معنوی آزادی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
الحمد للّٰہ ربّ العالمین باری الخلائق اجمعین والصلاۃ والسّلام علی عبداللّٰہ ورسولہ و حبیبہ وصفیّہ، سیّدنا ونبیّنا ومولانا ابی القاسم محمد (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم) وعلی الہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین۔
اعوذ باللّٰہ من الشّیطان الرّجیم۔
”قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْااِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلَّا اﷲَ وَ لااَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْءًا وَّ لااَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ۔“(۱)

*۔یہ تقریر حسینیہ ارشاد تہران میں ۱۳رجب ۱۳۸۹ھ کو کی گئی۔

۱۔کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب! آؤ ایک منصفانہ کلمے پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، کسی کو اس کاشریک نہ بنائیں، آپس میں ایک دوسرے کو خدائی کا درجہ نہ دیں۔(سورۂ آلِ عمران۳۔آیت۶۴)
ہماری گفتگو کا موضوع ” معنوی آزادی“ ہے۔ آج اس مقدس محفل میں مجموعی طور پرجو باتیں ہم عرض کرنا چاہتے ہیں، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ آزادی کیا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ آزادی کی کتنی اقسام ہیں؟
البتہ ہم آزادی کی صرف دو اقسام کے بارے میں ذکر کریں گے: معنوی آزادی اور سماجی آ زادی اور پھرتیسرے مرحلے پر آزادی کی ان دونوں اقسام کے باہمی تعلق اور وابستگی کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ یعنی اس بارے میں کہ مثلاً معنوی آزادی، سماجی آزادی کے بغیر ممکن ہے یا نہیں؟ یا اسکے برعکس سماجی آزادی، معنوی آزادی کے بغیر میسّر آ سکتی ہے یا نہیں؟
ہماری زیادہ ترگفتگو دوسری قسم کے بارے میں ہو گی۔ یعنی سماجی آزادی کی معنوی آزادی کے ساتھ وابستگی کے بارے میں۔
لفظ ”مولا“
تمہیدی طورپر ہم آج کے دن کی مناسبت سے، کچھ باتیں عرض کرنا چاہتے ہیں، آج کا دن مولائے متقیان علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولادت کا دن ہے، اورہم نے اسی مناسبت سے اس موضوع کا انتخاب کیا ہے۔
عرض ہے کہ ہم حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں جوالفاظ بہت کثرت سے استعمال کرتے ہیں، اُن میں سے ایک لفظ ”مولا“ ہے۔ مولائے متقیان، مولیٰ الموالی اور کبھی بطورِ مطلق مولا، مولا نے یہ فرمایا، مولا کے قول کے مطابق وغیرہ وغیرہ۔
حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں اس لفظ کا استعمال پہلی مرتبہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس معرف جملے میں کیا جس کے بارے میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”مَنْ کُنْتُ مَوْلاہُ فَھٰذا عَلِیٌّ مَوْلاہُ“ (جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی (جس کا میں نے ہاتھ بلند کیا ہوا ہے) مولا ہے۔بحارالانوار۔ ج ۳۶۔ ص ۳۳۱)
اس سے آگے بڑھیں تو قرآنِ کریم میں بھی ایک آیت ہے جس میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور اسکی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ اس سے مرادحضرت علی علیہ السلام ہیں۔اس آیت میں ارشادِ الٰہی ہے: فَاِنَّ اﷲَ ہُوَ مَوْٰلہُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْن۔(۱)لیکن جو جملہ ہم نے عرض کیاہے، وہ رسولِ کریم کی جانب سے واضح نص ہے۔

لفظ مولا کے کیا معنی ہیں؟
آج کی رات ہم لفظ مولا کے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں کرنا چاہتے۔ اجمالاً اسی قدر عرض کریں گے کہ اس لفظ کا اصلی مفہوم ”قرب“ اور ”نزدیکی“ ہے۔ ایسی دو چیزوں کے بارے میں لفظ ولا، ولی یا مولا استعمال کیا جاتا ہے جو ایک دوسرے کے پہلو میں اور ایک دوسرے سے متصل ہوں۔ لہٰذا اکثر دو متضاد معنی میں مستعمل ہے۔ مثلاً خدا کے لئے بندوں کی نسبت سے مولا کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور اسکے برعکس بھی اس لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔آقا کے لئے بھی مولا کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور غلام کو بھی مولاکہا جاتا ہے۔ مولا کے ایک اور معنی، جو ہمارے مقصود ہیں ”مُعتِق“ یعنی آزادکرنے والا ہیں۔ ایسا شخص جو آزاد ہوتا ہے اسے ” مُعتَق“ کہتے ہیں۔ لفظ مولا کا اطلاق ”مُعتِق“ پر بھی ہوتا ہے اور ” مُعتَق“ پر بھی۔ یعنی آزاد کرنے والے کو بھی مولا کہتے ہیں اور آزاد ہونے والے کو بھی مولا کہا جاتا ہے۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ”مَنْ کُنْتُ مَوْلاہُ فَھٰذا عَلِیٌّ مَوْلاہُ“ سے کیا مراد ہے؟ مولا کے کونسے معنی مراد ہیں؟
ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ یہاں ہمارے عقیدے کے لحاظ سے اسکے کونسے معنی درست ہیں۔ لیکن اپنی بحث کی مناسبت سے عرض کرتے ہیں کہ مولانا روم نے اپنی مثنوی میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے اور ایک خاص ذوق کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولا کے معنی ”مُعتِق“ یعنی آزادی بخشنے والا لئے ہیں۔ظاہراً مثنوی کے دفترِ ششم میں ہے، ایک معروف داستان ہے، خیانت کار قاضی اور عورت کی داستان۔ قاضی صندوق میں چھپنا چاہتا ہے، اُسے صندوق میں چھپا دیتے ہیں ۔پھر یہ صندوق

۱۔یاد رکھو کہ اللہ اس کا مولا ہے اور جبرئیل اور نیک مؤمنین۔(سورۂ تحریم ۶۶۔ آیت ۴)
ایک مزدور کے حوالے کر دیتے ہیں۔ راستے میں قاضی اس مزدور سے التماس کرتا ہے کہ میں تجھے منہ مانگا انعام دوں گا، تو جا اور میرے معاون کو خبر کر دے کہ وہ آکر اس صندوق کو خرید لے۔ اسکے معاون کو خبر کی جاتی ہے، وہ آتا ہے، صندوق خریدتا ہے اور قاضی کو آزاد کراتا ہے۔اس مقام سے مولانا روم مضمون بدلتے ہیں اور کہتے ہیں : ہم سب تن کی شہوت کے صندوق میں بند ہیں لیکن اپنی اس حالت کا ہمیں خودبھی پتا نہیں ہوتا۔ ہمیں آزاد کرانے والے ایک شخص کی ضرورت ہے، جو ہمیں نفس اور تن کی شہوت کے اس صندوق سے آزاد کرائے۔ انبیا و مرسلین آزاد کرانے والے اور نجات دہندہ ہیں۔ پھر کہتے ہیں۔
زین سبب پیغمبر با اجتھاد

نام خود و انِ علی مولا نھاد
گفت ہر کس رامنم مولا و دوست

ابن عم من علی مولای اوست
کیست مولا؟ آنکہ آزادت کند

بند رقّیت زپایت برکَنَد
جی ہاں، واقعاًیہ ایک حقیقت ہے ۔ یعنی قطع نظر اس کے کہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلاہُ فَھٰذا عَلِیٌّ مَوْلاہُ“ کے معنی یہی ہوں یا نہ ہوں۔ یعنی نبی کریم نے خود اپنے آپ کو اورحضرت علی کو جو مولا کہا ہے، تو یہ آزادی بخشنے کے اعتبار سے ہو یا نہ ہو، لیکن یہ خود ایک حقیقت ہے کہ ہر سچا نبی لوگوں کو آزادی عطا کرنے کے لئے مبعوث ہوا ہے اورہر امامِ حق کی خصوصیت بھی یہی ہے۔
”آزادی“ کے معنی
اب دیکھتے ہیں کہ آزادی کے کیا معنی ہیں؟ یہ آزادی اور آزادگی جس کا ذکر ہوتا ہے، اس سے کیا مرادہے؟
آزادی، زندگی اور ارتقاکے لوازمات میں سے ہے۔ یعنی ہر زندہ موجود کی ایک ضرورت آزادی ہے۔ فرق نہیں پڑتا کہ یہ زندہ موجود نبات میں سے ہو یا حیوان میں سے یا انسان ہو، بہر

۱۔ اسی بنا پر پیغمبر نے اپنے آپ کو اور علی کو مولا کہا اور فرمایا کہ جس کا میں مولا اور دوست ہوں، میرا چچازاد بھائی علی بھی اسکا مولا ہے۔مولا کون ہوتا ہے؟ جو تمہیں آزادی دلائے، تمہارے پیروں سے غلامی کی زنجیر کاٹے۔
صورت آزادی کا محتاج ہے۔
البتہ نبات کی آزادی اُن کی ساخت کی مناسبت سے ہوتی ہے، حیوان کی آزادی دوسری قسم کی ہوتی ہے، جبکہ انسان نبات اور حیوان کی آزادیوں سے ماوراء دوسری آزادیوں کا محتاج ہوتاہے۔
ہر زندہ موجود کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ و ہ رشد ونموپاتا ہے، ارتقا کی جانب گامزن ہوتا ہے، متوقف اور منجمد نہیں ہوتا، ایک ہی حالت میں پڑا نہیں رہتا۔
جمادات، جن میں نمو اورارتقا نہیں ہوتا، اُنہیں آزادی کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ جمادات کے لئے آزادی کا کوئی مفہوم ہی نہیں ہوتا، لیکن نباتات کے لئے آزادی لازم ہے۔ زندہ موجودات کواپنی نمو اورارتقا کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے: تربیت، تحفظ اور آزادی۔
تربیت عوامل واسباب کے ایک ایسے سلسلے کا نام ہے جس کی زندہ موجودات کو اپنی نشوونما کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک نبات کواپنی نشو و نما کے لئے مٹی اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے، روشنی اور حرارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک حیوان کوخوراک کی ضرورت ہوتی ہے، اورایک انسان کونبات اور حیوان کے لئے ضروری تمام چیزوں کے علاوہ مزید چند چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو سب کی سب تعلیم و تربیت کی اصطلاح میں شامل ہیں۔
یہ عوامل اُن غذاؤں کی مانند ہیں جنہیں ایک زندہ موجود تک پہنچنا چاہئے، تاکہ و ہ نشو ونماپاسکے۔ اس بات پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ ایک زندہ موجود بغیر غذا کے نشو و نما پا سکتا ہے۔ زندہ موجود کی زندگی کی ایک ضرورت قوۂ غاذیہ(۱) ہے۔
زندہ موجود کی دوسری ضرورت تحفظ ہے۔
تحفظ (security)کیا چیز ہے؟

۱۔ وہ قوت جو غذا کو تحلیل کر کے اسے جسم کا حصہ بناتی ہے۔
یعنی کچھ چیزیں زندہ موجود کے اختیار میں ہوتی ہیں؟ وہ حیات رکھتا ہے، حیات کے لوازم اور ضروریات بھی اسکے پاس ہوتی ہیں، اسے تحفظ حاصل ہونا چاہئے، تاکہ جو کچھ اسکے پاس ہے کوئی دوسرا اسے اس سے چھین نہ لے ۔یعنی کوئی دشمن، کوئی بیرونی قوت اسے حاصل چیزیں چھین نہ لے۔
ہم انسان کو سامنے رکھتے ہیں ۔ انسان کو تعلیم و تربیت کی ضرورت بھی ہوتی ہے تحفظ کی بھی۔ یعنی وہ جان رکھتا ہے، اس سے اسکی جان نہ چھین لیں۔ دولت رکھتاہے، اس سے اسکی دولت نہ ہتھیا لیں ۔صحت رکھتا ہے، اس سے اسکی صحت نہ چھین لیں ۔جو کچھ اسکے پاس ہے، اسے اس سے محروم نہ کر دیں ۔
تیسری چیز جس کی ہر زندہ موجود کوضرورت ہے، وہ آزادی ہے ۔

آزادی یعنی کیا؟
یعنی اُس کا راستہ نہ روکیں، اسکے سامنے رکاوٹ کھڑی نہ کریں ۔
ممکن ہے ایک زندہ موجود کوتحفظ (security)حاصل ہو، نشو ونما کے عوامل بھی رکھتا ہو، لیکن عین اسی وقت اسکی نشوونما میں رکاوٹ حائل کردی جائے ۔
فرض کیجئے آپ ایک پودے کی نشوونما چاہتے ہیں۔ لہٰذا دوسری تمام شرائط کے ساتھ ساتھ اس کی نشوونما کے لئے ماحول بھی ساز گار ہو، یعنی کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو، کوئی ایسی چیز حائل نہ ہو جو اسکے رشد و نمو کا راستہ روک لے ۔مثلاً ایک درخت اس وقت بڑھے گا جب اسکے سامنے کھلی فضا ہو۔ اگر آپ ایک پودا زمین میں بودیں، جبکہ اسکے اوپر ایک بڑی چھت ہو، تو خواہ یہ پودا چنار کا پودا ہو، اسکے باوجود اسکی نشوونما کاکوئی امکان نہیں ۔
ہر زندہ موجود، جو نشوونما اور ارتقا کا راستہ طے کرنا چاہتا ہے، اُسکی ایک ضرورت آزادی ہے۔
پس آزادی، یعنی کیا ؟
یعنی رکاوٹ کا نہ ہونا ۔آزاد انسان، وہ انسان ہوتے ہیں جو اپنی نمو اور ارتقاکی راہ میں حائل رکاوٹوں سے مقابلہ کرتے ہیں ۔وہ ایسے انسان ہوتے ہیں جو رکاوٹوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیک دیتے۔
یہ تو تھی آزادی کی ایک مختصر تعریف، اب نوبت ہے آزادی کی اقسام کے بیان کی ۔

آزادی کی اقسام
انسان جوایک خاص قسم کا موجود ہے اور اسکی زندگی اجتماعی زندگی ہے ۔علاوہ ازیں وہ اپنی انفرادی زندگی میں ایک ارتقا یافتہ موجود ہے اور نبات و حیوان سے بہت مختلف ہے ۔جن آزادیوں کی نباتات اور حیوانات کو ضرورت ہے، انسان کی ان کے علاوہ بھی کچھ ضروریات ہیں، جنہیں ہم دو اقسام میں تقسیم کرتے ہیں ۔ان میں سے ایک قسم سماجی آزادی ہے ۔

سماجی آزادی کے کیا معنی ہیں ؟
اسکے معنی ہیں کہ انسان کو معاشرے میں، دوسرے افرادِ معاشرہ کی طرف سے آزادی حاصل ہو، دوسرے اسکے نمواور ارتقا کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں، اسے محبوس نہ کریں، اسے ایک ایسا قیدی نہ بنادیں جس کی فعالیت اور سرگرمیوں کے راستے بند کر دئیے جاتے ہیں، دوسرے اُس کا استثمار (exploitation) نہ کریں، اسے اپنا خادم نہ بنالیں، غلام نہ بنا ڈالیں ۔یعنی اسکی تمام فکری اور جسمی قوتوں کو صرف اپنے منافع اور مفاد کے لئے استعمال نہ کریں ۔

اسے کہتے ہیں سماجی آزادی ۔
خود سماجی آزادی کی بھی قسمیں ہوسکتی ہیں، جن سے فی الحال ہمیں سروکار نہیں ہے ۔پس آزادی کی اقسام میں سے ایک قسم سماجی آزادی ہے ۔یعنی انسان دوسرے لوگوں کی طرف سے آزاد ہو ۔
تاریخ کے طویل ادوارمیں انسانی زندگی کی ایک مشکل یہی رہی ہے کہ طاقتور اور قدر تمند افراد نے اپنی طاقت و قوت سے غلط فائدہ اٹھایااوردوسرے افراد کو اپنی خدمت پر لگا لیا، انہیں اپنے غلاموں کی طرح بنالیا اور ان کی محنت کا ثمرجو خود اُن کے لئے ہونا چاہئے تھا، اُسے اُن سے ہتھیا لیا۔

آپ لفظ استثمار کے معنی جانتے ہیں ؟
استثمار، یعنی دوسروں کا پھل اچک لینا ۔ہرانسان کا وجود پھلوں سے لدے ایک درخت کی مانند ہے ۔ہر انسان کے وجود کا پھل، یعنی اسکی فکر و عمل کاماحصل، اسکی سرگرمیوں کا حاصل، اسکے ہنر کا محصول خود اسکی ملکیت ہونا چاہئے ۔ جب کچھ افراد دوسروں کے وجود کے درخت کا پھل اپنی ملکیت بنا لینے کاکام کرتے ہیں، اور اُن کے وجود کا پھل ہتھیا لیتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ انہوں نے اُن دوسرے انسانوں کا استثمار کیا ہے ۔
تاریخِ بشر میں انسانوں کی مشکلات و مسائل میں سے ایک مشکل یہی رہی ہے کہ ایک فرد نے دوسرے فرد کا، ایک قوم نے دوسری قوم کا استثمارکیا ہے، اسے اپنی غلامی میں لیا ہے ۔یا کم از کم یہ کیا ہے کہ اپنے لئے میدان کھلا رکھنے کی خاطر دوسرے سے میدا ن چھین لیا ہے، اُس کا استثمار نہیں کیا لیکن اسکے میدان پر قبضہ کر لیا ہے ۔مثلاً فرض کیجئے ایک قطعۂ زمین دو افراد کی مشترکہ ملکیت ہے، دونوں اس زمین سے استفادہ کرتے ہیں، اُن دونوں میں سے جو شخص قوی اور طاقتور ہوتا ہے وہ اپنی زمین کوتوسیع دینے کے لئے دوسرے کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کر لیتا ہے اور اسے زمین سے بے دخل کر دیتا ہے، یا اُسے زمین سمیت اپنی خدمت پر مامور کر لیتا ہے، جسے اسارت اورغلامی کہتے ہیں ۔

قرآن میں سماجی آزادی
قرآنِ مجید کی نص کے مطابق انبیا کے مقاصد میں سے ایک مقصد انسانوں کو سماجی آزادی فراہم کرنا ہے ۔یعنی انسانوں کو ایک دوسرے کی قید، بندگی اور غلامی سے نجات دلانا ۔قرآنِ کریم ایک حیرت انگیز کتاب ہے !! بعض معانی و مفاہیم ایسے ہیں جو ایک زمانے میں کھل اٹھتے ہیں، زندہ ہوتے ہیں، رفعت وبلندی حاصل کرتے ہیں، لیکن اگر دوسرے زمانوں میں انہیں دیکھا جائے تو انہیں اس قدر بلندی حاصل نہیں ہوتی ۔بعض ادوار میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض کلمات بجا طور پررفعت پاتے ہیں۔جب ہم قرآنِ مجیدکا مطالعہ کرتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ قرآنِ مجید میں یہ کلمہ کس قدرشان اور بلندی کا حامل ہے اور یہ ایک عجیب بات ہے ۔قرآن کے ولولہ انگیز پیغاموں میں سے ایک پیغام یہی ”سماجی آزادی“ ہے ۔
میرا خیال ہے کہ اس بارے میں جس قدر زندہ اور ولولہ انگیز جملہ قرآنِ کریم میں آیا ہے ویسا جملہ آپ کہیں اورسے نہیں لاسکتے، آپ کسی بھی زمانے میں نہیں پاسکتے، نہ اٹھارویں صدی میں، نہ انیسو یں صدی میں اور نہ بیسویں صدی میں ۔جبکہ ان صدیوں میں فلاسفہ آزادئ بشر کا نعرہ لگاتے ہیں، اور آزادی کا لفظ حد سے زیادہ زبان زدِعام ہے اور ایک نعرے کی صورت میں ڈھل چکا ہے۔ آپ ایک ایسا جملہ لایئے جو اس جملے سے زیادہ زندہ اور ولولہ انگیز ہو جو قرآن میں موجود ہے کہ:
”قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْااِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلَّا اﷲَ وَ لااَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْءًا وَّ لااَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ۔“(۱)
اے پیغمبر !یہ لوگ جو کسی ایک گزشتہ آسمانی کتاب کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں، ان یہودیوں، ان زرتشتیوں (اورحتیٰ شاید ان صابئین، جن کا نام قرآن میں آیا ہے ) اور وہ تمام اقوام جو گزشتہ ایک آسمانی کتاب کی پیروکار ہیں، اُن سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم سب ایک کلمے کے گرد، ایک پرچم تلے جمع ہوجائیں ۔وہ پرچم کیا ہے ؟} اس بارے میں{صرف دو جملے کہے گئے ہیں، ایک جملہ یہ ہے کہ ”اَلاَّ نَعْبُدَ اِلَّا اﷲَ وَ لااَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْءًا۔“ عبادت کے موقع پر، خدائے یگانہ کے سوا کسی اور کی پرستش نہ کریں، نہ حضرت عیسیٰ کی پرستش کریں، نہ ان کے سوا کسی اور کی، اورنہ اھرمن کی۔ خدا کے سوا کسی موجود کی پرستش نہ کریں ۔
دوسرا جملہ ہے ” وَّ لااَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ۔“ یعنی ہم میں سے کوئی بھی کسی دوسرے کو اپنا غلام اور بندہ نہ سمجھے اور کوئی بھی کسی دوسرے شخص کو اپنا ارباب اور آقا قرارنہ دے۔یعنی آقائی اور نوکری کا نظام منسوخ، استثمار، مستثمِر اورمستثمَر کا نظام منسوخ ۔عدم

۱۔کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب! آؤ ایک منصفانہ کلمے پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، کسی کو اس کاشریک نہ بنائیں، آپس میں ایک دوسرے کو خدائی کا درجہ نہ دیں۔(سورۂ آلِ عمران۳۔آیت۶۴) مساوات کا نظام منسوخ ۔کسی کو کسی پر استثمار اور استعباد}اسے بندہ اور غلام بنانے{ کا حق نہیں۔
صرف یہی ایک آیت نہیں، اس بارے میں قرآنِ کریم میں بکثرت آیات موجود ہیں۔
کیونکہ ہم اپنی عرائض کو اختصار کے ساتھ پیش کرنا چاہتے ہیں، اس لئے ان میں سے صرف چند آیات پیش کریں گے :
قرآنِ کریم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبانی نقل کرتا ہے کہ جب اُنہوں نے فرعون سے مباحثہ کیا اور فرعون نے اُن سے کہاکہ : اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّ لَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ وَ فَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَ اَنْتَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ (۱) تو حضرت موسیٰ نے اس سے کہا : وَ تِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ۔ (۲)
فرعون نے حضرت موسیٰ سے کہا : تم وہی ہو جو ہمارے گھر میں پلے بڑھے، ہماری روٹی کھا کربڑے ہوئے ۔تم وہی ہو جو بڑے ہونے کے بعد اس جرم کے مرتکب ہوئے (فرعون کے الفاظ میں ) تم نے ایک انسان کو قتل کیا ۔
اس طرح فرعون حضرت موسیٰ پر احسان جتانا چاہتا تھا کہ تم ہمارے گھر میں پلے بڑھے ہو، تم نے تو ہمارے دسترخوان کی روٹیاں کھائی ہیں ۔ حضرت موسیٰ نے اس سے کہا : یہ بھی کوئی بات ہوئی ؟ !بے شک میں تیرے گھر میں پلا بڑھا ہوں، لیکن کیا تیرے گھر میں پل کر بڑا ہونے کی وجہ سے، میں تجھے اپنی قوم کو غلام بناتا دیکھوں اور خاموش رہوں ؟ نہیں، میں ان لوگوں کو غلامی سے نجات دلانے کے لئے آیا ہوں ۔
مرحوم آیت اﷲ نائنی کتاب ” تَنْزیہُ الْاُمَّۃ“ میں فرماتے ہیں کہ سب جانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کی قوم، او لادِ یعقوب نے قبطیوں کی مانند فرعون کی پرستش نہیں کی تھی، لیکن کیونکہ فرعون

۱۔کیا ہم نے تمہیں بچپنے میں پالانہیں ہے اور کیا تم نے ہمارے درمیان اپنی عمر کے کئی سال نہیں گزارے ہیں، اور تم نے وہ کام کیا ہے جو تم کر گئے ہو اور تم شکریہ ادا کرنے والوں میں سے نہیں ہو ۔(سورۂ شعرا ء ۲۶۔آیات ۱۸، ۱۹)
۲۔یہ احسان جو تو (میری) تربیت کے سلسلے میں جتا رہا ہے، تو تو نے بڑا غضب کیا تھا کہ بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا لیا تھا ۔(سورہ شعراء ۲۶۔آیت ۲۲)
نے انہیں غلاموں کی مانند اپنی خدمت پر مامور کیا ہوا تھا، لہٰذا قرآنِ کریم نے اس بات کولفظ ”تعبید“ کے ذریعے حضرت موسیٰ کی زبان سے نقل کیا ہے۔
بطورِ کلی اور قطعی طور پر انبیا کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ تھا کہ سماجی آزادی فراہم کریں اور مختلف معاشرتی بندگیوں، غلامیوں اور معاشرے میں آزادی سلب کرنے کے مختلف مظاہرکے خلاف جنگ کریں ۔آج کی دنیا بھی ”سماجی آزادی“ کو اپنی مقدس اور قابلِ احترام چیزوں میں سے شمار کرتی ہے۔اگرآپ اعلامیۂ حقوقِ بشر کے مقدمے کا مطالعہ کریں، تو بھی یہی بات سامنے آتی ہے ۔وہاں کہا گیا ہے کہ: دنیا میں وجود میں آنے والی تمام جنگوں، خونریزیوں اور بدبختیوں کی علتِ علل یہ ہے کہ افرادِ بشر ایک دوسرے کی آزادی کا احترام نہیں کرتے ۔
کیا یہاں تک انبیا کی منطق اورعصرِحاضر کی منطق میں اتفاق پایا جاتا ہے ؟

کیا آزادی مقدس چیز ہے ؟
جی ہاں آزادی مقدس ہے اور انتہائی مقدس ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک جملہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ متواتر بھی ہے ۔فرماتے ہیں:اِذابَلَغَ بَنواَبِی الْعاصِ ثَلاثینَ ا تَّخَذوا عِبادَاﷲِ خَوَلاً وَمالَ اﷲِ دُوَلاً وَدینَ اﷲِ دَخَلاً ۔(۱) پیغمبر اسلام ہمیشہ امویوں کی طرف سے خطرہ محسوس کرتے تھے اور امت کے مستقبل کے حوالے سے ان کی طرف سے پریشان رہتے تھے ۔فرماتے تھے :جب اولادِ ابوالعاص کی تعداد تیس تک ہوجائے گی، تو وہ خدا کے بندوں کو اپنا بندہ اورخدا کے مال کو اپنا مال سمجھے گی اور دین خدا میں بھی من مانی بدعتیں ایجاد کرے گی ۔
پس یہ بات بھی درست ہے کہ سماجی آزادی مقدس ہے۔ لیکن آزادی کی ایک اور قسم معنوی آزادی ہے ۔
معنوی آزادی
انبیا کے مکتب اور انسانوں کے بنائے ہوئے مکاتیب کے درمیان فرق یہ ہے کہ انبیا اس

۱۔ مجمع البحرین طریحی
لئے آئے ہیں تا کہ انسانوں کو سماجی آزادی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں معنوی آزادی بھی عطا کریں۔ معنوی آزادی کوہر دوسری چیزسے زیادہ قدر و اہمیت حاصل ہے ۔صرف سماجی آزادی مقدس نہیں ہے، بلکہ معنوی آزادی بھی مقدس ہے ۔اور سماجی آزادی، بغیر معنوی آزادی کے میسّراور عملی نہیں ہوسکتی ۔
دورِ حاضر کے انسانی معاشروں کامسئلہ یہی ہے کہ آج کا انسان یہ تو چاہتا ہے کہ سماجی آزادی فراہم کرے، لیکن معنوی آزادی کے حصول کی کوشش نہیں کرتا۔ یعنی اس میں اس کی قدرت و صلاحیت ہی نہیں ہے۔ کیونکہ معنوی آزادی کو نبوت، انبیا، دین، ایمان اور آسمانی کتابوں کے سوا کسی اور طریقے سے فراہم کیا ہی نہیں جاسکتا ۔
اب دیکھتے ہیں کہ معنوی آزادی کے کیا معنی ہیں ؟
انسان ایک مرکب وجود اور مختلف قویٰ اور جبّلتوں(instincts) کا مالک ہے ۔انسان کے وجود میں ہزاروں طاقتور قویٰ پائے جاتے ہیں ۔انسان میں شہوت ہوتی ہے، غضب اور غصہ ہوتا ہے، حرص و طمع ہوتی ہے، جاہ طلبی اور زیادہ طلبی ہوتی ہے ۔اسکے ساتھ ساتھ وہ عقل کامالک بھی ہوتا ہے، فطرت رکھتا ہے، اخلاقی وجدان کاحامل ہوتا ہے ۔
ممکن ہے انسان معنوی لحاظ سے، باطنی لحاظ سے اور اپنی روح کے اعتبار سے ایک آزاد مرد ہو، اوریہ بھی ممکن ہے کہ ایک غلام فرد ۔یعنی ممکن ہے کہ انسان اپنی حرص کا بندہ ہو، اپنی شہوت کا غلام ہو، اپنے غصے کا اسیر ہو، زیادہ طلبی نے اسے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہو اور ممکن ہے ان سب چیزوں سے آزاد ہو۔
فاش می گویم وازگفتۂ خود دلشادم

بندۂ عشقم وازھر دو جہان آزادم(۱)
ممکن ہے ایک انسان جس طرح سماجی اعتبار سے ایک آزاد مرد ہو، کسی ذلت کے سامنے سر نہ جھکاتا ہو، غلامی قبول نہ کرتاہو اور معاشرے میں اپنی آزادی کی حفاظت کرتا ہو، }اسی طرح{

۱۔صاف کہتا ہوں اور اپنے کہے پر مطمئن ہوں کہ میں عشق کا غلام اور دوجہاں سے آزاد ہوں۔
اخلاق اور معنویت کے اعتبار سے بھی اپنی آزادی کا تحفظ کرتا ہو ۔یعنی اپنے ضمیر اور فکر کو آزاد رکھتا ہو ۔یہ آزادی وہی چیز ہے جسے دین کی زبان میں ”تزکیۂ نفس“ اور ”تقویٰ“کہا جاتا ہے ۔
معنوی آزادی سے سماجی آزادی کی وابستگی
کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ انسان سماجی آزادی کا مالک تو ہو لیکن معنوی آزادی نہ رکھتا ہو ؟ یعنی انسان خوداپنی شہوت، غضب، حرص و طمع کا اسیر ہو لیکن اس کے باوجود دوسروں کی آزادی کا احترام کرتا ہو ؟
آج عملاً اسکا جواب اثبات میں دیا جاتا ہے ۔عملاً چاہتے ہیں کہ انسان اپنے طمع و لالچ، شہوت اور غضب کا غلام رہے، اپنے نفسِ امارہ کا قیدی رہے اور اسی حال میں وہی انسان جو خود اپنا اسیر اور قیدی ہے سماجی آزادی کو محترم سمجھے ۔یہ اجتماع ضدین کی ایک مثال ہے ۔آج کے انسانی معاشرے کا ایک تضاد یہی ہے ۔
قدیم زمانے کا انسان آزادی کو محترم نہیں سمجھتا تھا، آزادی کو پامال کیاکرتا تھا ۔

ٹھیک ہے، لیکن کیوں پامال کرتا تھا ؟
کیا وہ نادان تھا اس لئے دوسروں کی آزادی سلب کیاکرتا تھا اور اب جبکہ انسان دانا ہو چکا ہے تو اِس کا یہ دانا اور صاحبِ شعور ہونا اس بات کے لئے کافی ہے کہ وہ دوسروں کی آزادی کااحترام کرے گا؟
مثلاً بیماریوں کے بارے میں ایسا ہے۔ قدیم انسان جاہل و نادان تھا، اس لئے جب بیماریوں کا سامنا کرتا تھا تو اپنی تعین کردہ مخصوص دواؤں سے کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر پاتا تھا۔ لیکن آج کیونکہ انسان دانا ہو چکا ہے، اسلئے کافی ہے کہ علاج کے اس قدیم طریقے کو دور اٹھا کر پھینک دے اور اسکی جگہ نیا علاج لے آئے ۔
ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ قدیم انسان جو دوسروں کی آزادی سلب کرتا تھا، تو اسکی وجہ کیایہ تھی کہ وہ لاعلم تھا ؟ اپنی نادانی کی بنا پر آزادی سلب کیاکرتا تھا ؟
نہیں، نادانی اور دانائی اس عمل میں اثر نہیں رکھتی تھی۔وہ جانتے بوجھتے (دوسروں کی آزادی) سلب کیاکرتا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ یہی اسکے مفاد میں ہے ۔
قدیم انسان، جو دوسروں کی آزادی اور حقوق کو محترم نہیں سمجھتا تھا، تو کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے کے قوانین اس اندازسے وضع کئے گئے تھے، اب جوں ہی قانون بدلے گا معاملہ یکسر درست ہوجائے گا ؟ ان طے کردہ قوانین کی طرح جو انسان بناتاہے ۔مثلاً امریکہ میں کہتے ہیں غلامی کا قانون منسوخ ہوگیا ہے ۔ وہاں غلامی کا قانون منسوخ ہوتے ہی کیا واقعی غلامی ختم ہوگئی ہے ؟ یا اسکی شکل اور صورت بدل گئی ہے اصل اپنی جگہ باقی ہے ۔

قدیم انسان، جو آزادی اور حقوق کااحترام نہیں کرتا تھا، کیا اسکی وجہ اس کا فلسفی طرزِ تفکر تھا؟
ان میں سے کوئی بات بھی نہ تھی، صرف ایک چیز تھی اور وہ تھی مفاد پرستی ۔
قدیم انسان، اپنی انفرادی طبیعت کے تحت مفاد پرست تھا، اپنے ذاتی فائدے کی فکر میں رہتا تھا، ہر وسیلے اور ذریعے کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا تھا ۔ ان میں سے ایک وسیلہ اور ذریعہ خود افرادِ بشر تھے۔جس طرح وہ لکڑی، پتھر، لوہے، مویشی، گائے، گھوڑے، خچر کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتا تھا، اُسی طرح انسان کو بھی اپنے فائدے کے لئے کام میں لانا چاہتا تھا ۔
جب انسان کسی درخت کو بوتا ہے یا کاٹتا ہے، تو اسے اس درخت کی کوئی فکر نہیں ہوتی، وہ صرف اپنے فائدے کے بارے میں سوچتا ہے ۔جب وہ کسی مویشی کو پال پوس کر موٹا تازہ کرتا ہے اور پھر اسے ذبح کر دیتا ہے، تو اس کا مقصد کیا ہوتا ہے ؟ وہ سوائے اپنے منافع کے کسی اور چیز کو مدنظر نہیں رکھتا ۔اسی طرح جب انسان دوسرے افراد کو اپنا غلام بناتا ہے، اُن کے حقوق سلب کرتا ہے، تو اسکی وجہ صرف اپنی منفعت طلبی اور مفاد پرستی ہوتی ہے ۔
پس وہ سبب جو ماضی میں انسان کو سماجی آزادی سلب کرنے اور دوسروں کے سماجی حقوق پامال کرنے پر ابھارتا تھا، وہ اس میں پائی جانے والی مفاد پرستی کی حس تھی اور بس ۔
آج کے دور کے انسان میں مفاد پرستی کی حس کا کیا حال ہے ؟ اس میں یہ حس پائی جاتی ہے یا نہیں ؟
جی ہاں پائی جاتی ہے ۔اس میں کوئی فرق نہیں پڑاہے۔ ہڑپ کر جانے کے لئے جتنا گزشتہ زمانے کے انسان کا منہ کھلتا تھا، آج کے دور کے انسان کا منہ بھی اگر اس سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں کھلتا ۔
نہ علم اور نہ قوانین کی تبدیلی طمع او رلالچ کا راستہ روک سکے ہیں۔ان چیزوں نے صر ف اتنا کام کیا ہے کہ مسئلے کی شکل و صورت کوبدل دیاہے، اصل مسئلہ جوں کا توں باقی ہے ۔ایک پردہ، ایک خوش رنگ غلاف اسکے اوپر چڑھا دیاگیا ہے ۔
قدیم زمانے کا انسان بے باک ہوا کرتا تھا، ابھی اسے نفاق اور دورخی کی ہوا نہیں لگی تھی۔ فرعون لوگوں کو غلام بناتا تھا، اور باقاعدہ کہتا تھا کہ:وَ قَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ(۱)موسیٰ! کیا کہتے ہو؟ یہ میرے بندے ہیں، میرے غلام ہیں۔ اُس نے اپنے استثمار اور استعباد پر کوئی نقاب نہیں ڈالا ہوا تھا ۔لیکن آج کا انسان آزاد دنیا، امن و آشتی اور آزادی کے تحفظ کے نام پر تمام آزادیاں اور حقوق سلب کرتا ہے، اور لوگوں کو بندہ، غلام اور قیدی بناتا ہے ۔

اس طرزِ عمل کی وجہ کیا ہے ؟
وجہ یہ ہے کہ وہ معنوی آزادی کا حامل نہیں، اپنی روح کی طرف سے آزاد نہیں، کیونکہ تقویٰ کا مالک نہیں۔
حضرت علی علیہ السلام کا ایک جملہ ہے، جو آپ کے دوسرے تمام جملوں کی مانند قیمتی ہے۔ یہ تقویٰ کے بارے میں ہے، جوآج کل بعض لوگوں کی نظر میں ایک فرسودہ موضوع ہوچکا ہے! فرماتے ہیں:اِنَّ تَقْوَی اﷲِ مِفْتاحُ سَدادٍ وَ ذَخیرَۃُ مَعادٍ وَعِتْقٌ مِنْ کُلِّ مَلَکَۃٍ وَ نَجاۃٌ مِنْ کُلِّ ھَلَکَۃٍ(۲) خدا کا خوف ہر راہِ راست کی کنجی ہے ۔تقویٰ کے بغیر انسان راہِ راست پر قدم نہیں بڑھاسکتا، وہ راہِ راست سے بھٹک جاتا ہے ۔جس انسان کے پاس تقویٰ نہ ہو وہ آخرت

۱۔ان کی قوم خود ہماری پرستش کر رہی ہے ۔(سورہ مومنون ۲۳۔آیت ۴۷)
۲۔بے شک اﷲ کا خوف (تقویٰ) ہدایت کی کلید اور آخرت کا ذخیرہ ہے اور ہر غلامی سے آزادی اور ہر تباہی سے نجات کا ذریعہ ہے ۔(نہج البلاغہ ۔خطبہ ۲۲۷)
کے لئے کوئی سرمایہ نہیں رکھتا، تقویٰ کے بغیر انسان آزاد نہیں ہوتا ”وَعِتْقٌ مِنْ کُلِّ مَلَکَۃٍ“ تقویٰ ہی ہے جو انسان کو ہر قسم کی غلامی سے نجات دلاتا ہے ۔
حقیقی آزاد مرد
انسان کو خود اپنے وجود کی طرف سے، اپنی روح کی جانب سے آزاد ہونا چاہئے، تاکہ دوسروں کو آزاد ی فراہم کر سکے ۔لہٰذا حقیقی معنوں میں دنیا کا مردِ حرکون ہے ؟علی ابن ابی طالب، یا وہ افراد جو علی کے طبقے سے ہیں، یا ان کے دبستان( school of thought)اور مکتب کے تربیت شدہ ہیں۔ کیونکہ یہ وہ افراد ہیں جنہوں نے پہلے مرحلے میں اپنے نفس کی قید سے نجات حاصل کی ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
” أ اَقْنَعُ مِنْ نَفْسی بِاَنْ یُقالَ اَمیرُالْمُؤْمِنینَ؟“ (۱)
”وَکَیْفَ اَظْلِمُ اَحَد اً لِنَفْسٍ یُسْرِعُ اِلَی الْبِلٰی قُفولُھا وَ یَطولُ فِی الثَّریٰ حُلولُھا۔“ (۲)
درحقیقت ایسا ہی شخص آزاد اور آزادی بخش ہوسکتا ہے جو ہمیشہ علی کی مانند رہے، یا کم از کم ان کا پیروکارہو، اپنے نفس کا احتساب کرتاہو، اپنی روح کا محاسبہ کرتاہو، محرابِ عبادت میں تنہا بیٹھ کر اپنی ریش کو ہاتھ میں لیتا اور کہتاہو کہ: یادُنْیا! غُرّی غَیْری۔ (۳) اے دنیا کے سونا چاندی، اے دنیا کے مال ومنال، جاعلی کے سوا کسی اور کو فریب دے، میں تجھے تین طلاقیں دے چکا ہوں۔
ایسا ہی شخص، منافقت اور دو رخے پن سے نہیں، بلکہ صدقِ دل کے ساتھ لوگوں کی آزادی

۱۔کیا میں اس بات میں مگن رہوں کہ مجھے امیر المومنین کہا جاتا ہے ۔(نہج البلاغہ ۔مکتوب۴۵)
۲۔میں اس نفس کی خاطر کیونکر کسی پر ظلم کر سکتا ہوں جو جلد ہی فنا کی طرف پلٹنے والا اور مدتوں تک مٹی کے نیچے پڑا رہنے والا ہے ۔(نہج البلاغہ ۔خطبہ ۲۲۱)
۳۔(اے دنیا) جا کسی اور کو فریب دے۔ (نہج البلاغہ ۔کلماتِ قصار ۷۷)
اور ان کے حقوق کے احترام کا قائل ہوسکتاہے، جس کے ضمیر، جس کے وجدان میں ایک آسمانی ندا
موجود ہو اور اسے پکاررہی ہو۔اس وقت آپ دیکھیں گے کہ ایک ایسا شخص جو ایسا تقویٰ رکھتا ہو، ایسی معنویت کا مالک ہو، ایسے خوفِ خدا کا حامل ہو جب لوگوں کا حکمراں بنتا ہے اور لوگ اسکے محکوم ہوتے ہیں، تو جس احساس سے وہ عاری ہوتا ہے وہ یہی حاکم اور محکوم کا احساس ہے ۔لوگ سابقہ سوچ کی بنیاد پرازخود اس سے فاصلے پر رہنا چاہتے ہیں لیکن وہ کہتا ہے کہ فاصلہ نہ رکھو، میرے قریب آؤ ۔جب جنگِ صفین کو جاتے یا اس سے پلٹتے وقت ”انبار“ نامی شہر سے گزرتے ہیں (جو اس وقت عراق کے شہر وں میں سے ایک شہرہے اور ایران کے قدیم شہروں میں سے تھا اور وہاں ایرانی رہتے تھے ) تو وہاں چند زمیندار، سردار، بزرگ افراد خلیفہ کے استقبال کو آتے ہیں، وہ اپنے خیال میں حضرت علی کو ساسانی سلاطین کا جانشین سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ جب حضرت کے قریب پہنچتے ہیں تو امام کی سواری کے آگے آگے دوڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔حضرت علی انہیں آواز دے کر پوچھتے ہیں :ایسا کیوں کر رہے ہو ؟ وہ کہتے ہیں: آقا! اس طریقے سے ہم اپنے بزرگوں اور اپنے سلاطین کو احترام دیتے ہیں ۔امام فرماتے ہیں : نہیں، ایسا نہ کرو، یہ عمل تمہیں پست اور ذلیل کرتا ہے ۔کیوں تم اپنے آپ کو میرے سامنے، میں جو تمہارا خلیفہ ہوں، ذلیل و حقیر بنا کر پیش کرتے ہو؟ میں بھی تم ہی میں سے ایک ہوں، تم نے یہ عمل انجام دے کر میرے حق میں کوئی اچھا ئی نہیں کی ہے، بلکہ برائی کے مرتکب ہوئے ہو ۔تمہارے اس عمل سے ممکن ہے(خدانخواستہ ) کسی وقت میرے دل میں غرور پیدا ہوجائے اورمیں حقیقت میں اپنے آپ کو تم سے برتر سمجھنے لگوں ۔
اسے کہتے ہیں ایک آزاد مرد، ایساشخص جو معنوی آزادی کا مالک ہے، ایسا شخص جس نے قرآن کی اس صدا کو قبول کیا ہے ”اَلاّنَعْبُدَاِ لَّااﷲَ“ ہم خدا کے سوا کسی چیز کی، کسی فرد کی، کسی طاقت کی پرستش نہیں کرتے ۔نہ کسی انسان کی، نہ پتھر کی، نہ حجر کی، نہ مٹی کی، نہ آسمان کی، نہ خواہشاتِِ نفس کی، نہ غصے کی، نہ شہوت کی، نہ حرص وطمع کی، نہ جاہ طلبی کی ۔صرف خدا کی پرستش کرتے ہیں ۔اسی صورت میں وہ معاشرے کو آزادی فراہم کر سکتا ہے ۔

مولا علی علیہ السلام کا ایک خطبہ ہے۔ میں اس کاایک حصہ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ دیکھئے گا کہ ایسا شخص جو حقیقت میں معنوی آزادی کا حامل ہو وہ کیسی روح کا مالک ہوتا ہے ؟ کیا آپ دنیا میں ایسی ایک بھی روح ڈھونڈ سکتے ہیں ؟ اگر ڈھونڈ لیں تو مجھے بتائیے گا ۔
یہ انتہائی مفصل خطبہ ہے، یہ حکمراں کے رعایہ پر حقوق اور رعایہ کے حکمراں پر حقوق کے بارے میں ہے، اس میں بعض مسائل ہیں جن پر حضرت نے گفتگو فرمائی ہے، اس کے بعد اسکے ذیل میں چند جملے ہیں(دیکھئے، یہ جملے کون کہہ رہا ہے ؟ خود والی اور حاکم ہے جو اپنی زبان سے لوگوں سے کہہ رہا ہے ۔ ہماری دنیا میں تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ دوسرے افراد لوگوں سے کہتے ہیں کہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ ایسے بن کر نہ رہو، آزاد مرد بنو، جبکہ وہاں خود علی کہتے ہیں کہ میں جو تمہاراحاکم ہوں، میرے سامنے ایسے نہ ہوجاؤ، آزاد مرد بنو):لا تُکَلَّمُونی بِما تُکَلَّمُ بِہِ الْجَبابَرَۃ۔مبادا ایسے الفاظ میرے لئے بھی استعمال کرنے لگو جو تم جباروں کے سامنے استعمال کرتے ہو، جن کے ذریعے اپنے آپ کو پست ظاہر کرتے ہو، ذلیل بناتے ہو، ان کے قدموں کی خاک قرار دیتے ہو، اور انہیں بلند مقام بتاتے ہو، عرش پر پہنچاتے ہو۔
نہ کرسی فلک نھداندیشہ زیر پای

تا بوسہ بر رکاب قزل ارسلان زند
کہیں ایسا نہ ہو کہ تم میرے ساتھ اس انداز میں گفتگو کرنے لگو، ہر گز نہیں، مجھ سے ایسے ہی بات کرو جیسے دوسروں سے بات چیت کرتے ہو ”وَلا تَتَحَفَّظوا مِنّی بِما یُتَحَفَّظُ بِہِ عِنْدَاَھْلِ الْبادِرَۃ“ اوراگر دیکھو کہ کبھی میں غصے میں آگیا ہوں، تند وتیز انداز میں گفتگو کر رہا ہوں، تو ہاتھ پاؤں پھلا نہ بیٹھو، مردانگی کے ساتھ اپنی تنقید جاری رکھو، مجھ سے فاصلہ نہ رکھو ”وَلا تُخالِطونی بِالْمُصانَعَۃِ“ مجھ سے یہ نہ کہو کہ جو کچھ آپ فرماتے ہیں بجا ہے، آپ کا ہر عمل درست اور قابلِ ستائش ہے۔ یہ خوش آمد اور چاپلوسی ہے، میرے ساتھ ایسا طرز عمل اختیار نہ کرو ۔ ”وَلا تَظُنُّوا بِِی اسْتِثْقالاً فی حَقٍّ قیلَ“ یہ نہ سوچنا کہ تم نے اگر میرے سامنے کوئی ایسا جملہ کہا جو حق ہے، یعنی اگر میرے خلاف کوئی ایسی بات کہی جو حق ہے، تو وہ مجھے ناگوار گزرے گا۔ مجھ پر جائز تنقید کرو، ہر گزوہ میرے لئے سنگین اورناگوار نہ ہوگی، میں انتہائی خنداں روئی کے ساتھ تمہاری بات مانوں گا ”وَلَا الْتِماسَ اِعْظامٍ لِنَفْسی“ اے وہ لوگو! جن کا میں خلیفہ اور وہ میری رعیت ہیں ! یہ نہ سمجھنا کہ میں تم سے یہ خواہش رکھتا ہوں کہ تم میری تمجید و تعظیم کرو، میرے ساتھ خوش آمدانہ باتیں کرو، میری ستائش کرو، ہر گز نہیں ۔
اسکے بعد آپ ایک کلی قاعدہ بیان کرتے ہیں ”فَاِنَّہُ مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ اَنْ یُقالَ لَہُ اَوِالْعَدْلَ اَنْ یُعْرَضَ عَلَیْہِ کانَ الْعَمَلُ بِھِمااَثْقَلَ عَلَیْہ“ یعنی ایسا شخص جس کے سامنے اگرحق بات کہی جائے، تو اسکے لئے اسے سننا دشوار ہوتا ہو، اسے ناگوار گزرتا ہو کہ کیوں اسکے سامنے حق بات کہی گئی، تو ایسے شخص کے لئے حق پر عمل کرنا اس سے کہیں زیادہ دشوار ہوتا ہے ۔
کرسٹی سن لکھتا ہے : نو شیرواں نے چند لوگوں کو مشورے کے لئے جمع کیاہوا تھا اور ان سے ایک مسئلے پر مشاورت کر رہا تھا۔نوشیرواں نے اپنی رائے بیان کی ۔وہاں موجود سب افراد نے کہا کہ جو کچھ آپ نے فرمایا ہے وہی درست ہے ۔ایک درباری جو دھوکے میں تھا، اس نے سمجھا تھا کہ سچ مچ یہ اجلاس مشاورت کے لئے ہے اور اسے بھی اپنی رائے کے اظہار کاحق ہے ۔لہٰذا اس نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو میں اپنی رائے بیان کروں ۔اس نے اپنی رائے کا اظہار کیا، نو شیرواں کی رائے میں جو نقائص پائے جاتے تھے انہیں بھی بیان کیا ۔}یہ دیکھ کر{نو شیرواں نے کہا : اے بے ادب، اے گستاخ اور پھرفوراًحکم دیا کہ اسے اس گستاخی کی سزا دی جائے ۔وہاں موجود قلمدانوں سے سب کے سامنے اس قدر اس کے سرپر ضربات لگائی گئیں کہ وہ مر گیا ۔
جس شخص کے لئے حق بات سننا گراں ہو۔ اگرکسی سے کہیں کہ عدالت کے مطابق سلوک کرو اور اسے یہ بات ناگوار گزرے، تو قطعی طور پر جان لیجئے کہ حق اور عدالت پر عمل اسکے لئے اس سے کہیں زیادہ سنگین اور ناگوار ہوگا۔
آخر میں خواہش فرماتے ہیں کہ:فَلا تَکُفُّوا عَنْ مَقالَۃٍ بِحَقٍّ اَوْ مَشْوَرَۃٍ بعَدْلٍ۔ (۱)

۱۔مجھ سے ویسی باتیں نہ کیا کرو، جیسی جابراور سرکش حکمرانوں سے کی جاتی ہیں، اور نہ مجھ سے اس طرح بچا کرو جس طرح غصیلے حکمراں سے بچ بچاؤ کیا جاتا ہے، اور مجھ سے ایسا میل جول نہ رکھو جس سے چاپلوسی اور خوش آمد کا پہلو نکلتا ہو۔میرے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ اگر میرے سامنے کوئی حق بات کی گئی تو وہ مجھے گراں گزرے گی، اور نہ یہ خیال کرنا کہ میں یہ درخواست کروں گا کہ مجھے بڑھا چڑھا کر پیش کرو۔ کیونکہ جسے اپنے (بقیہ حاشیہ ا گلے صفحے پر)
اے میرے اصحاب، میرے دوستو، اے لوگو، تم سے میری یہ خواہش ہے کہ ہر گز حق بات کہنے، برحق تنقید کرنے اور مجھے اپنا مشورہ دینے سے باز نہ رہنا ۔
یہ ایسے مرد کا نمونۂ کامل ہے جو معنوی لحاظ سے آزاد ہے اور حکومت پر ہوتے ہوئے اس طرح دوسروں کو سماجی آزادی دیتا ہے ۔
بارالٰہا ! تجھے علی ابن ابی طالب کے حق کی قسم دیتے ہیں کہ ہمیں علی کے حقیقی پیروکاروں میں سے قرار دے ۔