معنوی آزادی

موضوعِ گفتگو مکتبِ انسانیت ہے۔ انسان ہماری اس معلوم دنیا کاوہ واحد وجود ہے جو جستجواور تحقیق کرتا ہے، وہ خود ہمیشہ اپنا موضوعِ بحث اور عنوانِ تحقیق رہا ہے۔ یعنی وہ مسائل جن پر انسان ہمیشہ بحث وگفتگوکرتا رہا ہے، اُن میں سے ایک مسئلہ وہ خود رہا ہے۔

لفظ ”انسانیت“ کا مفہوم ہمیشہ ایک قسم کے تقدس اورعظمت کا حامل رہا ہے، اسی طرح انسان کے وہ امتیازات جو حیوان سے برتر ہیں، جیسے علم، عدالت، آزادی اور اخلاق کو بھی مقدسات کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پس انسان اور انسانیت کوعام طور پر ایک مقدس امر شمارکیا گیا اور کیا جاتا ہے۔ یعنی متعدد انسانی مقدسات میں شک وشبہ کیا گیا ہے اور حتیٰ بعض کا انکار بھی کیا گیا ہے، اسکے باوجود بظاہر اب تک دنیا میں کوئی ایسا مکتب (school of thought) پیدا نہیں ہوا ہے جو عملی طور پر انسانیت کے خاص امور کو، انسان کے حیوانیت سے بلندتر پہلوؤں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے اور ان کو مقدس شمار نہ کرے۔ ہمارے اپنے مولانا روم کی ایک مشہور غزل ہے، جس کا ذکر کرنا مناسب ہے:

بنمای رُخ کہ باغ وگلستانم آرزوست
بگشای لب کہ قندِ فراوانم آرزوست

یعقوب وار وا اسفاھا ہمی زنم
دیدارِ خوبِ یوسفِ کنعانم آرزوست

زین ہمرہان سست عناصر دلم گرفت
شیرِ خدا و رُستمِ دستانم آرزوست

دی شیخ باچراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دیو و دد ملولم و انسانم آرزوست

گفتم کہ یافت می نشود گشتہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشودآنم آرزوست(۱)

اور شیخ سعدی نے اپنی ”طیبات“ (سعدی کی عرفانی غزلیں) میں ان کی تائید یا ان کا جواب دینے کے لئے کہا ہے:

از جان برون نیامدہ جانانت آرزوست
زُنّار نابریدہ و ایمانت آرزوست

مر دیدہ ای و ہمت مردی نکردہ ای
وآنگاہ حق سفرۂ مردانت آرزوست

فرعون وار لاف انا الحق ہمی زنی
آنگاہ قُربِ موسیٰ عمرانت آرزوست(۲)

بہرحال انسانی ادبیات کا ایک اہم حصہ (خواہ وہ دینی ادب ہو یا غیر دینی ادب) انسانیت اور اس کے احترام کے مسئلے پر مشتمل ہے۔ بطورِ خاص جس اسلامی ادب سے ہم واقفیت رکھتے ہیں (خواہ وہ عربی میں ہو یا فارسی میں) اس میں اس حوالے سے بہت سی باتیں موجود ہیں۔

حالیہ صدیوں میں انسانیت کا زوال

حالیہ صدیوں میں سائنس کی عظیم ترقی کے ساتھ، یکلخت انسانیت اپنے اُس مقامِ تقدس سے گر گئی جس کاقدیم انسان}اسکے بارے میں{ قائل تھا۔ ایسی گری کہ کرچی کرچی ہوگئی۔ کیونکہ جو چیز جتنی بلندی پر ہوگی، جب گرے گی تویہ گرنااسے اتنا ہی ریزہ ریزہ کر دینے والا ہوگا۔ انسان بالکل نیم خدائی کے مقام تک پہنچ گیا تھا۔ ہماری ادبیات میں انسان کے اس نیم خدائی مقام کا کس قدر ذکر کیا گیا ہے:

طائر گلشن قدسم چہ دَہَم شرحِ فراق
کہ در این دامگہ حادثہ چون افتادم(۳)

اور حافظ کہتے ہیں:

تورا ز کنگرۂ عرش می زنند صفیر
ندانمت کہ در این دامگہ چہ افتادہ است(۴)

گزشتہ دو تین صدیوں میں انسان اپنے اس عظیم اور بلند مقام سے، جسے اس نے اپنے لئے فرض کیا ہوا تھا، یکایک گر گیا۔ ایسا گرنا جو کرچی کرچی کردیتاہے۔ انسان نے جو اوّلین اکتشافات کئے }اُن میں سے ایک{ ہیئتِ عالم کے حوالے سے تھا۔ جو کچھ زمین کے بارے میں پہلے اس کا تصور تھا، جس کے تحت وہ زمین کوکائنات کا مرکزسمجھتا تھا اورخیال کرتا تھا کہ افلاک اور ستارے زمین کے گرد گردش کرتے ہیں، یہ تصوراچانک بدل گیا اور اب زمین ایک چھوٹا سا ستارہ بن گئی جسے سورج کے گرد گھومنا ہے، اور پھر خود سورج کو بھی ستاروں کی دنیا میں کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں رہی۔

اس موقع پر یہ نظریہ شدید شکوک وشبہات اور انکار کا نشانہ بنا کہ انسان دائرۂ امکان کا مرکز اور تخلیقِ کائنات کا ہدف ہے۔اب کسی میں یہ باتیں کرنے کی جرأت نہیں تھی کہ:اے مرکزِ دائرۂ امکان، اے زبدۂ عالمِ کون و مکان! تو جواہرِناسوت کابادشاہ ہے، تو مظاہرِلاہوت کا خورشیدِ پُرنور ہے۔اب کہا جانے لگا کہ : نہیں، ہم جیساانسان کے بارے میں سمجھتے تھے، وہ ایسا نہیں ہے۔ انسان اس علمی چوٹ کے نتیجے میں کائنات میں اپنی مرکزیت کے اس تصور سے، جسے اس نے ستاروں اور افلاک کے لئے زمین کی مرکزیت کے ساتھ نتھی کردیا تھا محروم ہوگیا۔

اس کے بعد انسانی پیکر پر مزید انتہائی پارہ پارہ کر دینے والی ضربیں بھی لگیں۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ انسان اپنے آپ کو ایک تقریباً آسمانی مخلوق سمجھتا تھا، خلیفۃ اللہ سمجھتا تھا، نفخۂ الٰہی سمجھتا تھا اور اس کا اعتقاد یہ تھاکہ اس کے پیکر میں روحِ خدا پھونکی گئی ہے جس سے وہ وجود میں آیا ہے۔

انواع میں تبدیلی اور ارتقا کے مسئلے پر حیاتیاتی تحقیقات نے یکایک انسان کا سلسلۂ نسب ان حیوانات کے ساتھ ملادیا جنہیں انسان بہت پست اور حقیر سمجھتا تھا۔ اس نے کہا: اے انسان! تو بندر کی نسل سے ہے، یا فرض کر کہ بندر کی نسل سے نہیں ہے تو دوسرے جانوروں کی طرح کسی اور حیوان کی نسل سے ہے۔ مختصر یہ کہ تیری اور حیوانات کی نسل یکساں ہے۔ اس طرح انسان سے خدائی مولود کا پہلو چھین لیا گیا۔ یہ انسان کے پیکر اور انسان کے تقدس پر پڑنے والی دوسری کاری ضرب تھی۔

انہی انتہائی مؤثر ضربوں میں سے ایک اور انتہائی مؤثرضرب وہ تھی جو انسان کے بظاہر درخشاں ماضی، اس کے نامۂ عمل اور اس کے افعال پر پڑی۔ یعنی انسان اپنی سرگرمیوں کے ذریعے اس بات کا اظہار کرتا تھا کہ وہ ایسے پاک اور خدائی کام انجام دے سکتا ہے، جن میں عشقِ الٰہی کے سوا کوئی اور محرک نہ ہو، احسان اور نیکی کے سوا ان کا کوئی اور سبب نہ ہو، وہ کوئی حیوانی اور عامیانہ پہلو نہیں رکھتے۔ اچانک ایسے تصورات سامنے آئے اور ان میں یہ ظاہر کیا جانے لگا کہ نہیں، انسان نے اپنے لئے جس انتہائی مقدس اور پاک و پاکیزہ نامۂ عمل کو تیار کیا ہے، وہ ایسانہیں ہے۔ وہ تمام سرگرمیاں جنہیں انسان نے علم دوستی اور علم طلبی کا نام دیا ہے، آرٹ اور حُسن کا نام دیا ہے، اخلاق اور ضمیر کا نام دیا ہے، تسبیح و تقدیس و تعالی کا نام دیا ہے اور انہیں ماورائے طبیعت حیثیت دے رکھی ہے، یہ سب اسی قسم کی سرگرمیاں ہیں جو حیوانات سے بھی ظاہر ہوتی ہیں، لیکن انسان میں اس کی شکل اور اس کا میکانزم نسبتاً پیچیدہ ہے۔ ایک نے کہا کہ: ان سب کا سرچشمہ پیٹ ہے۔ ہمارے سعدی نے بھی کہا ہے: ”مایۂ عیش آدمی شکم است“ دوسروں نے اس سے بڑھ کر کہا کہ: نہیں نہ صرف انسان کا مایۂ عیش پیٹ ہے بلکہ انسان کامایۂ فکر بھی پیٹ ہے، انسان کامایۂ دل بھی پیٹ ہے۔ اور کچھ لوگوں نے تو انسان کے لئے اس مقام کو بھی بہت بڑا اوراونچا سمجھا۔ لہٰذا وہ کچھ نیچے آگئے اور بولے: پیٹ سے بھی کچھ نیچے۔

پس شاندارماضی اورقابلِ تقدیس و تمجید سرگرمیوں کے اعتبار سے، ان ضربوں کے نتیجے میں انسان کی حیثیت خراب ہوئی اورختم ہوگئی۔رفتہ رفتہ صورتحال یہ ہوگئی کہ کہا جانے لگا کہ: آئیے ذرانئے سرے سے اس مخلوق کا جائزہ لیتے ہیں، یہ مخلوق جو ایک دن اپنے آپ کو دنیا کا مرکز اورکائنات اور خلقت کو اپنا طفیلی سمجھتی تھی اورخودکو روحِ الٰہی کا ایک نمونہ سمجھا کرتی تھی، یہ مخلوق جو کبھی کبھی اپنے افعال کو غیر معمولی تقدس کا حامل بھی سمجھتی تھی، اپنے بارے میں حیوانی پہلوؤں سے بڑھ کر کی قائل تھی، بنیادی طور پر ہے کیا؟ اس کاپیکرکس چیز سے بنا ہے؟

پھر ایک ایسا مفروضہ سامنے آیاجس کے مطابق اتنے دعوے کرنے والی اس مخلوق اور نباتات حتیٰ جمادات کے درمیان بھی تاروپود کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ ہماری بناوٹ اور ہماری شکل اور نظم کے اعتبار سے فرق ضرور ہے، لیکن تاروپود کے اعتبار سے اور اس مادّے کے اعتبار سے جو اسے وجودمیں لایاہے، کوئی فرق نہیں ہے۔ بالکل کھدّر اورفاستونی(۵) کپڑے کی طرح، جودونوں ہی بنائے تو سوت ہی سے جاتے ہیں لیکن کھدّرسخت دھاگے اور موٹی بُنائی سے بنایا جاتا ہے، جبکہ فاستونی کپڑا نرم دھاگے اور باریک بُنائی کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے۔

جی ہاں، انسان اور نبات یا جماد کے درمیان ظرافت، بناوٹ اور دوسری بہت سی چیزوں میں فرق ضرور ہے لیکن اُس مادّے میں جو انہیں وجودمیں لایا ہے، کوئی فرق نہیں ہے۔ اب روح اور نفخۂ الٰہی کا وجود ختم ہو کے رہ گیا ۔ انسان دوسری مشینوں کی طرح ایک مشین ہے، یعنی مختلف قسم کی مشینوں میں سے ایک مشین ہے۔ البتہ ایک مشین دوسری مشین سے مختلف ہوتی ہے ۔ جو گھڑی آپ کے ہاتھ اور میری جیب میں ہے، یہ بھی ایک مشین ہے اور سائیکل بھی ایک مشین ہے، گاڑی بھی ایک مشین ہے، اپولو بھی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں تیس یا پچاس لاکھ پرزے استعمال ہوتے ہیں، وہ بھی ایک مشین ہے، البتہ نسبتاً بہت ہی زیادہ پیچیدہ اور بڑی مشین۔ لیکن اس حوالے سے اس بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ یہ بھی دوسری مشینوں کی طرح ایک مشین ہے اور مشینی حیثیت کے علاوہ اس کی کوئی اورحیثیت نہیں ہے ۔

یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ انسانیت کے پیکر پر پڑنے والی آخری ضرب تھی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجودبھی انسانی اقدار سو فیصدی ختم نہیں ہوئیں، سوائے بعض فلسفوں اور فلسفی نظاموں کے اندر جنہوں نے صلح، آزادی، معنویت، عدالت اور رحمدلی جیسے مفاہیم کا مذاق اڑایا۔

انسانیت کا دوبارہ ظہور اور پیدا ہونے والا تناقض

انیسویں صدی کے وسط سے ہمارے اس زمانے تک، ہم بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ہیں، انسانیت دوبارہ ظہورکر رہی ہے، خودایک بنیادی مقام حاصل کر رہی ہے، ایک بار پھر دنیا میں انسانی مکاتیب کے نام سے، حتیٰ انسان پرستی کی صورت میں مکاتیب پیدا ہورہے ہیں۔ ماضی میں انسان معبود نہیں تھا، ایک بڑی آیت تھا، معنویت کا ایک بہت بڑا دریچہ تھا۔ بے شک قرآن بھی معنویت کے لئے، خدا اور ماورائے طبیعت چیزوں کی معرفت کے لئے، انسان کو کسی بھی دوسری آیت، کسی بھی دوسرے دروازے اورکسی بھی دوسرے دریچے سے زیادہ مناسب سمجھتا ہے: سَنُرِیْہِمْ ٰاٰیتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِہِمْ ۝ (ہم عنقریب اپنی نشانیوں کو تمام اطرافِ عالم میں اور خود ان کے نفس کے اندر دکھلائیں گے۔ سورۂ فصلت ۴۱۔آیت۵۳)}قرآنِ مجید نے{آفاق کا ذکر علیحدہ کیا ہے اور انفس کاذکر لیحدہ اور یہیں سے عارفوں، ادیبوں اور شاعروں کے درمیان ”آفاق“ اور ”انفس“ کی اصطلاح وجود میں آئی ہے۔ وَ فِی الْاَرْضِ ٰایٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَ وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اَفَلااَا تُبْصِرُوْنَ ۝ (اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں، اور خود تمہارے وجود میں بھی، کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔ سورۂ ذاریات۵۱۔ آیت۲۰، ۲۱) غیب او رملکوت کے مشاہدے کے لئے زمین میں نشانیاں، ذرائع، دروازے اور دریچے موجود ہیں اور خود تمہارے وجود میں بالخصوص ( ”تمہارے وجود“ کا ذکر علیحدہ سے کرتا ہے) ”اَفَلااَا تُبْصِرُوْنَ“ کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟ یعنی بصیرت سے کام کیوں نہیں لیتے؟ غور کیوں نہیں کرتے؟ اپنے اندر غور کرو اور دیکھو۔

یہی موجود جو ماضی میں ایک عظیم آیت اورانسان کے اپنے آپ سے گزر کر الٰہی معنویت اورغیب اور ملکوت پر ایمان کی جانب جانے کا دروازہ تھا، ایک مرتبہ پھر موضوع بنا ہے۔ لیکن اس مرتبہ ایک دوسری شکل میں موضوع بنا ہے، ایک ایسی شکل میں کہ محسوس ہوتا ہے اپنے آپ کو تضادات او رتناقضات سے نجات نہیں دے سکا ہے اور اصل مشکل اور اہم مسئلہ یہی ہے۔

یعنی انسانیت نئے سرے سے اپنی قداست، عظمت اورعزت کاحصول چاہتی ہے اور وہ بھی اس طرح سے کہ وہ ہدف اور مقصد بن جائے، تمام سرگرمیوں کی غرض و غایت بن جائے لیکن گزشتہ معیارات کو درمیان میں لائے بغیر، اُسے خدائی اورنا خدائی پہلو دیئے بغیر، مسئلۂ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا(۶) کو درمیان میں لائے بغیر، بنااسکے کہ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ(۷)۔ کا مسئلہ درمیان میں آئے بغیر اسکے کہ خدا نے اپنی روح، یعنی ایک ایسی چیز جس کا تعلق اس دنیا سے نہیں، بلکہ وہ دوسری دنیا سے متعلق ہے، اس میں پھونکی ہے۔ یعنی وہ الوہیت کا ایک مظہر ہے۔ نہیں، اب پھریہ باتیں درمیان میں نہ آئیں، حتیٰ انسانی محرکات کے دوسرے پہلوؤں، اندرونی محرکات اور انسان کے محرک کے بارے میں بھی بات نہ کی جائے۔ لیکن اس کے باوجود انسان اور انسان کا شعور مقدس اور محترم امور ہوں۔

آج بھی آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص کسی بھی مکتب کاماننے والا ہو، وہ کہتا ہے: میں صلح کا حامی ہوں، آزادی کا طرفدار ہوں، انسان دوست ہوں، عدل وانصاف کا حامی ہوں، حق کا طرفدار ہوں، انسانی حقوق کا طرفدار ہوں۔ حتیٰ انسانی حقوق کے چارٹر کا آغاز اس عبارت سے ہوتا ہے: ”انسان کی ذاتی حیثیت کا احترام“۔ یعنی چاہتے ہیں کہ انسان کے لئے ایک ذاتی قابلِ احترام اور لائقِ تقدیس حیثیت کے قائل ہوجائیں جس کے بعد تعلیم و تربیت اس بنیادپر ہو، اس طرح سے کہ میں آپ کو ایک قابلِ احترام اور لائقِ تقدیس ذاتی حیثیت کا حامل سمجھوں، تاکہ آپ کی ذاتی قداست پر ایمان رکھوں اور آپ کے حقوق پر تجاوز کی طاقت رکھنے کے باوجود اس ایمان کی وجہ سے ایسا نہ کروں، اورآپ بھی میرے وجود میں ایسے ہی ذاتی تقدس پر ایمان رکھیں اور میرے حقوق پرتجاوز کی قدرت رکھنے کے باوجود، اس ذاتی تقدس پرآپ کا ایمان اس بات کا باعث بنے کہ آپ میرے حقوق پر، میری آزادی پرتجاوز نہ کریں۔

بہت سے لوگ جو انسان دوستی کے فلسفے کے خواہاں ہیں، وہ گزشتہ معیارات کی بنیاد سے ہٹ کرکوئی فلسفہ چاہتے ہیں۔اسکے باوجود اسی مقام پر وہ اہم اور بنیادی اعتراض سامنے آتا ہے اورزندگی میں بلکہ آج کے انسان کی فکر اور منطق میں ایک بڑا تناقض وجود میں آتا ہے، ایک ایسی منطق جو کبھی بھی بنیاد حاصل نہیں کرسکتی۔
صلحِ کُل میں نہیں سمجھتا کہ دنیا کے محقق لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہوگا جو انسان دوستی کی تشریح اس مفہوم میں کرتا ہوگا کہ جسے ”صلحِ کُل“ کہا جائے۔ البتہ عام لوگوں میں ایسے افراد ہیں جن کے سامنے جب بشریت اور انسان دوستی کی بات آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ: جناب! سب انسان ہیں، لہٰذا ہماری نظر میں سب کو برابر ہونا چاہئے، ہمیں ایک دوسرے کو ایک آنکھ سے دیکھنا چاہئے۔
ہم کہتے ہیں: انسانی اقدار کے بارے میں کیا خیال ہے؟

تمام انسان، انسانی اقدار کے حامل ہونے کے لحاظ سے تویکساں نہیں ہیں۔ ایک انسان صاحبِ علم ہے اور دوسرا بے علم (ممکن ہے آپ کہیں کہ اس کی بے علمی کا سبب یہ تھا کہ علم کا حصول اس کے اختیار ہی میں نہ تھا)، ایک انسان پاک اور پرہیزگار ہے اور دوسرا ناپاک اوربدکردار، ایک ظالم ہے اور دوسرا مظلوم، ایک خیرخواہ ہے اور دوسرا بدخواہ۔

کیا ہمیں انسان دوستی کے فلسفے کے تحت یہ کہنا چاہئے کہ یہ سب انسان ہیں اور ہم ان کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں ہیں؟

ہم انسان کومحترم سمجھتے ہیں، اب ہمیں اس سے کیا غرض کہ یہ انسان عالم ہے یاجاہل، باایمان ہے یا بے ایمان، باتقویٰ ہے یا بے تقویٰ، خیر خواہ ہے یا بدخواہ، مصلح ہے یا بدکار و مضر و مفسد!
ہمیں انسان دوست اور صلحِ کُل ہونا چاہئے۔ اب یہ انسان کسی بھی مسلک یامکتب سے وابستہ ہو، ہماری نظر میں کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئے!
اگر ہم یہ نظر یہ رکھیں، تو ہم نے انسانیت کے ساتھ خیانت کی ہے۔

دور دراز سے ایک مثال پیش کرتا ہوں، ایک دوسرے براعظم سے اور ہمارے اپنے زمانے سے: لوممبا ایک انسان تھا، موسیٰ چمبہ بھی ایک انسان تھا۔ یعنی علمِ حیاتیات کے اعتبار سے لوممبا اور موسیٰ چمبہ کی نسل کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ فرض کیجئے کہ موسیٰ چمبہ اور لوممبا کے خون کا گروپ مختلف ہو، اگرآپ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور دوسرے کے ساتھ نفرت، تو ایسا اُن کے خون کے گروپ کی وجہ سے نہیں ہے، اس کا سبب کچھ اور ہے۔ لیکن اگر آپ ایک انسان دوست بشر بننا چاہتے ہیں، تو کیا ان دونوں افراد کے بارے میں یکساں طرزِ فکر رکھ سکتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دونوں انسان ہیں، اوراب جبکہ یہ دونوں ہی انسان ہیں، تو پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ میں چمبہ کو بھی اسی قدر اچھا سمجھوں جتنا لوممبا کو اچھاسمجھتا ہوں اور لوممبا کو بھی اسی قدر پسند کروں جتنا چمبہ کو پسند کرتا ہوں۔اور اگر مجھے ان سے نفرت ہونی چاہئے، تو ان دونوں سے یکساں نفرت رکھوں؟ایسا}سمجھنا درست{ نہیں ہے۔

انسان کا حیوان سے بنیادی فرق

انسان کوحیوان پر ایک بنیادی امتیازحاصل ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان ہر حیوان سے زیادہ ”بالقوہ“ (Potential)ہے اورکم ”بالفعل“ ہے۔
}اس سے{کیا مراد ہے؟
مراد یہ ہے کہ مثلاً ایک گھوڑا، گھوڑا ہے اور بالفعل گھوڑاہے۔ یعنی گھوڑا ہونے کے لئے جو چیزیں درکار ہیں وہ سب اس میں موجود ہیں۔ گھوڑا ہونے میں تھوڑی بہت کمی ہے جو مثلاً اسے مشق کرکے حاصل کرنی ہے۔ گھوڑا، ایک بالفعل گھوڑاہی اس دنیا میں آتا ہے۔ ایک بلی، بالفعل ایک بلی ہی دنیا میں آتی ہے۔ اور اسی طرح تمام حیوانات ہیں۔ لیکن انسان ہے جو سو فیصد ایک بالقوہ موجود کی صورت دنیا میں آتا ہے۔ یعنی جب وہ پہلی مرتبہ دنیا میں آنکھ کھولتا ہے، تو یکسر یہ پتا نہیں ہوتا کہ مستقبل میں وہ کیا ہوگا۔ ممکن ہے مستقبل میں اُس کی حقیقت ایک بھیڑیئے کی حقیقت ہو، ممکن ہے ایک بھیڑ کی حقیقت ہو، لیکن اُس کی شکل ایک انسان کی سی شکل ہو۔ اسی طرح ممکن ہے اس کی حقیقت ایک انسان کی حقیقت ہو۔

ایران سے تعلق رکھنے والے عظیم اسلامی فلسفی، صدر المتألّھین اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ لوگوں کا یہ سمجھناکہ تمام افرادِانسان، سب کے سب ایک ہی نوع سے ہیں، ان کی غلط فہمی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ: انسانوں کی تعداد کے مطابق، اُن کی انواع پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ انسان جنس ہے، نوع نہیں ہے۔ البتہ وہ ایک فلسفی ہیں، وہ علمِ حیاتیات کے اعتبار سے نہیں دیکھتے۔ علمِ حیاتیات کا ایک ماہر جو صرف جسموں اور نظاموں کو دیکھتا ہے، اسکی نظر میں تمام افرادِ انسان ایک ہی نوع سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن انسان کا مطالعہ کرنے والا ایک فلسفی، جو انسان کی حقیقت کو اُس کے ملکات سے اور اس چیز سے جسے انسانیت کہا جاتا ہے وابستہ سمجھتا ہے، وہ یہ باور نہیں کرسکتا کہ انسان کے تمام افراد، ایک نوع کے افراد ہیں۔وہ کہتا ہے کہ: انسان کے افراد کی تعداد کے مطابق، مختلف انواع موجود ہیں۔

لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ انسانی اقدار، بالقوہ اقدار ہیں۔ بعض افرادِ انسان اس حقیقی اورواقعی انسان کے مقام تک پہنچتے ہیں اوربہت سے افرادِانسان اُس حقیقی انسان کے مقام تک نہیں پہنچتے۔ امیر المومنین علیہ السلام کے الفاظ میں: اَلصُّورَۃُ صُورَۃُ اِنْسَانِ وَ الْقَلْبُ قَلْبُ حَیْوَانِ (صورت تو اُس کی انسانوں کی سی سے اور دل حیوانوں کا سا۔ نہج البلاغہ۔خطبہ۸۵)۔ یعنی شکل تو انسانی شکل ہے، لیکن اس کا باطن ایک درندے کا باطن ہے، ایک چیتے کا باطن ہے،  ایک سور کاباطن ہے، ایک شیر کاباطن ہے، ایک بھیڑیئے کاباطن ہے۔ لیکن یہ کہ باطن بھی ظاہر کے مطابق ہو، یعنی واقعاً انسان ہو، یہ تمام افرادِ انسان میں نہیں ہوتا۔

اگوسٹ کانٹ اور ”دین انسانیت“

ہم نے کہا کہ دنیا ایک بار پھر بڑی حد تک مکتبِ انسانیت کی طرف لوٹ آئی ہے۔ یعنی دنیا میں انسانی فلسفوں کے نام سے فلسفے وجود میں آئے ہیں، اور شاید ان میں سب سے زیادہ تعجب انگیز وہ دین انسانیت ہے جسے اگوسٹ کانٹ نے انیسویں صدی کے اواسط میں ایجاد و اختراع کیا اور جس کی بنیاد رکھی ہے۔ یہ شخص ایک طرف سے اپنی عقل اور فکر اور دوسری طرف سے اپنے دل اور ضمیر کے درمیان ایک عجیب بند گلی میں جا پھنسا تھا۔ اسی وجہ سے اُس نے ”دین انسانیت“ کے نام سے ایک چیز ایجاد کی اور کہا کہ: انسان کے لئے دین ضروری ہے، اور معاشرے میں نظر آنے والی تمام برائیوں کی وجہ یہ ہے کہ سماج میں دین کمزور ہوگیا ہے۔ گزشتہ دین (اس کی توجہ ہمیشہ کیتھولک مذہب کی طرف رہی ہے) آج کے انسان کا دین بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس نے تین ادوار کی نشاندہی کی تھی: ربانی اور ماورائے طبیعی دور، فلسفی اور تعقلی دور، علمی و تحقیقی اور (خود اس کے بقول) مثبت دور۔

اس کاکہنا تھا کہ: کیتھولک مذہب کا تعلق انسان کے ماورائے طبیعی طرزِ تفکر سے رہا ہے۔آج کا دور، علم کا دور ہے اور اب انسان ماورائے طبیعی تفکر کوقبول نہیں کرتا۔ کانٹ نے بغیر غیبی بنیاد کے ایک دین ایجاد کیا (بہت ہی عجیب بات ہے، دین، دین بھی ہو اور غیبی بنیاد کے بغیربھی!) لیکن اُس نے اُن تمام آداب و رسوم، مناسک و شعائر اوردین میں موجود تمام آداب کوقبول کیا۔ حتیٰ اپنے دین کے لئے پادری کا بھی قائل ہوگیا۔ وہ خود بھی ایک نبی البتہ بغیر خدا کے نبی بن گیا۔ اور یہاں تک کہتے ہیں کہ:اُس نے اپنے آداب کیتھولک مذہب سے لئے۔ ہو بہوکیتھولک مذہب کے آداب و مناسک کو اپنے دین انسانیت میں لے آیا ہے۔

بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے تھے، کہتے تھے: ہمیں ایسے دین کی ضرورت نہیں جس کی بنیاد خدائی نہ ہو۔ تم جو کیتھولک مذہب کو قبول نہیں کرتے، تم کیوں ان آداب کو جو ممکن ہے ایک عالم کی نظر میں خرافات ہوں، }اپنے دین میں{ لے آئے ہو؟ تم خدا کا تو انکار کرتے ہو لیکن اس کے آداب اور اس کے مناسک کو قبول کرتے ہو؟ لیکن ایک اعتبار سے وہ حق بجانب تھا۔ انسان کو عبادت اور پرستش کی ضرورت ہے، اُسے کچھ آداب و عادات کی ضرورت ہے، جنہیں وہ ایک دوسرے مفہوم اور عنوان سے انجام دے(۸)۔ یہی وجہ تھی کہ اُس نے لوگوں کے سامنے ایک ایسا دین پیش کیا جس میں غیبی بنیاد نہیں تھی لیکن عبادات، آداب و عادات اور مناسک و شعائر تھے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ میں نے بعض کتابوں میں پڑھا ہے کہ اس شخص نے یورپ اورامریکہ میں بہت سے پیروکار بھی پیدا کر لئے تھے اور حتیٰ لکھا گیا ہے کہ آج بھی اس کے دین کے بہت سے پیروکار موجود ہیں اور اس کا گھر اس کے پیروکاروں کے لئے کعبے کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ یہاں تک کہ میں نے ایک عربی کتاب میں پڑھا ہے کہ، اُس کی ایک محبوبہ بھی تھی، اور واقعہ کچھ یوں ہے کہ اس عورت کے شوہر کو عمر قید ہوگئی جس کے بعد اُسے اس عورت سے عشق ہوجاتا ہے لیکن وصال سے قبل ہی وہ عورت مر جاتی ہے، اور آخر عمر تک وہ اسے بھلا نہیں پایا۔ اور کہتے ہیں کہ: دراصل اسی مقام سے اُس نے عقل کی دنیاسے دل اور احساسات کی دنیاکارُخ کیا تھا اور اس کے بعد بالآخر اس نے دین انسانیت ایجاد کیا۔ اس کتاب میں لکھا تھا کہ اس کے پیروکار اس کی محبوبہ کو اس دین کی حضرت مریم کہتے ہیں۔ یعنی جس قدر عیسائی حضرت مریم کے لئے تقدس اور احترام کے قائل ہیں، اگوسٹ کے مکتبِ انسانیت کے پیروکار اس کی محبوبہ کے لئے اتنے ہی تقدس اور اصطلاحاً قدسیت کے قائل ہیں۔

لیکن بعد کے زمانوں میں مکتبِ انسانیت کا مسئلہ اور بالفاظِ دیگر اصالتِ بشر کا مسئلہ دوسری شکلوں میں سامنے آیا ہے، جسے آج آپ خود دیکھتے ہیں، خودپڑھتے ہیں اورخود سنتے ہیں۔کیونکہ ساری باتیں ایک ہی تقریر میں خلاصے کے طور پر پیش کرنی ہیں، لہٰذا بعض حصوں کو خلاصے اور اختصار کے ساتھ عرض کر تاہوں۔ انسان اور اصالتِ انسان کے بارے میں بہت زیادہ مسائل ہیں۔ کم از کم سوال کی صورت میں انہیں پیش کرتا ہوں۔

انسان کا اختیار اور ذمے داری

انسان کے بارے میں اُٹھائے جانے والے سوالات میں، انسان کی آزادی اور اختیار اور انسان کی ذمے داری اورفریضے کا مسئلہ بھی ہے۔
کیا انسان واقعاً ایک آزاد اور خود مختار مخلوق ہے؟
اور کیا اُس کی کوئی ذمے داری ہے؟
کیا اُس کا کوئی فریضہ ہے، جسے اُسے انجام دینا چاہئے؟

البتہ اگر آپ }ان سوالوں کے{ جواب اسلامی منطق کے نکتۂ نظرسے چاہیں، توہمیں کہنا چاہئے کہ سو فیصدایسا ہی ہے۔ قرآنِ مجید میں سورۂ انسان کے نام سے ایک سورہ ہے، جسے سورۂ دَہربھی کہتے ہیں، اور اس کا نام سورۂ انسان اس وجہ سے رکھا گیا ہے کہ اس سورے کی ابتداء میں انسان کا نام لیا گیا ہے اور انسان کے اختیار، آزادی، فریضے اور ذمے داری کا تذکرہ ہواہے۔ یہ سورہ اِن آیات سے شروع ہوتا ہے:

ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْءًا مَّذْکُوْرًا اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنہُاٰا سَمِیْعًا بَصِیْرًا اِنَّا ہَدَیْنہُاٰا السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوْرًا

یقیناً انسان پر ایک ایسا وقت بھی آیا ہے کہ جب وہ کوئی قابلِ ذکر شئے نہیں تھا۔یقیناً ہم نے انسان کو ایک ملے جلے نطفے سے پیدا کیا ہے، تاکہ اس کا امتحان لیں، اور پھر اسے سماعت اور بصارت والا بنادیا ہے۔یقیناً ہم نے اسے راستے کی ہدایت دیدی ہے، چاہے تو وہ شکر گزار ہو جائے یا کفرانِ نعمت کرنے والا ہوجائے۔ (سورۂ دہر۷۶۔آیت۱تا۳)

لہٰذاانسان خالقِ کائنات اور اس نظام کے مقابل ایک مجبور وجود نہیں ہے۔

خالقِ کائنات نے اس سے کیا چاہا ہے؟ اس سے آزادی چاہی ہے، اسے ایک آزاد موجود کی صورت میں پیدا کیا ہے، ایک ذمے دار موجود کی صورت میں، ایک ایسے موجود کی صورت میں جس پر ایک فریضہ عائد ہوتا ہے۔ حتیٰ }انسان کے لئے {عظیم ترین تعبیرکہ آپ اس سے بڑی تعبیر تلاش ہی نہیں کرسکتے، وہ تعبیر ہے جو قرآن نے انسان کے بارے میں بیان کی ہے، ارشاد ہوتا ہے: خَلیفَۃُ اللّٰہ۔ خدا کا جانشین۔ قطعی طور پر کسی کتاب نے قرآن کی مانندانسان کی تمجید و تقدیس نہیں کی ہے۔ کہتا ہے: ہم نے انسان کی خلقت کے آغاز میں فرشتوں میں یہ اعلان کیاکہ: اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً۔ (میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ سورۂ بقرہ۲ آیت ۳۰) میں زمین میں جانشین پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ اس پرفرشتوں نے اعتراض اور سوال کیا۔ خدا نے اُن سے کہاکہ: میں وہ بات جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

روئے زمین پر خدا۔ (جب ہم کہتے ہیں نصف خدا، تو اس کے معنی یہی ہوتے ہیں)

یہ کس بات کی نشاندہی کرتی ہے؟ اُن بے انتہا صلاحیتوں کی جو اس مخلوق میں موجود ہیں۔
وَ عَلَّمَ ٰادَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّہَا۔ (اور خدا نے آدم کو تمام اسماء کی تعلیم دی۔ سورۂبقرہ۲ ۔ آیت ۳۱) دیکھئے اسلام (جو خودفلسفی پہلوؤں کے اعتبار سے ایک مکتبِ انسانیت ہے) انسان کے لئے کس مقام کا قائل ہے! ایک رمز آمیز صورت میں کہتا ہے: تمام ”اسماء“ کو جاننا (ایک چیز کے اسم سے مراد اس چیزکو پہچاننے کی کنجی) تمام چیزوں کو پہچاننے کی کلید (key) ہم نے اسے سکھا دی ہے۔ اس کے بعد عالمِ بالا کے فرشتوں کو اس انسان کے مقابلے میں لے آیا۔ انسان فرشتوں پر کامیاب ہوگیا۔ پھر ان سے کہا: اے فرشتو! کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے؟ تم نے تصویر کا صرف ایک رُخ دیکھا تھا، لہٰذا کہنے لگے کہ: یہ مخلوق کیونکہ شہوت اور غضب کی مالک ہے، اس لئے خونریزی کی مرتکب ہوگی، انسانوں کا قتل اور تباہی پھیلائے گی۔ لیکن تم نے تصویر کا یہ رُخ نہیں دیکھا تھا۔ سب نے اعتراف کیا کہ: سُبْحٰنَکَ لااَا عِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا۔ ( ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں بتایا ہے ۔ سورۂ بقرہ۲ ۔ آیت ۳۲) بارِ الٰہا! ہم اعتراف کرتے

ہیں کہ ہم نہیں جانتے، ہم صرف وہ جانتے ہیں جو تو نے ہمیں سکھایا ہے۔ یہ ہماری جہالت تھی جو ہم نے وہ باتیں کہیں۔ اس وقت ہم نے فرشتوں سے کہا: اس مخلوق کے حضور جھکو اور سجدہ کرو: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْآ اِلَّاآ اِبْلِیْسَ(۹)۔ بہرحال انسان(۱۰) کے لئے فریضے، آزادی اور اختیار کا قائل ہونے کے نکتۂ نظر سے عظیم ترین تعبیریہی ہے کہ اسے خدا کا خلیفہ اور جانشین سمجھا گیاہے، وجود و ہستی کا تکمیل کنندہ سمجھا گیاہے۔ میں خدا، جو خود خالق ہوں، میں نے اپنی خلاقیت کا کچھ حصہ تجھے تفویض کردیاہے، تیرے ذمے کردیاہے، تجھے اسے انجام دینا ہے، تو میری خلاقیت اور فعالیت کا مظہر ہے۔
انسان کی سعادت اور لذت
انسان کے بارے میں ایک اور مسئلہ، انسان کی سعادت اور لذت کا مسئلہ ہے۔ اسے بھی ہم سرسری طور پر اور اشارتاً بیان کرتے ہیں:
انسان لذت کامتلاشی رہتا ہے۔
فطرتاً اسے لذتوں کو کہاں تلاش کرناچاہئے؟
کیا لذت کواپنے باہر تلاش کرے یا اندر، یا باہر بھی اور اندر بھی اور کس نسبت سے؟
بہت سے لوگ جو لذت کا مرکز اپنے وجود سے باہر تلاش کرتے ہیں اور مسلسل اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اپنے تئیں زندگی سے لذت اٹھائیں، یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو ایک انسان کے طور پر نہیں پہچانتے۔ یعنی اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ لذت اور نشاط (جوخود انسان کے اندر سے اٹھتی ہے) کے اصل مرکزوہ خودہیں۔

کیف وسرور کو کہاں تلاش کرتا ہے؟ شراب کے جام میں، شراب خانے میں۔

کیا خوب کہا ہے مولانا روم نے اس شخص کی داستان میں، جوایک شراب خور کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرتاہے۔ اس نے شرابی کو مخاطب کرکے کہا:

ای ہمہ ہستی چہ می جوئی عدم
وی ہمہ دریا چہ خواہی کردنم

تو خوشی و خوب و کان ہر خوشی
تو چرا خود منّت بادہ کشی

یہاں تک کہ کہتے ہیں: ”جوہر است انسان و چرخ او را عرض“ (انسان جوہر ہے اور پوری کائنات اس کا عرض) ان کے اس طرح کے دوسرے اشعار بھی ہیں۔

البتہ یہ کہ انسان تمام خارجی چیزوں کو مکمل طور پر ترک کر دے، اور ہندوستان کے افراطی مکتب کا پیروکار بن کر یہ کہے کہ بنیادی طور پر ہر لذت کوخود اپنے اندرہی تلاش کرنا چاہئے، درست نہیں ہے۔ شاید مولانا روم کے بعض اشعار میں یہ مبالغہ ہو، مثلاً وہاں جہاں وہ کہتے ہیں کہ:

راہِ لذت از درون دان نز برون
احمقی دان جستن از قصر و حصون

آن یکی در کنجِ زندان مست و شاد
وآن یکی در باغ ترش و بی مراد(۱۱)

ان کا مقصد یہ نہیں ہے کہ خارجی اشیا کوچھوڑ دو۔ ان کی مرادیہ ہے کہ انسان اگر لذت کا حصول چاہتا ہے، تواسے یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ تمام لذتوں کواپنی ذات سے باہر کی مادّیات میں تلاش کیا جاسکتا ہے ۔ لذت کا اصل مرکز خود اس کے وجود میں موجود ہے، یا کم از کم ان دونوں کے درمیان ایک توازن برقرار ہونا چاہئے۔

انسان کے بارے میں اور بھی بہت سی باتیں ہیں، جنہیں ہم مختصر طور پر عرض کریں گے۔ وہ مکتب جو اپنے آپ کو مکتبِ انسانیت سمجھتا ہے، اسے لازماً چندسوالات کے جواب دینا چاہئیں۔ اگر۔ اے وہ ذات جو مکمل ہستی ہے تو کیوں عدم کی تلاش میں ہے؟ اے وہ ذات جو مکمل دریا ہے تو کیا کرنا چاہتا ہے؟ تو خود خوشی ہے، تو خود خوبی ہے، ، تو ہر خوشی کا مرکز ہے۔ تو کیوں شراب کا احسان لیتا ہے؟!

اُس نے ان سوالات کے جواب دیئے، توپھر وہ صحیح معنوں میں ایک مکتبِ انسانیت ہوسکتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا، انسان معنوی دنیا کا دریچہ اور دروازہ تھا۔ بشر نے اپنے وجود ہی سے معنوی دنیا کو پہچانا تھا۔ معنویت اور انسانیت، دین اور انسانیت دوجدا نہ ہوسکنے والے امور ہیں۔ یعنی یا تو ہم دین اور انسانیت، دونوں کو ایک ساتھ چھوڑ دیں، یا اگران میں سے کسی ایک کے ساتھ ملحق ہونا چاہیں، تولازماً ہمیں دوسرے کے ساتھ بھی ملحق ہوناپڑے گا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم دین سے ملحق ہوجائیں اور انسانیت کو، انسانیت کے تقدس کو چھوڑ دیں، اُسی طرح جیسے یہ نہیں ہوسکتا کہ انسانیت سے ملحق ہوجائیں اور دین کو چھوڑ دیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں، ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے۔

انسانیت کی اصالت کے بارے میں مکاتیب کے درمیان تضاد

وہ تناقض اور تضاد جس کے بارے میں ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ انسانیت کی اصالت کے قائل مکاتیب میں پایا جاتا ہے، وہ یہی ہے۔ ماضی میں انسانیت کے زوال کی بنیاد یہی ہے، البتہ یہ زوال غلط بھی تھا۔یعنی بطلیموسی ہیئت میں تبدیلی کواس بات کا سبب نہیں بننا چاہئے تھا کہ ہم اس لحاظ سے کہ انسان تخلیق کا مقصد ہے، انسان کے عظیم مقام کے بارے میں شک کرنے لگیں۔ زمین کائنات کا مرکز ہو یا نہ ہو، انسان کائنات کا مقصد ہے۔ یعنی طبیعت (nature) اپنے تکامل کے راستے میں اسی جانب گامزن ہے، خواہ انسان کو ہم ایک براہِ راست مخلوق سمجھیں یا اسے دوسرے حیوانات کی نسل سے قرار دیں۔ اس سے اس بات میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اسے روحِ خدائی کا حامل سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ خدا نے فرمایاہے: نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ۔ اس نے یہ تو نہیں کہا ہے کہ انسان خدا کی نسل سے پیدا ہوا ہے۔ اگر انسان کے بارے میں مثلاً یہ کہتا کہ: انسان کے مادّے کو، اس کی سرشت کو دوسری دنیا سے لائے اور وہ مٹی جسے دوسری دنیاسے لایا گیا ہے اسکی بنا پر وہ ایک عظیم اور مقدس موجود بناہے(جدید علمی نظریات، جیسے اصولِ تکامل اس میں شک وشبہ پیداکر سکتا ہے)۔۔۔

اے وہ لوگو جن کا فلسفہ انسان دوستی کا فلسفہ ہے، اور جن کے ایمان کا محور انسانیت ہے، ہم پوچھتے ہیں کہ: کیا انسان میں احسان، نیکی اور خدمت نام کا کوئی جذبہ موجود ہے یا نہیں؟

اگرآپ یہ کہتے ہیں کہ: ہر گز اس میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے، توپھر انسان کو انہیں انجام دینے کی دعوت دینا بھی غلط ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی پتھر یا حیوان کو اس بات کی دعوت دے رہے ہوں!
نہیں، ایسا جذبہ موجود ہے۔

لیکن یہ جو ہے، یہ کیا ہے؟
ممکن ہے کوئی کہے کہ: ہمارے اندر موجوددوسروں کی خدمت گزاری کا جذبہ، ایک قسم کی جانشین سازی ہے۔جس وقت ہم دیکھتے ہیں کہ مثلاً (کچھ لوگ تعلیم سے محروم ہیں) ۔۔۔ (۱۲) اور ہمارے اپنے خیال میں ہمارے اندر انسان دوستی کا جذبہ تقویت پاتا ہے کہ ہم جائیں اور انہیں تعلیم دیں، ان کی خدمت کریں، چلیں مظلوموں کو نجات دلائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگرہم اچھی طرح غوروفکر کریں تو دیکھیں گے کہ انسان نے اپنے آپ کو ان کی جگہ رکھ لیا ہے۔ پہلے سوچتا ہے کہ انہیں اپنے طبقے میں رکھے اوراپنے آپ کو اُن کے طبقے میں سمجھے، پھر اس بات کومد نظر رکھتا ہے کہ اب وہ خود اُن کی جگہ پر ہے۔ اس کے بعد وہی خودپرستی کی حس کہ اپنا دفاع کرنا چاہئے، یہاں مظلوم کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ وگرنہ انسان میں ایک مظلوم کے دفاع کے لئے اصالت کی حامل کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔

مکتبِ انسانیت کو جواب دینا چاہئے کہ:
اولاً، ایسا کوئی جذبہ ہے بھی یا نہیں؟
انسان میں ایسی کوئی بزرگواری پائی بھی جاتی ہے یا نہیں؟

ہم کہتے ہیں کہ پائی جاتی ہے: فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَ تَقْواٰاہَا (۱۳) کیونکہ انسان خلیفۃ اللہ ہے، جود و کرمِ الٰہی کا مظہر ہے، لہٰذامظہرِاحسان ہے۔ یعنی انسان حالانکہ خود خواہ ہے اور اس کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے وجود اور حیات کی حفاظت اور بقاکی خاطر اپنے لئے کوشش کرے، لیکن اس کا پورا وجود خودخواہ نہیں ہے، }اس میں دوسروں کے لئے{ خیر خواہی بھی پائی جاتی ہے، دنیا کی تعمیرکا جذبہ بھی موجود ہے، انسانیت بھی ہے، اخلاقی ضمیر بھی ہے۔

ابھی کچھ دن پہلے، جب میں شیراز میں تھا، تو مجھے ”مؤسسۂ خوشحالان“ کے نام سے ایک ادارے کے بارے میں بتایا گیا۔ کچھ افراد نے صرف اپنے اندرونی جذبے اور ذاتی ایمان کی بنیاد پر ایک ادارہ بنایا ہے اور اس میں کچھ گونگوں، بہروں کو جمع کیا ہے۔ میں نے جاکر وہاں ان کی ایک کلاس کا دورہ کیا۔ واقعاً ہم جیسے اصطلاحاً انتہائی نازک مزاج لوگوں کے لئے کچھ دیر کے لئے بھی اس کلاس میں جانا اور اسے دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔ انسان جب ایسے بچوں کو دیکھتا ہے کہ جب وہ اشارے کے ذریعے ایک لفظ بولنا چاہتے ہیں، تو اپنادَہان ٹیڑھا کرتے ہیں۔میں نے ایک صاحب کو دیکھا، جو سید بھی تھے، اور اتفاقاً اُن کا نام بھی امامزادہ تھا۔میں نے دیکھا کہ وہ صاحب کس قدر خلوص، کیسے عشق اورجذبے کے ساتھ (باوجود یہ کہ مجھے وہیں سے پتا چلا کہ وہ جو تنخواہ لیتے ہیں وہ تنخواہ ایک عام اسکول ٹیچر کی تنخواہ سے بھی کم ہے، کیونکہ اس ادارے کے پاس فنڈز نہیں ہیں) لوگوں کے گونگے، بہرے بچوں کو کس قدر مشکلوں سے لکھنا سکھا رہے ہیں، اور ساتھ ساتھ انہیں کس مشکل سے حروف کے معنی سمجھا رہے ہیں۔ مثلاً جب وہ کہنا چاہتے تھے کہ ”یہاں“ تو اپنے دہان کو اس طرح ٹیڑھا میڑھا کرتے تھے، کہ بچے اُن کا چہرہ دیکھ کر سمجھ لیتے کہ وہ ”یہاں“ کہہ رہے ہیں، اور وہ فوراً تختۂ سیاہ پر ”یہاں“لکھ دیاکرتے۔ اسی طرح کی اور چیزیں بھی تھیں۔

انسان میں یہ کیا چیز ہے؟
اُس کے اندر یہ کیسا جذبہ ہے؟
یہ چیز مظہرِ انسانیت اوراصالتِ انسانیت کو نمایاں کرتی ہے۔
مجموعی طور پر نیک لوگوں کے بارے میں تحسین کی حس اور بُرے لوگوں کے حوالے سے نفرت کا جذبہ، اگرچہ ان لوگوں کا تعلق گزشتہ زمانوں ہی سے کیوں نہ ہو، کیا ہے؟

جب یزید اور شمر کا نام ان کے انجام دیئے ہوئے مظالم کے ساتھ ہمارے سامنے لیا جاتا ہے اور دوسری طرف شہدائے کربلا کا ان کی قربانیوں کے ساتھ ہمارے سامنے ذکر کیا جاتا ہے، توہم خود اپنے اندر پہلے گروہ کے لئے نفرت کے جذبات اور دوسرے گروہ کے لئے احترام و عقیدت کے جذبات محسوس کرتے ہیں۔

آخر یہ کیا ہے؟
کیا واقعاً یہاں بھی طبقے کا مسئلہ ہے، ہم سوچتے ہیں، اپنے آپ کو شہیدانِ کربلا کے طبقے میں سمجھتے ہیں اور اپنے دشمنوں کواُس دوسرے گروہ کا حصہ سمجھتے ہیں، اور یزید اور شمر کے بارے میں نفرت کا جذبہ وہی جذبۂ نفرت ہے جو ہم اپنے دشمنوں کے بارے میں رکھتے ہیں، لیکن اسے اُن کی طرف موڑ دیتے ہیں ۔اور احترام کا وہ جذبہ جوہم شہیدانِ کربلا کے بارے میں رکھتے ہیں، یہ وہی تمایل ہے جو ہم خوداپنے بارے میں رکھتے ہیں، اور اُس کا اظہار ہم اس طرح کرتے ہیں؟!
اگر ایسا ہے، توپھر وہ جسے آپ اپنا دشمن اور اپنے اعتبار سے ظالم سمجھتے ہیں، وہ آپ سے بالکل مختلف نہیں ہے۔ کیونکہ }اس طرزِ تفکر کے مطابق{اسے بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ مثلاً یزید اور شمر کی تعریف کرے اور ان کا احترام کرے اور شہیدانِ کربلا سے }نعوذ باللہ{نفرت کرے۔ کیونکہ وہ بھی اپنے آپ کو اپنے طبقے والوں کے ساتھ رکھتا ہے اور جس جذبے کی وجہ سے آپ نے پہلے گروہ سے نفرت کی ہے اور دوسرے گروہ کی تعریف کرتے ہیں، وہ اس کے برعکس جس سے آپ کو نفرت ہے اسکی تعریف کرتا ہے اور جس کی آپ تعریف کرتے ہیں، اس سے نفرت کرتا ہے۔
اس طرح نہیں ہے۔ آپ یہاں ایک دوسرے دریچے سے}موضوع کو دیکھتے ہیں{، جو انفرادی دریچہ نہیں ہے، ذاتی دریچہ نہیں ہے، بلکہ انسانیت کا دریچہ ہے اوردنیائے انسانیت اور دریائے انسانیت کے ساتھ آپ کومتصل کرتا ہے ۔ اس نکتۂ نظرمیں پھر ”میں“ اور ”تنفر“ نہیں بلکہ حقیقت کا دخل ہوتاہے۔ اُس تعلق میں جو آپ وہاں رکھتے ہیں، وہ ”میں“ جو شہیدانِ کربلا کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے اور ان کے دشمنوں سے نفرت کرتی ہے، وہ انفرادی ”میں“ نہیں ہے، بلکہ ایک کلی اور نوعی ”میں“ ہے۔

مکتبِ انسانیت جو بشریت کے لئے اصالت کا قائل ہے، اسے اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ یہ چیزیں کیا ہیں اور کہاں سے پیدا ہوتی ہیں؟ اور اسی طرح دوسرے مسائل، جیسے انسان شکرگزاری سے سچا عشق رکھتا ہے۔انسان اس شخص کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہے جس نے اس کے ساتھ نیکی کی ہو۔ یہ خود ایک مسئلہ ہے۔ جب کبھی انسانی اقدار کو اصالت ملی، اس وقت خود انسان کا مسئلہ درمیان میں آتا ہے۔ صرف اشارہ کرتے ہیں:
یہ انسان جس میں ایسی اصالتیں موجود ہیں، کیا اس کے تاروپود وہی ہیں جو مادّیت بتاتی ہے، ایک مشین ہے؟ ایک اپالو ہے؟

مشین جتنی بھی بڑی ہو، صرف بڑی ہوگی۔ اگرایک مشین اپالو سے ہزار گنا بڑی بھی بنائی جائے، تواس کے بارے میں کیا کہنا چاہئے؟ یہی کہنا چاہئے کہ عظیم ہے، حیرت انگیزہے، غیرمعمولی ہے۔ لیکن کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بزرگوار ہے؟ نہیں۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مقدس ہے؟ نہیں۔ اگر موجودہ اپالو سے ایک ارب گنا بڑی مشین ہو اور اربوں پرزے اس میں استعمال ہوئے ہوں، تب بھی وہ ایک عظیم، حیرت انگیز اور غیرمعمولی چیز ہے۔ کسی صورت ممکن نہیں کہ وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ اسے بزرگوار، مقدس اورقابلِ احترام کہا جاسکے۔
انسانی حقوق کا چارٹر اور اسی طرح کمیونسٹ فلاسفہ، وہ لوگ جو مختلف شکلوں میں اصالتِ انسان کے طرفدار ہیں، وہ انسان کے اندر نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ کے قائل ہوئے بغیرکس طرح انسان کے تقدس اور حیثیت کا دم بھر سکتے ہیں ؟ جب اقدار کی یہ اصالت ان پر واضح ہوگی، تب خود انسان کی اصالت ان کے لئے واضح ہوجائے گی۔

اب جبکہ ہم خودانسان کی اصالت تک پہنچ گئے ہیں، تو ایک اور سوال کو مختصر اًعرض کرتے ہیں:
انسان کی اصالت کاخدا کے ساتھ تعلق
ہم انسانی اقدار کی اصالت سے، خود انسان کی اصالت تک پہنچے۔ (نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ)
بے کنار تاریکی کے درمیان واقع اس دنیا میں کیا صرف یہی انسان ہے؟ اور ایک یورپین کے بقول زہر کے ایک سمندر کے درمیان اتفاقاًصرف یہی صاحب میٹھے پانی کا ایک قطرہ پیدا ہوئے ہیں؟ یا نہیں، یہ میٹھا قطرہ، میٹھے سمندر کا نمائندہ ہے؟ نور کا یہ ذرّہ، دنیائے نور کا نمائندہ ہے؟
یہ وہ مقام ہے جہاں اصالتِ انسان کا خدا کے ساتھ تعلق واضح ہوتا ہے۔ یعنی بنیادی طور پر یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے، اَﷲُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْض(۱۴) اگر آپ کہتے ہیں خدا، توخدا صرف یہ نہیں ہے کہ (جو عالمِ طبیعت کا مبدا ہے)۔۔۔(۱۵) ہم ارسطو کے محرکِ اوّل کا ذکر نہیں کر رہے، ارسطو کا محرکِ اوّل اسلام کے خدا کے سوا کوئی اور چیزہے۔ وہ کائنات سے جدا اور ایک اجنبی موجود ہے۔ اسلام کے خدا (سے مرادہے): هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الْبَاطِنُ(۱۶) جوں ہی آپ خداکہتے ہیں، یکلخت دنیا آپ کے سامنے ایک نیا منظر پیدا کرلیتی ہے۔ اُن تمام اصالتوں کو جوآپ اپنے وجود میں محسوس کرتے ہیں، معنی و مفہوم مل جاتے ہیں، ہدف مل جاتا ہے۔ آپ جان لیتے ہیں کہ اگر آپ نور کا ایک ذرّہ ہیں، تو اسلئے کہ نور کی ایک دنیا موجود ہے۔ اگر ایک میٹھا قطرہ ہیں، تو اس لئے کہ میٹھے پانی کا ایک بے کنار سمندر موجود ہے۔ جس کا ایک جلوہ آپ کی روح میں ہے۔
اسلام ایک انسانی مکتب ہے، یعنی انسانی معیاروں پر مبنی ہے۔ یعنی وہ چیزیں جو غلط امتیازات کی وجہ سے انسانوں کے درمیان پیدا ہوگئی ہیں، وہ اسلام میں نہیں ہیں۔ ۔ یعنی اسلام میں کوئی ملک نہیں ہے، نسل نہیں ہے، خون نہیں ہے، علاقہ نہیں ہے، زبان نہیں ہے۔ یہ چیزیں کبھی بھی اسلام میں انسانوں کے امتیاز کا معیار نہیں رہیں۔ اسلام میں جو باتیں انسانوں کے امتیاز کا معیار ہیں، وہ وہی انسانی اقدار ہیں۔

اسلام جو ایک مکتبِ انسانیت ہے اور انسانیت کے لئے احترام کا قائل ہے، وہ اس بنیاد پر انسانی اقدار کے لئے اصالت کا قائل ہے کہ خود انسان کے لئے اصالت کا قائل ہے۔ اور خود انسان کے لئے اس اعتبار سے اصالت کا قائل ہے کہ کائنات کے لئے اصالت کا قائل ہے۔ یعنی خداوندِ قادرو متعال کا قائل اور اس کا معترف ہے: هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ۔ (وہ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہ بادشاہ، پاکیزہ صفات، بے عیب، امان دینے والا، نگرانی کرنے والا، صاحبِ عزت، زبردست اور کبریائی کا مالک ہے ۔ سورۂ حشر ۵۹ ۔ آیت ۲۳) اور یہی وجہ ہے کہ واحد ایک مکتبِ انسانیت جو ایک صحیح منطق کی بنیاد پر موجود ہوسکتا ہے اسلام ہے، اس کے علاوہ دنیا میں کوئی مکتبِ انسانیت موجودنہیں ہے۔

وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ آلِہِ الطَّاھِرِیْنِ۔


 *۔ یہ تقریر تہران کے ٹیکنیکل کالج میں کی گئی، اس کی تاریخ کا علم نہیں ہوسکا۔

۱۔ اپنا چہرہ دکھا دے کہ میری آرزو باغ و گلستاں ہے۔ اپنے لب کھول دے کہ میری آرزو شیرینی کا حصول ہے۔میں یعقوب کی طرح وا اسفا کے نعرے لگاتا رہوں گا کہ یوسفِ کنعان کا دیدار میری آرزو ہے۔ میں سست اور بے حال ساتھیوں کی وجہ سے بہت دل گرفتہ ہوں۔ مجھے شیرِ خدا اور رُستم جیسے افراد کی آرزو ہے۔کل رات شیخ چراغ لے کر پورا شہر ڈھونڈ رہے تھے کہ میں دیو اور بھوت سے بیزار اور انسان کا آرزو مند ہوں۔میں نے کہا کہ ہم نے اتنا ڈھونڈا لیکن نہ ملا، کہنے لگے کہ جو نہیں مل رہا وہی میری آرزو ہے۔

۲۔ جان سے ہاتھ دھوئے بغیر جاناں کی آرزو کرتے ہو؟ مجوسیت چھوڑے بغیر ایمان کی آرزو کرتے ہو؟تم نے مرد دیکھے تو ہیں لیکن کبھی مردانگی دکھائی نہیں ہے۔ پھر تم مردوں کے دسترخوان کی آرزو کرتے ہو۔فرعون کی طرح انا الحق کا نعرہ لگاتے ہو، اسکے باوجود موسیٰ کے قُرب کی تمنا کرتے ہو؟

۳۔ میں گلشنِ قدسی کا پرندہ ہوں، فراق کی داستان کیسے بیان کروں کہ میں اس دامِ حوادث (دنیا) میں گھر گیا ہوں۔

۴۔ تجھے تو عرشِ الٰہی سے پکارا جارہا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ تو اس جال میں کیوں الجھ گیا ہے۔

۵۔فاستونی روسی زبان کا لفظ ہے، جو ایران میں اونی یادھاگے سے بنے کپڑے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

۶۔ وہ خدا وہ ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے تمہارے ہی لئے پیدا کیا ہے۔(سورۂ بقرہ۲۔آیت ۲۹)

۷۔سورۂ حجر۱۵۔آیت ۲۹، سورۂ ص۳۸۔آیت ۷۲

۸۔یہاں کیسٹ سے الفاظ سمجھ میں نہیں آئے۔

۹۔ جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کے لئے سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کرلیا۔(سورۂ بقرہ ۲آیت۔ ۳۴)

۱۰۔ یعنی آپ کیوں فرشتوں کو اس دنیا کی قوت سے تعبیر کرنا چاہتے ہیں؟!کسی اور چیز سے کیوں تعبیر نہیں کرتے؟ہم کہتے ہیں کہ فرشتے ایسی موجودات ہیں کہ اس دنیا کی تمام قوتیں ان کے لئے مسخر ہیں۔

۱۱۔ یعنی لذت کا راستہ اندر سے سمجھو نہ کہ باہر سے۔ اسے محلوں اور قلعوں میں تلاش کرنا حماقت سمجھو۔ ایک تو قیدخانے میں بھی خوش اور مزے میں ہے اور دوسرا باغ میں بھی مایوس اور نامراد ہے۔

۱۲۔ کیسٹ میں آواز واضح نہیں ہے۔

۱۳۔ پھر اسے بدی اور تقویٰ کی ہدایت دی ہے۔(سورۂ شمس۹۱۔آیت ۸)

۱۴۔ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔(سورۂ نور۲۴۔آیت ۳۵)

۱۵۔یہاں کیسٹ میں آواز صاف نہیں ہے۔

۱۶۔ وہی اوّل، وہی آخر، وہی ظاہر، وہی باطن۔(سورۂ حدید۵۷۔آیت۳)