معنوی آزادی

معیارِانسانیت کیا ہے؟

معنوی آزادی   •   استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ

اگرچہ میرے پاس وقت بہت کم ہے اور میں نے اپنی توانائی اورگنجائش سے زیادہ اپنے لئے کام بڑھا لئے ہیں، یا حالات نے مجھ پر مسلط کر دیئے ہیں، اسکے باوجود جب احباب نے مجھ سے اس مقام پر ایک تقریر کا تقاضا کیا، تو میں نے اُن سے اتفاق کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ پایا۔اسکی وجہ یہ ہے کہ بیٹھنا، باتیں کرنا اورآپ طالبِ علموں کے ساتھ اسلامی مسائل پر گفتگو کرنا میرے لئے اہم ترین بات ہے۔

میں ترجیح دوں گاکہ ایک ایسے مسئلے پر بات کروں جو آپ کے ذہن کواس بات پر آمادہ کرے کہ آپ اس پر غور وفکراورایک دوسرے سے گفتگو کریں۔ لہٰذا میری گفتگو زیادہ ترسوال اٹھانے اور مسئلے کی جانب متوجہ کرنے کے پہلو کی حامل ہوگی۔ گفتگو کا موضوع ” معیارِ انسانیت“ ہے۔ یعنی ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انسانیت کا معیار اور پیمانہ کیا ہے؟

اگرہم حیاتیات کے لحاظ سے معیارِ انسانیت کوجاننا چاہیں تو یہ ایک سادہ اور معمولی کا م ہے۔ حیاتیات (Biology)میں صرف انسانی جسم پیش نظر ہوتا ہے۔ وہاں اس بات پر بحث کی
جاتی ہے کہ حیوانات کی مختلف درجہ بندیوں (classifications) میں سے انسان کس درجہ بندی میں آتا ہے، مثلاً کیادودھ پلانے والا جاندار ہے یا کسی اور خصوصیت کا حامل ہے، وغیرہ وغیرہ۔ مختصر یہ کہ جانداروں کی مختلف انواع میں سے ایک نوع کو ” انسان“ کہتے ہیں۔اسکے مقابل دوسرے جاندارہیں جیسے پرندے، رینگنے والے جانور، چوپائے اور حشرات وغیرہ۔

حیاتیات کے اعتبار سے اس زمین پر رہنے والے وہ تمام افرادِ بشرانسان ہیں جودو پیروں سے چلتے ہیں، جن کے ناخن چوڑے ہوتے ہیں اورجو گفتگو کرتے ہیں۔ اس معیار کے تحت انسانوں کے درمیان حیاتیات کے اعتبار سے انسانیت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مثال کے طور پر حیاتیات کے اعتبار سے، طبی اعتبار سے، حتیٰ نفسیاتی اعتبارسے موسیٰ چمبہ اتنا ہی انسان ہے جتنا لوممبا۔ یعنی حیاتیات کے پہلو سے، ایک طبیب کی نظر میں، حتیٰ ایک نفسیات دان کی نظر میں، جو انسانی بدن کے اعضااور انسانی نفسیات کے ارکان پر بحث کرتے ہیں ان دو افراد کے درمیان کوئی فرق قرار نہیں دیاجاسکتا، اُسی طرح جیسے (اِن حوالوں سے) امام حسین علیہ السلام اور یزید کے درمیان کوئی فرق قائم نہیں کیا جاسکتا، دونوں ہی حیا تیات کے اعتبار سے، طبی لحاظ سے، حتیٰ نفسیاتی حوالے سے انسان ہیں۔

لیکن کیا انسان کی انسانیت، وہ جسے شرافت اور انسانی کمال کا نام دیا جاتا ہے، انہی چیزوں سے ہے؟

انسانِ کامل اور انسانِ ناقص

علومِ انسانی میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسانِ کامل اور انسانِ ناقص کی بات کی جاتی ہے۔ پسماندہ انسان اور ترقی یافتہ اور متعالی انسان کی گفتگوکی جاتی ہے۔ وہ انسان جو انسانی علوم کے اعتبار سے، اخلاقی علوم کے اعتبار سے، اجتماعی علوم کے حوالے سے ممکن ہے کامل ہواور ممکن ہے ناقص ہو، وہ قابلِ ستائش اور تعریف و تکریم کے قابل ہو یا کسی بھی صورت میں ستائش و تعظیم کے قابل نہ ہو، بلکہ تحقیر کے قابل ہو، وہ کونساانسان ہے؟
انسانیت کا معیار کیا ہے اور کس چیز میں ہے؟
مثلاً کس طرح سے ہم چمبہ اور لوممبا کے درمیان فرق قائم کر سکتے ہیں؟
ان کی کس چیزسے فرق کا تعین کرسکتے ہیں؟
وہ کونسی چیز ہے جو ایک کو پست، قابلِ مذمت اور حتیٰ مار ڈالنے کے لائق قرار دیتی ہے اور دوسرے کو قابلِ ستائش؟

حالانکہ اگر حیاتیاتی اعتبار سے دونوں کا پوسٹ مارٹم کیا جائے، تو دونوں ایک ہی جیسے ہیں، حتیٰ اُن کے نفسیاتی اراکین بھی ایک دوسرے کی مانند ہیں۔ دونوں کے پاس دل، اعصابی نظام، جگر، گردے، پٹھے، معدہ وغیرہ ہیں اورممکن ہے قابلِ مذمت انسان کے اعضائے بدن قابلِ ستائش انسان کے اعضائے بدن سے بہتر کام کرتے ہوں۔
پس پھر کیا چیز اِس میں ہے اور کونسی اُس میں، جو ان دونوں کے درمیان فرق کا سبب ہے؟
یہ وہی انتہائی اہم مسئلہ ہے جو قدیم زمانے سے علومِ انسانی اور ادیان و مذاہب میں موضوعِ بحث رہا ہے۔ مثلاً قرآنِ مجید بعض انسانوں کو فرشتوں سے برتر، بالاتر اورمسجودِ ملائکہ قراردیتا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: ہم نے فرشتوں سے کہا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ لیکن بعض انسانوں ہی کے بارے میں کہتا ہے کہ چوپائے ان سے بہتر ہیں۔

وہ کونسے معیار اور کونسے پیمانے ہیں جن کی وجہ سے اتنا بڑا فرق پیدا ہوا ہے؟
یہ حتیٰ دین و مذہب سے بھی تعلق نہیں رکھتا، اور حتیٰ انسان کا مسئلہ ایک ایسے مرحلے پر ہے کہ خدا کے موضوع کے ساتھ بھی سو فیصدی وابستہ نہیں ہے۔ یعنی دنیا کے مادّہ پرست فلسفی بھی جو خدا اور دین و مذہب پر ایمان نہیں رکھتے، انہوں نے بھی انسان و انسانیت اور بلند انسان اور پست انسان کا مسئلہ اٹھایا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مادّی مکاتب کی نظر میں کس قسم کے انسان بلند انسان ہیں اورکونسے انسان پست انسان ہیں؟ اور بلندی اور پستی کا پیمانہ کیا ہے؟

یہ تھا سوال اور اب دیکھتے ہیں کہ اس کاجواب کیا ہے؟
معیارِ انسانیت کے بارے میں مختلف نظریات

۱: علم

کیا ہم علم کو انسانیت کا معیار اور کسوٹی قرار دے سکتے ہیں اور یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام انسان حیاتیات کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مساوی ہیں، لیکن ایک چیز ہے جو اکتسابی یعنی حاصل کی جاسکنے والی ہے اور اس معیار کے مطابق انسانیت اور غیر انسانیت کے درمیان فرق ہوتا ہے۔بلند اور پست انسان کے درمیان ایک سرحد ہے، اور وہ (سرحد) علم ہے۔ جتنا انسان کی معلومات اور اسکا علم زیادہ ہو گا اُس میں اتنی ہی زیادہ انسانیت ہوگی۔ اور جتنا وہ علم و دانش سے محروم ہوگا، اتنا ہی انسانیت سے بے بہرہ ہوگا۔

لہٰذا پہلی جماعت کا بچہ، اُس بچے سے زیادہ انسانیت کا حامل ہے جو ابھی اسکول نہیں گیاہے۔ دوسری جماعت کا طالبِ علم پہلی جماعت کے طالبِ علم سے زیادہ انسانیت رکھتا ہے، اور اسی طرح۔۔۔ یونیورسٹی کے مرحلے میں بھی جوطالبِ علم آخری سال میں ہے وہ ابتدائی برسوں کے طالبِ علم سے زیادہ انسانیت کاحامل ہے۔ علما اور دانشوروں میں بھی ایسا ہی ہوگا کہ جس کی معلومات زیادہ ہیں وہ زیادہ انسانیت کاحامل ہے۔

کیا یہ بات قابلِ قبول ہوسکتی ہے کہ علم و دانش انسانیت کا معیارہے، یہی نہیں بلکہ واحد معیار ہے؟
کیاآپ انسانوں کی تعریف یا مذمت اُن کے علم ودانش کی بنیاد پر کرتے ہیں؟

آپ جوابوذر کی تعریف کرتے ہیں، تو کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ابوذر کا علم آپ کے علم سے اور ان کے زمانے کے تمام لوگوں کے علم سے زیادہ تھا؟ یہ جوآپ معاویہ کی مذمت اور اُن کے مقابلے میں ابوذر کی تعریف کرتے ہیں، کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے حساب لگایا ہے اور دیکھا ہے کہ ابوذر کی معلومات معاویہ سے زیادہ ہیں؟

چمبہ اور لوممبا کے بارے میں کیاخیال ہے؟
ہم نہیں سمجھتے کہ صرف علم و دانش معیارِ انسانیت ہوگا اور جو بھی زیادہ عالم ہے وہ زیادہ انسانیت کاحامل ہے۔ اس معیار کے مطابق تو ہمیں کہنا چاہئے کہ ہمارے زمانے میں آئن اسٹائن (جس کی شہرت دنیا کے تمام دانشوروں سے زیادہ ہے اور واقعاً شاید وہ دنیا کے تمام دانشوروں سے زیادہ عالم بھی تھا) ہمارے زمانے کے انسانوں میں سب سے زیادہ انسانیت کاحامل تھا۔

۲ : اخلاق وعادات

دوسرا نظریہ یہ ہے کہ انسانیت علم سے وابستہ نہیں ہے، البتہ علم انسانیت کے لئے ایک شرط ہے۔آگہی رکھنے اور باخبر ہونے، دنیا کے بارے میں، اپنے بارے میں اورمعاشرے کے بارے میں معلومات رکھنے کی نفی نہیں کی جاسکتی لیکن یقینی طور پر یہ کافی نہیں ہے، اگراسے دخل حاصل ہو، تب بھی یہ انسانیت کا ایک رکن ہے۔ مزید یہ کہ خود اس کا رکن ہونا بھی قابلِ بحث ہے، جس پر ہم بعد میں گفتگو کریں گے۔ یہ نظریہ کہتا ہے کہ انسانیت کا تعلق علم ودانش سے نہیں اخلاق و عادات سے ہے۔ اخلاق و عادات ایک مسئلہ ہیں او رعلم و دانش دوسرامسئلہ۔ ممکن ہے انسان عالم اور دانشور ہو اور ہر چیز جانتا ہو، لیکن اس کا اخلاق اور اس کی عادات انسانی اخلاق و عادات نہ ہوں، بلکہ حیوانی اخلاق و عادات ہوں۔
کس طرح؟

ایک حیوان اخلاق و عادات کے لحاظ سے اُن جبلّتوں (فطری خواہشات، Instincts) کا تابع ہوتا ہے جن کے ساتھ وہ پیدا کیا گیا ہے۔ جبلّتوں کا جبر اس پر حکومت کرتا ہے۔ یعنی وہ اپنی جبلّت کے مقابل ایک مضبوط قوتِ ارادی کا مالک نہیں ہوتا، حتیٰ وہ صرف اپنی جبلّت ہی بن کے رہ جاتا ہے اور جبلّت کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔
اگر ہم کہیں کہ کتّا ایک درندہ اور ساتھ ہی ساتھ ایک وفادار جانور بھی ہے، تو درندگی اور وفاداری اس حیوان کی جبلّت ہے۔ اگر ہم کہیں کہ چیونٹی ایک لالچی اورمستقبل کے بارے میں سوچ رکھنے والا حیوان ہے، تو اس کی لالچ اور دوراندیشی اس کی ایک جبلّت ہے۔ وہ اپنی جبلّت کے تابع ہوتی ہے، اور بس۔
دنیا میں ایسے انسان بھی ہیں جو انہی حیوانی اخلاق و عادات کے مالک ہیں، یا دوسرے الفاظ میں انہی ابتدائی فطری اخلاق و عادات کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو انسانی بنیاد کے مطابق تعمیر نہیں کیاہے، اپنی تربیت نہیں کی ہے، وہ ایک فطری انسان ہیں، فطرت سے سو فیصد ہم آہنگ انسان ہیں، ایسے انسان ہیں جو اپنے اندر اپنی فطرت کے محکوم ہیں۔

ان کے علم کی کیا کیفیت ہے؟
علم، آگہی اور چراغ ہے۔اپنی فطرت کے محکوم ہونے کے باوجودان کے پاس علم کا چراغ بھی ہے۔ اس وقت ان کے اور حیوان کے درمیان فرق اس پہلو سے ہوگا کہ حیوان کے پاس اپنی جبلّتوں (فطری خواہشات) پورا کرنے کے لئے معلومات کمزور اور اس کے زمان و مکان میں محدود ہوتی ہیں لیکن انسان کا علم اسے یہ طاقت فراہم کرتا ہے کہ وہ گزشتہ زمانے کی معلومات حاصل کرتا ہے، آئندہ کی پیش بینی کرتا ہے، اپنے علاقے سے نکل کردوسرے علاقوں میں جاپہنچتا ہے، یہاں تک کہ اپنے سیارے سے بھی نکل کر دوسرے سیاروں میں پہنچ جاتا ہے۔

لیکن اخلاق و عادات کا مسئلہ ایک دوسری چیز ہے، علم ودانش کے مسئلے سے ہٹ کرہے۔ بالفاظِ دیگر علم ودانش کا تعلق انسان کی تعلیم سے ہے اور اخلاق و عادات کا تعلق انسان کی تربیت سے۔ اگر انسان کوآگہی دیناچاہیں، توضروری ہے کہ اسے تعلیم فراہم کریں اور اگر اسے خاص قسم کے اخلاق و عادات سے آراستہ کرنا چاہیں، تواسی انداز سے اسکی تربیت کرنی ہوگی، اسے عادت اور پرورش دینا ہوگی۔ اس مقصد کے لئے تعلیم کے عامل (factor) سے ہٹ کر دوسری قسم کے عوامل درکار ہیں۔ ان معنوں میں کہ تعلیم، تربیت کی شرط ہے لیکن شرطِ لازم ہے } جس کا ہونا ضروری ہے{ نہ کہ شرطِ کافی } جس کے بعد کسی اور شرط کی ضرورت نہیں رہتی{۔

پہلا نظریہ جو صرف علم کو انسانیت کا معیار سمجھتا تھا، میرے خیال میں وہ کسی طور قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ ہم بعد میں عرض کریں گے کہ کن لوگوں نے اسی نظریئے کی پیروی کی ہے۔ لیکن دوسرا نظریہ جو اخلاق و عادات کی بات کرتا ہے، اس کے طرفدار زیادہ ہیں۔ لیکن اس وقت یہ مسئلہ درپیش ہے کہ کونسے اخلاق وعادات معیارِ انسانیت ہیں؟اس بارے میں بھی کئی نظریات پائے جاتے ہیں۔

انسان دوستی

ایک نظریہ یہ ہے کہ وہ خوبی جو معیارِ انسانیت ہے، وہ محبت اور انسان دوستی ہے۔ اور تمام دوسری خوبیوں کی ماں محبت ہے۔ لہٰذا اگر کسی کے اخلاق اور عادات کی بنیاد انسان دوستی پراستوار ہو اور وہ انسان دوست ہو، تووہ انسان ہے۔

دوسروں کے مسائل کے بارے میں بھی اپنے مسائل ہی کی طرح سوچنا، بلکہ اپنے سے زیادہ دوسروں کے بارے میں فکر مند ہونا، دین کی زبان میں اسے ”ایثار“ کہتے ہیں۔ ایک کتاب میں تحریر تھاکہ: ایک حکم جو دنیا کے تمام ادیان میں پایا جاتاہے، وہ یہ ہے کہ: دوسروں کے لئے بھی وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور دوسروں کے لئے بھی اس چیز کو ناپسند کرو جو اپنے لئے ناپسند کرتے ہو۔ ہماری احادیث میں یہ حکم ان الفاظ میں آیاہے: اَحْبِبْ لِغَیْرِکَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ وَ اکْرَہْ لَہُ مَا تَکْرَہُ لَھَا(۱)۔ دوسروں کے لئے بھی وہی چاہو جو اپنے لئے چاہتے ہواور اُن کے لئے بھی وہی چیز ناپسندکرو جو اپنے لئے نا پسند کرتے ہو۔ یہ منطق، محبت کی منطق ہے۔
جیساکہ آپ جانتے ہیں ہندومت اور عیسائیت میں بھی لفظ ” محبت“ پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں: ہر موقع پر محبت کرو، }ان کے یہاں{ محبت کے سوا کسی اور مسئلے پر اصلاًبات ہی نہیں ہوتی۔ البتہ ان دو نوں مکاتیب میں ایک انحراف پایا جاتا ہے۔ یعنی وہ محبت کی بات کرتے ہیں، لیکن وہ جس محبت کے متعلق بات کرتے ہیں، وہ ایک قسم کا نشہ ہے۔ یہ بھی ایک نظریہ ہے اور بعد میں ہمیں اس پر بحث کرنی چاہئے کہ کیا صرف محبت معیارِ انسانیت بننے کے لئے کافی ہے، یا نہیں؟

ہم نے عرض کیا کہ اخلاق و عادات کے نظریئے میں، معیارِ انسانیت کے حوالے سے جو پہلی چیز سامنے آتی ہے، وہ انسان دوستی ہے۔ اخلاقی انسان یا برتر انسان، بلند تر انسان، ایسا انسان ہے جو انسان دوست ہو۔
اس معیار کے تحت ہماری بعض مشکلات حل ہوجاتی ہیں۔ اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ آپ جو ابوذر کو معاویہ پر ترجیح دیتے ہیں، تواس ترجیح دینے کی وجہ کیا ہے؟ ہم نے دیکھا کہ پہلے معیارکے تحت، یعنی صرف علم و دانش کو برتری کا معیار سمجھنے کی صورت میں، ہماری یہ ترجیح درست ثابت نہیں ہورہی تھی لیکن دوسرے معیار کے تحت کسی حد تک یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں: معاویہ ایک ایسے انسان تھے جو صرف اپنی فکر میں رہتے تھے، اور فقط اپنے لئے سوچتے تھے، وہ اپنی جاہ طلبی کی تسکین کے لئے دوسرے انسانوں کا استحصال کرتے تھے۔پس ان میں خودغرضی، خودپسندی اور خود پرستی پائی جاتی تھی۔ لیکن ان کے برعکس ابوذر باوجودیہ کہ ان کے لئے تمام امکانات فراہم تھے اور یہی معاویہ تیار تھے کہ ان کے لئے زندگی کا بہترین ساز و سامان فراہم کریں، لیکن صرف اس لئے کہ معاویہ نے عوام کے حقوق کو پامال کیا تھا اور اس لئے کہ وہ (ابوذر) دوسروں کے مسائل کی فکر کیا کرتے تھے، لہٰذا انہوں نے معاویہ کی مخالفت کی، یہاں تک کہ انہوں نے اس راہ میں اپنی جان کی بازی لگادی اور جلاوطنی کے مقام رَبَذَہ میں تنہائی اور غریب الوطنی کے عالم میں جان دے دی۔ پس یہ جو ہم ایک انسان ہونے کے اعتبار سے ابوذر کو معاویہ پر ترجیح دیتے ہیں، اسکی وجہ یہ ہے کہ معاویہ کو صرف اپنی فکر تھی اور ابوذر دوسرے انسانوں کے لئے سوچتے تھے۔

ہم کیوں علی علیہ السلام کو ایک انسانِ کامل سمجھتے ہیں؟ اس لئے کہ وہ معاشرے کے دکھ درد کو محسوس کرتے تھے، اس لئے کہ ان کی میں، ہم میں تبدیل ہوچکی تھی، اس لئے کہ ان کی ”خود“ ایسی خود تھی جو تمام انسانوں کو جذب کرلیتی تھی۔ وہ دوسرے انسانوں سے الگ تھلگ ایک فرد نہیں تھے، بلکہ واقعاًوہ اپنے آپ کو ایک بدن کاایک عنصر، ایک انگشت، ایک عصب محسوس کرتے تھے کہ جب بدن کے کسی ایک مقام پر کوئی تکلیف ہوتی ہے، تو وہ عضو بھی بے چین و بے قرار ہوجاتا ہے۔ او ریہ خود انہی کے الفاظ ہیں۔

بیسویں صدی میں ہیومن ازم (Humanism) کے فلسفوں کے یہ کہنے سے پہلے ہی حضرت علی علیہ السلام نے یہ الفاظ کہہ دیئے تھے ۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کے اہلکار (ان کی جانب سے تعینات کئے گئے گورنر) نے ایک ایسی دعوت میں شرکت کی ہے، تو آپ نے اسے ایک عتاب آمیز خط لکھا، یہ خط نہج البلاغہ میں موجود ہے۔
اب وہ دعوت کیسی تھی؟
کیااُس گورنر نے کسی ایسی دعوت میں شرکت کی تھی جس کے دسترخوان پر شراب موجود تھی؟ نہیں۔
کیا وہاں جوا کھیلا جارہا تھا؟ نہیں۔
کیاوہاں مثلاًعورتوں کولا کر رقص کروایا گیا تھا؟ نہیں۔
کیاوہاں کوئی اور حرام کام انجام دیا گیاتھا؟ نہیں۔
پس پھر کیوں اس دعوت کی مذمت کی جارہی ہے اور اتنا سخت خط لکھا جارہا ہے؟

فرماتے ہیں: وَ مَا ظَنَنْتُ اَنَّکَ تُجِیْبُ اِلیٰ طَعَامِ قَوْمٍ عَاءِلُھُمْ مَجْفُوٌّ وَ غَنِیُّہُمْ مَدْعُوٌّ(۲)۔ ان کے گورنر کا قصور یہ تھا کہ اُس نے ایک ایسی دعوت میں شرکت کی تھی جہاں صرف بڑے لوگ مدعو تھے، یعنی مالدار لوگ وہاں موجودتھے اور غریب محروم۔حضرت علی فرماتے ہیں: مجھے یقین نہیں تھا کہ میرا گورنر، میرا نمائندہ ایک ایسی محفل میں قدم رکھے گا جس کے شرکا صرف اُمراء ہوں گے۔ اس کے بعد اس گورنر کو اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں، اپنے بارے میں کہتے ہیں۔ آپ اپنے درد سے زیادہ دوسروں کا درد محسوس کرتے ہیں، اُن کادکھ درد اس بات کا سبب بنا کہ انہیں اپنا درد محسوس ہی نہیں ہوتا۔ امام علی کے کلام سے پتا چلتا ہے کہ آپ حقیقتاً عالم، دانشور اور حکیم تھے۔

ہم جوحضرت علی علیہ السلام کی اس قدر تعریفیں کرتے ہیں، اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ
آپ علمِ پیغمبر کا دروازہ تھے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاہے کہ: اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا(۳)۔ بلکہ ہم زیادہ تر اس لئے ان کی تعریف کرتے ہیں کہ آپ انسان تھے۔ انسانیت کا یہ رکن آپ میں موجود تھا کہ آپ محروم انسانوں کے بارے میں سوچتے تھے، غافل نہیں تھے، دوسروں کادکھ دردمحسوس کرتے تھے۔اسی طرح آپ میں انسانیت کے دوسرے ارکان بھی پائے جاتے تھے۔

۳:ارادہ

ایک دوسرا مکتب کہتا ہے کہ معیارِ انسانیت ”ارادہ“ ہے، وہ ارادہ جو انسان کو خود اپنے نفس پر مسلط کردے۔ بالفاظِ دیگر انسان کاخود اپنے اوپر، اپنے نفس پر، اپنے اعصاب پر، اپنی جبلّتوں پر اور اپنی نفسانی خواہشات پر تسلط معیارِ انسانیت ہے۔یہاں تک کہ انسان سے جوعمل بھی صادر ہو، وہ اس کی عقل اور ارادے کے حکم سے ہو، اسکی رغبت اورجحان کے حکم سے نہیں۔

رغبت ورجحان اور ارادے کے درمیان فرق ہے۔ انسان میں پائی جانے والی رغبت اور اس کا رجحان ایک کشش اور جاذبہ ہوتا ہے، یہ بیرونی پہلو رکھتا ہے، یعنی انسان اور اُس خارجی شئے کے درمیان ایک رابطہ ہے جو انسان کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ایک ایسے بھوکے آدمی کی طرح جوکھانے کی جانب رغبت رکھتا ہے، یہ رغبت ایک کشش ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یا مثلاً جنسی خواہش ایک کشش ہے، ایک رغبت ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہاں تک کہ نیند بھی اسی طرح ہے۔ نیندانسان کو اپنی طرف کھینچتی ہے، انسان اُس حالت کی جانب کھنچتا چلا جاتا ہے جسے ” نیند“ کہتے ہیں ۔ جاہ و مقام کی جانب رغبت، عہدے و منصب کی خواہش اور اسی طرح کی دوسری چیزیں انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔

لیکن ارادے کا تعلق زیادہ تر اندر سے ہے، رغبت ورجحان کے برعکس ہے، }ارادہ{ انسان کو رغبتوں اور خواہشات کی کشش سے آزاد کرتا ہے۔ یعنی خواہشات کو انسان کے کنٹرول میں دے دیتا ہے۔ جیسا ارادہ کرتا ہے ویساکام کرتا ہے، نہ کہ جیسی خواہش ہو ویسا کام ۔

ارادے اور فکر کے تابع ہونے اور رغبت ورجحان کے تابع ہونے کے درمیان فرق ہے۔ یہ خواہشات پرکنٹرول کی ایک قسم ہے۔ اگر آپ نے غور کیا ہو، تو علمائے اخلاق، ہمارے اخلاق کے قدیم اساتذہ کازیادہ تر زور ارادے پر ہی ہوتا تھا، ایسا ارادہ جو انسانی رغبتوں اور خواہشات پر حاکم ہو۔ وہ کہتے تھے کہ انسانیت کا معیار ومیزان ارادہ ہے۔ حیوان، جبلّتوں کے جبر کا تابع موجود ہے، جوخواہشات ہی ہوتی ہیں۔ لیکن انسان وہ موجود ہے جو ارادے اور اختیار کے حکم کے تحت جبلّت کے جبر سے آزاد ہو۔انسان یہ ارادہ کرسکتا ہے کہ وہ اپنی رغبت کے خلاف عمل کرکے گا۔پس انسان وہ ہے جو اپنے آپ پرمسلط ہو اور جتنا انسان اپنے آپ پرمسلط نہ ہو، اُتنا ہی وہ انسانیت سے دور ہے۔
اسلام میں نفسِ امّارہ پر تسلط کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔اس بارے میں ایک چھوٹا سا قصہ (جسے شاید آپ نے سن رکھا ہو)نقل کرتے ہیں:

لکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں ایک مقام سے گزر رہے تھے جہاں جوانوں کا ایک گروہ ایک بڑے پتھر کو اُٹھانے کے ذریعے زور آزمائی میں مشغول تھا (جیسے ویٹ لفٹنگ کرتے ہیں) تاکہ دیکھیں کہ اُن میں سے کون بہتر طریقے سے اسے اُٹھا سکتا ہے۔اسکے لئے بھی دوسرے مقابلوں کی طرح ایک جج کی ضرورت تھی، کیونکہ کبھی دو افراد وزن کو قریب قریب یکساں بلندی تک اُٹھا لیتے تھے۔ جب پیغمبر اس مقام سے گزرے، توجوانوں نے کہا کہ پیغمبر سے بہتر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔} انہوں نے کہا {اے اللہ کے رسول!آپ یہاں ٹھہر کر ہمارے درمیان فیصلہ کریں کہ ہم میں سے کون بہتر انداز سے وزن اُٹھاتا ہے۔ آنحضرت نے اُن کی فرمائش قبول کرلی۔ وہ وزن اُٹھانے لگے۔آخر کار پیغمبر نے فرمایا:کیا تم لوگ چاہتے ہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں سب سے زیادہ طاقتور اور زیادہ قوی کون ہے؟ان لوگو نے کہا :جی رسول اللہ!آپ نے فرمایا: سب سے زیادہ طاقتور اور زیادہ قوت والا شخص وہ ہے کہ جب وہ غصے میں آئے، تو اس کا غصہ اس پر غالب نہ آئے، بلکہ وہ اپنے غصے پر غالب ہو۔اور اس کاغصہ اسے وہ راستہ اختیار نہ کرائے جس میں خدا کی رضا نہ ہو، وہ اپنے غصے پر مسلط ہو۔اور اگر وہ کسی بات پر خوش ہو تو اس کا یہ خوش ہونا اسے رضائے الٰہی کے خلاف کسی طرف نہ لے جائے اور وہ اپنی رضا، اپنی رغبت اوراپنی خواہش پر مسلط ہو۔یعنی پیغمبر نے اس جسمانی زور آزمائی کو فوراً ایک روحانی مقابلے میں تحلیل اورتبدیل کردیااور قوتِ بازو کے مسئلے کوقوتِ ارادہ کی حیثیت سے تحلیل کیا۔فرمایا کہ ہاں یہ بھی ایک کام ہے، وہ شخص جس کے بازو زیادہ قوی ہوں اس میں زیادہ مردانگی ہے، لیکن مردانگی صرف قوتِ بازو سے نہیں ہوتی، قوتِ بازو اسکی ایک چھوٹی سی علامت ہے۔مردانگی کی بنیاد ارادے کی قوت سے ہے۔ مولانا روم کہتے ہیں:

وقت خشم و وقت شہوت مرد کو

طالب مردی چنینم کو بہ کو (۴)

ہم، جو علی علیہ السلام کو شیرِ خدا کہتے ہیں، مردِ خداکہتے ہیں، اسکی وجہ یہ ہے کہ آپ دو محاذوں پر ہر ایک سے زیادہ مرد تھے، ایک بیرونی اور اجتماعی محاذ پر، مبارزے کے میدانوں میں، جہاں آپ ہر پہلوان کو چت کر دیتے تھے، اور اس سے بھی زیادہ اہم خود اپنے اندر کے محاذ پرکہ آپ خود اپنے اوپر مسلط تھے، ان کا ارادہ ہرذاتی رجحان، ہر نفسانی خواہش، ہر ایک سوچ پر حاکم تھا۔

یہ داستان جسے مولانا روم نے اپنی مثنوی میں بیان کیا ہے، مرادنگی اور قوتِ ارادہ کے اعتبار سے کس قدرغیر معمولی ہے! کیسی عالی اور لطیف مثال ہے، جس میں ایک چوبیس پچیس سالہ جوان، اپنے انتہائی طاقتور دشمن کو پچھاڑ کر، اسکے سینے پر بیٹھ جاتا ہے، اور جوں ہی اس کا سر تن سے جدا کرنا چاہتا ہے، وہ علی کے رخِ مبارک پر تھوک دیتا ہے۔ قدرتی بات ہے کہ علی طیش میں آجاتے ہیں، اس کاسر کاٹنے سے عارضی طور پر ہاتھ روک لیتے ہیں، چند لحظہ ٹہلتے ہیں اور اسکے بعد پلٹتے ہیں۔ دشمن پوچھتا ہے:آپ کیوں مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے؟فرماتے ہیں: اس لئے کہ اگر اس حال میں، میں تیرا سر کاٹ لیتا، تو ایسا اپنے غصے کے زیر اثر کرتا، اپنے فریضے کی ادائیگی کی خاطر، اپنے مقصد اورخدا کی راہ میں نہیں۔

انسان کو اپنے آپ پر، اپنے اعصاب پر، اپنے غصے پراور اپنی مرضی پر مسلط ہونا چاہئے۔
یہ بھی انسانیت کے لئے ایک معیاراور ایک نظر ہے۔ ایک دو معیار اورآپ کی خدمت میں عرض کرکے اپنی عرائض ختم کریں گے۔

۴:آزادی

انسان کی انسانیت کے لئے ایک اور معیارآزادی ہے۔
اس سے کیا مراد ہے؟
مراد یہ ہے کہ انسان اس قدر انسان ہے جس قدر وہ کوئی جبر قبول نہ کرے، کسی طاقت کا محکوم اور اسیر نہ ہو، خود آزادی کے ساتھ ہر چیز کا انتخاب کرے۔
آپ جانتے ہیں کہ جدید مکاتیب میں انسانیت کے معیارات میں سے ایک معیار کے طور پر آزادی پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یعنی جس قدر انسان آزاد زندگی گزار سکے، اسی قدر وہ انسان ہے۔ پس آزادی معیارِ انسانیت ہے۔
اس نظریئے کے متعلق کیا خیال ہے؟
یہ نظریہ درست ہے یا نہیں؟

یہ نظریہ بھی گزشتہ نظریات ہی کی طرح، درست بھی ہے اور غلط بھی۔ یعنی انسان کی انسانیت کے ایک جز کے طور پر درست ہے، لیکن انسانیت کا پورا معیار ہی یہ ہو، تو اس لحاظ سے یہ درست نہیں ہے۔

اسلام میں، جس طرح انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی ترغیب دی گئی ہے، اسے مقدس قرار دیا گیا ہے اور اس کی دعوت دی گئی ہے اور جس طرح انسان کے اپنے نفس پر تسلط کو مقدس سمجھا گیا ہے اور اس کی دعوت دی گئی ہے، اسی طرح آزادی کو بھی مقدس سمجھا گیا ہے۔

اسلام عجیب ہے!اُس نے ان تمام چیزوں پر گفتگو کی ہے۔ نہج البلاغہ میں، اُس وصیت نامے میں، جو حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کے نام تحریر کیا ہے، آیا ہے کہ: اَکْرِمْ نَفْسَکَ عَنْ کُلِّ دَنِیَّۃٍ۔ اپنے آپ کو، اپنے نفس کو ہر پست کام سے برتر سمجھو۔ پست اعمال کو قبول نہ کرو کہ تمہاری روح پست کاموں سے بالاتر ہے۔ فَاِنَّکَ لَنْ تَعْتَاضَ مِمَّا تَبْذُلُ مِنْ نَفْسِکَ عِوَضاً۔ نفسانی خواہش کی خاطر اپنی روح سے جو قیمت تم ادا کرتے ہو، اُس کے مقابلے میں تمہیں کچھ بھی نہیں ملتا۔ ایک شوق، ایک نفسانی خواہش کی خاطر جو قیمت تم اپنی بزرگی، اپنی روح سے ادا کرتے ہو، اس کا کوئی عوض نہیں ۔ یہاں تک کہ فرماتے ہیں: وَ لَاتَکُنْ عَبْدَ غَیْرِکَ وَ قَدْ جَعَلَکَ اللّٰہُ حُرّاً(۵)۔ کسی صورت اپنے آپ کو کسی کا غلام نہ بنانا کہ خدا نے تمہیں آزاد خلق کیا ہے۔
آپ یہ نہیں کہتے کہ خدا نے صرف تم کو، تم جو میرے بیٹے ہو اور امام حسن ہو، تمہیں خدا نے آزاد خلق کیا ہے، بلکہ یہاں ”تم“ایک انسان کے طور پر فرما رہے ہیں، کیونکہ یہ تخلیق کا مسئلہ ہے۔ یہ بھی (کہ معیارِ انسانیت آزادی ہے) ایک نظریہ ہے، جیسا کہ مکتبِ وجودیت (existent ialism) میں معیارِ انسانیت کے معاملے میں زیادہ تر آزادی کے مسئلے پر زور دیا گیا ہے۔

۵: فریضہ اور ذمے داری

انسانیت کا ایک اور معیار، فریضہ اور ذمے داری ہے۔ البتہ یہ زیادہ تر ”کانٹ“ سے شروع ہوا ہے، اس کے بعد ہمارے زمانے میں اس پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان وہ ہے جوذمے داری کا احساس رکھتا ہو، دوسرے انسانوں کے مقابل احساسِ ذمے داری کاحامل ہو، (غلط فہمی نہ ہوجائے، یہ محبت کے علاوہ ہے) اپنے سماج کے، حتیٰ خود اپنے اوراپنے گھرانے کے حوالے سے ذمے داری کا احساس رکھتا ہو۔
ذمے داری کے مسئلے نے ہمارے زمانے میں بہت وسعت اختیار کر لی ہے، اس پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے، لیکن یہاں بحث یہ ہے کہ ذمے داری کی بنیاد کیا ہے؟آزادی بھی اسی طرح ہے۔ کہاں سے اسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ انسان کو کس طرح احساسِ ذمے داری حاصل کرنا چاہئے؟ یعنی کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان احساسِ ذمے داری کرے، اس احساس کی بنیاد کیا ہے؟ کیا صرف بول دینے سے حاصل ہوسکتا ہے؟ کیا انسان کے یہ کہہ دینے سے کہ میں ذمے دار ہوں، اس کے ضمیر میں ذمے داری پیدا ہوجائے گی؟ اس ذمے دار ضمیرکو کونسی طاقت بناتی ہے؟ یہ خود ایک نکتہ ہے۔

۶: زیبائی

ہم ایک اورمکتب کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔ یہ مکتب زیبائی پر زور دیتا ہے۔ افلاطون نے اخلاق کی صفت زیبائی اور خوشنمائی کوقرار دیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ چیزانسانی ہے، جوزیبا اور خوشنما ہو۔ مثلاً عدالت کو تمام مکاتیب پسند کرتے ہیں۔ ایک مکتب عدالت کو محبت کی بنیاد پر پسند کرتا ہے، دوسرا مکتب عدالت کواسکے اخلاقی میزان کی بنیادپر پسند کرتا ہے، ایک اور مکتب کیونکہ عدالت اورآزادی کے درمیان قرابت کا قائل ہے، اس لئے اسے پسند کرتاہے۔ ایک اور ممکن ہے عدالت کو ذمے داری کے پیمانے پر پرکھتا ہو۔ افلاطون عدالت کو خوش نمائی کی عینک سے دیکھتا ہے۔ کہتا ہے: عدالت جو ایک اچھی چیز ہے (خواہ ایک فرد میں پائی جانے والی اخلاقی عدالت ہو، خواہ معاشرے میں پائی جانے والی اجتماعی عدالت) تو یہ اس وجہ سے اچھی ہے کہ یہ توازن کی بنیاد ہوتی ہے اور زیبائی وخوش نمائی پیدا کرتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں عدالت ہو، وہ خوش نما اور خوب صورت ہوتا ہے۔ اوریہ انسان میں پائی جانے والی خوب صورت پسندی کی حس ہے، جس نے اسے عدالت پسند بنایا ہے۔ انسان اگر انسان بننا چاہے، انسانی خصلتوں تک پہنچنا چاہے، تو اسے اپنے اندرحسِ زیبائی کو تقویت پہنچانی چاہئے، اس کی جڑزیبائی ہے۔ البتہ افلاطون اس جانب متوجہ تھا کہ معنوی زیبائیاں انسانی زیبائیاں ہیں۔ یہ بھی ایک مکتب ہے۔

آئندہ نشست(۶) میں ہم ان مکاتیب کے بارے میں کچھ اظہارِ خیال کریں گے، تاکہ یہ دیکھیں کہ کیا کہا جاسکتا ہے۔ان میں سے معیارِ انسانیت کونسا ہے؟ وہ حیاتیاتی بات جسے ہم نے دیکھا کہ درست نہیں ہے۔حیاتیات کے معیار کے مطابق انسانیت کی تعمیر نہیں ہوسکتی۔ دیکھیں گے کہ فلسفی، اخلاقی اور مذہبی معیارات کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے اور اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے؟

وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِہِ الطَّاھِرِیْنَ۔


*۔یہ تقریر ایران کی ایک یونیورسٹی میں کی گئی تھی۔ یونیورسٹی کا نام اور اس تقریر کی تاریخ واضح نہیں ہے۔

 ۱۔نہج البلاغہ۔مکتوب۳۱

۲۔ مجھے یہ امید نہ تھی کہ تم ایسے لوگوں کی دعوت قبول کرلو گے جن کے یہاں سے فقیر اور نادار

لوگوں کو دھتکار دیا گیا ہو۔(نہج البلاغہ۔مکتوب۴۵)

۳۔میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ (غایۃ المرام۔باب۲۹)

۴۔ غصے اور نفسانی خواہش کے موقع پر کون مردانگی دکھاتا ہے، میں گلی گلی کوچے کوچے ایسے مرد کا متلاشی ہوں۔

۵۔ نہج البلاغہ۔مکتوب۳۱

۶۔ یہ نشست شاید منعقد نہیں ہوئی، یا اگر منعقد ہوئی تو اس کی کیسٹ ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔