غیب پر ایمان
معنوی آزادی • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الحمدللّٰہ ربّ العالمین بارئ الخلائق اجمعین والصلاۃ والسّلام علی عبد اللّٰہ ورسولہ وحبیبہ وصفیّہ، سیّدناونبیّناومولاناابی القاسم محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم و علی آلہ الطّیّبین الطّاہرین المعصومین۔
اعوذ باللّٰہ من الشّیطان الرّجیم
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنہُمْاٰا یُنْفِقُوْن
جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، نمازقائم کرتے ہیں اور جو رزق اُنہیں دیا گیا ہے اس سے راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔(سورۂ بقرہ ۲۔آیت۳)
ہمارے یہاں معمول ہے کہ ہم بعض افراد کو مومن کہتے ہیں۔ (مثلاً) ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص ایک مردِ مومن ہے۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ عابد اور عبادت گزار انسان ہے۔ یعنی اپنے فرائض ادا کرتا ہے، مستحبات بھی بہت انجام دیتا ہے، زیارت پر جاتا ہے، نوافل پڑھتا ہے، بہت زیادہ ذکرِ الٰہی کرتا ہے۔
لیکن ایک دوسراشخص جس میں یہ باتیں نہیں پائی جاتیں، اسکے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ وہ آدمی ایک مومن یا مقدس شخص نہیں ہے۔ یہ عام رائج اصطلاح ہے۔ لیکن قرآن کے پاس بھی ایک اصطلاح ہے۔ قرآن بعض افراد کو مومن اور بعض دوسرے افراد کو کافر اور غیر مومن کہتا ہے۔
قرآن کی اصطلاح میں مومن کے کیامعنی ہیں؟
مومن یعنی صاحبِ ایمان۔ غیر مومن، یعنی وہ شخص جس کے پاس ایمان نہ ہو۔
ایمان کے کیامعنی ہیں؟
(آئیے) ایمان ہی سے شروع کرتے ہیں:
ایمان کا تعلق دل، قلب اور اعتقاد سے ہے، اور یہ قرآنِ مجید کی نص ہے۔ (ایک مرتبہ) کچھ عرب دیہاتی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورکہنے لگے: اٰمَنَّا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ (اے اللہ کے رسول) ہم ایمان لے آئے ہیں۔ قرآن کی آیت نازل ہوئی:
قَالَتِ الْاَعْرَابُٰامَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ ٰلکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ
یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔(سورۂ حجرات۴۹۔آیت ۱۴)
یعنی چند بادیہ نشین اعراب آپ (پیغمبر) کے پاس آئے او رکہنے لگے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ: تم یہ نہ کہو کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، بلکہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں (اسلام لانے کے معنی ہیں زبان سے کلمہ پڑھ لینا، لیکن ایمان کا تعلق دل اور قلب سے ہے، باطنی اعتقاد سے ہے) ابھی تم لوگوں کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا ہے۔
اس آیت سے پتا چلتاہے کہ ایمان، انسان کی روح سے تعلق رکھنے والی ایک واقعیت اور حقیقت ہے، اس کا تعلق انسان کے بدن سے نہیں ہے، نہ اس کا تعلق انسان کی پیشانی سے ہے کہ (اُس پر) سجدے کا نشان ہو یا نہ ہو، نہ ہی اس کا تعلق انسان کی زبان سے ہے کہ (اس پر) ذکرِ خدا جاری ہو یا نہ ہو۔ بلکہ (ایمان) اِن امور کی بنیادسے تعلق رکھتا ہے ۔اور یہ ایک قلبی، فکری اور اعتقادی حالت ہے۔
آپ پوچھیں گے کس چیزپر ایمان؟ ہم کہیں گے خدا پرایمان، کہیں گے خدا کی صفات پرایمان، کہیں گے پیغمبر کی رسالت اور ان پر نزولِ وحی پر ایمان، کہیں گے اس بات پر ایمان کہ ایک روزقیامت برپا ہوگی۔ جی ہاں، یہ سب باتیں درست ہیں، لیکن خود قرآن نے ان سب کو ایک لفظ میں جمع کردیا ہے، ہم صرف اُس (ایک لفظ) کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لفظ وہ ہے جس کا ذکر سورۂ بقرہ کی پہلی آیت میں ایک اعتبار سے اور تیسری آیت میں ایک دوسرے اعتبار سے ہوا ہے۔ سورۂ بقرہ میں اس طرح پڑھتے ہیں:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ الم ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ
یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلامِ خدا ہے۔ خدا سے) ڈرنے والوں کی رہنما ہے۔ جو غیب پر ایمان لاتے اور آداب کے ساتھ نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں- سورۂ بقرہ ۲۔ آیت ۱۔۳
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وہ لوگ جو پوشیدہ حقائق پر ایمان رکھتے ہیں، کی عبارت میں ”غیب“ کاایک لفظ چند الفاظ کی جگہ استعمال ہوا ہے۔}یہاں اس سے مراد{ خدا پر ایمان ہے، صفاتِ پروردگار پر ایمان ہے، خاص حالات میں پوشیدہ اور غیبی ہاتھ کی کارفرمائی پر ایمان ہے۔
اب ہم اس اجتماع کے تناسب سے، لفظ ”غیب“ کی وضاحت کریں گے، اور اس کے بعد اپنی اگلی عرائض جاری رکھیں گے۔
غیب کے معنی
غیب سے کیامراد ہے، جس پر ایمان کو مومن اور غیر مومن کا فرق قرار دیا گیا ہے؟
ہم نے عرض کیا کہ غیب، یعنی پوشیدہ، مخفی، چھپا ہوا۔پھر بھی بات واضح نہیں ہوئی۔ پوشیدہ سے کیا مراد ہے؟ اس وقت جبکہ ہم اس احاطے میں بیٹھے ہوئے ہیں، اس دیوار کی دوسری طرف ہم سے پوشیدہ ہے۔پس اگر ہم اِس دیوار کے دوسری طرف ہونے والی باتوں پر ایمان رکھیں، تو کیا یہ غیب پر ایمان ہے؟ اگر ابھی ہم سے پوچھا جائے کہ مثلاً یہ زمین جس پر ہم بیٹھے ہوئے ہیں اس زمین کے پانچ سو میٹرنیچے کیا ہے؟ (ہم کہیں کہ ہم سے) پوشیدہ ہے، ہمیں نہیں معلوم، لیکن اگر ہم جانتے ہوں، تو کیا یہ غیب پر ایمان ہو گا؟ نہیں۔ آنے والی کل ہم سے نہاں ہے، اب اگر ہم ان واقعات پر ایمان رکھیں جو کل پیش آنے والے ہیں، اگرکل پیش آنے والے حوادث کے متعلق پیش گوئی کریں اور اس پیش گوئی پر ایمان رکھیں، تو کیا یہ غیب پر ایمان رکھنا ہوگا؟ نہیں۔
ہم سے تو ماضی بھی پوشیدہ ہے۔ کیاماضی پر ایمان غیب}پر ایمان رکھنا{ ہے؟ نہیں۔ توپھر غیب پر ایمان رکھنے سے کیا مراد ہے؟ پوشیدہ چیزوں پر ایمان کے کیا معنی ہیں؟ پوشیدہ سے کیا مراد ہے؟
اس طرف توجہ فرمائیے:
اس دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے حواس سے(۱) قابلِ ا دراک ہیں (بعض لوگوں کے بقول ہمارے پاس اس سے زیادہ حواس پائے جاتے ہیں لیکن اسی قسم کے ہیں) اس وقت اس دیوار کی دوسری جانب ہم سے پوشیدہ ہے، لیکن ہمارے پاس یہ امکان موجود ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیوار کے اُس طرف ہونے والی سرگرمیوں کو دیکھ سکیں، یعنی وہ سر گرمیاں ہماری آنکھوں سے مخفی نہیں رہ سکتیں، ہماری آنکھیں انہیں دیکھنے پرقادر ہیں، ہمارے کان انہیں سننے پر قادر ہیں۔یا وہ چیزیں جنہیں ہماری ذائقے کی حس چکھنے پر قادر ہے، یاچھونے کی حس انہیں چھونے پر قادر ہے، انہیں ”شہادت“ کہتے ہیں۔یعنی وہ چیزیں جنہیں انسان اپنے ظاہری بدن سے درک کرسکتا ہے۔
ہمارے پاس کچھ کھلے اور آشکارا ادراکات ہیں (جن کے ذرائع) ہمارے ظاہری بدن میں رکھے گئے ہیں، اور اس حد تک یہ حیوانات میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یعنی جوحواس ہمارے پاس ہیں، وہ حیوانات میں بھی ہیں اورکچھ مقامات پر ان میں سے بعض حواس میں حیوانات ہم سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہیں۔ بہت سے حیوانات کی آنکھیں انسان کی آنکھوں سے زیادہ تیز ہیں۔ بہت سے حیوانوں کے کان، مثلاً کتے کے کان انسان کے کانوں سے زیادہ حساس ہیں۔ بہت سے حیوانوں کی سونگھنے کی حس، جن میں چیونٹی بھی شامل ہے، یہی کمزور سی چیونٹی، (اس کی سونگھنے کی حس) غیر معمولی طور پر حساس ہے۔ آپ اگر ایک برتن میں گوشت رکھ کر اسے کمرے میں موجود طاق پر رکھ دیں۔ اگر آپ کی آنکھ اسے نہ دیکھے، تو کمرے میں داخل ہوتے ہی آپ اپنی سونگھنے کی قوت کے ذریعے یہ نہیں جان سکتے کہ یہاں اس کمرے میں اس وقت کچھ گوشت موجود ہے۔ لیکن چیونٹی اپنی سونگھنے کی حس کے ذریعے بہت اچھی طرح اسے جان لیتی ہے اور درک کر لیتی ہے۔ انہیں کہتے ہیں حواس۔
وہ چیزیں جنہیں انسان اپنے حواس کے ذریعے درک کر سکتا ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ غیب میں شامل نہیں ہیں، آشکارا ہیں۔}بعض{ حوادث کوہم اپنے انہی حواس کے ذریعے درک کرلیتے ہیں، یعنی جوصورت کل پیداہو گی اسے میں کل اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہوں، وہ آواز جو کل بلند ہوگی میں اسے اپنے کانوں سے سن سکتا ہوں۔ وہ کھاناجو کل پکے گا میں اسے اپنی زبان سے چکھ سکتا ہوں۔پس یہ غیب نہیں ہے، قرآنی اصطلاح میں یہ شہادت ہے۔ توپھر غیب کیا ہے؟
غیب یہ ہے کہ انسان کو اس بات کا اقرار اور اعتراف ہو کہ کائنات میں کچھ ایسے حقائق اور سچائیاں ہیں جنہیں میں اپنے بدن کے اس ظاہر، یعنی اپنے حواس کے ذریعے درک نہیں کرسکتا، چاہے وہ }حقائق اور سچائیاں{میرے سامنے موجود بھی ہوں۔ میری آنکھ، میرے کان، میری زبان، میری چھونے اور سونگھنے کی حس، ان کے ادراک کی قدرت نہیں رکھتے ۔ یعنی میں خود اپنے بارے میں یہ فیصلہ دوں کہ میرے پاس موجود یہ حواس، جو مجھے اپنے سے باہر کی دنیا سے تعلق کے لئے دیئے گئے ہیں انتہائی انتہائی محدود ذرائع ہیں۔بتائیے مجھے یہ آنکھیں کیوں دی گئی ہیں؟ اس لئے کہ جب میں اس دنیا کے ساتھ رنگوں اور شکلوں کے ذریعے تعلق پیدا کرناچاہوں تو ان سے کام لے سکوں، اپنا راستہ ڈھونڈ سکوں، بس اسی مقصد کے لئے۔ مجھے کان کیوں دیئے گئے ہیں؟ اس لئے کہ صوتی امواج کے نام سے کچھ موجیں ہیں جن کا ادراک کانوں کے ذریعے ہوتاہے۔لہٰذا جب میں چاہتا ہوں کہ اس دنیا میں اپنے روزمرہ کام انجام دوں، تو میرے پاس کان ہونے چاہئیں۔ یہی معاملہ دوسرے حواس کا ہے۔
لیکن کیا میرے پاس موجودیہ حواس، میرے لئے وہ ذرائع ہیں جن کے توسط سے میں کائنات میں موجود ہر شئے کودرک کرسکتا ہوں؟ یہاں تک کہ اگر میں کسی چیز کو اپنے حواس سے درک نہ کروں تو اسے}اسکے وجود کو{قبول نہ کروں؟ نہیں، یہ غلط فہمی ہے۔ بلکہ وہ سب سے بڑی غلط فہمی ہے جس کا انسان اپنی زندگی میں مرتکب ہوتا ہے، او راسے علمی شکل و صورت بھی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے جس کی بنا پر وہ یہ سمجھتا ہے کہ جو حواس اسے اس دنیا اور اس طبیعت میں دیئے گئے ہیں، یہ اس لئے ہیں کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے وہ اسے انہی حواس کے ذریعے دریافت کرے، یہاں تک کہ اگر کوئی چیز ان حواس کے ذریعے درک نہ کر سکے، تو اس کا انکار کرے اور کہے کہ اس کا کوئی وجود نہیں۔ کیونکہ اگر وہ چیزہوتی تو میں اسے اپنے ہاتھوں سے چھوسکتا، اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا، یا اپنے کانوں سے اسے سن سکتا، یا اپنی زبان سے اسے چکھ سکتا۔
وہ تمام چیزیں جن پر انسان کو ایمان رکھنا چاہئے اُنہیں قرآنِ مجید نے لفظ غیب کے ذریعے بیان کیا ہے۔ }غیب پر ایمان یعنی{ اس بات پر ایمان کہ کچھ حقائق اور سچائیاں ایسی ہیں جو میرے حواس کے دائرے سے باہر ہیں۔ پس میں کس چیز کے ذریعے ان کے وجود کو قبول کروں؟ اس سلسلے میں انسان کو ایک اور راستہ دکھایا گیا ہے، کچھ دلائل انسان کو فراہم کئے گئے ہیں جن کے ذریعے وہ غیب کو قبول کرسکتا ہے۔ البتہ یہ بات بھی واضح ہے کہ قرآنِ مجید میں یہ جو کہا گیا ہے کہ مومنین وہ ہیں جوغیب پر ایمان لاتے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو چیز ایک پوشیدہ امر کے طور پر ہمیں بتائی جائے }اسکے متعلق{ہم کہیں کہ کیونکہ ہم مومن ہیں پس اسے قبول کرتے ہیں۔ مثلاً فلاں عامل آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس جنوں کا ایک لشکر ہے جس میں فلاں فلاں خصوصیات ہیں، اور جو فلاں فلاں کام کرسکتا ہے اور}اسکی یہ باتیں سن کر{ہم کہیں کہ: الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ۔کیونکہ ہم سے غیب پر ایمان رکھنے کو کہا گیا ہے، لہٰذا ہمیں اس عامل کے دعوے پربھی ایمان رکھنا چاہئے۔
وہ غیب کیا ہے}جس پر ایمان رکھنا چاہئے{ قرآنِ مجید کے دوسرے مقامات اورقرآن کے علاوہ بھی دوسرے مصادر میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ ہم نے یہ نہیں کہا کہ غیب کی صورت میں جو بھی دعویٰ کیا جائے اس پر ایمان لایا جائے، بلکہ ہمیں غیب کا منکر نہیں ہوناچاہئے، پوشیدہ حقائق کومسترد کرنے والا نہیں ہونا چاہئے۔
غیب پر ایمان لانے کا راستہ
اب اگر آپ یہ کہیں کہ انسان کس راستے سے غیب پرایمان لاسکتا ہے، تو ہم عرض کریں گے کہ اس کے چند مرحلے ہیں۔ اس کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ دنیا میں ایسی ہزاروں نشانیاں ہیں جو کم از کم غیب سے انکارکا راستہ تو روک ہی دیتی ہیں۔ یعنی انسان کو غیب کے انکار کے مرحلے سے اس پر شک کے مرحلے میں داخل کردیتی ہیں۔ آج معلوم ہوچکا ہے کہ ہماری اسی محسوس اورملموس دنیا میں ہزاروں ایسی چیزیں موجود ہیں جنہیں ہم محسوس نہیں کرتے، لمس نہیں کرتے، اپنے ان حواس سے انہیں درک نہیں کرتے۔آپ کی خدمت میں ایک بہت واضح مثال عرض کرتے ہیں:
قدیم زمانے میں فضا میں موجود لہروں میں سے لوگ جس صرف ایک لہرکو پہچانتے تھے، وہ آواز کی لہر تھی ۔ آواز کے باب میں زمانۂ قدیم سے علما کے درمیان بحث رہی ہے۔ ایک انسان بولتا ہے اور دوسرا سنتا ہے، ایک پتھر سے دوسرا پتھر ٹکراتا ہے اور اسکی آواز انسان کے کانوں تک پہنچتی ہے، آخر یہ کیسے ہوتا ہے؟ کہتے تھے کہ یہ ہوا جسے آپ یہاں محسوس کرتے ہیں، اور کبھی کبھی اس کے وجود کو حرکت کرتے ہوئے یا کسی اور وقت درک کرتے ہیں، یہ پانی کی طرح ہے۔ جس طرح آپ پانی کو اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں کہ اس میں لہر پیدا ہوتی ہے، اور جب آپ ایک پتھر پانی کے حوض میں پھینکتے ہیں تو وہ لہر پیدا کرتا ہے، جو پھیلتی جاتی ہے اور وہ جتنا زیادہ پھیلتی ہے اتنی ہی کمزور ہوتی چلی جاتی ہے، اسی طرح جب آپ گفتگو کرتے ہیں یا دو پتھر ٹکراتے ہیں، تو ہوا میں ایک لہر پیدا ہوتی ہے اور یہ لہر آپ کے کان میں داخل ہوتی ہے۔ وہاں ایک سسٹم موجود ہے، ایک پردہ ہے، ہڈی ہے، اعصاب ہیں جو حرکت میں آتے ہیں، نتیجتاًآپ آواز نام کی ایک چیز کو درک کرتے ہیں۔ اب انسان آواز کی ان لہروں کے بارے میں اس سے زیادہ معلومات نہیں رکھ سکتا تھا۔
آج انہی حسی علوم کے ذریعے، یعنی اُن قرائن کے ذریعے جنہیں انہی حسی علوم نے انسان کو فراہم کیا ہے، یہ معلوم ہوچکا ہے کہ آواز کی لہروں کے علاوہ دوسری ایسی لہریں بھی ہیں جنہیں بنیادی طور پرآواز کی لہروں کے ساتھ نسبت نہیں دی جاسکتی، اورحتیٰ نہ ہمارے کان اورنہ ہمارے حواس میں سے کوئی اور حس ان لہروں کے ادراک کی قدرت رکھتی ہے، لیکن یہ لہریں موجود ہیں۔ جیسے بجلی کی لہریں، وہ لہریں جو ریڈیو نشر کرتے ہیں، اور ان لہروں کو وصول کرنے والا آپ کا ریڈیواُنہیں آواز کی لہروں میں تبدیل کردیتا ہے۔ جو لہریں ریڈیو اسٹیشن نشرکرتا ہے، وہ آواز کی لہریں نہیں ہوتیں۔ اگر یہ آواز کی لہریں ہوں، تومثلاً جس وقت یہ تہران میں نشر ہوں، توانہیں خراسان تک پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹہ یا شایداس سے بھی زیادہ وقت لگے۔ کہتے ہیں کہ اگرآواز کی لہریں قم اور تہران کا درمیانی فاصلہ یعنی۲۴ فرسخ }تقریباً ۷۲ میل{ طے کرنا چاہیں، توانہیں تقریباً ۲۰ منٹ لگیں گے۔ ان کی رفتار برقی لہروں کے مقابلے میں انتہائی سست ہے ۔ مثلاً میں جو یہاں تقریر کر رہاہوں، اگر یہاں دو سو میٹر کے فاصلے پر ایک لاؤڈاسپیکر بھی لگاہوا ہواور اُس سے بھی آواز آرہی ہو اور آپ میری آوازبھی سن رہے ہوں اور لاؤڈ اسپیکر کی آوازبھی، تو اس صورت میں آپ کوالفاظ ذرا وقفے سے سنائی دیں گے، یعنی آپ پہلے ایک لفظ براہِ راست مجھ سے سنیں گے، اور پھر وہی لفظ ایک لمحے کے وقفے سے لاؤڈ اسپیکر سے سنیں گے۔ یعنی لاؤڈاسپیکر سے نکلنے والی آواز کی لہریں آپ تک پہنچنے میں کچھ وقت لیتی ہیں۔ لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ جب ریڈیو میں بولا جارہا ہوتا ہے، تو آپ اسی لمحے سن رہے ہوتے ہیں۔ یا جب ٹیلی فون پر مثلاً خراسان بات کر رہے ہوتے ہیں، تو گویا ایسے ہوتا ہے جیسے وہیں باتیں کر رہے ہیں۔آواز برقی لہروں کی صورت میں، (خواہ تاروں کے ذریعے ہو، یا بغیر تاروں کے) اتنی تیز رفتار سے خراسان جاتی ہے اورپھر اسی تیزرفتار سے یہاں واپس آجاتی ہے۔
مشہور کہاوت ہے، کہتے ہیں کہ برطانیہ کے مشہور گھڑیال کی آواز کوخود اس چوک }جس پر یہ گھڑیال نصب ہے{ پر کھڑے لوگوں کی نسبت، دنیا کے دوسرے سرے پر رہنے والے لوگ جلدسن لیتے ہیں ۔یعنی اگرآپ یہاں برطانوی ریڈیوملائیں، تو اس گھڑیال کی آواز ان لوگوں سے پہلے سن لیں گے جو اس وقت برطانیہ میں اسی چوک پر موجود ہوں گے۔ کیوں؟ اس لئے کہ جو لوگ ہوا اور آواز کی لہروں کے ذریعے اس گھڑیال کی آواز سننا چاہتے ہیں، ممکن ہے ان تک اسکی آواز پہنچنے میں ایک یا دو سیکنڈ لگیں، لیکن جو لوگ اس کی آواز کو مثلاً ایران میں برقی لہروں کے ذریعے سن رہے ہیں، ان تک یہ آواز پہنچنے میں ایک سیکنڈ تو دور کی بات ہے، ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے یا شاید دس لاکھ ویں حصے کی دیر بھی نہ لگے۔ نتیجے کے طور پرآپ اس آواز کو وہاں موجودایک برطانوی سے پہلے سن لیں گے۔
یہ لہریں فضا میں موجود ہیں۔
ہم کس حس کے ذریعے انہیں درک کر سکتے ہیں؟
کسی حس کے ذریعے نہیں، صرف علمی قرائن کے ذریعے۔ یہاں تک کہ سائنسدان ان لہروں کو دیکھے بغیر ان کا طول بھی معلوم کرسکتے ہیں۔ پس سرسری طور پر ہم اتنا جانتے ہیں کہ یہ لہریں موجود ہیں۔
انتہائی جاہلانہ بات ہوگی اگرانسان اپنے ایمان اور تصدیق کے دائرے کو محدود کرے اور کہے کہ میں صرف ان چیزوں پر ایمان رکھتا ہوں جنہیں میں براہِ راست اپنی کسی حس سے درک کرتاہوں۔
غیب پر ایمان کے معنی
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے معنی کیا ہیں؟ کیا فقط اتنا ایمان رکھنا کافی ہے کہ ایک غیب ہے، ایک خدا ہے، وحی ہے، ملائکہ اور فرشتے ہیں، آسمانی کتب کا ایک غیبی سرچشمہ ہے، قیامت کا بھی ایک دن ہے؟ اسی طرح یہ ایمان رکھتے ہوں کہ ایک امامِ زمانہ موجود ہیں؟
کیایہی غیب پر ایمان ہے اور یہیں اس کاا ختتام ہوجاتا ہے؟
نہیں، اس سے بڑھ کر ہے۔ غیب پر ایمان اس وقت غیب پر ایمان ہے جب انسان اپنے اور غیب کے درمیان ایک رابطے پر بھی ایمان رکھتا ہو۔ ہم یہ ایمان رکھیں کہ ایسا نہیں ہے کہ غیب ایک الگ چیز ہے اور ہم ایک جداگانہ چیز۔ہمیں غیبی امداد پر بھی ایمان رکھنا چاہئے۔ آپ سورۂ حمد میں پڑھتے ہیں: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اے پوشیدہ اور غائب خدا! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ تجھ ہی سے امداد طلب کرتے ہیں، تجھ ہی سے طاقت طلب کرتے ہیں (یہ مدد طلب کرنا ہے) جس راستے پرہم چل رہے ہیں، وہ طاقت جو تو نے ہمیں عطا کی ہے ہم اسی کو استعمال کر رہے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہر طاقت کا سرا تیرے ہاتھ میں ہے، ہم تجھ سے قوت چاہتے ہیں، تجھ سے مددکے طلبگار ہیں، تجھ سے ہدایت کے طالب ہیں۔
شبِ جمعہ ہے، ہم دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں: یَارَبِّ یَارَبِّ یَارَبِّ، قَوِّ عَلیٰ خِدْمَتِکَ جَوَارِحِیْ وَ اشْدُدْ عَلَی الْعَزِیْمَۃِ جَوَانِحِیْ وَ ھَبْ لِیَ الْجِدَّ فِیْ خَشْیَتِکَ وَ الدَّوَامَ فِی الْاِ تِّصَالِ بِخِدْمَتِکَ۔ اے پروردگار! اے پروردگار! اے پروردگار! میرے اعضا و جوارح کو قوت عطا فرما لیکن اپنی خدمت کی خاطر( اپنے آپ کو خدمت کے لئے آمادہ غلام ظاہر کرتے ہیں، خدا سے مددطلب کرتے ہیں اور اس سے طاقت چاہتے ہیں) نہ صرف اپنے اعضا و جوارح کے لئے قوت چاہتے ہیں، بلکہ اپنے دل، اپنے عزم و ارادے کے لئے بھی تجھ سے قوت طلب کرتے ہیں۔ خدایا! میرے دل کو عزم و ارادہ عطا فرما، میرے ارادے کو مضبوط فرما۔
بنیادی طور پر دعا سے مراد کیا ہے؟ ٹھیک ہے، میں اپنے لئے غیب پر ایمان رکھتا ہوں، خوداپنے لئے؟ نہیں، ایک نکتہ بیان کیا جاتا ہے جو اچھی بات ہے۔ کہتے ہیں کہ دین و مذہب اور فلسفۂ الٰہی کے درمیان جو فرق پائے جاتے ہیں اُن میں سے ایک یہ ہے کہ فلسفۂ الٰہی (البتہ وہ الٰہی فلسفے جنہوں نے مذہبِ اسلام سے مدد نہ لی ہووہ) زیادہ سے زیادہ ایک ایسے خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں جو دنیا سے جداہے اور ایک ایسے غیب کے معتقد ہوتے ہیں جو شہود سے جدا ہے۔ ایک ستارہ شناس انسان کی طرح جو کہتا ہے کہ منظومۂ شمسی میں نیپچون نام کا ایک ستارہ دریافت ہوا ہے، کہکشاں میں فلاں چیز دریافت ہوئی ہے۔بہت اچھا!ہواہے توہوا کرے، میرا اس سے کیا تعلق؟ لیکن دین میں، اصل حیثیت اس تعلق کو حاصل ہے جو بندے اور خدا کے درمیان، جو ہمارے اور عالمِ غیب کے درمیان برقرار ہوتا ہے۔ دین ایک طرف توہمیں عمل اور کوشش پرابھارتاہے اور (امیر المومنین کے الفاظ میں) خدمت پر، اور دوسری طرف کہتا ہے غیب اور یہاں کے درمیان معنوی تعلق اوررابطے پائے جاتے ہیں۔ تم دعا کرو، تم طلب کرو، تم مددکی درخواست کرو، }اس طرح{ تم ایک پوشیدہ راستے سے، جسے تم خود بھی نہیں جانتے، اپنے مقصد اور نتیجے تک پہنچ جاؤ گے۔ کہتا ہے صدقہ دو، وہ ایک پوشیدہ راستے سے جسے تم نہیں جانتے بلاؤں کو دور کردے گا۔ دعا کرو (البتہ اس کی شرائط ہیں، اگر دعا ان شرائط کے ساتھ کی جائے تو) ایک پوشیدہ راستے سے آپ کے لئے اسکی قبولیت ہو جائے گی۔ ارادہ کرو، اپنے کاموں کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو، آپ دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ ایک مخصوص موقع پر، مشکل گھڑی میں، آپ کے دل میں ایک بات ڈال دے گا۔آپ کو غیب سے مدد پہنچ جائے گئی۔
غیبی امداد کا ایک قاعدہ ہے
البتہ غیبی امداد کی کچھ شرائط ہوتی ہیں، اسکے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم اپنے گھرمیں بیٹھے رہیں اور کہیں کہ اے غیب آ اور میری مدد کر! نہیں، غیبی امداد قانون اور شرائط رکھتی ہے۔ لہٰذا اہم بات یہ ہے کہ ہم غیب پر اور خاص شرائط میں غیبی امداد پر ایمان رکھیں۔
بنیادی طور پر خود وحی غیبی امداد ہے، لیکن اجتماعِ انسانی کے پیمانے پر۔ جس مقام پر انسانی علم، انسانی عقل، انسانی عمل کی دسترس نہیں ہوسکتی، جس مقام پر حس نہیں پہنچ سکتی، عقل او رفکر نہیں پہنچ سکتے، وہاں اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کے ذریعے، جو ”پیغمبر“ کہلاتے ہیں، انسان کی ہدایت و رہنمائی کرتا ہے، اُسے غیب سے مدد پہنچاتاہے۔
وہ مقام جہاں انسان عاجز و ناتواں رہتاہے، اب جبکہ انسان اپنی کوششیں کر چکا ہوتا ہے، اپنا کام انجام دے چکا ہوتا ہے، اب ناتواں ہے، اس کی قدرت میں نہیں ہے، یہ غیبی امداد کا مقام ہے۔
قرآن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرماتا ہے:
وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اﷲِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا
اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے، اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی، تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم جہنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا۔ (سورۂ آلِ عمران۳۔آیت ۱۰۳ )
اے لوگو ! اللہ کی اس نعمت کو فراموش نہ کرو کہ تم( یعنی تم لوگ، تم انسان، نہ صرف تم عرب، بلکہ تمام انسان) ایک انتہائی خطرناک گھاٹی کے کنارے پر پہنچ چکے تھے اور عنقریب یقینی طور پر گرنے والے تھے، کہ ایسے میں خدا نے اس پیغمبر کے ذریعے تمہیں نجات دی، تمہیں آزادی دی، تمہاری گلو خلاصی کی۔ یہ غیبی امداد ہے اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لئے یہ ایمان انتہائی مفید اورمحافظ ہے!
مجھے نہیں معلوم آپ کا سامنا ایسے لوگوں سے ہوا ہے یا نہیں، میرا سامنا ہوا ہے، اور اپنی ذاتی زندگی میں بھی ایسے تجربے مجھے ہوئے ہیں کہ بسا اوقات انسان اس طرح محسوس کرنے لگتا ہے کہ اگر وہ اس راستے پر چلے جسے اللہ نے اس کے لئے معین کیا ہے، تواسکی عقل و فہم اور فکر سے بالاتر کچھ تائیدیں، کچھ غیبی اور خفیہ حمایتیں ہیں جو اس کے لئے کام کر رہی ہیں۔ اس قسم کا ایمان کس قدرانسان کی حفاظت کرتا ہے اور انسانی زندگی کے لئے کتنامفید ہے۔
آیت اللہ بروجردی کی داستان اور مشہد جانا
ایک واقعہ ابھی ابھی مجھے یادآیاہے، اگراسے نہ سناؤں توافسوس رہے گا، مجھے یاد ہے کہ دو ایک مرتبہ اسے اپنی تقریروں میں سنا بھی چکا ہوں۔یہ قصہ آیت اللہ بروجردی (اعلیٰ اللہ مقامہ) سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کے قم آنے سے پہلے ہی میرے ان سے ارادت پر مبنی قریبی تعلقات تھے۔میں بروجرد گیا تھااور وہاں ان کی خدمت میں ہوا کرتا تھا۔ وہ حقیقتاً ایک متقی اور سچے موحد انسان تھے۔ آپ حضرات یہ نہ کہئے گا کہ جو کوئی بھی مرجع تقلید بنے گا وہ موحد تو ہوگا۔ توحید کے بھی درجات ہیں۔جی ہاں، اگر ہم اورآپ سے موازنہ کیا جائے، تو مراجع تقلید ہماری اورآپ کی توحید سے کہیں زیادہ بلند درجے پر توحید کے حامل ہوتے ہیں، لیکن جب میں موحد کہتا ہوں، تو ایک بہت عالی درجے کے بارے میں کہہ رہاہوتاہوں۔ وہ ایسے شخص تھے جو اپنی زندگی میں توحید کولمس کرتے تھے، انہیں خدا کی مدد وحمایت پرعجیب انداز کابھروسہ اور اعتماد تھا۔ قم میں آمدکا اُن کاپہلا سال تھا، وہ مشہد جانے کا ارادہ رکھتے تھے، شاید انہوں نے منت سی مانی ہوئی تھی۔جس وقت وہ بیمار ہوئے تھے (وہ مشہور بیماری جس میں آپریشن کی ضرورت پیش آئی تھی اور اُنہیں بروجرد سے تہران لاکر آپریشن کیا گیا تھااور بعد میں علمائے قم کی درخواست پر وہ قم تشریف لے گئے) انہوں نے دل میں نذر کی ہوئی تھی کہ اگر خدا انہیں شفا عنایت فرمائے، تو وہ امام رضا علیہ السلام کی زیار ت کے لئے جائیں گے۔ چھ ماہ قم میں رہنے کے بعد، گرمیاں آگئیں، توانہوں نے مشہد جانے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن انہوں نے اپنے دوستوں اور اصطلاحاً اپنے اصحاب سے ذکر کیا کہ ”میں مشہد جاناچاہتا ہوں، آپ میں سے جوکوئی میرے ساتھ چلناچاہتا ہے، وہ بتا دے“۔ اصحاب نے کہا، ٹھیک ہے، ہم آپ سے عرض کردیں گے۔ ان کے ایک خاص ساتھی، جو اس وقت ایک مرجع تقلید ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ ہم حلقہ بنائے بیٹھے ہوئے تھے، بحث کر رہے تھے، سوچ رہے تھے کہ آقائے بروجردی کا مشہد جانا خلافِ مصلحت ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہم انہیں جانتے تھے، لیکن اُس زمانے میں ابھی تہران کے لوگ انہیں نہیں جانتے تھے، خراسان کے لوگ اُن سے واقف نہیں تھے، اورمجموعی طور پر ایران کے لوگ انہیں نہیں پہچانتے تھے، لہٰذا وہ عزت و احترام جس کی یہ عظیم ہستی حقدار ہے، وہ نہیں ہوگا۔ابھی رہنے دیں، دو ایک سال اور یہیں رہیں۔ اپنی نذر کے لئے انہوں نے صیغہ تو پڑھا نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ نذرِ شرعی ہوگئی ہو، اپنے دل ہی میں انہوں نے یہ نیت کی ہے۔ جب وہ مشہور ہوجائیں اور ایران کے لوگ انہیں پہچاننے لگیں، تو اپنے شایانِ شان عزت واحترام کے ساتھ تشریف لے جائیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اگرانہوں نے دوبارہ فرمایا، تو ہم ان کو اس ارادے سے باز رکھیں گے۔
چند دن بعد محفل کے دوران آیت اﷲ بروجردی نے دوبارہ فرمایا:آپ لوگوں میں سے کون میرے ساتھ چلے گا؟آپ کے تما م دوستوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ کیا۔ کسی نے کہا: حضورآپ ابھی ابھی بیماری سے اٹھے ہیں (اس وقت صرف گاڑی ہواکرتی تھی، ہوائی جہاز نہیں تھا) آپ کو تکلیف ہو گی، ممکن ہے ٹانکے کھل جائیں۔ دوسرے نے کوئی اور چیز کہی۔ لیکن ایک ساتھی کی زبان سے بات نکل گئی کہ آپ کو کیوں مشہد نہیں جانا چاہئے۔ انہوں نے کوئی ایسا جملہ کہہ دیا جس سے وہ سمجھ گئے کہ یہ لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ میں مشہد نہ جاؤں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ ابھی ایران کے لوگ آپ کو نہیں پہچانتے ہیں، اور جس عزت واحترام کے آپ حقدار ہیں وہ نہیں ہوگا۔ ان صاحب نے مجھے بتایا کہ جیسے ہی آقائے بروجردی نے یہ جملہ سنا، لرزاٹھے (اس وقت ان کی عمر ستر سال تھی) کہنے لگے: میں نے اللہ سے ستر برس کی عمرپائی ہے اور اس مدت میں اللہ نے مجھ پر بہت سے فضل کئے ہیں، اور ان میں سے کوئی ایک فضل بھی میری تدبیر سے نہیں بلکہ تقدیر سے ہوا ہے۔ میں ہمیشہ اس فکر میں رہتا تھا کہ دیکھوں خدا کی راہ میں میری ذمے داری اور فریضہ کیا ہے؟ کبھی بھی اس بات کی فکر نہیں کی کہ میں جس راستے پر چل رہا ہوں، اس پر چلتے ہوئے ترقی کروں گا یا تنزلی، میری شخصیت اونچی ہوگی یا نہیں۔ میری سوچ ہمیشہ یہ تھی کہ اپنی ذمے داری ادا کردوں، آگے جو بھی ہو، وہ تقدیرِ الٰہی ہے۔حیف ہے کہ اب ستر سال کی عمر میں خود اپنے لئے کوئی تدبیر کروں۔ جب میرا خدا ہے، جب مجھ پر خدا کی عنایت ہے، جب میں اپنے آپ کو ایک بندے اور ایک فرد کی صورت میں دیکھتا ہوں، تو خدا بھی مجھے فراموش نہیں کرے گا۔ نہیں، میں}مشہد{ جاؤں گا۔
ہم نے دیکھا کہ جب یہ مردِ الٰہی فوت ہوا، روز بروز خدا نے ان کی عزت میں اضافہ کیا۔ کیا آیت اللہ بروجردی کی نعوذ باللہ خدا سے کوئی رشتے داری تھی جو ان پر اللہ کا فضل و عنایت ہوئی؟ ہرگز نہیں، افراد کے لئے، معاشرے کے لئے اور انسانیت کے لئے خدا کی امداد کا ایک قاعدہ ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہدئموعود }عجل اﷲ فرجہ الشریف {کے بارے میں فرمایاہے:
یَُبْعَثُ فِیْ اُمَّتِیْ عَلَی اخْتِلافٍ مِنَ النَّاسِ وَ زَلَازِلَ ۔۔۔یَرْضیٰ عَنْہُ سَاکِنُ السَّمَاءِ وَ سَاکِنُ الْاَرْضِ وَ یُقَسِّمُ الْمَالَ صِحَاحاً۔ قَالُوا: وَ مَا صِحَاحاً یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! قَالَ: یُقَسِّمُ بَیْنَہُمْ بِالسَّوِیَّۃِ(۲)۔
(میں تمہیں مہدی کی بشارت دیتا ہوں)جسے اس وقت بھیجا جائے گا جب لوگ اختلاف اور زلزلوں میں مبتلا ہوں گے۔۔۔ اہلِ آسمان اور اہلِ زمین ان سے خوش ہوں گے ۔وہ مال کو صحیح طریقے سے تقسیم کریں گے ۔ایک شخص نے دریافت کیا:صحیح طریقے سے کیا مراد ہے؟فرمایا:ان کے درمیان مساوی طور پر مال تقسیم کریں گے۔(منتخب الاثر۔ف۲۔ب۱۔ح۱۴)
خدا نے دنیا کو کبھی لاوارث نہیں چھوڑ ا ہے، اور لاوارث چھوڑے گا بھی نہیں۔ جس وقت دنیا ایسے مقام پر پہنچے گی کہ واقعاً انسانیت کو خطرہ لاحق ہوگا، تو خدا انسانیت کو ایک انسان کے ذریعے نجات دے گا۔
روشن فکر حضرات میں دنیا کے مستقبل کے بارے میں بد گمانی
کیا آپ جانتے ہیں کہ آج دنیا کے روشن فکرحضرات میں انسانیت کے مستقبل کے بارے میں کتنی بدگمانی پیدا ہوچکی ہے، اور کیاآپ واقف ہیں کہ یہ بدگمانی ظاہری علل و عوامل کے لحاظ سے درست بھی ہے؟
ہم مسلمان اس نعمت کے قدرشناس نہیں ہیں کہ آج بھی سو سال پہلے کے لوگوں کی طرح کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی مثلاًمزید پانچ سو سال تک، مزید ہزار سال تک رہے گی اور شاید مزید ایک لاکھ سال بھی رہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ انسانی زندگی نہ ہوگی، اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ انسانیت ختم ہورہی ہے۔ لیکن آج دنیا کے کچھ اصطلاحاً روشن فکر حضرات (ان ہی میں سے ایک رسل، اپنی کتاب امید ہائے نو میں) اس بات کے معتقد ہیں کہ انسانیت نے اپنا وقت پورا کرلیا ہے، اور اس کے خاتمے کا وقت قریب آپہنچا ہے۔
ایک اور شخص جو انسانیت کے مستقبل کے بارے میں ایسی ہی بدگمانی کاشکارہے وہ آئن اسٹائن ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بہت قوی امکان ہے کہ انسان ایک حیرت انگیز مہارت کے ذریعے اپنے آپ کو مکمل طور پر نابود کرلے گا۔ کیونکہ پیداوار کے لحاظ سے تخریبی قوتیں ایسے مقام پر پہنچ چکی
ہیں کہ انہوں نے انسایت کو ختم کرنے کی طاقت حاصل کرلی ہے۔ ماضی میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی۔
گزشتہ زمانے میں خطرناک ترین شخص، محبوب ترین افراد، اگراُن کے پاس اُس زمانے کی سب سے بڑی قوت بھی ہوتی تھی، تووہ کیا کرسکتے تھے؟ مثلاً ایک لاکھ یا پچاس ہزار انسانوں کو قتل کردیا کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے: واہ واہ! دیکھو، حجاج بن یوسف نے تیس ہزار افراد کو قتل کیا! وہ اس سے زیادہ افرادکو قتل نہیں کرسکتا تھا۔ اس زمانے کی ترقی اس سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ آخر تلوار اور جلاد کی طاقت سے گردن اڑا کر، پیٹ چاک کرکے، کتنے لوگوں کو مارا جاسکتا تھا؟ اگر انسان بیس سال بھی حکومت کرے، اور روزانہ تین چار آدمیوں کو بھی قتل کرے، تو تیس ہزار سے زیادہ تو نہیں ہوسکتے۔ یا روم کا وہ خونخوار بادشاہ سیزر، زیادہ سے زیادہ کیا ظلم کرسکتا تھا؟ فطرتاً قسی القلب ہو تب بھی، جاتااور ایک بلندی پر کھڑا ہوتا اور کہتا کہ اس شہر کوجلا کر راکھ کر دو۔ شہر کو آگ لگا دی جاتی، اس کی حدت شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی، اور وہ یہ دیکھ کر لطف اندوز ہوتا۔ لیکن کیا وہ پوری دنیا کوآگ لگا سکتا تھا؟ ہرگز نہیں۔ پھر کیا اس دور میں جس شہر کوآگ لگائی جاتی کیا وہ تہران جتنا بڑا ہوسکتا تھا؟ ہرگز نہیں۔ اس زمانے کے وسائل اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔تہران کی مانند وسعت اور عظمت رکھنے والا شہر اور اس سے بھی بڑے شہر جدید ترقی کی پیداوار ہیں۔ لیکن آج انسان ترقی میں ایک ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اگر کوئی سیزر پیدا ہوجائے، دنیا کی کوئی سپر طاقت پیدا ہوجائے اور کسی کے دماغ پر ایک لمحے کے لئے جنون طاری ہوجائے، تو پوری انسانیت تباہ وبربادہوجائے۔
جرمن چانسلر نے کہا ہے کہ اگر تیسری عالمی جنگ چھڑ گئی، تو نہ کوئی غالب رہے گا اور نہ کوئی مغلوب۔ اب تک جنگوں میں ایک غالب ہوتا تھا اور ایک مغلوب ۔لیکن اگر دنیا کی سپر طاقتوں کے درمیان ایک اور عالمی جنگ چھڑ گئی، تو نہ کوئی غالب ہوگا اور نہ مغلوب۔یعنی غالب اور مغلوب دونوں ختم ہوجائیں گے۔
واقعاً، ظاہری حالات کو دیکھتے ہوئے کونسی بات صحیح ہے؟
بدگمان لوگوں کی بات صحیح ہے ۔ اگر ہم دیکھیں توواقعاً آج دنیا بارود کے ڈھیر پر کھڑی ہے، بارود کے ڈھیر سے بھی زیادہ خطرناک (اب بارود کی حیثیت کیا ہے؟ بارود کے ڈھیر سے سو گنا زیادہ خطرناک) اور اس کا خاتمہ چند بٹن دبانے کا محتاج ہے۔ لہٰذا انہی لوگوں کی بات درست ہے جو دنیا کے مستقبل کی طرف سے بدگمان ہیں۔ سچ کہ ظاہری علل واسباب کے اعتبار سے کوئی دلیل بھی نہیں ہے کہ ہم بدگمان نہ ہوں۔ بدگمان ہونا بھی چاہئے۔ہمیں اس بات کی امید نہیں رکھنی چاہئے کہ ہمارے بچے ایک طبیعی اور معمول کی عمرپائیں گے اور اپنے بچوں کو دیکھیں گے۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ انسان چاند پر جا رہا ہے۔ہمارا خیال ہے کہ وہ رفتہ رفتہ وہاں سکونت اختیار کرلے گا اور اگر کسی جنونی کا دماغ چل گیا، تووہ وہاں سے زمین کو نابود کردے گا۔ صرف ایک چیز ہے، اوروہ دین سے حاصل ہونے والاسبق ہے: الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْب۔ ہم کہتے ہیں، البتہ ماضی میں انسانیت کے لئے چھوٹے پیمانے پر( قبیلے یا ملک کی سطح پر) یا کچھ زیادہ بڑے پیمانے پر (ایک بڑے علاقے کے لئے) اس قسم کے خطرات پیش آئے ہیں، لیکن دنیا کا ایک مالک ہے، جس کا نام خدا ہے۔ خدا وند عالم نے ایک وسیلے کے ذریعے اسکی حفاظت کی ہے۔ اگر کبھی کوئی خطرہ عالمی پیمانے پر پیش آئے گا، تب بھی لطفِ الٰہی دنیا سے اٹھ نہیں جائے گا۔ گاندھی نے کیا خوب کہا ہے، وہ کہتا ہے: یورپ جنون اور ذہانت کا مجموعہ ہے، وہاں کے غیرمعمولی ذہین افراد جنونی بھی ہیں۔ ان میں ذہانت کے ساتھ ساتھ جنون بھی پایا جاتا ہے۔
روشن مستقبل دین کی نظر میں
دین کی منطق کے لحاظ سے، الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْب کے اعتبار سے، ظاہری اصولوں کے اعتبار سے نہیں بلکہ دینی ذرائع سے حاصل شدہ خبروں کی منطق کے لحاظ سے، ہم کہتے ہیں کہ ہمیں انسانیت کے مکمل طور پر نیست ونابود ہوجانے کی طرف سے کوئی کھٹکا نہیں۔ جو کچھ ماضی میں وقوع پذیر ہوا وہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات کے لئے مقدمہ تھا۔ ہمارے سامنے ایک ایسا مستقبل ہے جس میں اسلامی تعبیر کے مطابق عقلیں کامل ہوجائیں گی۔ حدیث ہے کہ خداوند متعال (یہ نہیں کہا کہ امامِ زمان) اُس زمانے میں اپنا دستِ لطف بندوں کے سر پر رکھ دے گا اور حتیٰ کَمُلَتْ عُقُوْلُہُمْ(۲)۔ انسان اپنی عقل کو پالے گا اور پھراُس سے یہ بے عقلیاں سرزد نہیں ہوں گی۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں عمریں زیادہ طویل اورلوگ مکمل طور پر صحت مند ہوں گے اور کامل امن و امان برقرارہوگا: تَصْطَلِحُ فِیْ مُلْکِہِ السِّباعُ(۳)۔ درندوں کے درمیان صلح ہوجائے گی، کوسیگن اور جانسن(روس اور امریکہ کے سابق صدور) بھی آپس میں صلح کرلیں گے۔ یُخْرِجُ الْاَرْضُ اَفْلَادَ کَبِدِھَا(۴)۔ زمین میں توانائی کے اس قدر ماخذ اور ذخیرے موجود ہیں کہ الی ما شاء اللہ۔ ابھی آپ کو معلوم ہی کیا ہے؟ آپ کہتے ہیں کہ چار پانچ ارب کی آبادی بہت زیادہ ہے؟ نہیں جناب، زمین اس سے بھی زیادہ کو جگہ دے سکتی ہے۔ زمین کے اندر جتنی زیادہ سے زیادہ توانائی ہے، اس میں جو مدفون خزانے موجود ہیں، وہ سب انسان کے حوالے کردے گی، آسمان اپنی برکتوں کی برسات کردے گا۔
جب ہم دینی تعلیمات کی بنیاد پر، ان چیزوں کی بنیاد پر مطالعہ کرتے ہیں اور آج کی روشن کہلائی جانے والی دنیا پر نظر ڈالتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں ہماری مثال اس دنیا کی نسبت جس کی دین ہمیں نوید دیتاہے اور کہتا ہے کہ ایک ایسی دنیا ہمارے انتظار میں ہے (خواہ ہم ذاتی طور پر اسے پا سکیں یا نہ پا سکیں) ان لوگوں کی مانند ہے جو ایک سرنگ عبورکر رہے ہوں، وہ سرنگ بذاتِ خود تو تاریک ہو لیکن مصنوعی چراغ اس کے اندر نصب کئے گئے ہوں۔ اورجب وہ اس سرنگ سے باہر نکلیں تو ایک بہت کھلی اور قدرتی طور پرروشن فضا میں پہنچ جائیں، جہاں صحیح معنی میں عدالت برقرار ہو گا، جہا ں صحیح معنی میں امن و امان قائم ہو گا، جہاں سچی آزادی میسر ہو گی، توحید اپنی حقیقت کے ساتھ طلوع کرے گی، ظاہر ہوگی اور دنیا کو روشن کرے گی۔ اِعْلَمُوْآ اَنَّ اﷲَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۔ (یاد رکھو کہ خدا مردہ زمینوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ سورۂ حدید ۵۷۔آیت۱۷)
قرآن کہتا ہے کہ: جان لو کہ خدا اسی مردہ زمین کو بہار کے موقع پر زندہ کرتا ہے۔ ہماری احادیث میں اس آیت کی تفسیر اس طرح کی گئی ہے کہ یہ بات اس خاکی زمین سے مختص نہیں ہے، انسانی معاشرے کی زمین بھی اسی طرح سے ہے۔اگرآپ دیکھیں کہ ایک دن فساد پورے عالم پر چھا گیا ہے: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ۔ (لوگوں کے اپنے اعمال کی بنا پر فساد خشکی اور تری ہر جگہ چھا گیا ہے۔ سورۂ روم۳۰۔ آیت۴۱) اگر پوری دنیا اس طرح مر جائے جیسے موسمِ خزاں میں درخت اور پودے مر جاتے ہیں، تب بھی مایوس نہ ہونا۔ یہ نہ کہنا کہ دنیا پر خزاں چھاگئی ہے، اب کبھی بہار نہیں آئے گی۔ نہیں، بہار ضرورآئے گی۔
یہ ہیں الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے معنی، غیب پر ایمان اور غیبی اور خفیہ امداد پر ایمان کے معنی۔ البتہ یہ امداد فرد کے لئے انفرادی سطح پر، ایک چھوٹی سوسائٹی کے لئے اس کی سطح پر اور عالمِ انسانیت کے لئے عالمی سطح پر ہوتی ہے۔مکمل عدالت، مکمل امن وامان، مکمل بر کت، مکمل رفاہ، مکمل آسائش، مکمل خیر اور مکمل ترقی کے ساتھ ایک واحد عالمگیر حکومت قائم ہوگی۔
اپنی عرائض کے اختتام پرہم دعائے افتتاح کے ان جملوں کوپڑھتے ہیں جو شاید آپ میں سے اکثر کو حفظ ہوں:
اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَرْغَبُ اِلَیْکَ فِیْ دَوْلَۃٍ کَرِیْمَۃٍ، تُعِزُّ بِھَا الْاِسْلَامَ وَاَھْلَہُ وَتُذِلُّ بِھَاالنِّفَاقَ وَ اَھْلَہُ وَ تَجْعَلُنَا فِیْھَا مِنَ الدُّعَاۃِ اِلیٰ طَاعَتِکَ وَالْقَادَۃِ اِلیٰ سَبِیْلِکَ وَ تَرْزُقُنَا بِھَا کَرَامَۃَ الدُّنْیَاوَالْآخِرَۃِ۔ (۵)
خدا یا! ہم تجھے اس شب کے صاحب کے حق کی قسم دیتے ہیں کہ ہمیں اہلِ ایمان میں سے
اوراُن کے فرج کے سچے منتظرین میں سے قرار دے۔
ہمیں دامنِ ولائے اہلِ بیت اور ان کی حقانیت پر ایمان سے دور نہ فرما۔
خدایا! ہمیں دین مقدسِ اسلام کے حقائق سے آشنا فرما۔
ہم سب کو عمل کی توفیق اور نیت کا خلوص عنایت فرما۔
وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ۔
۱۔یعنی دیکھنے، سننے، چھونے، ذائقہ لینے اور سونگھنے کی حس۔
۲۔ منتخب الاثر۔ف۷۔ب۱۲۔ح۱
۳۔ منتخب الاثر۔ف۹۔ب۱۔ح۲
۴۔ منتخب الاثر۔ف۲۔ب۱۔ح۷۸
۵۔ بارِالٰہا! ہم تجھ سے ایک ایسی محترم حکومت کی آس لگائے ہوئے ہیں جس کے ذریعے اسلام ومسلمین عزت حاصل کریں اور نفاق اور منافقین ذلیل ہوجائیں۔اور ہمیں اس حکومتِ حق میں اپنی طرف دعوت دینے والا قرار دے اور اپنے راستے کی طرف قیادت کرنے والا بنا دے اور ہم کو دنیا اور آخرت کی بزرگی عنایت فرما۔(اقتباس از دعائے افتتاح)