معنوی آزادی

روح کی بزرگی اور بزرگواری

معنوی آزادی   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الحمد للّٰہ ربّ العالمین بارئ الخلا ئق اجمعین و الصلاۃ والسَّلام علی عبداللّٰہ و رسولہ و حبیبہ و صفیّہ، سیّدنا ونبیّناو مولانا ابی القاسم محمد(صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم)و علی آلہ الطّیّبین الطّاہرین المعصومین۔
اعوذ باللّٰہ من الشّیطان الرّجیم (۱)

یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَءِنَّۃُارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ۝

اے نفسِ مطمئن اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس عالم میں کہ تو اس سے راضی ہے اوروہ تجھ سے راضی ہے ۔پھر میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا (سورۂ فجر۸۹۔ آیت ۲۷تا۳۰)

امام حسین علیہ السلام کی ولادت کی مناسبت سے جو محفل یہاں منعقد ہوئی تھی، اُس میں ہم نے ایک گفتگو اس بارے میں کی تھی کہ اگر کوئی شخص روح کی بزرگواری کا مالک ہوجائے، تو لازماًاُس کا بدن تکلیف و زحمت میں مبتلا ہوجاتاہے۔صرف وہ بدن مکمل آرام وآسائش اوربسااوقات لمبی عمر، انتہائی میٹھی نیند، انتہائی لذیذ کھانوں اور اسی قسم کی چیزوں سے استفادہ کرنے والے ہوسکتے ہیں جو بہت پست اور حقیر روح کے مالک ہوں۔ لیکن وہ افراد جن کی روح باعظمت ہوتی ہے، اُن کی یہی روحانی عظمت اُن کے بدن کی تکلیف اوربعض اوقات اُن کی عمر کی کمی کا سبب بنتی ہے، اُن کی جسمانی بیماریوں کا سبب ہوجاتی ہے۔ اس بارے میں ہم نے کچھ گفتگو کی تھی، خاص طور پر ”متنبّی“ کا شعر پڑھا تھا، جس میں وہ کہتا ہے کہ:

اِذَا کَانَتِ النُّفُوْسُ کِبَاراً
تَعِبَتْ فِیْ مُرَادِھَا الْاَجْسَامُ(۲)

آج کی رات ہم روح کی بزرگی اور بزرگواری کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اس فرق کی نشاندہی کرنا چاہتے ہیں کہ روح کی بزرگی ایک چیز ہے اور روح کی بزرگواری اس سے بلند ترحقیقت۔ یعنی روح کی ہر بزرگی بزرگواری نہیں ہے۔ ہر بزرگواری، بزرگی ہے لیکن ہر بزرگی، بزرگواری نہیں ہوتی۔ اب اس بات کی وضاحت کی طرف آتے ہیں:

یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بلندعزم وارادہ روح کی بزرگی کی علامت ہے اور پست عزم وارادہ روح کی پستی کی نشانی۔ اور یہ بات ہر اُس راستے پر صادق آتی ہے جسے انسان اختیار کرتا ہے۔

ہمت بلند دار کہ مردانِ روزگار
از ہمتِ بلند بہ جائی رسیدہ اند(۳)

ایک اور کہتا ہے:

بلبل بہ باغ و جغد بہ ویرانہ تاختہ است
ہر کس بقدرِ ہمتِ خود خانہ ساختہ است(۴)

علم و دانش کی راہ میں بلند عزم وارادہ

مثلاً علم کی راہ میں ہمتوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ ایک شخص انٹر میڈیٹ تک تعلیم پر اکتفا کر بیٹھتا ہے۔ وہ بس ایک انٹرمیڈیٹ انسان کی حد تک علم حاصل کرنا چاہتا ہے، تاکہ جاہل نہ رہ جائے۔ لیکن دوسرے کو آپ دیکھتے ہیں کہ وہ علم کی کسی حد پر اکتفا نہیں کرتا۔ اس کی تمنا ہوتی ہے کہ اپنی عمر سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے اور اپنی عمر کے آخری لمحے میں بھی علمی مسائل کے حصول اوراُن کے انکشاف میں کوتاہی نہ کرے۔آپ نے ابو ریحان البیرونی کا مشہور واقعہ سنا ہوگا، اِن کے بارے میں محققین نے یہ اعتراف کیا ہے کہ آج بھی اُن کی قدر و قیمت پوری طرح سامنے نہیں آسکی ہے ۔ یہ فلسفی، ریاضی دان، معاشرہ شناس اور مورخ غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے۔ بعض لوگ انہیں بوعلی سینا پر فوقیت دیتے ہیں۔ البتہ اگر بعض پہلوؤں کو مدِ نظر رکھیں تو یقینی طور پرابو ریحان البیرونی کو بو علی سینا پر ترجیح حاصل ہے، اسی طرح جیسے بعض دوسرے پہلوؤں میں بو علی کو ابو ریحان پر فوقیت حاصل ہے ۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے ہم عصر بھی ہیں۔

ابو ریحان علم ودانش، تحقیق اور نئے نئے انکشافات کے دلدادہ تھے۔ سلطان محمود نے اُنہیں زبردستی اپنے پاس بلالیا تھا۔ وہ چلے گئے تھے لیکن ہر باہمت شخص کی طرح ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ سلطان محمود نے ہندوستان کو فتح کیا تو وہ اِس کے ساتھ ہندوستان چلے گئے۔وہاں انہوں نے دیکھا کہ یہاں تومعلومات اور علوم کا ایک خزانہ موجودہے لیکن وہ سنسکرت زبان سے ناآشنا تھے۔ وہ اپنے بڑھاپے کے باوجوداعلیٰ درجے پر اس زبان کوسیکھتے ہیں۔ وہاں سالہا سال مطالعے کے بعد ایک کتاب لکھتے ہیں جس کا نام ”تحقیق ما للہند من مقولۃ مرذولۃ فی العقل او مقبولۃ“ ہے۔ آج یہ کتاب ہند شناسی کی انتہائی اہم بنیادی کتاب شمار کی جاتی ہے۔

جس زمانے میں ابوریحان البیرونی مرض الموت میں گرفتار اور حالتِ احتضار میں تھے، ان کے ہمسائے میں رہنے والے ایک فقیہ کو معلوم ہوا کہ البیرونی اس حالت میں ہیں۔وہ ان کی عیادت کے لئے آئے۔ وہ ہوش میں تھے۔ جوں ہی ان کی نظر فقیہ پر پڑی انہوں نے ان سے وراثت یا کسی اور موضوع پر ایک فقہی مسئلہ دریافت کیا(۵) فقیہ نے تعجب کیا اور اعتراض کرتے ہوئے ان سے کہا کہ آپ اس وقت جبکہ آخری سانسیں لے رہے ہیں، مجھ سے مسئلہ پوچھتے ہیں؟ ابوریحان نے جواب دیا: میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں:اگر میں مر جاؤں (یہ نہیں کہا کہ میں جانتا ہوں کہ میں عنقریب مر جاؤں گا) اورجان لوں تو یہ بہتر ہے یا مرجاؤں اورنہ جانتا ہوں یہ بہتر ہے؟ اس نے کہا: ہاں، جان کر مرنا (بہتر ہے)۔ ابو ریحان نے کہا: اسی لئے تو پوچھ رہا ہوں۔ فقیہ کاکہنا ہے کہ میرے اپنے گھر پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعدصدا بلند ہوئی کہ ابوریحان کا انتقال ہوگیاہے! مجھے اُن کے اہل وعیال کے رونے کی آوازسنائی دی۔

اسے کہتے ہیں ایک بزرگ آدمی جو علم ودانش کے حصول کے سلسلے میں ایک بلندعزم وارادے کے مالک تھے۔

مال ودولت جمع کرنے کے سلسلے میں بلند عزم وارادہ

دوسرا مثلاً مال ودولت جمع کرنے کے سلسلے میں بلندعزم وارادے کا مالک ہوتا ہے۔
کیا مال ودولت جمع کرنے کے سلسلے میں لوگوں کا عزم وارادہ ایک سا ہوتا ہے؟
بعض لوگوں میں مال ودولت جمع کرنے کی معمولی سی آرزو بھی نہیں ہوتی۔ اُن کی تمنا صرف اتنی ہوتی ہے کہ اُن کا پیٹ بھر جائے۔ انہیں روٹی مل جائے، چاہے اس کے لئے کسی کی نوکری ہی کرنا پڑے، چاہے بھیک مانگ کر حاصل ہو، چاہے ذلت اٹھا کر ملے۔ لیکن دوسرا چاہتا ہے کہ اس کے پاس مال و دولت ہو، چاہتا ہے کہ اپنے گرد دولت کے انبار لگالے۔

اب کیا دولت جمع کرنے کے خواہشمند لوگ باہم مساوی ہیں؟ ہرگز نہیں۔
بعض لوگوں میں دولت جمع کرنے کی خواہش اس قدر شدید ہوتی ہے کہ وہ کم(مال و دولت)پر مطمئن نہیں ہوتے۔ یہ نکتہ بھی عرض کرتے چلیں کہ بسا اوقات بعض بے ہمت لوگ صرف اس لئے کہ اُن میں صلاحیت ہی نہیں ہوتی، اس لئے کہ اُن میں دَم ہی نہیں ہوتا، اس لئے کہ اُن میں مردانگی ہی نہیں ہوتی، جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتے ہیں جومال و دولت جمع کرنے کی تگ ودومیں لگا ہوا ہے، تو اُس کی تحقیر کرتے ہیں، اُس پر ہنستے ہیں، (اس کے لئے) زہد سے متعلق آیاتِ قرآنی پڑھتے ہیں، زہد اور تقویٰ کی باتیں کرنے لگتے ہیں (ایسے لوگ) مغالطہ کرنا چاہتے ہیں۔

نہیں جناب! جو شخص مال ودولت کے حصول میں لگا ہوا ہے، وہ چاہے لالچ اور دنیا پرستی کی وجہ سے اس عمل میں مصروف ہو، وہ تم سے جو پست ہمت، بے ہمت اور بھکاری صفت ہو، بہتر ہے، وہ تم سے زیادہ عزت وآبرو کا حامل انسان ہے ۔

ایسا شخص اپنے سے زیادہ ہمت رکھنے والے شخص کے مقابل مذموم ہے۔ ایک حقیقی زاہد شخص جو باہمت ہوتا ہے، وہ اُس کی مذمت کرسکتا ہے، جیسے علی، جو مردِ عمل ہیں، جو مال و دولت پیدا کرنے والے ہیں، لیکن (اس کے) لالچی اور اس پر حریص نہیں ہیں، اسے اپنے لئے بچا کر نہیں رکھتے ہیں، اپنے آپ کو روپے پیسے سے وابستہ نہیں کرلیتے۔ وہ روپیہ پیسا کماتے ہیں، لیکن کس لئے؟ خرچ کرنے کے لئے، (دوسروں کی) مدد کرنے کے لئے۔ ایسے شخص کو حق حاصل ہے کہ اُس (شخص) کی مذمت کرے اور کہے کہ: اے لالچی ! اے حریص! اے وہ جس میں ہمت ہے، عزم ہے، ارادہ ہے، تیرے اندرولولہ پایا جاتا ہے، تیرے اندر طاقت پائی جاتی ہے! کیوں تو اپنی طاقت کو مال ودولت جمع کرنے میں خرچ کرتا ہے ؟ کیوں تیرے لئے مال و دولت مقصد بن گیا ہے؟ مال ودولت کو تیرے لئے وسیلہ ہوناچاہئے۔

لیکن میں ٗبے ہمت، پست نگاہ جو اس مال و دولت کو ذلت او ربھیک مانگ کر دوسرے کے ہاتھ سے لے لیتا ہوں (ایسے شخص کا ہاتھ چومتا ہوں، اُس کے قدموں کے بوسے لیتا ہوں جو اپنی دولت کاایک ہزارواں یا دس لاکھواں حصہ مجھے دیتا ہے) مجھے اس شخص پر تنقید کا حق نہیں۔

حصولِ جاہ و مقام کے لئے بلند عزم وارادہ

ایک اور شخص، جاہ طلبی، بڑائی اورعہدے و منصب کا متمنی ہوتا ہے۔
کیا لوگ اس اعتبار سے یکساں ہوتے ہیں؟
نہیں!

اس بارے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا کہ سکندر ایک بلند ہمت انسان تھا ۔ وہ ایک ایسا انسان تھا جس کے ذہن میں یہ سودا سما گیا تھا کہ وہ پوری دنیاپر اپنا اقتدار قائم کرے گا۔

سکندر ایک ایسے نوکر صفت انسان سے کہیں بلند ہے جس میں سرے سے سرداری اورآقائی کی حس ہی نہیں پائی جاتی، اس میں برتری چاہنے کا احساس موجود نہیں ہوتا، اس میں اسکی امنگ ہی نہیں ہوتی۔ نادرشاہ اور اس جیسے لوگ بھی ایسے ہی ہیں۔ انہیں بزرگ روحیں تو کہہ سکتے ہیں لیکن بزرگوار روحیں نہیں کہا جاسکتا۔ سکندر ایک بہت بڑا جاہ طلب انسان تھا، ایک بزرگ روح تھا، لیکن (اس) بزرگ روح نے اس میں کس چیز کو پروان چڑھایا ہے؟ وہ شاخ جواس روح میں پروان چڑھی ہے، وہ کیا ہے؟

جب ہم اس کے وجود میں جھانکتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ یہ روح تو بزرگ ہوگئی ہے، لیکن وہ شاخ جو اس کے اندر بڑھی ہے، وہ جاہ طلبی ہے، شہرت ہے، اثرورسوخ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی قوت بن جائے، وہ چاہتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا فاتح بن جائے، وہ چاہتا ہے کہ دنیا کا غالب ترین انسان بن جائے۔ یہ روح بزرگ ہے لیکن جاہ طلبی کے اعتبارسے۔

اس کا بدن بھی سکون وراحت نہیں پاتا۔ کیاسکندر کے بدن کو دنیا میں آرام نصیب ہوا؟ کیاسکندر یہ کرسکا کہ وہ سکندر بھی بن جائے اور اس کا بدن بھی سکھ اور آرام سے رہے؟ کیا نادرشاہ، وہی ظالم نادرشاہ، وہی نادرشاہ جو کھوپڑیوں کے مینار بناتا تھا، وہی نادرشاہ جو (لوگوں کی) آنکھیں نکال دیا کرتا تھا، وہی نادرشاہ جو ایک بہت بڑا جاہ پرست دیوانہ تھا، کیا وہ نادر بننے کے باوجود اپنے بدن کو آسائش فراہم کر سکا تھا؟ کبھی کبھی تو دس دس دن تک اس کاجوتا اُسکے پیروں سے نہیں اترتا تھا، دراصل اُسے جوتا اتارنے کی فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔

کہتے ہیں ایک مرتبہ نادرشاہ اسی ”زیدر گھاٹی“ میں ایک کارواں سرا کے سامنے سے گزررہاتھا۔ سخت سردی کا زمانہ تھا۔ سرائے کا مالک کہتا ہے کہ آدھی رات کا وقت تھا، کسی نے سرائے کے دروازے پر زور سے دستک دی۔ جوں ہی میں نے دروازہ کھولا، ایک قوی ہیکل آدمی، ایک بہت بڑے طاقتور گھوڑے پر سواراندر آگیا، آتے ہی پوچھنے لگا : کھانے میں کیا ہے؟ میرے پاس انڈوں کے سوا کچھ اورنہیں تھا۔ اس نے کہا: بہت سے انڈے تیار کرو۔ میں نے اُس کے لئے (انڈے) تیار کئے، پکائے۔ اس نے کہا: روٹی لے آؤ، میرے گھوڑے کے لئے بھی جو لے آؤ۔ میں نے یہ ساری چیزیں اُسے فراہم کیں۔ اس کے بعد اس نے اپنے گھوڑے کی مالش کی، اسکے ہاتھ پاؤں اور بدن پر ہاتھ پھیرا۔ وہ وہاں دو گھنٹے رہا، معمولی سی نیند بھی لی۔ جب جانے لگا تو جیب میں ہاتھ ڈال کر مٹھی بھر اشرفیاں نکالیں اور کہا: اپنا دامن پھیلاؤ۔ میں نے اپنا دامن پھیلایا، تو اس نے وہ اشرفیاں میرے دامن میں ڈال دیں۔ پھر کہنے لگا کہ ابھی کچھ ہی دیر بعد ایک لشکر یہاں پہنچے گا۔ جب وہ آئے تو اُس سے کہنا کہ نادر نے کہا ہے کہ میں فلاں جگہ چلا گیا ہوں، فوراً میرے پیچھے چلے آئیں۔ (کارواں سرا کا مالک) کہتا ہے کہ: جوں ہی میں نے سنا ”نادر“ میرا ہاتھ لرز گیا اور دامن میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اُس نے کہا: تم جاکرچھت پر کھڑے ہوجانا، جوں ہی وہ پہنچیں، اُن سے کہنا کہ بلاتوقف میرے پیچھے چلے آئیں (خودوہ رات میں اپنی فوج سے دو گھنٹے قبل حرکت کیا کرتا تھا) نادر شاہ کی فوج پہنچی تو میں نے اوپر سے چیخ کر کہا کہ: نادر شاہ نے حکم دیا ہے کہ پڑاؤفلاں جگہ پرڈالا جائے گا۔ وہ بڑبڑائے لیکن کسی ایک میں بھی اتنی جرأت نہیں تھی کہ نہ جاتا، سب چلے گئے۔

اگر انسان نادرشاہ بنناچاہتا ہے تو وہ اپنی خوابگاہ میں نرم بستر پر نہیں سو سکتا ہے، بہترین غذائیں نہیں کھا سکتا۔ سرداری کا متمنی، جاہ پرست، ریاست طلب ایک انسان اگرچہ ایک بڑا ظالم ہی کیوں نہ ہو، اُس کے بدن کوآسائش میسر نہیں آسکتی، آخرکار مارابھی جاسکتا ہے۔

کوئی بھی انسان، کسی بھی شعبے میں بلند عزائم کا مالک ہو، روح کی بزرگی کا حامل ہو، اُسے تن آسانی میسر نہیں ہوتی۔لیکن جن افراد کے متعلق ہم نے عرض کیا، اُن میں سے کوئی ایک بھی روح کی بزرگواری کا حامل نہ تھا۔ان کی روح بزرگ تھی، لیکن بزرگوار نہیں تھی۔

بزرگی اور بزرگواری کے درمیان کیا فرق ہے؟

فرض کیجئے ایک شخص ایک بڑا عالم ہو اور علم کے سوا کوئی اور فضیلت نہ رکھتا ہو۔ یعنی ایسا انسان ہو جو صرف ایک نیا انکشاف، ایک نئی تحقیق کرنا چاہتاہو۔ ایسا انسان ایک بڑا مفکر اورمدّبر ہے۔ یعنی علم کی راہ میں بلند عزم وارادے کا حامل انسان ہے۔ (جبکہ) وہ دوسراشخص ایک بڑا افزوں طلب انسان ہے، جو ہمیشہ حصولِ دولت کی فکر میں رہتا ہے۔اُس نے مال ودولت کو اپنا مقصد قرار دیا ہوا ہے، انتہائی شہوت پرست ہے، انتہائی حریص ہے۔ایک اور ہے جس میں انتہا درجے کی رقابت پائی جاتی ہے۔ایک اور ہے جو انتہائی کینہ پرور ہے۔ایک اور ہے جو انتہاہ درجے کاحاسد ہے۔ایک اور میں انتہائی جاہ طلبی پائی جاتی ہے۔یہ تمام کی تمام بڑی خودپرستیاں ہیں۔ان میں سے کسی کو بھی بزرگواری نہیں کہا جاسکتا۔یہ بزرگی ہیں لیکن بزرگواری نہیں۔

بزرگواری

ایک مسئلہ جو نفسیاتی اور فلسفی اعتبار سے انتہائی قابلِ توجہ ہے، وہ یہ ہے کہ انسان اپنے ضمیر اور اپنی روح میں اور قرآن کی تعبیرکے مطابق اپنی فطرت میں پائی جانے والی اس قسم کی بزرگیوں کے علاوہ، جوبڑی بڑی خود پرستیوں سے جاملتی ہیں، اپنے وجود میں ایک اورطرح کی بزرگی کا احساس بھی رکھتا ہے، جس کا تعلق ان اقسام سے نہیں ہے۔ انہیں انسانیتِ بزرگ کہنا چاہئے۔

میں اب تک سمجھ نہیں سکا ہوں کہ یہ مادّہ پرست اصحاب، میٹریلسٹ لوگ کس طرح اس کی توجیہ کرسکتے ہیں؟
آخر یہ انسان، یا کم از کم بعض انسانوں میں پایا جانے والا کیسا احساس ہے۔البتہ یہ احساس تمام افرادِ بشر میں پایا جاتا ہے لیکن بعض میں اس احساس کی شمع بجھی ہوئی ہے، یا اسکی لوانتہائی مدہم ہے اور بعض میں مکمل طور پرفروزاں بھی ہے۔ (اس احساس کی بنا پر) انسان اپنی روح میں ایک عزت وسربلندی کااحساس رکھتا ہے، یعنی عزت وسربلندی کی صورت میں ایک بزرگی سی محسوس کرتا ہے؟

ایسا انسان ایک بڑاانسان ہے نہ کہ ایک بڑا خودپرست، خود پرستی سے بالاتر ہے۔ یہ انسان ایک احساسِ عزت کی وجہ سے خودپرستی کو قدموں تلے روند ڈالتا ہے۔
کیسے؟

یہ انسان بڑاآدمی بنناچاہتا ہے۔ لیکن اس فکر میں نہیں ہوتا کہ فلاں آدمی سے بڑا بن جاؤں۔ فلاں آدمی کے پاس اتنی دولت ہے، میرے پاس اس سے زیادہ ہونی چاہئے۔ فلاں آدمی کوصرف میرے حکم کا اطاعت گزارہونا چاہئے، میں حکم دوں اور وہ اطاعت کرے۔ مجھے حاکم ہونا چاہئے اور اسے محکوم۔ (بلکہ وہ) برائیوں کے مقابل اپنے نفس اور اپنی روح کے لئے عزت وبزرگی کا احساس رکھتا ہے۔مثلاً ایک ایسا انسان جسے اس کی روح ہی جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دیتی، وہ بنیادی طور پر جھوٹ کو پستی اورکمینگی سمجھتا ہے، وہ اپنی روح میں احساسِ عزت وسربلندی رکھتا ہے۔اس کایہ احساس پستی اور حقارت کے مقابل بزرگی ہے۔یہ بزرگی جسے بزرگواری کہتے ہیں پستی اور حقارت کے مقابل ہے۔ انسان اپنی روح میں بزرگواری کا احساس رکھتا ہے۔ یعنی اپنے اندر ایک ایسی عظمت محسوس کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ پستی میں پڑنے سے اجتناب کرتا ہے۔ (جبکہ) اُس جاہ پرست انسان کی نظر میں جاہ پرستی کواس قدراہمیت حاصل ہوتی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اگر زندگی ہے تو یہ ہے کہ انسان شیر کی طرح زندگی بسر کرے نہ کہ بھیڑ کی طرح۔ یعنی دوسرے کو پھاڑ کھائے نہ کہ دوسرا اس کو چیر ڈالے۔

مسولینی (اٹلی کے مشہورآمر ) نے اپنے ایک دوست سے کہا تھا: میں سو سال بھیڑ کی طرح زندگی گزارنے پر ایک سال شیر کی طرح زندگی گزارنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ ایک سال شیر بنوں، دوسروں کو پھاڑ کھاؤں اورانہیں اپنا لقمہ بناؤں، اس سے بہتر ہے کہ سو سال تک بھیڑ رہوں اور کسی شیر کا لقمہ بننے کے لئے تیار رہوں۔ اُس نے یہ کہا اور باقاعدگی سے ایک رقم اپنے اس دوست کو دیا کرتا تھا اور کہاکرتا تھا کہ جب تک میں زندہ ہوں میرے اس قول کا کسی سے تذکرہ نہ کرنا۔ کیوں؟ اس لئے کہ میں اس وقت شیر بن سکتا ہوں جب لوگ بھیڑ بن جائیں، لیکن اگر لوگوں کو یہ جملہ پتا چل گیا، تو وہ بھی مسولینی کی طرح بنناچاہیں گے، میری طرح شیر بنناچاہیں گے۔ایسی صورت میں، میں شیر نہیں رہ سکوں گا۔انہیں بھیڑ رہنا چاہئے تاکہ میں شیر رہوں۔اس شخص میں بزرگی تھی لیکن بزرگواری نہیں۔

بزرگوار کیسا ہوتا ہے؟

بزرگوار چاہتا ہے کہ سب لوگ شیر بن جائیں۔ یعنی کوئی بھیڑ نہ رہے کہ دوسرا اسے چٹ کر جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں سرے سے درندگی باقی ہی نہ رہے۔ یہ ہے احساسِ بزرگواری، احساسِ انسانیت اور قرآن کی تعبیر میں احساسِ عزت، احساسِ کرامتِ نفس۔اسلامی منابع میں ”کرامت“ کا لفظ بہت استعمال ہوا ہے او ر بزرگواری ہی کا مفہوم دیتا ہے۔

کلامِ پیغمبر

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک جملہ ہے کہ آپ نے فرمایا: اِنِّی بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ (۶) میں نے بارہا کہا ہے کہ بسااوقات اس جملے کا غلط ترجمہ کیاجاتاہے۔ کہتے ہیں کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہوں۔ نہیں! یہ (اس جملے کا) مکمل ترجمہ نہیں ہے، پیغمبر نے اس سے بڑھ کر فرمایا ہے۔ اگر پیغمبر نے یہ کہا ہوتا کہ میں اچھے اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہوں، تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر مکتب کا بانی، وہ جس قسم کا بھی اخلاق لایا ہو، اُس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اچھا اخلاق وہی ہے جو میں کہتا ہوں۔ وہ مکتب جو پستی اور دنائت کا حکم دیتا ہے، وہ بھی یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اچھا اخلاق یہی ہے۔ کوئی اور مثلاً ”نطشے“جس کا کہنا ہے کہ انسان کو طاقت پربھروسہ کرنا چاہئے، کمزوری سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ہے، کمزور پر رحم نہ کرو اور نہ اس کی مدد کرو۔ وہ بھی یہی کہتا ہے کہ اچھا اخلاق یہی ہے جو میں کہتا ہوں۔

پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اچھے اخلاق کے بارے میں فرمان دیا ہے بلکہ اپنے مکتب کی روسے اچھائی کی تعریف بھی کی ہے۔ میں صرف اچھا ئی کی تلقین نہیں کرتا (اچھائی کرنے کوتو سب کہتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے) ”اِنِّی بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ“ میں مبعوث ہوا ہوں تاکہ ایسے اخلاق کی تکمیل کروں جس میں روحِ مکرمت ہے، یعنی بزرگواری کا اخلاق، آقائی کا اخلاق۔ لیکن وہ آقائی نہیں جس میں دوسروں پر مسلط ہوجاؤں، بلکہ ایسی آقائی جس میں میری روح آقا ہو اور (وہ) پستی، دنائت، جھوٹ، غیبت اور تمام صفاتِ رذیلہ سے اجتناب کرے، اپنے آپ کو ان چیزوں سے برتر اور بالاتر سمجھے ۔

اس حوالے سے ہمارے پاس اسلامی منابع میں الی ما شاء اللہ بہت کچھ پایا جاتا ہے ۔

حضرت علی کے اقوال

حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے فرمایا:

اَکْرِمْ نَفْسَکَ عَنْ کُلِّ دَنِیَّۃٍ وَ اِنْ سَاقَتْکَ اِلَی الرَّغَآءِبِ فَاِنَّکَ لَنْ تَعْتَاضَ بِمَا تَبْذُلُ مِنْ نَفْسِکَ عِوَضاً

اپنے نفس کو ہر ذلت سے بلند تر سمجھو، اگرچہ وہ ذلت تمہیں تمہاری خواہشات تک پہنچا دے۔کیونکہ اسکے نتیجے میں تم اپنے نفس کی جس عزت سے محروم ہوگے اس کا کوئی بدل نہیں پا سکوگے۔(نہج البلاغہ۔مکتوب۳۱)

بیٹا! اپنی روح کی عزت کرو، بزرگوار رکھو، ہر پست عمل سے برتر رکھو۔ ہر پستی کے مقابل یہ سمجھو کہ میری روح ان پستیوں میں آلودہ ہونے سے بالاتر ہے۔ بالکل ایک ایسے شخص کی طرح جس کے پاس ایک بہت اعلیٰ پائے کی پینٹنگ ہواور جب اس پر کوئی سیاہ داغ ابھرے، اُس پرکوئی گرد و غبارنظر آئے، تووہ فوراًازخود رومال اٹھا کر اسے صاف کردیتا ہو۔ اگر اس سے کہتے ہیں کہ ایسا کیوں کر رہے ہو؟ تو وہ کہتا ہے کہ کیااس پائے کی پینٹنگ پر ایسا سیاہ داغ قابلِ افسوس نہیں ہے؟!

وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ پینٹنگ اس قدر اعلیٰ اور خوب صورت ہے کہ اس پرایک بھی سیاہ داغ کی موجودگی افسوس ناک بات ہے۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اپنی روح میں ایسی خوش نمائی کا احساس کرو، عظمت کا احساس کرو، سر بلندی کا احساس کرو کہ ہر قسم کے مقصد، ہر قسم کے خیال اور ہر مادّی حاجت سے قطعِ نظر اپنے آپ کو پستی میں گرالینے سے بزرگ تر سمجھو۔ اگرجھوٹ بولنے کی ضرورت پڑے؟ جھوٹ پستی ہے، دنائت ہے۔تم صاحبِ مرتبت ہو، تم بزرگوار ہو، تم عالی ہو، تم خوب صورت ہو، اپنے آپ کو جھوٹ بول کر کمتر اور پست کرنے سے برتر سمجھو۔ کوئی چیزلوگوں سے نہ مانگو، لوگوں سے مانگنا پستی ہے، تم بزرگ ہو، بزرگوار ہو، خوب صورت ہو۔تم انسان ہو، مقامِ انسانیت کے شایانِ شان نہیں کہ انسان دوسرے کے سامنے جھک کر اپنی حاجت طلب کرے۔ فرمایا: اَلتَّقَلُّلُ وَ لَا التَّوَسُّلُ۔ کم پر قناعت کرو اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاؤ۔

خصوصاً اس بارے میں حضرت علی علیہ السلام کے کلمات بہت زیادہ ہیں۔ حضرت علی کا ایک عجیب جملہ ہے، فرماتے ہیں: مَا زَنیٰ غَیُوْرٌ قَطُّ یعنی شرافت مند انسان کبھی زنا نہیں کرتا، ایک غیرتمند انسان ہرگز زنا نہیں کرتا۔ یہ اس سے قطعِ نظر ہے کہ زنا شرعی طور پر حرام ہے یا حرام نہیں ہے، اس سے قطعِ نظر ہے کہ خدا روزِ قیامت زناکار انسان کو عذاب دے گا یا نہیں۔فرماتے ہیں: ایک شریف آدمی، ایک غیور انسان، ایک ایسا انسان جس میں احساسِ عظمت پایاجاتا ہے، جواپنی روح میں عزت وسربلندی کا احساس رکھتا ہے، وہ ہرگز زنا نہیں کرتا۔

نہج البلاغہ میں ایک ولولہ انگیز جملہ ہے اور اسے سن کرایک مسلمان کے دل میں ولولہ پیدا ہوناچاہئے۔ معروف قصہ ہے اورلازماً آپ نے سناہوگا۔ صفین میں جب حضرت علی کا لشکر پہلی مرتبہ معاویہ کے لشکر کے مقابل آیا توامیر المومنین کاخیال تھا کہ جنگ شروع نہ کی جائے، خطوط کا تبادلہ ہو، ایک دوسرے کے نمائندوں کی آمد ورفت ہو، تاکہ یہ اختلاف حل ہوجائے اور مسلمان ایک دوسرے پر تلوار نہ چلائیں۔ جب معاویہ اور ان کے ساتھی پہنچے، تو انہوں نے اپنے خیال میں سبقت کرتے ہوئے فرات کے گھاٹ پر قبضہ کرلیا، تاکہ جب وہاں امیر المومنین کا لشکر پہنچے تو پانی ان کی دسترس میں نہ ہو، اور وہ بے آبی کی مشکل میں گرفتار ہوجائیں اور اس طرح ان کو شکست ہوجائے۔

جب امیر المومنین وہاں پہنچے توآپ نے دیکھا کہ انہوں نے یہ حرکت کی ہے۔ آپ نے ایک خط لکھا، کسی کو بھیجا اور پیغام دیا کہ وہ ایسانہ کریں۔ ہم نے ابھی ایک دوسرے سے جنگ شروع نہیں کی ہے۔ ہم ایک دوسرے سے بات کرنے آئے ہیں، سفیر بھیجیں، ملاقاتیں کریں، شاید اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے مابین تنازع ختم کر دے اور جنگ نہ ہو۔ لیکن معاویہ کسی صورت تیار نہ ہوئے اورکہا کہ: ہمیں جو موقع ملا ہے، ہم اسے ہرگزنہیں چھوڑیں گے۔ امیر المومنین نے متعدد مرتبہ یہ عمل دھرایا، آپ نے کئی مرتبہ (ہمارے الفاظ میں یہ کہا کہ) یہ شیطانی حرکتیں چھوڑ دو، ہم بغیر پانی کے نہیں رہ سکتے، اگر یہ صورتحال ایک یا دو دن مزید جاری رہی اور ہمارے پاس پانی ختم ہوگیا، تو ہم تلوار اٹھانے پر مجبورہوجائیں گے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ گفتگو اور مذاکرات کا موقع باقی رہے۔لیکن معاویہ کے یہاں سے جواب آیا کہ: یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے۔

یہ صورتحال دیکھ کر حضرت علی علیہ السلام نے محسوس کرلیا کہ جنگ کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔آپ تشریف لائے اور اپنے اصحاب سے ایک مختصر خطاب فرمایا ۔ دیکھئے یہ زاہد علی، یہ عابد علی، یہ متقی اور پرہیزگار علی، یہ اہلِ آخرت علی، اس علی کی روح کس قدر پرجوش ہے، اس میں کس قدر عظمت پائی جاتی ہے، انسانی عظمت کی کس قدرحفاظت کرتی ہے! (ہمارے یہاں کے زاہدنماؤں کے برخلاف) فرماتے ہیں: قَدِ اسْتَطْعَمُوْکُمُ الْقِتَالَ (ایک پرجوش خطاب ہے) اے میرے جوانو! اے میرے سپاہیو! یہ لوگ تم سے ایک خوراک کی مانند جنگ کے طلبگار ہیں، ایک خوراک کی طرح تم سے تلواریں مانگ رہے ہیں، یہ جنگ چاہتے ہیں۔ پھر فرمایا: رَوُّوْاالسُّیُوْفَ مِنَ الدِّمَآءِ تَرْوَوْا مِنَ الْمَآءِ۔ اب جب کہ انہوں نے ایسا کیا ہے، تو جانتے ہوہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اے میرے سپاہیو! تم پیاسے ہو؟ صرف ایک راستہ ہے، (اور وہ یہ کہ) اپنی تلواروں کو ان نجس لوگوں کے خون سے سیراب کرو تاکہ تم خود سیراب ہوسکو۔ پھر فرمایا: فَالْمَوْتُ فِیْ حَیَاتِکُمْ مَقْہُوْرِیْنَ وَالْحَیَاۃُ فِیْ مَوْتِکُمْ قَاھِرِیْنَ (وہ تم سے جنگ کے نوالے طلب کرتے ہیں، تو اب یا تو تم ذلت اور اپنے مقام کی پستی اور حقارت پر سرِ تسلیم خم کردو، یا تلواروں کی پیاس خون سے بجھا کر پانی سے اپنی تشنگی دور کرلو۔ تمہارا ان سے دب جانا جیتے جی موت ہے اور غالب آکر مرنا جینے کے برابر ہے۔ (نہج البلاغہ۔خطبہ۵۱)

(میں نہیں سمجھتا کہ کسی بھی جنگی تقریرمیں ایسا ہیجان انگیز اور بلیغ مختصر جملہ مل سکے گا) زندگی کے کیا معنی ہیں؟ کھانا، پینا، سونا، چلنا پھرنازندگی نہیں ہے ۔ اگر آپ مرکر فتح حاصل کرلیں، توآپ زندہ ہیں۔ لیکن اگر دشمن سے مغلوب ہوکر زندہ رہیں، تو جان لیں کہ آپ مردہ ہیں۔

اس طرح حضرت علی نے اپنے اصحاب میں عزت اور کرامت کی روح پھونکی۔

اِن حوالوں سے امیر المومنین علیہ السلام کے اور جملے بھی ہیں، جن میں سے بعض کو ہم آپ کی خدمت میں بیان کریں گے۔ مجموعی طور پر امیر المومنین نفس کی پستی کوتمام برے اخلاق کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ یعنی پستی اور دنائت کوتمام اخلاقِ رذیلہ کی بنیادسمجھتے ہیں۔ مثلاً غیبت کے باب میں فرماتے ہیں: اَلْغِیْبَۃُ جُہْدُ الْعَاجِزِ۔ (کمزور کا یہی زور چلتا ہے کہ وہ پیٹھ پیچھے برائی کرے۔ نہج البلاغہ۔ کلماتِ قصار۴۶۱) بے بس، ناتواں، کم ہمت اور پست لوگ غیبت کیاکرتے ہیں۔ ایک مرد، ایک بہادر، ایک ایسا شخص جو اپنی روح میں عزت اور شرافت کا احساس رکھتا ہے، وہ اگر کسی پر تنقید کرناچاہتا ہے، تو اس کے منہ کے سامنے کرتا ہے یا کم از کم اس کے سامنے سکوت اختیار کرتا ہے۔ اب یہ کہ کچھ لوگ تعریف اور چاپلوسی کرتے ہیں، یہ ایک الگ بات ہے۔ اس کے پیٹھ موڑ تے ہی اس کی برائی اور غیبت شروع کردیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ یہ عاجز وناتواں لوگوں کی زیادہ سے زیادہ ہمت ہے، کمزوروں کادم درودیہی ہے، یہ پستی اور دنائت ہے۔ جو انسان اپنے اندر عزت و شرافت محسوس کرتا ہے، وہ غیبت نہیں کرتا ۔

اسی طرح فرماتے ہیں:

اَزْرَیْ بِنَفْسِہِ مَنِ اسْتَشْعَرَالطَّمَعَ، وَ رَضِیَ بِالذُّلِّ مَنْ کَشَفَ ضُرِّہٖ، وَ ھَانَتْ عَلَیْہِ نَفْسُہُ مَنْ اَمَّرَ عَلَیْھَا لِسَانَہُ

جس نے طمع کو اپنی عادت بنایا اس نے اپنے اپنے آپ کو سبک کیا، جس نے اپنی پریشان حالی کا اظہار کیا وہ ذلت پر آمادہ ہوگیا، اور جس نے اپنی زبان کو قابو میں نہ رکھا اس نے خود اپنی بے وقعتی کا سامان کرلیا۔ نہج البلاغہ۔ کلماتِ قصار۲

جس شخص نے دوسروں سے لالچ کو اپنا شعار بنایا، اس نے اپنے آپ کوسبک اور حقیر کرلیا، خودکو پست ترکرلیا۔ یعنی جو انسان اپنے بارے میں عظمت کااحساس رکھتا ہے، محال ہے کہ وہ دوسروں سے لالچ رکھتا ہو۔ جو شخص دوسروں کے سامنے اپنی پریشانیاں اور مشکلات بیان کرتا ہے، وہ یہ بات جان لے کہ اُس نے ذلت کوقبول کرلیا ہے۔ ایک باشرف انسان، ایک ایسا شخص جو انسانیت اور عزت کا احساس رکھتا ہے، وہ کبھی اپنی تکالیف دوسروں کے سامنے بیان کرنے پر تیار نہیں ہوتا۔ وہ اپنا دکھ دردبرداشت کرلیتا ہے لیکن دوسروں سے بیان نہیں کرتا۔

ایک شخص امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی تنگ دستی کا ذکر کرنے لگا، کہ میں بہت غریب ہوں، انتہائی مفلس ہوں، میری آمدنی سے میرا خرچ پورا نہیں ہوتا، میں ایسا کرتا ہوں، میں ویسا کرتا ہوں۔ حضرت نے اپنے ایک آدمی سے فرمایا: جاؤ فلاں مقدار میں دینار لاکر اسے دے دو۔ جب وہ (رقم) لینے کے لئے چلا گیا تو اُس شخص نے کہا: مولا! خدا کی قسم، میرا مقصد آپ سے کچھ مانگنا نہیں تھا۔ امام نے فرمایا: میں نے بھی یہ نہیں کہا کہ ان باتوں سے تمہارا مقصد مجھ سے کچھ طلب کرنا تھا۔ البتہ میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں، تمہیں میری نصیحت یہ ہے کہ تمہیں جو بھی مشکل، پریشانی اور سختی پیش آئے، اُسے لوگوں کے سامنے بیان نہ کرو، کیونکہ اس طرح تم (لوگوں کے سامنے) حقیر ہوجاؤ گے۔ اسلام کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ مومن دوسروں کی نظر میں حقیر ہوجائے۔ مصنوعی طریقے سے بھی اپنی عزت کی حفاظت کرو۔

حضرت علی علیہ السلام کا بھی فرمان ہے کہ: رَضِیَ بِالذُّلِّ مَنْ کَشَفَ ضُرَّہُ۔ ایسا شخص جو دوسروں سے اپنا درد اور اپنی پریشانیاں بیان کرتا ہے، وہ اپنی عزت وآبرو سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ ہر جگہ کہتا پھرتا ہے، جناب میں بہت پریشان ہوں، میری حالت بہت خراب ہے، میرے حالات آج کی اصطلاح میں انتہائی ڈرامائی ہیں، ایسا ہے، ویسا ہے۔ یہ باتیں نہ کیا کرو۔ عزت وآبروہر چیز سے بڑھ کر ہے، مومن کی عزت ہر چیز سے زیادہ گراں قیمت ہے۔

وَ ھَانَتْ عَلَیْہِ نَفْسُہُ مَنْ اَمَّرَ عَلَیْہَا لِسَانَہُ۔ ایسا شخص جواپنی نفسانی خواہش کو اپنے اوپر مسلط کرلے، ایسا شخص جو اپنی شہوت کا تابع اور نفسانی خواہش کا پجاری ہو، اسے یہ بات جان لینی چاہئے کہ اس نے اپنی پہلی توہین خود کی ہے، خود کو پست کیا ہے۔ شہوت پرستی ایک قسم کی پستی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کے نکتۂ نظر سے بنیادی طور پر تمام اخلاقی رذائل ایک لفظ میں جمع ہوجاتے ہیں اور وہ ہے ”روح کی پستی“ اس کا بزرگوار نہ ہونا۔ اورعلی تمام اخلاقی فضائل کو ایک لفظ میں جمع کرتے ہیں اوروہ ” روح کی بزرگواری“ ہے۔

اپنی روح میں بزرگواری کا احساس کیجئے، آپ دیکھیں گے کہ راست گو ہیں، دیکھیں گے کہ امانتدار ہیں، دیکھیں گے کہ ثابت قدم ہیں۔ اپنی روح میں بزرگواری کا احساس کیجئے، آپ دیکھیں گے کہ آپ بردبار ہیں، بلند طبع ہیں، غیبت نہیں کرتے ہیں، کوئی پست کام نہیں کرتے ہیں۔ مثلاً شراب نہیں پیتے ہیں، کیونکہ شراب پینے سے نشہ چڑھتا ہے، اور نشہ (چاہے وقتی طور پرہی سہی) انسان سے عقل کوچھین لیتاہے، جس کے نتیجے میں اس کا وقار اور اعتبار جاتا رہتا ہے۔ اگرایک عارضی وقت کے لئے بھی انسان سے اُس کی انسانیت سلب ہوجائے، تو وہ ایک بے عقل حیوان میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

(امیر المومنین نے)ایک اور جملے میں فرمایا ہے: اَلْمَنِیَّۃُ وَلَاالدَّنِیَّۃُ۔ (موت ہو اور ذلت نہ ہو۔ نہج البلاغہ۔کلماتِ قصار۳۹۶) میں افراط نہیں کرنا چاہتا۔ مرتے مر جاؤ لیکن ذلت قبول نہ کرو۔ انسان مر جائے لیکن ذلت قبول نہ کرے۔

صوفیہ کی تعلیمات کا نقصان

ہمارے اپنے عرفا اور صوفیہ کی تعلیمات بہت سے بلند نکات اور عالی تعلیمات کی حامل ہیں۔ لیکن عرفا اور صوفیہ کی تعلیمات کی وجہ سے اسلام کو پہنچنے والا ایک بڑا نقصان یہ تھا کہ ایک طرف تو عیسائی تعلیمات، دوسری طرف بدھ مت کی تعلیمات اورایک اور سمت سے مانوی تعلیمات کے زیر اثرنفس کے خلاف مبارزہ، خود اُن کی اصطلاح میں نفس کشی اورخود فراموشی کے مسائل میں معاملہ اُن کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اگر وہ اسلامی تعلیمات پر تھوڑی سی بھی توجہ دیتے، تو دیکھتے کہ اسلام ایک قسم کی خودی کومارنے اور دوسری قسم کی خودی کو زندہ کرنے کا حامی ہے۔ اسلام


کہتا ہے کہ اپنے آپ کو فرامو ش کردو لیکن اپنے آپ کو بھلا نہ دو ۔اسلام تاکید کرتا ہے کہ اپنی حیوانی پستی کو بھلادو لیکن روح میں ایک اور }چیز کے{تولد، ایک اورولادت کا تقاضا کرتا ہے۔ چاہتا ہے کہ ایک نئی خودی، ایک نئی منش انسان میں زندہ ہوجائے۔

شاید بارہ برس قبل یا اس سے زیادہ عرصہ گزرا ہوگا کہ میں اس نکتے کی جانب متوجہ ہوا تھا اور بعد میں جب میں نے آقائے سید غلام رضا سعیدی کے ”اقبال نامہ“کا مطالعہ کیا، تو میں نے دیکھا کہ علامہ اقبال بھی اس نکتے کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔ انہوں نے ”فلسفۂ خودی“ کے عنوان سے ایک مفہو م بیان کیا ہے اور اُن کی مراد یہ ہے کہ اپنی خودی کوبازیاب کرو، اپنی انسانی خودی کودوبارہ زندہ کرو۔
اسلام کی نظر میں یہ بات بھی ایک عذابِ الٰہی ہے کہ خدا انسان کو ایسابنا دے کہ وہ خوداپنے آپ کو فراموش کربیٹھے: وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ(۷)۔ اُن لوگوں میں سے نہ ہوجانا جو خدا کو بھلا بیٹھتے ہیں ۔اور خدا کو فراموش کر دینے کے نتیجے میں خدا اُن کو عذاب میں مبتلاکرتا ہے۔ ان کا عذاب یہ ہے کہ وہ خود کو فراموش کربیٹھتے ہیں۔

کہتا ہے ”خود“ لیکن وہ خودی جس کے بارے میں قرآن کہتا ہے، وہ آپ کے ذہن میں رہنا چاہئے کہ کیا ہے؟ وہ یہ نہیں کہتا کہ تمہیں اپنی شہوت یاد رہے۔یہ نہیں کہتا کہ تمہیں اپنی جاہ طلبی یاد رہے۔ یہ نہیں کہتا کہ تمہیں اپنی دولت پرستی یاد رہے۔ وہ کہتا ہے کہ ان چیزوں کو بھول جاؤ، تمہیں خود اپنا آپ یاد رہنا چاہئے۔ تم یہ نہیں ہو۔ تم اس سے بڑھ کر ہو۔ تم ایک ایسے انسان ہو، ایک ایسی شخصیت ہو، ایک ایسی منش ہو کہ جب تم اس منش کو اپنے اندر پالو گے تواپنے آپ کوسرا پانور پاؤ گے، اپنے آپ کوسراپا عظمت و قدرت پاؤ گے، اپنے آپ کوسراپاعزت پاؤ گے، اسے فراموش نہ کرو۔ وگرنہ آپ کو دنیا میں کون ملے گا جس نے حضرت علی سے زیادہ لوگوں کو تقویٰ کی دعوت دی ہو؟ (اس بات پر غور کرنا چاہئے، سوچ بچار کرنا چاہئے، اس کے بارے میں تفکر کرنا چاہئے) کون ہے جس نے حضرت علی سے زیادہ لوگوں کو نفسانی خواہشات سے مقابلے کی دعوت دی ہو؟ کون ہے جس نے حضرت علی سے زیادہ لوگوں کو ترکِ دنیا کی دعوت دی ہو؟ کوئی نہیں ہے! لیکن یہی علی اپنی تعلیمات میں انسانوں کو عزت اور سربلندی کی دعوت دیتے ہیں۔

وہ جملے جوہم نے عرض کئے ہیں، جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام سے فرمایا تھا، انہی میں آگے چل کر یہ جملہ بھی ہے: وَ لَاتَکُنْ عَبْدَ غَیْرِکَ وَ قَدْ جَعَلَکَ اللّٰہُ حُرًّا (اپنے آپ کو کسی کا غلام نہ بنانا کیونکہ اللہ نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے۔ نہج البلاغہ۔مکتوب۳۱)۔ بیٹا! کسی دوسرے انسان کے غلام نہ بننا کہ خدا نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے۔ اپنی خودی کی حفاظت کرنا۔

علی علیہ السلام جو انکساری کی دعوت دیتے ہیں، علی جو دنیا کے منکسر ترین انسان ہیں، علی جو ہمیشہ نفسانی خواہشات سے مقابلے کی تاکید کرتے ہیں، وہ یہاں کس طرح انانیت کی دعوت دے رہے ہیں؟

نہیں یہ انانیت اُس انانیت سے ہٹ کر ہے۔ یہ وہ انانیت ہے جسے محفوظ رہنا چاہئے۔ اسی لئے آپ فرماتے ہیں کہ: وَلَاتَکُنْ عَبْدَ غَیْرِکَ۔ ہرگز اپنے آپ کو کسی دوسرے کا غلام نہ بنانا۔ دوسرے کا غلام بننا، کسی اور کا بندہ ہونا، بندگانِ خدا میں سے کسی کے سامنے اظہارِ خاکساری کرنا، اس عظمت اور انسانی عزت کے منافی ہے جسے خدا نے تمہیں عطا فرمایا ہے۔

امام حسین کے کلمات

کیونکہ اس گفتگو کو ہم گزشتہ ہفتے امام حسین علیہ السلام کے روزِ ولادت کی مناسبت سے کی جانے والی گفتگو کے تسلسل میں عرض کررہے ہیں، لہٰذا مناسب محسوس ہوتا ہے کہ اس نکتے یعنی بزرگواری کے مسئلے کے بارے میں امام حسین (جن کے بارے میں گفتگو ہمیں اس مقام تک لائی ہے) کے کلمات سے آپ کی خدمت میں شاہد پیش کریں۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے برخلاف، امام حسین علیہ السلام کے زمانے کے مخصوص حالات کی وجہ سے ان کے زیادہ اقوال ہم تک نہیں پہنچے ہیں۔ ہمارے پاس بہت سے خطبوں اور گفتگوؤں کی صورت میں امیر المومنین کی مستند روایات موجود ہیں، خصوصاً آپ کے پانچ سالہ دورِ خلافت کے خطبے اور تقریریں۔ لیکن امام حسن اور امام حسین اور خصوصاً امام حسین کے زمانے میں معاویہ کی طرف سے پیدا کئے ہوئے غیر معمولی گھٹن زدہ ماحول کی وجہ سے (جس کے متعلق آپ نے سنا ہے کہ کیسے عجیب حالات تھے، کوئی امام حسین سے ملنے کی جرأت نہیں کرتا تھااور اگر آپ سے کوئی بات سنتا تو اسے دوسروں کے سامنے بیان کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا) آپ کے بہت کم کلمات نقل ہوئے ہیں۔ ایک زمانے میں، جب ہم ان کتب کا مطالعہ کر رہے تھے جن میں امام حسین کے کلمات نقل ہوئے ہیں، تو وہاں یہ عجیب بات دیکھی کہ باوجود یہ کہ امام حسین کے کلمات اتنے زیادہ نہیں ہیں لیکن پھر بھی آپ کے کلمات میں بزرگواری سے زیادہ کوئی اور نکتہ نظر نہیں آتا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امام حسین کی روح بزرگواری کے مساوی ہے۔ آپ ہمیشہ بزرگواری کی بات کرتے ہیں۔ اب ہم ان کے فرامین میں سے کچھ بیان کرتے ہیں۔

ان میں سے ایک جملہ تو وہی ہے جوآپ نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں فرمایا تھا، جسے آپ لوگوں نے بہت زیادہ سنا ہوا بھی ہے۔ جب آپ جنگ کرچکے، حملے کرچکے، دو بدو لڑائی لڑ چکے، غیر معمولی طور پر تھک چکے اور تیروں کے زخموں سے چور ہوکر زمین پر گر چکے، جب آپ کا بہت زیادہ خون بہہ چکا اور اب کھڑے رہنے کی طاقت بھی نہ رہی، اب زیادہ سے زیادہ آپ تلوارکے سہارے سے گھٹنوں کے بل کھڑے ہوسکتے ہیں اور اب آپ کے بدن میں رمق بھی نہیں رہی ہے، اس موقع پر آپ دیکھتے ہیں کہ گویاکچھ لوگ حرم کے خیام کی طرف جانا اور انہیں لوٹنا چاہتے ہیں۔یہ دیکھ کرآپ کسی نہ کسی طرح اٹھتے اور بلندآواز سے فرماتے ہیں کہ: وَیْلَکُمْ یَا شِیْعَۃَ آلِ اَبِیْ سُفْیَانَ! اے خود فروختہ لوگو! اے آلِ ابی سفیان کے پیروکارو! اے وہ لوگو جنہوں نے ان کی نوکری میں اپنے آپ کو پست کرلیا ہے! وائے ہو تم پر اِنْ لَمْ یَکُنْ لَکُمْ دِیْنٌ وَ کُنْتُمْ لَاتَخَافُوْنَ الْمَعَادَ فَکُوْنُوْا اَحْرَاراً فِیْ دُنْیَاکُمْ۔ اگر تم مسلمان نہیں ہو، تو انسان تورہو، تمہارے اندر ذرّہ برابر حریت توہونی چاہئے، آزاد مرد بنو۔ اگر تم خدا اور قیامت پر یقین نہیں رکھتے تو کم از کم شرافت توتمہارے اندر ہونی چاہئے۔ ایک شریف انسان، ایک ایسا انسان جس میں انسانیت کی معمولی سی رمق بھی ہو، وہ ایسا کام نہیں کرے گا جو تم کر رہے ہو۔ (وہ) کہنے لگے: اے فرزندِفاطمہ !تم کیا کہہ رہے ہو؟ ہم نے حریت کے خلاف کونسا کام کیا ہے؟ فرمایا: اَنَا اُقَاتِلُکُمْ وَاَنْتُمْ تُقَاتِلُونِیْ وَالنِّسَاءُ لَیْسَ عَلَیْھِنَّ جُنَاحٌ۔ (لہوف۔ ص ۱۰۵ ۲۔لہوف۔ص ۵۳ ۳۔لہوف۔ص ۶۹)

امام حسین علیہ السلام نے ( کربلا کے )راستے میں جو خطاب کئے، اُن میں کرامت اور بزرگواری موجزن نظر آتی ہے۔ مکہ میں ارشاد فرمائے ہوئے آپ کے پہلے خطبے سے، وہاں کئے جانے والے آپ کے آخری خطاب تک میں۔ آپ نے مکہ میں جو خطبہ دیا تھا وہ اس طرح شروع ہوتا ہے: خُطَّ الْمَوْتُ عَلیٰ وُلْدِ آدَمَ مَخَطَّ الْقَلَادَۃِ عَلیٰ جِیْدِ الْفَتَاۃِ۔ یہاں تک کہ اسکے آخرمیں فرماتے ہیں: فَمَنْ کَانَ فِیْنَا بَاذِلاً مُہْجَتَہُ وَ مُوطِّناً عَلیٰ لِقَاءِ اللّٰہِ نَفْسَہُ فَلْیَرْحَلْ مَعَنَا فَاِنَّنِیْ رَاحِلٌ مُصْبِحاً اِنْ شَاءَ اللّٰہُ۔ (ایسے لوگوں میں شامل نہ ہونامیں اپنے لئے افتخار سمجھتا ہوں۔ ان ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنا میرے لئے ناگوار ہے، روحانی افسردگی ہے)۔ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ میری روح کسی صورت مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں ان فاسد حالات کو دیکھوں اور زندہ رہوں، چہ جائیکہ میں خود اس کا حصہ بن جاؤں۔ اِنِّیْ لَا اَرَی الْمَوْتَ اِلَّا سَعَادَۃً وَ الْحَیٰوۃَ مَعَ الظَّالِمِیْنَ اِلَّا بَرَماً۔ 

راستے میں امام کو بہت سے لوگ ملے۔وہ آپ سے گفتگو کیا کرتے تھے، اور زیادہ تر وہی پدرانہ نصیحتیں کیا کرتے تھے جو ہر پست حوصلہ شخص کرتا ہے، کہ: جنابِ عالی! حالات بہت خطرناک ہیں۔ جائیے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالئے۔ (امام نے) ان میں سے ایک کے جواب میں فرمایا: میں تم سے وہی بات کہوں گا جوپیغمبر کی معیت میں جنگ کے لئے جانے والے ایک انصاری نے اپنے اُس چچا زاد بھائی کے جواب میں کہی تھی جو اسے اس جنگ میں شرکت سے روکنا چاہتا تھا۔اسکے بعد امام نے یہ اشعار پڑھے کہ:

سَاَمْضِیْ وَمَابِالْمَوْتِ عَارٌ عَلَی الْفَتیٰ
اِذَامَا نَویٰ حَقّاًوَجَاھَدَمُسْلِماً

وَوَاسَی الرِّجَالَ الصَّالِحِیْنَ بِنَفْسِہِ
وَفَارَقَ مَثْبُوْراً وَخَالَفَ مُجْرِماً

فَاِنْ عِشْتُ لَمْ اَنْدَمْ وَاِنْ مِتُّ لَمْ اُلَمْ
کَفیٰ بِکَ ذُلّاً اَنْ تَعِیْشَ وَتُرْغَماً (۱)

یعنی، نہیں میں جاؤں گا !موت ایک مردِ جری کے لئے اس صورت میں نہ صرف ذلت نہیں بلکہ افتخار ہے جبکہ وہ جس راہ پر گامزن ہے اور جس پر مارا جاتا ہے اس پر اسکی نیت حق (کی ہمراہی) ہو، اور وہ ایک مسلمان کی طرح جہاد کررہا ہو۔ایسی موت جو صالحین کی مدداور ان کی معیت اور مجرموں کی مخالفت میں آئے افتخار ہے۔ میں یا تو زندہ رہوں گا یا مرجاؤں گا، یا قتل کردیا جاؤں گا یا سلامت رہوں گا۔ جس راہ پر میں گامزن ہوں اگراس پر زندہ رہا، تو میری زندگی باافتخارہے اور اسمیں کوئی ذلت نہیں اور اگر مرجاؤں تب بھی ملامت کا نشانہ نہیں بنوں گا: کَفیٰ بِکَ ذُلّاً اَنْ تَعِیْشَ وَ تُرْغَماً۔ مجھے منع کرنے والے! تیرے لئے یہی ذلت کافی ہے کہ تو زندہ رہے اور تیری ناک رگڑی جائے۔ میں زندہ رہوں اور مجھے ذلیل کر دیا جائے؟ ہرگز نہیں! میں ایسی زندگی چاہتا ہوں جو سربلندی کے ساتھ ہو، ذلت کے ساتھ زندگی کا میرے نزدیک کوئی مفہوم نہیں۔ میں ضرور جاؤں گا۔

پھر جب آپ راستے میں اپنے اصحاب کے ساتھ گفتگو فرماتے ہیں، تو کرامت و بزرگواری اورذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینا آپ کا شعار ہوتا ہے۔ اَلَا تَرَوْنَ اَنَّ الْحَقَّ لَا یُعْمَلُ بِہِ وَ اَنَّ الْبَاطِلَ لَایُتَنَاھیٰ عَنْہُ؟ کیا تم نہیں دیکھتے؟ (کیا) تمہاری آنکھیں کھلی ہوئی نہیں ہیں؟ (کیا) نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا، (کیا) نہیں دیکھتے کہ اس قدر فساد برپا ہے اور کوئی اس سے روکنے والا نہیں؟ ایسے حالات میں: لِیَرْغَبِ الْمُؤْمِنُ فِیْ لِقَآءِ اللّٰہِ مُحِقّاً(۹) مومن کو چاہئے کہ موت طلب کرے۔

حسین ابن علی علیہماالسلام نے کرامت اور شرافت کو اپنے بابا سے میراث میں پایا تھا۔ جب حضرت علی علیہ السلام کو اطلاع دی گئی کہ معاویہ کے لشکریوں نے انبار شہر میں لوٹ مار مچائی ہے اور اس دوران ایک غیر مسلم (اہلِ ذمہ) عورت جو مسلمانوں کی پناہ میں تھی، کی بالیاں بھی لوٹی ہیں، تو آپ نے ایک خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! اگر اس قسم کے حادثے کے غم میں ایک مسلمان کو موت آجائے تو میرے نزدیک وہ قابلِ ملامت نہیں ہے۔

آئیے روزِ عاشورا، دیکھتے ہیں کہ امام حسین کی زندگی کے آخری لمحات تک کرامت و بزرگواری، یعنی وہی اسلامی اخلاق کا محور، اسلامی تربیت کا محور، آپ کے کلمات میں نظر آتا ہے۔ ابن زیاد کے قاصد کے جواب میں فرماتے ہیں: لَااَعْطِیْکُمْ بِیَدِیْ اِعْطَاءَ الذَّلِیْلِ وَ لَا اُقِرُّ اِقْرَارَ الْعَبِیْدِ۔ میں ایک ذلیل انسان کی طرح تمہارے ہاتھ میں ہاتھ نہیں دوں گا (بیعت نہیں کروں گا)، نہ کسی غلام کی طرح آکر اقرار کروں گا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔یہ بات محال ہے۔

اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ اسی حالت میں جنگ کرتے ہیں۔ یعنی اس حالت میں جبکہ آپ کے تمام اصحاب قتل ہوچکے ہیں، تمام اقربا شہید ہوچکے ہیں، اپنی آنکھوں سے اپنے جوان بیٹوں کوقتل ہوتے دیکھ چکے ہیں، اپنے بھائیوں کے ٹکڑے اڑتے دیکھ چکے ہیں، اور چشمِ دل سے یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کچھ ہی دیر بعد ان کے حرم کے خیموں پر حملہ کیا جائے گا اور اہلِ بیت اسیر کر لئے جائیں گے۔ اس کے باوجود، اسی حالت میں جنگ کر رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں، سیادت اور آقائی کی حکومت کے نعرے ۔ لیکن اس معنی میں آقائی نہیں کہ میں حاکم بنوں اور تم محکوم (بلکہ اس معنی میں کہ) میں ایسا آقا ہوں جس کی آقائی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک پست صفت قبول کرلے۔

اَلْمَوْتُ اَوْلیٰ مِنْ رُکُوْبِ الْعَارِ
وَالْعَارُ اَوْلیٰ مِنْ دُخُوْلِ النّارِ(۱۰)

یہ ہیں روح کی بزرگواری کے معنی، اور یہ ہے فرق بزرگوں اور بزرگواروں کے درمیان ۔ البتہ بزرگوارحضرات بزرگ بھی ہوتے ہیں، لیکن تمام بزرگ بزرگوار نہیں ہوتے۔ تمام بزرگوار بزرگ ہیں۔ اسی لئے جب ہم ان بزرگواروں کا سامنا کرتے ہیں، تو ہمیشہ ان کی بزرگواری کا ذکر کرتے ہیں، نہ کہ بغیر بزرگواری کے صرف ان کی بزرگی کا: اَشْہَدُ اَنَّکَ قَدْ اَقَمْتَ الصَّلوٰۃَ وَ اٰ تَیْتَ الزَّکوٰۃَ وَ اَمَرْتَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَہَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ (۱۱)

ہم اگر نادر شاہ کے سامنے کھڑے ہوں، تو کیا کہیں گے؟ ا س کی بزرگی کی بات کریں گے۔ہم کہیں گے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تم ہندوستان گئے، وہاں لوٹ مار مچائی اور ہمارے لئے کوہِ نور ہیرا لائے، نور کا دریا ہمارے لئے لائے، کوہِ نور ہمارے لئے لائے۔ لیکن امام حسین سے کہیں گے کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ نے زکات دی، دولت جمع کر کے نہیں لائے۔ آپ نے امر بالمعروف کیا، نہی عن المنکر کیا۔آپ نے نماز کو زندہ کیا، جو بندے کے خدا کے ساتھ تعلق کی بنیاد ہے۔آپ نے راہِ خدا میں کوشش کی، نہ شکم کی خاطر، نہ ہی اپنی جاہ طلبی کی راہ میں۔آپ ایک بڑے جاہ طلب نہیں تھے۔آپ ایک بڑے انتقام طلب نہ تھے۔آپ ایک بڑے کینہ پرور نہ تھے۔ آپ ایک بڑے دولت طلب نہ تھے۔آپ ایک بڑے مجاہد فی سبیل اللہ تھے۔ آپ وہ تھے جنہوں نے اپنی ذاتی اور حیوانی خودی کو فراموش کردیا تھا اور اس خودی کو زندہ کردیا تھا جوآپ کو خدا سے ملاتی تھی۔ اَشْہَدُ اَنَّکَ جَاہَدْتَ فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہِ(۱۲)۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے جدوجہد کی، جہاد کیا لیکن اپنی خواہشات کے لئے نہیں اور نہ ہی کرسی اور عہدے کے لئے بلکہ حق و حقیقت کی راہ میں۔

خدایا! تجھے حقیقتِ حسین ا بن علی کی قسم دیتے ہیں کہ وہ روح جو اخلاق اور تربیتِ اسلامی کا محور ہے، یعنی کرامت و بزرگواری، وہ ہم تمام مسلمانوں کو نصیب فرما۔
اس حسینی عظمت و شرافت اور بزرگواری کے احساس کی روشنی سے ہمارے دلوں کو منور فرما۔
خدایا !ہم مسلمانوں کو اپنی تقدیر کے بارے میں دانا، بینا اورمشتاق فرما۔

وَلَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ
وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہِ الطَّاہِرِیْنَ


۱۔ یہ تقریر ۷شوال ۱۳۹۰ھ کوحسینیۂ ارشاد تہران میں کی گئی۔

۲۔ جب نفوس (روحیں) عظیم ہوجاتی ہیں توجسموں کو اپنی مراد حاصل کرنے میں تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔

۳۔ اپنا عزم وارادہ بلند رکھو کہ تاریخ کے عظیم لوگ بلندعزم وارادے ہی سے کسی مقام پر پہنچے ہیں۔

۴۔ بلبل باغ میں اور اُلّو ویرانے کی طرف چلا ہے کہ ہر کوئی اپنے عزم وارادے کے مطابق گھر بناتا ہے۔

۵۔ ابوریحان کی کتابوں سے پتا چلتا ہے اورمحققین کی طرف سے لکھی گئی اُن کی سوانح حیات میں بھی تحریر ہے کہ وہ ایک انتہائی باایمان اورپختہ عقیدہ رکھنے والے مسلمان تھے۔ جو کتابیں انہوں نے دینی فنون پر نہیں بھی لکھی ہیں، جیسے ”الآثار الباقیۃ“ وغیرہ، تو اُن میں بھی جہاں اسلام، قرآن اور اسلامی احکام کی بات آتی ہے، وہاں بو علی کی طرح انتہائی مودبانہ، مومنانہ اور عقیدتمندانہ انداز سے اظہارِ خیال کرتے ہیں کہ انسان کو اُن کے اخلاص کے بارے میں کوئی شک نہیں رہتا۔

۶۔ المحجۃ البیضاء۔ج۵۔ص۸۹

۷۔ اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے خود ان کے نفس کو بھی بھلا دیا۔(سورۂ حشر۵۹۔آیت ۱۹)

۸۔ اعلام الوریٰ ۔ص ۲۳۰، نفس المہموم ۔ص ۱۱۶

۹۔ تحف العقول۔ص۲۴۵

۱۰۔ نفس المہموم۔ص۲۱۹

۱۱۔ مفاتیح الجنان۔ زیارتِ مطلقہ امام حسین علیہ السلام

۱۲۔ مفاتیح الجنان۔ زیارتِ مطلقہ امام حسین علیہ السلام