور حمایت سے حکومت تشکیل دیں گے۔
امام حسین ؑ کی تحریک نے بھی مرحلہ بہ مرحلہ، قدم بقدم شکل اختیار کیپہلا مرحلہ مدینہ سے نکلنا تھامکہ پہنچ کر ایک عرصے تک وہاں اقامت اختیار کرنا دوسر امرحلہ تھامکہ میں بھی مختلف حوادث و واقعات پیش آئےمیں یہاں کچھ اہم حوادث کی جانب اشارہ کروں گا: جب امام حسین ؑ مکہ تشریف لے گئے، تو کیونکہ مکہ مسلمانوں کی آمدورفت کا مرکز تھا، لہٰذایہ خبرپورے عالمِ اسلام میں پھیل گئی کہ فرزندِ رسول حسین ابن علی ؑ نے مدینہ چھوڑ دیا ہےسب لوگ ایک دوسرے سے امام حسین ؑ کے مدینہ چھوڑنے کی وجہ دریافت کرتے تھےامام ؑ کے اس اقدام نے حکومت سے آپ ؑ کی ناراضگی کو لوگوں کے سامنے واضح کردیا اور یہ خود ایک بڑی بات اور اہم واقعہ تھاحکومت کے خلاف یہ کھلااقدام انتہائی مؤثررہا اور اس لحاظ سے امام ؑ کا یہ اقدام کامیاب رہااہلِ کوفہ جو امام حسین ؑ اور امیر المومنین ؑ کے شیعہ تھے، جب اُنہیں پتا چلا کہ امام حسین ؑ حکومت کے خلاف اعتراض کے طورپر مکہ تشریف لے آئے ہیں، تواُن کی طرف سے امام ؑ کے نام خطوط کاتانتا بندھ گیا (اِن خطوط کی تعداد چالیس ہزار اور اس سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے)اِن خطوط میں امام ؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی اور آپ ؑ کی نصرت اور حمایت کا وعدہ کیا گیا تھا۔
دوسری طرف امام حسین ؑ کی مکہ آمد کی وجہ سے جو صورتحال رونما ہورہی تھی، یزید کی حکومت نے اسے ایک سنجیدہ خطرہ محسوس کیااسی بنا پر ا س نے فیصلہ کیا کہ امام ؑ کو ہرقیمت پر مکہ ہی میں قتل کردیا جائےمکہ جو حرمِ امنِ الٰہی ہے، وہاں امام حسین ؑ کے قتل ہونے کے نتیجے میں پوری سلطنتِ اسلامیہ میں موجود تمام مسلمانوں پر حکومت کارعب اور خوف ووحشت طاری ہوجائے گاجب امام ؑ کو حکومت کے اس ارادے کی خبر موصول ہوئی، توامام حسین ؑ نے محسوس کرلیا کہ بہرصورت مکہ چھوڑ دینا ہی ان کا فریضہ ہےاس کے لیے آپ ؑ کے پاس دو وجوہات تھیںایک یہ کہ قتل نہ ہوں اور حرمِ الٰہی کا احترام محفوظ رہےدوسرے یہ کہ اہلِ کوفہ کی جانب سے امام حسین ؑ کو بکثرت خطوط موصول ہوئے تھے، جن میں آپ ؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی اور حمایت کا وعدہ کیا گیا تھا، لہٰذاآپ ؑ کے لیے مناسب بات یہی تھی کہ آپ ؑ اُن کی یہ دعوت قبول کرلیں۔
جس زمانے میں امام ؑ مکہ میں تھے، تو ابن عباس آپ ؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور کہا: اے فرزندِ رسول ؑ ! آپ ؑ مکہ سے کیوں جانا چاہتے ہیں؟ مکہ ہی میں رہیے، یہاں آپ ؑ زیادہ اور بہتر طور پر امن میں ہیںلوگ آپ ؑ کے اردگرد ہیں اورآپ ؑ کی جان محفوظ رہے گیمکہ سے باہر نکلنا آپ ؑ کے لیے خطرناک ہےحضرت ؑ نے اُنہیں جواب دیا:
لَاِنْ اُقْتَلَ وَاللّٰہِ بِمَکٰانٍ کَذٰااَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اُستُحِلَّ بِمَکَّۃَ وَھٰذِہِ کُتُبُ اَہْلِ الْکُوفَۃِ وَرُسُلُھُمْ وَقَدْوَجَبَ عَلَیَّ اِجٰابَتُھُمُ وَقٰامَ لَہُمْ الْعُذْرُعَلَیّ عِنْدَاللّٰہِ سُبْحٰانَہُ(۳)
پہلی بات تو یہ کہ: ” حرمِ امنِ الٰہی مکہ میں میرا خون بہانا مباح ہوجائے }یہ مجھے روا نہیں{ اِس سے زیادہ مجھے کسی اور جگہ قتل ہونا پسند ہے“ ۔
یعنی مجھے قتل کرنے کے بعد حکومت کہے کہ ہمارا سامنا ایک ایسے شخص سے تھا جس کی وجہ سے مکہ کا امن وامان اور احترام خطرے میں تھا، لہٰذا ہم اسے مکہ ہی میں قتل کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور اس طرح مکہ میں میرا خون بہانا جائز قرار دے دیا جائے۔
مکہ میں کسی کا خون بہانا جائز ہوجانا ایک بہت اہم مسئلہ ہےاور یہ خود امام حسین ؑ کے خلاف بدترین پروپیگنڈا شمار ہوتا۔
اس کے بعد فرمایا:
یہ اہلِ کوفہ کے خطوط اور اُن کے نمائندے ہیں، اور مجھ پر واجب ہے کہ اُن کا جواب دوں تاکہ اُن پر خدا کی حجت تمام ہوجائے۔
یہاں ایک مرتبہ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ امام ؑ کہتے ہیں کہ مجھ پر دعوت قبول کرنا واجب ہےیعنی میرا فرض ہے کہ ان کی دعوت قبول کروں اور مکہ سے نکلوںیہ وہی بات ہے، یعنی فریضے کی انجام دہی کے لیے تحریک۔
پھر جب ابن زبیر نے امام ؑ کو یہ تجویز پیش کی کہ :أَقِمْ فی ھٰذَاالْمَسْجِدِ أَجْمَعُ لَکَ النّٰاسَ۔ (آپ یہاں حرم ہی میں ٹھہریے میں آپ کے لیے لوگوں کو جمع کرتا ہوں) تو امام ؑ نے فرمایا:
وَاللّٰہِ لِأَنْ اُقْتَلَ خٰارِجاً مِنھٰا بِشِبْرٍأَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ أَنْ اُقْتَلَ دٰاخِلاً مِنْھٰا بِشِبْرٍ۔
خدا کی قسم حرم سے ایک بالشت باہر قتل ہونا، مجھے حرم کے اندر مارے جانے سے زیادہ پسندہے۔ (۴)
یہاں ایک مسئلہ تو حرم کی حرمت کے پامال ہوجانے کا ہے اور دوسرا یہ کہ دشمن اِس قتل سے پروپیگنڈے کے میدان میں فائدہ اٹھائے گاپھر جب امام ؑ نے مکہ سے عراق کی سمت سفر کاآغاز کرنا چاہا، تو ابن زبیر سے فرمایا:
وَاللّٰہِ لَقَدْ حَدَّثْتُ نَفْسی بِاِ تْیٰانِ الْکُوفَۃِ وَلَقَدْکَتَبَ اِلَیَّ شیٖعَتی بِھٰا وَأَشْرٰافُ أَھْلِھٰا وَاَسْتَخیٖرُ اللّٰہَ۔
میں نے سوچا ہے کہ کوفہ چلا جاؤں۔ کوفہ سے میرے شیعوں اور وہاں کے معززین نے مجھے خطوط لکھے ہیں اور میں اپنے لیے خداسے خیر کا طلبگار ہوں۔ (۵)
ایک دوسری عبارت ہے:
أَ تَتْنیٖ بَیْعَۃُ أَرْبَعیٖنَ أَلْفاً یَحْلِفُونَ لی بِالطَّلاٰقِ وَالْعِتٰاقِ مِنْ اَہْلِ الْکُوفَۃِ۔
مجھے پتا چلا ہے کہ چالیس ہزار اہلِ کوفہ نے میری بیعت کی ہے۔ (۶)
اِس مرحلے میں بھی فریضے کی ادائیگی کا مسئلہ واضح ہےامام حسین ؑ نے اپنی تحریک کے مختلف مراحل میں گاہ بگاہ اپنا اصل مقصد بیان کیا ہے، جو سیرتِ پیغمبر ؐکا احیا اور بدعتوں کا خاتمہ ہےجب درمیانِ راہ میں عبداللہ ابن مطیع نے امام ؑ سے ملاقات کی اور کہاکہ آپ کیوں حرمِ خدا اور اپنے نانا کے حرم سے نکلے ہیں؟ تو امام ؑ نے جواب دیا:
اِنَّ اَہْلَ الْکُوفَۃِ کَتَبُوا اِلَیَّ یَسْأَلُونَنیٖ اَنْ اَقْدِمَ عَلَیْھِمْ لِمٰارَجُوا مِنْ اِحْیٰاءِ مَعْالِمِ الْحَقِّ وَاِمٰا تَۃِ الْبِدَعِ۔
اہلِ کوفہ نے مجھے خطوط لکھے ہیں ! اورمجھ سے چاہا ہے کہ میں اُن کی طرف آؤں، کیونکہ اُنہیں امید ہے کہ اس طرح سے حق کا احیا ہوگا اور بدعت نابود ہوگی۔ (۷)
کیونکہ مسئلہ فریضے کی ادائیگی کا ہے، اس لیے حضرت ؑ اپنے قتل کے امکان کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اپنی ذمے داری کی ادائیگی کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔
جب حر کے لشکر سے امام ؑ کا سامنا ہوا، تو نماز کے وقت آپ ؑ نے اپنے اصحاب کے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرمایااس وقت آپ ؑ کوفہ کے قریب تھے، حالات پلٹا کھاچکے تھے اور صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھیہم دیکھتے ہیں کہ اس حال میں بھی اپنے ہدف اور مقصد کا حصول امام ؑ کے پیش نظر ہےآپ ؑ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں:
۔ ۔ اِنَّہُ قَدْ نَزَلَ مِنَ الْأَمْرِمٰاقَدْ تَرَوْنَ وَاِنَّ الدُّنْیٰا قَدْ تَغَیَّرَتْ وَ تَنَکَّرَتْ وَأَدْبَرَمَعْرُوفُھٰا وَاسْتَمْرَّتْ جِدّاًوَ لَمْ یَبْقَ مِنْھٰا اِلاّٰ صُبٰابَۃٌ کَصُبٰابَۃِ الْاِنٰاءِ وَخَسیْسِ عَیْشٍ کَالْمَرْعَی الْوَبیٖلِ، أَلاٰ تَرَوْنَ أَنَّ الْحَقَّ لاٰ یُعْمَلُ بِہِ وَانَّ الْبٰاطِلَ لاٰ یُتَنٰاھیٰ عَنْہُلِیَرْغَبَ الْمؤْمِنُ فی لِقٰاءِ اللّٰہِ مُحِقّاً، فَاِنّی لاٰأَرَی الْمَوْتَ اِلاّٰ سَعادَۃً وَالْحَیٰاۃَ مَعَ الظّّٰالِمیٖنَ اِلاّٰ بَرَماً۔
ہمارے معاملے نے کیا صورت اختیار کرلی ہے اُسے آپ دیکھ رہے ہیںدرحقیقت حالاتِ زمانہ دگرگوں ہوگئے ہیں، برائیاں ظاہر ہوگئی ہیں اور نیکیوں اور فضیلتوں نے اپنا رُخ موڑ لیا ہےاچھا ئیوں میں سے صرف اتنا رہ گیا ہے جتنا برتن کی تہہ میں رہ جانے والا پانی اب زندگی ایسی ہی ذلت آمیز اور پست ہوگئی ہے جیسے کوئی سنگلاخ اور بنجرمیدان۔ کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے پرہیز نہیں کیا جارہا؟ ایسے حالات میں مومن کے لیے بہترہے کہ وہ اپنے پروردگارسے ملاقات کی تمنا کرےسچ ہے کہ میں ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو سوائے رنج و ذلت کے کچھ اور نہیں سمجھتا اور ایسے حالات میں موت ہی کو سعادت سمجھتا ہوں۔ (۸)
یہاں بھی فریضے کی ادائیگی ہی پیش نظر ہے، لیکن ذرابلندی پرنظرآتی ہےاس سے پہلے تک شہادت اور مارے جانے کی بات نہ تھی لیکن اب ان حالات میں اِس بات کا امکان بہت زیادہ ہےایسا نہیں ہے کہ اِس مرحلے میں امام ؑ بس حصولِ شہادت کے لیے آگے بڑھ رہے ہیںنہیں، حضرت ؑ حق کے دفاع اور باطل کی نابودی کے لیے کوشاں ہیں، خواہ اِس راہ میں قتل ہی کیوں نہ ہوجائیںیہاں عبارت بدلتی ہے، کہتے ہیں:
میں ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو رنج وذلت کے سوا کچھ اور نہیں سمجھتا اور ایسے حالات میں موت ہی کو سعادت سمجھتا ہوں۔
یہاں پھرمقصد اور ہدف واضح و روشن ہےوہی اوّلین مقصد اب بھی سامنے ہےلیکن اب اِس نے زیادہ قوت اور شدّت حاصل کرلی ہےکیونکہ اب مقصد کی راہ میں جانثاری کا تذکرہ بھی ہے۔
اِن تمام کلمات کو سامنے رکھیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ فریضے کی انجام دہی، یعنی حکومت کے خلاف جدوجہد کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں میں سنتِ پیغمبرؐ کا احیا اور بدعتوں کا خاتمہ امام حسین ؑ کا مقصد تھا امام ؑ قدم بقدم اپنے فریضے کی انجام دہی کی جانب بڑھے اور ہر موقع پر اِس کی مناسبت سے ردِعمل کا اظہار کیا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ کااقدام حصولِ حکومت کے لیے تھا ان کی یہ بات ہمارے بیان کردہ اس مقصد اورہدف سے ٹکراؤ نہیں رکھتی اور یہی بات ہے فریضے کی انجام دہی کے لیے حکومت کے خلاف جہاد لازم تھاامربالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا ضروری تھایہی فریضے اور ذمے داری کی انجام دہی ہے، اس کے سوا کوئی اور چیز نہیں جسے ایک دوسرے سے متصادم کہا جاسکے۔
۱موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ۔ ص۲۸۷
۲موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۰۲
۳موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص۳۲
۴موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ۔ ص ۳۲۴
۵موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۴
۶موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۳
۷موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۴۱
۸موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۵۵