معنوی آزادی (۲)
معنوی آزادی • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
” وَ یَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ۔“ (۱)
گزشتہ ہفتے ہم نے عرض کیا تھا کہ معنوی آزادی کے بارے میں ہماری پوری گفتگو تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ایک یہ کہ : آزادی کے معنی کیا ہیں ؟ دوسرے یہ کہ : آزادی کی دو قسمیں ہیں، معنوی آزادی اور سماجی آزادی ۔ تیسرامرحلہ ان دو قسم کی آزادیوں کی ایک دوسرے کے ساتھ وابستگی، با لخصوص سماجی آزادی کی معنوی آزادی کے ساتھ وابستگی ۔
آج کی شب ہم اپنی گزارشات کو خودمعنوی آزادی کے لئے مخصوص کرنا چاہتے ہیں ۔یعنی اس بات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں کہ معنوی آزادی دراصل ہے کیا چیزاور انسان کے لئے معنوی آزادی کا حامل ہونا ضروری ہے بھی یا نہیں ؟
ہم اس مسئلے پر خصوصیت کے ساتھ اس وجہ سے بھی توجہ دینا چاہتے ہیں کہ دورِ حاضر میں معنوی آزادی پر توجہ بہت کم ہوگئی ہے ۔اور یہ چیز بھی عصرِ حاضر کی مشکلات اور پریشانیوں کا ایک
*۔یہ تقریر گزشتہ تقریر کے ایک ہفتے بعد اسی مقام پر کی گئی۔
۱۔اور(وہ پیغمبر) ان پر سے سنگین بوجھ اور قید وبند کواٹھادیتا ہے۔(سورۂ اعراف۷۔آیت۱۵۷)
سبب ہے ۔بہت سے لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ اب یہ مسائل منسوخ ہوچکے ہیں ۔جبکہ صورتحال اسکے برعکس ہے، آج کے دور میں انسان کومعنوی آزادی کی ضرورت اگرگزشتہ ادوار سے زیادہ نہ ہو، تو کم بھی نہیں ہے ۔
معنوی آزادی کیا ہے ؟
آزادی کے لئے ہمیشہ دو چیزیں ہونی چاہئیں۔ایک چیز قید ہواور دوسری چیز آزاد ہو۔ معنوی آزادی میں انسان کس سے آزادہوناچاہتا ہے ؟جواب یہ ہے کہ معنوی آزادی، سماجی آزادی کے برخلاف انسان کی خود اپنے آپ سے آزادی کا نام ہے ۔سماجی آزادی، انسان کی دوسرے افراد کی قید اور اسیری سے آزادی کا نام ہے، لیکن معنوی آزادی، آزادی کی ایک خاص قسم ہے اور دراصل انسان کی خود اپنی قید اور غلامی سے آزادی ہے ۔
پھر لازماً یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا انسان خود اپنا قیدی اور اسیر ہوسکتا ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک چیز خود ہی غلام ہو اور خود ہی اپنے آپ کو غلام بنانے والی، خود ہی قیدی ہو اور خود ہی اپنے آپ کو قیدکرنے والی ؟!
کیا ایسا ممکن ہے ؟
اس کاجواب یہ ہے کہ ہاں، ممکن ہے ۔شاید کسی اور کے لئے ممکن نہ ہو }لیکن انسان کے لئے ممکن ہے{مثال کے طور پرممکن ہے حیوانات میں معنوی غلامی اور اسکے با لمقابل معنوی آزادی کا کوئی مفہوم اور امکان نہ ہو، لیکن انسان میں، اس انوکھی اور عجیب مخلوق میں، یہ امکان موجود ہے کہ وہ خود اپنا غلام اورقیدی ہو یاخوداپنے آپ سے آزاد ہو۔
یہ کیسے ممکن ہے؟۔
انسان ایک مرکب موجود ہے
اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے موجودات کے درمیان انسان ایک مرکب شخصیت کا مالک ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے ۔انسان کے ایک مرکب شخصیت اور موجود ہونے کی تاکید ادیان اور فلسفوں نے کی ہے، دانشوروں حتیٰ نفسیات دانوں نے کی ہے اور یہ ایک ناقابلِ تردیدحقیقت ہے۔
ہم قرآنِ مجید اور حدیث کے ذریعے اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں ۔آپ نے قرآنِ کریم میں ملاحظہ کیا ہوگا کہ انسان کی خلقت کے بارے میں یوں فرمایا گیا ہے : فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ (۱) خدا وند عالم فرشتوں سے فرماتا ہے : جب اس موجود کی خلقت مکمل کرلوں اور اسمیں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں، تو تم اسکے سامنے سجدہ ریز ہوجانا ۔اﷲ رب العزت کہتا ہے کہ یہ ایک خاکی موجود ہے، میں نے اسے خاک سے خلق کیا ہے، ایک طبیعی اور مادّی موجود ہے ۔لیکن یہی آب و خاک سے خلق کیا گیا موجود، یہی موجود جو دوسرے حیوانوں کی مانند بدن اور جسم کا مالک ہے، میں اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک رہا ہوں ۔
ہمارے لئے ”روحِ خدا“ کے معنی جاننا ضروری نہیں، یعنی یہ کہ نفخہ الٰہی اور جس چیز کو خدا نے اپنی روح کہا ہے، وہ کیا چیز ہے، }اس سے واقفیت ہم پر لازم نہیں ہے{اجمالی طور پر ہم یہ بات جانتے ہیں کہ اس خاکی موجود میں، ایک غیر خاکی چیز بھی پائی جاتی ہے ۔معروف حدیث ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خدا وند عالم نے فرشتوں کو خلق کیا اور ان کی سر شت میں صرف عقل رکھی، حیوانات کو خلق فرمایا اور ان کی سرشت میں محض شہوت رکھی، انسان کو خلق کیا اور اسکی سرشت میں عقل بھی رکھی اور شہوت بھی ۔مولانا روم نے اسی مضمون کو کچھ اس انداز سے شعر کی صورت میں ڈھالا ہے :
گفت پیغمبر کہ خلّاقِ مجید
خلقِ عالم راسہ گونہ آفرید (۲)
اسکے بعد کہتے ہیں کہ ان مخلوقات میں سے ایک گروہ فرشتوں کا ہے، ایک حیوانات کا اور ایک انسانوں کا ۔
۱۔پھر جب مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں، تو سب کے سب سجدے میں گر پڑنا۔(سورۂ حجر ۱۵۔آیت ۲۹)
۲۔پیغمبر نے فرمایا ہے کہ خالق نے کائنات کی مخلوقات کو تین گروہوں میں پیدا کیا ہے۔
اب معنوی آزادی کے مسئلے کو ذرا سادہ زبان میں سمجھنا ممکن ہے ۔قطع نظر ان مفاہیم اور مسائل کے جن کا ذکر قرآنِ مجید میں آیا ہے، حدیث میں آیا ہے، با لخصوص عرفاء نے جن کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے، علمائے نفسیات نے جن کی تائید کی ہے، ان سب سے قطع نظر کرتے ہوئے معنوی آزادی کے اس مسئلے کو سادہ زبان میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ہم گفتگو کو ایک ایسی بات سے شروع کرتے ہیں جسے ہر کوئی سمجھ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ :
دوسرے انسانوں کے لئے روح کی غلامی
بے شک ہمیں اپنی زندگی میں بہتر سے بہتر خوراک کی ضرورت ہوتی ہے، عالیشان سے عالیشان پوشاک کی ضرورت ہوتی ہے، رہنے کے لئے آراستہ تر ین مکان کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح بیوی بچوں کی ضرورت ہوتی ہے، زندگی کی زیادہ سے زیادہ آسائشوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔ مال و دولت، روپے پیسے اور مادّیات کے بھی آرزو مند ہوتے ہیں ۔لیکن ایک جگہ ہم ایک دوراہے پر آکھڑے ہوتے ہیں، ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر یا تو ہمیں اپنی عزت وسیادت اور آقائی کی حفاظت کرنی چاہئے البتہ فقر وافلاس قبول کرکے۔کھانا کھائیں لیکن روکھا سوکھا، لباس پہنیں لیکن پھٹا پرانا، گھر ہو لیکن تنگ، چھوٹا، معمولی، روپیہ پیسہ نہ ہو، تنگی ترشی میں بسر کریں، یا پھر اپنی عزت وآقائی اورسیادت کو نظرانداز کردیں، ذلت قبول کرلیں، خادم بن جائیں، تو تمام مادّی نعمتیں ہمارے لئے فراہم ہوجائیں گی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بکثرت لوگ کسی صورت ذلت قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے، خواہ اسکے عوض انہیں سونے چاندی میں تول دیا جائے، البتہ بعض لوگ ذلت کا طوق پہننے کو تیار ہوجاتے ہیں لیکن یہ حضرات بھی اپنے ضمیر کی گہرائیوں میں ایک خفت اور شرمساری سی محسوس کرتے ہیں ۔
سعدی گلستان میں دوبھائیوں کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ان میں سے ایک بھائی دولتمند تھا اور دوسرا غریب ۔(بقول اُن کے )دولت مند بھائی دربار کے خادموں میں سے تھا ۔حاکم کے خدمت گزاروں میں شامل تھا ۔جبکہ غریب بھائی مزدور تھا، سعدی کی تعبیر کے مطابق اپنے زورِ بازو سے روٹی کماتا تھا ۔وہ کہتے ہیں: ایک روز دولتمند بھائی نے اپنے غریب بھائی سے کہا : بھائی! تم کیوں دربار کی ملازمت نہیں کر لیتے، تاکہ تمہیں بھی اس مشقت سے چھٹکارا ملے ؟ تم بھی میری طرح دربار کے خادموں میں شامل ہو جاؤ، تاکہ اس زحمت اور مشقت طلب کام سے نجات حاصل کر سکو ۔وہ کہتے ہیں:یہ سن کر غریب اور مفلس بھائی نے جواب دیا : تم خودکیوں کوئی کام کاج نہیں کر لیتے تا کہ نوکری کی اس ذلت سے تمہاری جان چھوٹے ؟تم مجھ سے کہتے ہو کہ میں دربار کے خدمت گزاروں میں کیوں شامل نہیں ہوجاتا، تاکہ محنت مزدوری کی مشقت سے نجات پاؤں۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ تم کیوں محنت مزدوری نہیں کرتے، زحمت و مشقت کے متحمل نہیں ہوتے، تاکہ دربار کی نوکری اور ذلت سے رہائی حاصل کر سکو ؟
وہ اس خدمت گزاری کو، باوجود یہ کہ اسمیں مال و دولت ہے، طاقت و قدرت ہے( لیکن کیونکہ نوکری ہے، اسمیں آزادی سلب ہوتی ہے، کیونکہ دوسرے کے سامنے جھکنا پڑتا ہے) لہٰذا اسے ذلت قرار دیتا ہے ۔اسکے بعدسعدی کہتے ہیں کہ :داناؤں کا کہنا ہے کہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاناذرّیں کمر بند باندھ کر دوسروں کی خدمت گزاری سے بہتر ہے۔
بہ دست آھن تفتہ کردن خمیر
بہ از دست بر سینہ پیش امیر
ممکن ہے اس بارے میں بہت سی باتوں سے آپ خود بھی واقف ہوں ۔ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس بارے میں نفسیات کے پہلو سے تجزیہ و تحلیل کیجئے کہ یہ کونسی حس ہے جس کے تحت انسان زحمت و مشقت، محنت و مزدوری، فقر و مسکنت جیسی چیزوں کو اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کی جی حضوری پر ترجیح دیتا ہے؟اسے قید و اسیری کا نام دیتا ہے، کہتا ہے کہ میں کسی غیر کا غلام بننے پر تیار نہیں ۔جبکہ یہ غلامی مادّی نہیں، یعنی درحقیقت وہ اپنی قوت و طاقت سے خدمت نہیں کرتا، بلکہ فقط اسکی روح خدمت کرتی ہے، اسکا بدن خدمت نہیں کرتا۔ یہ غلامی اور بندگی کی ایک قسم ہے، درست بھی ہے کہ یہ غلامی ہے۔ لیکن ایک ایسی غلامی ہے جس میں انسان کا تن، بدن غلام نہیں ہوتا بلکہ اسکی روح غلام ہوتی ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام سے منسوب ایک رباعی ہے۔یعنی یہ رباعی آپ سے منسوب اُس معروف دیوان میں ہے ۔فرماتے ہیں :
کُدَّکَدَّ الْعَبْدِ اِنْ اَحْبَبْتَ اَنْ تُصْبِحَ حُرّا
وَاقْطَعِ الْاَمالَ مِنْ مالِ بَنی آدَمَ طُرّا
لا تَقُلْ ذامَکْسَبٍ یُزْری فَقَصْدُ النّاسِ اَزْریٰ
اَنْتَ مَا اسْتَغْنَیْتَ عَنْ غَیْرِکَ اَعْلَی النّاسِ قَدْرا
ًً فرماتے ہیں : اگر تمہارا دل آزادزندگی بسرکرنے کو چاہتا ہے، تو غلاموں کی مانند زحمت اٹھاؤ، کام کرو، مشقت برداشت کرو اور فرزندِ آدم (خواہ وہ کوئی بھی ہو، چاہے حاتم طائی ہی کیوں نہ ہو)کے مال و دولت پر نظر نہ رکھو ۔یعنی میںیہ نہیں کہتا کہ صرف پست اور دنی الطبع افراد کے مال و دولت کو لالچ کی نظر سے نہ دیکھو، بلکہ ایسے لوگ جو جودو کرم میں حاتم طائی کی مثل ہوں، ان کے مال کی طرف سے بھی چشمِ طمع بند رکھو ۔اسکے بعد فرماتے ہیں : بعض افراد کے سامنے جب مختلف پیشے رکھے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان میں سے کوئی پیشہ اختیار کر لیں، تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ یہ پیشہ میری شان کے خلاف ہے، پست ہے۔مثلاً جب کہا جاتا ہے کہ مزدوری کر لو، کدال چلالو، تو وہ کہتے ہیں کہ یہ گھٹیا اور نچلے درجے کاکام ہے۔ کہا جاتا ہے حمالی (بوجھ اٹھانے) کا کام کر لو، تو کہتے ہیں کہ یہ پست کام ہے ۔ فرماتے ہیں : جس کام کو بھی تم پست اور گھٹیا سمجھتے ہو وہ دوسروں کے سامنے دستِ طمع دراز کرنے سے زیادہ گھٹیا نہیں ہوتا ۔
”لا تَقُلْ ذامَکْسَبٍ یُزْری فَقَصْدُ النّاسِ اَزْریٰ۔“
”کوئی چیز اس سے بڑھ کر پست نہیں کہ تم لوگوں کے پاس ان سے کچھ لینے کی غرض سے جاؤ۔“
”اَنْتَ مَا اسْتَغْنَیْتَ عَنْ غَیْرِکَ اَعْلَی النّاسِ قَدْرا“
”تم جتنا دوسروں سے بے نیاز ہوگے، اتنا ہی لوگوں سے بر تر ہوگے ۔“
میرے خیال میں، میں نے جاحظ کے کلام میں دیکھا ہے، یا اہلِ سنت کے ایک اور عالم کے کلام میں جواہلِ ادب میں سے ہیں (خود جاحظ بھی غیر معمولی طور پر بلیغ شخص تھے، انصاف کی بات ہے کہ مردِ سخن تھے اور حضرت علی علیہ السلام کے کلام کو غیر معمولی احترام دیتے تھے اور اس بارے میں عجیب باتیں فرماتے تھے ) کہتے تھے : حضرت علی علیہ السلام کے کلام میں نو کلمات ایسے ہیں جن کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ۔ان نو کلمات میں سے تین ہمارے زیر بحث موضوع سے تعلق رکھتے ہیں ۔امیر المومنین فرماتے ہیں :
”اِحْتَجْ اِلیٰ مَنْ شِءْتَ تَکُنْ اَسیرَۃُ۔ اِسْتَغْنِ عَنْ مَنْ شِءْتَ تَکُنْ نَظیرَہُ، اَحْسِنْ اِلیٰ مَنْ شِءْتَ تَکُنْ اَمیرَہُ۔“ (۱)
یعنی جس کسی کے محتاج ہونا چاہتے ہو ہوجاؤ ۔لیکن ایک بات یاد رکھو کہ جس کے محتاج ہوگے اسکے غلام ہوجاؤگے۔ جس کسی کی مانند بننا چاہتے ہو، اس سے بے نیاز ہوجاؤ، جس کے امیر و آقا بننا چاہتے ہو اس سے نیکی کرو۔
پس دوسروں کی محتاجی ایک طرح کی غلامی اوربندگی ہے ۔لیکن یہ کس طرح کی غلامی ہے ؟ جسمانی غلامی ہے ؟ نہیں، بلکہ روح کی غلامی ہے، معنوی غلامی ہے ۔
اس بارے میں کس قدر خوبصورت باتیں کی گئی ہیں، بصد افسوس آج ان موضوعات پر بہت کم گفتگو کی جاتی ہے ۔البتہ ایک اعتبار سے کیونکہ دوسرے مسائل درپیش ہیں اور انسان چاہتا ہے کہ ان کے بارے میں گفتگو کرے۔ لہٰذا اخلاقی مباحث کم کم ہی زیر بحث آتے ہیں ۔حالانکہ ان پر بھی کثرت سے گفتگو ہونی چاہئے ۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :اَلطَّمَعُ رِقُّ مُؤَبَّدُ (۲) یعنی لالچی ہونا غلامی سے بد تر ہے ۔اس بارے میں بھی بکثرت باتیں اور قابلِ بحث مسائل ہیں ۔
اس بنیادپر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جسم کی غلامی کے علاوہ ایک دوسری قسم کی غلامی بھی ہے۔ ایسی غلامی جس میں انسان کا جسم آزاد ہوتا ہے ۔اُس داستان میں جو سعدی نے امیر اور غریب
۱۔غررالحکم، طبع تہران یونیورسٹی ۔ج۲۔ص۵۸۴۔
۲۔ لالچ ہمیشہ ہمیش کی غلامی ہے۔( نہج البلاغہ ۔ کلماتِ قصار ۱۸۰)
بھائیوں کے بارے میں بیان کی ہے، امیر بھائی کے پاس فقیر بھائی سے کہیں زیادہ اور غیر معمولی مادّی و سائل موجود تھے، اسکا جسم، اسکے جسم سے بہت زیادہ آزاد تھا ۔اس کا جسم تو بیچارہ ہمیشہ محنت مشقت کی چکی میں پستا رہتا تھا لیکن اس (غریب بھائی ) کی روح اس مالدار بھائی سے زیادہ آزاد تھی۔ پس یہاں آپ اجمالاً سمجھ سکتے ہیں کہ ایک اور قسم کی غلامی بھی ہوتی ہے، جو جسم کی غلامی نہیں ہے، ایک اور قسم کی آزادی بھی ہے جو جسم اورتن کی آزادی نہیں ہے ۔
مال ودولت کی غلامی
یہاں سے ایک درجہ بلند ی پر آئیے ۔آزادی اور غلامی کی ایک اور قسم بھی ہے جس کا تعلق مال و دولت سے ہے ۔تمام علمائے اخلاق نے انسان کومال ودولت کی غلامی سے خبردار کیا ہے۔ اسی عنوان کے تحت کہ اے انسان ! دنیا کے مال و دولت کا بندہ اور غلام نہ بن، حضرت علی علیہ السلام کا ایک جملہ ہے، فرماتے ہیں : اَلدُّنْیا دارُ مَمَرٍّ لادارُ مَقَرٍّ۔ دنیا انسان کے لئے گزر گاہ ہے، قرار گاہ نہیں۔ اسکے بعد فرماتے ہیں :وَالنّاسُ فیھا رَجُلانِ۔دنیا میں دو طرح کے انسان ہوتے ہیں: رَجُلٌ باعَ نَفْسَہُ فیھا فَأَوْ بَقَھا وَ رَجُلٌ ابْتاعَ نَفْسَہُ فَأَعْتَقَھا۔ (۱)دنیا کے اس بازار میں آنے والے، دنیا کی اس گزرگاہ میں آنے والے انسان دو طرح کے ہیں، بعض آتے ہیں اور اپنے آپ کو بیچ ڈالتے ہیں، غلام بنا ڈالتے ہیں اور کوچ کر جاتے ہیں، بعض دوسرے آتے ہیں، اپنے آپ کو خریدتے ہیں، آزاد کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔
انسان اس بات کومحسوس کر سکتا ہے کہ دنیا کے مال و دولت کے حوالے سے وہ دو حالتیں اپنا سکتا ہے ۔چاہے تو دنیا کی دولت کا غلام اور اسکا قیدی بن کے رہ جائے اور چاہے تو اسکی قیدوبند سے آزاد زندگی بسر کرے ۔کہتے ہیں:
بند بگسل، باش آزادای پسر
چند باشی بند سیم و بند زر
۱۔اس (دنیا)میں دو طرح کے لوگ ہیں :ایک وہ جنہوں نے اس میں اپنے آپ کو بیچ کر ہلاک کرلیا اور ایک وہ جنہوں نے اپنے آپ کو خرید کر آزاد کردیا۔(نہج البلاغہ ۔ کلماتِ قصار۱۳۳)
انسان کہتا ہے کہ جس طرح مجھے اپنے جیسے انسانوں کا غلام نہیں بن جانا چاہئے (نہ میرا جسم اپنے جیسے لوگوں کاغلام بنے اور نہ میری روح )اسی طرح میری روح کو بھی مالِ دنیا کا غلام اور اس کااسیر نہیں بنناچاہئے ۔
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان ایک بلند مفہوم کاسامنا کرتا ہے، وہ اپنے آپ سے سوال کرتا ہے کہ کیا مالِ دنیا کی بندگی بھی کوئی چیز ہے ؟
کیا دنیا کے مال و دولت میں اتنی طاقت ہے کہ وہ انسان کو اپنا غلام بنا لے ؟ مالِ دنیاسے مراد دولت و ثروت، یعنی سونا، چاندی، گھر، زمین اور جائیداد وغیرہ جیسی چیزیں ہیں ۔
کیا ان چیزوں میں انسانوں کو غلام بنا لینے کی قدرت پائی جاتی ہے ؟!
میں انسان ہوں، زندہ ہوں، جبکہ وہ چیزیں جماد ہیں، مردہ ہیں ۔کیا جماد اور مردہ چیزوں میں اتنی قدرت ہے کہ وہ کسی زندہ ہستی کو اپنا غلام بنا لیں ؟! نہیں ۔
پس، تو پھر مسئلے کی حقیقت کیا ہے ؟
مسئلے کی حقیقت یہ ہے کہ اس مقام پر بھی جہاں انسان یہ سوچتا ہے کہ وہ دنیا کا بندہ اور غلام ہے، مال و دولت کا قیدی ہے، وہاں بھی وہ درحقیقت مال و دولت کا غلام نہیں ہوتا، بلکہ اپنی باطنی خصائص کا غلام ہوتا ہے، اپنی حیوانیت کا بندہ ہوتا ہے، حرص کا غلام ہوتا ہے ۔یعنی اُس نے خوداپنے آپ کو غلام بنایا ہوتا ہے، وگرنہ روپے پیسے میں اتنی طاقت کہاں کہ وہ انسان کو اپنا غلام بنا لے، زمین میں اتنی سکت نہیں کہ وہ انسان کو اپنا بندہ بنا لے، مال مویشی میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ انسان کو اپنی بندگی میں لے لے، گاڑی میں اتنی طاقت نہیں، وہ تو جماد ہے اور جماد سرے سے انسان پرتصرف کر ہی نہیں سکتا ۔
جب انسان اس مسئلے کا اچھی طرح تجزیہ و تحلیل کرتا ہے، تودیکھتا ہے کہ وہ خود ہی ہے جس نے اپنے آپ کو غلام بنایا ہوا ہے ۔وہ دیکھتا ہے کہ خود اسکے اندر حرص نام کی ایک طاقت ہے، طمع و لالچ نام کی ایک قوت ہے، غصہ نام کی ایک طاقت ہے، خواہشِ نفس نامی ایک قدرت ہے جس نے اسے غلام بنایا ہوا ہے۔یہ غصہ ہے جس نے اسے اپنا بندہ بنا لیا ہے، یہ حرص ہے جس نے اسے اپنی بندگی میں لے لیا ہے، یہ طمع ہے جس نے اسے اپناغلام بنالیا ہے، یہ نفسانی خواہش ہے جس نے اسے اپنی خدمت پر مامور کر لیا ہے ۔ اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِٰلہَہٗ ہَواٰاہُ (۱)قرآنِ کریم کہتا ہے : کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی نفسانی خواہش ہی کو اپنا معبود بنایا ہوا ہے، اپنی نفسانی خواہش کا بندہ بن گیا ہے ؟
یہاں انسان پر حقیقت ظاہر ہوتی ہے ۔وہ جان لیتا ہے کہ دنیا کا مال و دولت بذاتہِ مذموم نہیں ہے ۔اگر یہ کہا گیا ہے کہ دنیا کے مال و دولت سے بچ کر رہو، کہیں یہ تمہیں اپنا غلام نہ بنا لے، تو مال و دولت میں تو اتنی طاقت نہیں ہے کہ مجھے اپنا غلام بنا لے، دراصل یہ میں خود ہوں جو خود اپنے اپنے کو بندہ وغلام بناتا ہوں ۔وہ کہتا ہے : پس میں اپنے آپ کو غلیظ نفسانی خواہشات کی قید سے آزاد کروں گا ۔اس موقع پر مجھے پتا چلے گا کہ دنیا کے مال و دولت میرے خدمت گزار ہیں، میں اُن کا خادم نہیں ۔
یہاں پہنچ کر وہ اپنے مقام کو پہچانتا ہے ۔وہ اس بات کو سمجھ لیتا ہے جس کے متعلق قرآنِ کریم کا ارشاد ہے :ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا(۲)وہ خدا وہ ہے جس نے جو کچھ زمین میں ہے اُس سب کو تمہارے لئے پیدا کیا ہے ۔وہ جان لیتا ہے کہ مال و دولت میرے بندے اور غلام ہیں ۔وہ میرے خادم ہیں، نہ کہ میں ان کا خدمت گزار۔ پس پھر بخل کیا چیز ہے ؟ افزوں طلبی کی خاطر افزوں طلبی کیا چیز ہے ؟!
ہاں، دراصل انسان خود اپنا اسیر ہوجاتاہے، خود اپنا بندہ اور غلام بن جاتاہے ۔
انسان دو مقام کا حامل ہے، اسکے دو درجے ہیں ۔ادنیٰ درجہ، حیوانی درجہ اور عالی درجہ، انسانی درجہ ۔ انبیا انسان کی معنوی آزادی کی حفاظت کے لئے آئے ہیں ۔اس سے کیا مراد ہے ؟ مراد یہ ہے کہ اُن کی آمد کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی شرافت، انسان کی انسانیت، انسان کی عقل اور انسان
۱۔ کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کوخدا بنالیا ہے۔(سورۂ جاثیہ ۴۵۔آیت ۲۳)
۲۔وہ خدا وہ ہے جس نے زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے ہی لئے خلق کیا ہے۔(سورۂبقرہ ۲۔آیت ۲۹)
کے ضمیر کو انسان کی نفسانی خواہشات کا اسیر نہ ہونے دیں، انسان کے غصے کا اسیر نہ ہونے دیں،
انسان کی مفاد پرستی کا اسیر نہ ہونے دیں ۔یہ ہیں معنوی آزادی کے معنی ۔
جب بھی آپ محسوس کریں کہ آپ اپنے غصے پر مسلط ہیں، آپ کا غصہ آپ پر حاوی نہیں، تو سمجھئے کہ آپ آزاد ہیں ۔جب بھی آپ محسوس کریں کہ آپ اپنی نفسانی خواہش پر غالب ہیں، آپ کی نفسانی خواہش آپ پرمسلط نہیں۔جب بھی کوئی ناجائز آمدنی آپ کے سامنے آئے اور آپ کا نفس آپ کو اسے لینے پر شوق دلائے اور کہے کہ اسے قبول کر لو، لیکن آپ کا ایمان، ضمیر اور عقل فیصلہ دے کہ یہ ناجائز ہے، اسے ہاتھ نہ لگاؤ اور اس موقع پر آپ اپنے نفسانی میلان پر غالب آجائیں، تو سمجھ لیجئے کہ آپ معنوی لحاظ سے حقیقتاً ایک آزاد مرد ہیں ۔
اگر آپ سرِ راہ ایک نا محرم عورت کو دیکھیں اور آپ کی نفسانی خواہش آپ کو اسے تاڑنے اور اسکا تعاقب کرنے پر ابھارے، لیکن آپ پر حاکم وجدان آپ کو اس عمل سے روکے اور آپ اسکے اس حکم کی تعمیل کریں، تو سمجھ لیجئے کہ آپ مردِ حر ہیں ۔لیکن اگر آپ دیکھیں کہ آپ کی نگاہوں نے ایک چیز کو پسند کیا ہے اور آپ اس کے تعاقب میں چل پڑے ہیں، آپ کی سماعت کو کوئی صدا اچھی لگی ہے اور آپ نے اس کی طرف کان لگادئیے ہیں، آپ کی شہوت ایک چیز کو چاہتی ہے اور آپ اسکے پیچھے چل دیئے ہیں، آپ کا شکم ایک چیز چاہتا ہے اور آپ اسکے حصول کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔}اگر ایسا ہے، تو جان لیجئے کہ{ آپ اسیر ہیں، بندے ہیں، غلام ہیں۔
انسانی اور حیوانی انانیت
انسان ایک مرکب موجود ہے ۔اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ انسان میں دراصل دو ”میں“ حاکم ہیں ۔ ایک انسانی ”میں“ اور دوسری حیوانی ”میں“ ۔ اور انسان کی حقیقی ”میں“انسانی ”میں“ہے ۔ مولانا روم نے ”مجنوں اور اونٹنی“ نامی اس داستان میں کس قدر عالی انداز میں انسان کے اس اندرونی تضاد کے مسئلے کا ذکر کیا ہے! انسان واقعاً مظہرِ تضاد ہے، انسان کی طرح کسی اور موجود میں اس اندرونی اور داخلی تضاد کی حکمرانی نہیں۔انہوں نے اس داستان میں اس طرح بیان کیا ہے کہ: مجنوں نے اونٹنی کو تیزی سے دوڑانے کے لئے اور اس مقصد کی خاطر کہ اونٹنی کا بچہ راستہ میں تاخیر کا سبب نہ بنے اس بچے کو گھر میں بند کر دیا اور اونٹنی پر سوار ہوکے چل دیا۔ لیلیٰ کے خیال نے راستے میں مجنوں کو بے خود کر دیا ۔اسے لیلیٰ کے سوا کسی چیز کا خیال نہ تھا ۔جبکہ دوسری طرف اونٹنی کے بھی تمام تر حواس اپنے بچے میں مشغول تھے اور اسے اپنے بچے کے سوا کسی دوسری چیز کی خبر نہ تھی ۔اب صورتحال یہ تھی کہ ایک سرے پر اونٹنی کا بچہ تھا اور دوسرے سرے پر لیلیٰ کا گھر۔ ایک آغازِ سفر کی جگہ تھی اور دوسرا اختتامِ سفر کا مقام ۔جب تک مجنوں اونٹنی کی لگام مضبوطی سے تھامے رہا، اُس وقت تک اونٹنی اس کی مرضی کے مطابق چلتی رہی لیکن جب مجنوں کے حواس اپنے معشوق کی طرف متوجہ ہوتے تو اونٹنی کی مہار اسکے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ۔اونٹنی جب یہ دیکھتی کہ اسکی لگام چھوٹ چکی ہے، تو وہ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف پلٹنے لگتی۔مجنوں کو ہوش آتا تو وہ دیکھتا کہ وہ دوبارہ اپنے گھر کے سامنے کھڑا ہے ۔وہ اونٹنی کو واپس پلٹا تا اور ایک مرتبہ پھر اپنے سفر کا آغاز کرتا ۔کچھ دیر چلتا، یہاں تک کہ ایک بار پھر اپنے حواس سے بیگانہ ہوجاتا ۔اونٹنی جب یہ دیکھتی تو پھر پلٹ جاتی ۔الغرض یہ عمل کئی مرتبہ دھرایا گیا ۔
ھمچو مجنون درتنازع با شتر
گہ شتر چربید و گہ مجنون حر
میل مجنون پس سوی لیلیٰ روان
میل ناقہ ازپی طفلش دوان
یہاں تک کہ بقول مولانا روم، مجنوں اپنے آپ کو زمین پر گرالیتا ہے اور کہتا ہے :
گفت ای ناقہ چو ہر دو عاشقیم
مادو ضد بس ہمرہ نالا یقیم
پھر اپنے آپ کو پیٹتے ہوئے کہتا ہے :
جان گشادہ سوی بالا بالھا
تن زدہ اندر زمین چنگالھا
انسان میں دورجحان پائے جاتے ہیں ۔ایک انسان کی روح کارجحان اور دوسراانسان کے جسم کا رجحان ۔
میل جان اندر ترقی و شرف
میل تن درکسب اسباب و علف
اگر آپ اپنی روح کو آزاد رکھنا چاہتے ہیں، تو پھر یہ ممکن نہیں کہ آپ شکم پرست ہوں، زن پرست ہوں اور آپ کی روح آزادہو، روپے پیسے کے شیدائی ہوں اور آپ کی روح آزاد ہو۔درحقیقت آپ شہوت پرست نہیں ہوسکتے، غصہ پرست نہیں ہوسکتے۔پس اگر آپ واقعی آزاد ہونا چاہتے ہیں، تو اپنی روح کو آزاد کیجئے ۔
اس موضوع پر ہمارے پاس کیسے نادر و نایاب کلمات ہیں ۔میں نے ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ میں ایک حدیث دیکھی ہے ۔ایک روز رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصحابِ صفہ(۱) کے پاس تشریف لائے۔ ان میں سے ایک صحابی نے عرض کیا : اے اﷲ کے رسول ! میں اپنے نفس میں یہ حالت محسوس کرتا ہوں کہ میری نظر میں دنیا ومافیھا یکسر بے قیمت ہوچکے ہیں، اس وقت میری نگاہ میں سونا اور پتھر ایک ہی جیسے ہیں ۔ یعنی ان میں سے کوئی بھی مجھے اپنی طرف نہیں کھینچ سکتا۔یہ نہیں کہتے کہ میں سونے اور پتھر سے ایک ہی طرح مستفید ہوتا ہوں، نہیں بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ جتنی طاقت پتھر میں مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کی ہے اتنی ہی سونے میں مجھے اپنی طرف جذب کرنے کی طاقت ہے ۔ رسولِ کریم نے اپنے اس صحابی کی طرف دیکھا اور فرمایا : اِذاًاَنْتَ صِرْتَ حُرّاً۔ ہاں، اب میں کہہ سکتا ہوں کہ تم ایک آزاد مرد ہو ۔پس واقعاًخود معنوی آزادی ایک حقیقت ہے ۔
خوداپنے بارے میں انسان کا فیصلہ
اب اس بارے میں ایک اورطرح کے دلائل پیش کریں گے۔اس بارے میں وجدانی
۱۔ اصحابِ صفہ مدینہ کے باہرسے تعلق رکھنے والے آنحضرت کے غریب اصحاب کا ایک گروہ تھا۔یہ لوگ مہاجر تھے، مال و دولت سے تہی دست تھے، ان کا گھر بار، بیوی بچے نہ تھے ۔ابتدا میں رسولِ کریم نے ان کے لئے مسجد نبوی کے اندر ایک جگہ مقرر کر دی تھی ۔لیکن بعد میں خداوند عالم کا فرمان نازل ہوا کہ مسجد سونے کی جگہ نہیں ہے۔ لہٰذا آنحضرت نے مسجد کے پہلو میں ایک چبوترے کو ان کے لئے مقرر کر دیا ۔وہ لوگ جو مدینہ طیبہ کی زیارت سے مشرف ہوئے ہیں جانتے ہیں کہ اب بھی حضرت فاطمہ زہراعلیہاالسلام کے گھر کے شمال میں یہ چبوترا موجود ہے۔ یہی اصحابِ صفہ کے رہنے کی جگہ تھی ۔اصحابِ صفہ میں بہت سے اکابر اور بزرگ اصحاب شامل تھے ۔
دلائل کا ذکر کریں گے کہ واقعاً انسان کی شخصیت ایک مرکب شخصیت ہے اور واقعاً انسان معنوی لحاظ سے آزادبھی ہوسکتا ہے اور غلام بھی ۔
خدا وندِ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو اس قدرت و صلاحیت سے نوازا ہے کہ وہ خود اپنا قاضی ہوسکتا ہے ۔معاشرتی زندگی میں ہمیشہ مدعی اور مدعا علیہ کے سواایک تیسرا شخص قاضی ہوتا ہے۔ ایک شخص مدعی ہوتا ہے اورایک مدعا علیہ، دونوں اشخاص ایک تیسر ے شخص قاضی کے پاس جاتے ہیں اور قاضی کا کام ان دونوں کے درمیان منصفانہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ہاں، ایک فرد مدعی ہوتا ہے، ایک دوسرا فردمدعا علیہ اور قاضی ان دونوں کے علاوہ ایک تیسرا فرد ۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ انسان کس طرح خود اپنا مدعی ہوسکتاہے اور پھر خود ہی اپنا مدعا علیہ ہواور پھر خود ہی اپنا قاضی۔ یعنی خود ہی اپنے بارے میں فیصلہ صادر کرے؟
انصاف کے کیا معنی ہیں ؟
کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص بڑاباانصاف آدمی ہے ۔اسکے کیا معنی ہیں ؟
درحقیقت با انصاف آدمی وہ ہے جو اپنی ذات سے تعلق رکھنے والے مسائل میں غیرجانبدارانہ فیصلہ کر سکے اوراگر کبھی خودقصور وار ہو، تو ایسے موقع پرخود اپنے خلاف فیصلہ صادر کرسکے ۔
یہ کس طرح ہو سکتا ہے ؟
یہ انسان کی شخصیت کے مرکب ہوئے بنا ممکن ہی نہیں ۔دنیا میں کتنے ہی انصاف پر مبنی ایسے فیصلوں سے آپ واقف ہیں جن میں آپ دیکھتے ہیں کہ ایک فرد اپنے بارے میں انصاف کرتا ہے، دوسرے کو خود پر ترجیح دیتا ہے، اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ مخالف فریق حق پر ہے، فضیلت اس کے ساتھ ہے ۔
مرحوم سید حسین کوہ کمری، بزرگ اکابر علما اور اپنے زمانے کے مراجع تقلید میں سے ایک تھے ۔آذربائیجانی بھی تھے ۔آپ مرحوم آیت اﷲ حجت کوہ کمری کے چچا تھے( جن کا تعلق ہمارے دور سے رہا، ہمارے استاد تھے اور ہم نے ان کی خدمت میں درس پڑھا ہے)آپ بھی ایک بزرگ ہستی تھے ۔ان عظیم ہستی کی زندگی کا ایک انوکھا واقعہ نقل کیا جاتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ صاحبِ جواہر اور ان کے بعد کے زمانے میں نجفِ اشرف میں آپ کاحلقۂ درس تھا ۔ صاحبِ جواہر( شیخ انصاری اعلی اللہ مقامہ) کواس زمانے میں ابھی تک کوئی خاص شہرت حاصل نہیں ہوئی تھی، خصوصاً اس بنا پر بھی کہ آپ نجف میں زیادہ مقیم نہ رہے تھے، بہت کم عرصہ نجف میں رہے تھے، بعد میں آپ ایران کے شہروں کی سیاحت کے لئے تشریف لائے، ان معنوں میں کہ گھوم پھر کر ان شہروں کو دیکھیں، ان شہروں میں جہاں کہیں بھی کوئی ممتاز عالم ملتا آپ وہاں کچھ عرصے کے لئے ٹھہر جاتے اور اس عالم سے کسبِ فیض کرتے ۔ایک عرصے آپ مشہد میں رہے، کچھ عرصے اصفہان میں اور خاصے عرصے تک کاشان میں، جہاں مرحوم نراقی ہوا کرتے تھے ۔کاشان میں آپ تین برس تک مقیم رہے ۔جب آپ واپس لوٹے تو حقیقتاًایک بزرگ ہستی بن چکے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ مرحوم شیخ انصاری کو تاہ جسامت کے مالک تھے، ان کی آنکھیں بھی کچھ خراب تھیں (خوزستان کے بہت سے لوگوں کی طرح ککرے (trachoma)تھاکیونکہ آپ کا تعلق خوزستان سے تھا) اسی طرح آپ انتہائی زاہد منش مرد تھے اور سادہ اور بوسیدہ کپڑے زیبِ تن فرماتے تھے ۔مثلاً پرانا اور ایک خاص طرح کا عمامہ ۔آپ کے شاگردوں کی تعداد بھی دو تین سے زیادہ نہ تھی، ایک مسجد میں پڑھایا کرتے تھے ۔اتفاق سے مرحوم آقاسید حسین بھی اسی مسجد میں تدریس کیا کرتے تھے ۔البتہ ان کے درس اس طرح ہوتے تھے کہ پہلے شیخ انصاری آتے، درس دیتے، جب ان کا درس ختم ہو جاتا تو آقا سید حسین آتے اور اپنا درس شروع کرتے ۔ایک روز مرحوم آقاسید حسین مسجد میں داخل ہوئے، آپ کسی سے ملاقات کر کے واپس پلٹے تھے، آپ نے دیکھا کہ اب اتناوقت نہیں رہاکہ گھر جاکر واپس آسکیں، ابھی درس میں تقریباًایک گھنٹہ باقی تھا۔ سید نے سوچا چلو مسجد چلتے ہیں اور درس کا وقت ہونے اور شاگردوں کی آمد تک وہیں بیٹھتے ہیں۔ آپ مسجد تشریف لائے، دیکھا کہ ایک معمولی شکل و صورت، وضع قطع کا حامل شخص بیٹھا دو تین افراد کو درس دے رہا ہے، آپ بھی وہیں ایک طرف بیٹھ گئے، البتہ درس کی آواز آپ کے کانوں تک پہنچ رہی تھی، آپ نے ان کی باتیں سنیں، دیکھا کہ بہت پختہ درس کہہ رہے ہیں، لہٰذا آپ نے باقاعدہ استفادہ شروع کر دیا ۔
اب دیکھئے کہ آقاسید حسین ایک متبحر، معروف اور مرجعیت کے قریب عالم اور وہ ایک اجنبی شخص کہ جس سے آپ آج تک یکسرواقف ہی نہ تھے ۔اگلے دن کہنے لگے کہ آج ذرا کچھ جلدی چلتاہوں، دیکھتا ہوں آج کا درس کیسا ہوتا ہے، کیا اسی طرح ہوتاہے ؟
اگلے روز عمداً ایک گھنٹہ پہلے گئے ۔اسی طرح ایک طرف بیٹھ گئے، درس سنا، دیکھا وہی فیصلہ رہاجو کل تھا، حقیقتاً یہ ایک فاضل ملا آدمی ہے اور خود مجھ سے بھی فاضل تر ہے ۔کہنے لگے مزید ایک روز آزماتا ہوں، ایک دن اور یہی عمل دھرایا، اُن کے لئے سو فیصد ثابت ہوگیا کہ یہ غیر معروف اور اجنبی شخص خود ان سے زیادہ عالم فاضل ہے اور خودوہ بھی اس سے مستفید ہوسکتے ہیں ۔اسکے بعد آپ جاکر اپنی جگہ بیٹھ گئے، جب آپ کے شاگرد آچکے (ابھی شیخ کا درس ختم نہیں ہوا تھا ) تو آپ نے فرمایا :طالبِ علمو! میں آج تم سے ایک نئی بات کہنے والا ہوں ۔وہ شیخ جو تمہیں اس گوشے میں بیٹھا نظر آرہا ہے، وہ مجھ سے کہیں زیادہ عالم فاضل ہے، میں نے اسے آزمایا ہے، خود میں نے بھی اس سے استفادہ کیا ہے، اگرسچ بات سننا چاہتے ہو تومجھے اور تمہیں سب کو ایک ساتھ اسکے درس میں چلنا چاہئے ۔اس کے بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے تمام شاگرد بھی اپنے استاد کی پیروی میں اٹھے اور چل دئیے ۔
انسان میں یہ کیسا انصاف ہے ؟
یہ توسو فیصد اپنے مفادات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوناہے۔
اس وقت سے آقا سید حسین، شیخ انصاری کے شاگرد وں میں شامل ہوگئے ۔یعنی اس طرح انہوں نے مرجعیت اپنی ذات سے لے کر عملاً دوسرے کو تفویض کر دی ( آپ جانتے ہیں اگر انسان دنیاوی اعتبار سے حساب لگائے تومرجعیت کتنا بڑا مقام ہے ) کیا اس شخص کو احساس نہ تھا کہ آقائی کیا چیز ہوتی ہے ؟ مدرس ہونا کیا منزلت رکھتا ہے ؟ احترام کیا چیز ہے ؟حتماً وہ بھی ہماری مانند عزت و احترام سے پیش آنے پر خوش ہوتے ہوں گے، انہیں بھی ہماری طرح سیادت و آقائی پسند ہوگی، وہ بھی ہماری مانند مرجعیت و ریاست سے طمانیت کا احساس کرتے ہوں گے، ایسا نہ ہوگا کہ انہیں اچھا نہ لگتا ہوگا۔لیکن وہ ایک بلند و بالا آزاد روح کے مالک انسان تھے اور اپنے اور اس شخص کے درمیان قضاوت کر سکتے تھے اور اپنے خلاف فیصلہ صادر کر سکتے تھے ۔
یہ ہیں اس بات کے معنی کہ انسان ایک مرکب شخصیت کا مالک ہے ۔
ضمیر کی ملامت
انسان گناہ کا مرتکب ہونے کے بعد خود کو ملامت کرتا ہے ۔ضمیر کی یہ ملامت کیا چیز ہے ؟ ضمیر کی یہ خلش جس کے متعلق سب ہی نے سن رکھا ہے، کیا چیز ہے ؟
استعماری ممالک کچھ انسانوں کی تربیت اس انداز سے کرتے ہیں کہ اِن کا ضمیر مردہ ہو جائے ۔اس کے باوجود وہ ضمیر جس کے متعلق ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ مرچکا ہے، اس میں ایک چھوٹا سا چراغ روشن اور زندہ ہوتا ہے ۔ہیرو شیما پر ایٹم بم گرانے والے ہوا باز کی تربیت ایسے ہی کسی جرم کے لئے کی گئی تھی ۔لیکن جب وہ وہاں گیا اوربم گرانے کے بعد اس نے آگ میں گھرے شہر پر نظر ڈالی، اور دیکھا کہ بے گناہ لوگ، بوڑھے، بچے اور وہ لوگ جن کا میدانِ جنگ سے یکسر کوئی تعلق نہ تھا آگ میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، تو اسی لمحے اسکی حالت غیر ہوگئی ۔امریکہ واپسی پر اسکا استقبال کیا گیا، اسکی عزت افزائی کی گئی( لیکن یہ سب چیزیں) اسکے ضمیر کو عذاب میں مبتلا ہونے سے نہ روک سکیں ۔ضمیر کے بوجھ نے رفتہ رفتہ اس شخص کو دیوانہ کر دیااور بالآخر اسے پاگل خانے میں داخل کر دیا گیا ۔
قرآن بھی کہتا ہے کہ : وَ لااَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ(اور برائیوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم ۔ سورۂ قیامت ۷۵ ۔ آیت ۲) خدا نے انسان کے اندر نفسِ لوامہ رکھا ہے، جس کی بدولت انسان خود اپنا واعظ اور ناصح ہو جاتا ہے ۔امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں : مَنْ لَمْ یَجْعَلِ اﷲُ لَہُ واعِظاً مِنْ نَفْسِہِ لَمْ یَنْفَعْہُ مَوْعِظَۃُ غَیْرِہِ۔یعنی ایسا شخص جس کے اپنے نفس کے اندر خدا نے واعظ و ناصح نہ رکھا ہو، دوسروں کا وعظ و نصیحت اسکے لئے بے اثرہوتا ہے ۔
اس کا کیا مطلب ہے ؟
مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کا خیال ہے کہ دوسروں کا وعظ و نصیحت آپ کے لئے مفید ہوگا، تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے ۔پہلے آپ کو خود اپنے اندر ایک واعظ پیدا کرنا چاہئے ۔اپنے ضمیر کو زندہ کیجئے، پھر دوسروں کے وعظ و نصیحت سے بھی استفادہ کیجئے ۔
انسان خود اپنے آپ کو وعظ کرتا ہے، خود اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے، خود اپنے خلاف حکم صادر کرتااور فیصلہ دیتا ہے، انسان خود اپنا محاسبہ کرتا ہے ۔ہمارے انوکھے اورمسلّمہ دینی احکامات میں سے ایک حکم محاسبۂ نفس ہے ۔کہا گیا ہے کہ خود اپنا محاسبہ کرو :حاسِبوا اَنْفُسَکُمْ قَبْلَ اَنْ تُحاسَبو ا۔ (بد قسمتی سے یہ باتیں فراموش کردی گئی ہیں)خود اپنا حساب لیجئے، اور انسان خود اپنا حساب لے سکتا ہے، اور اسے اپنا حساب لینا چاہئے :وَزِنوا اَنْفُسَکُمْ قَبْلَ اَنْ توزَنوا۔(۱) خود اپنے آپ کو تولئے، اپنا وزن کیجئے، قبل اس کے کہ آپ کا اور آپ کے اعمال کا قیامت کے دن وزن کیا جائے، انہیں اُس روز تولا جائے ۔
انسان خود اپنا وزن کرتا ہے، خود کو تولتا ہے، خود اپنا محاسبہ کرتا ہے، خود اپنے آپ کو سزا دیتا ہے ۔یہ تمام باتیں اس چیز کی دلیل ہیں کہ انسان ایک مرکب شخصیت کا مالک ہے ۔اس مرکب شخصیت کا ایک حصہ عالی اور بلند ہے، جو اس کا انسانی پہلو ہے اور ایک حصہ ادنیٰ ہے، جو اس کا حیوانی پہلو ہے ۔معنوی آزادی یعنی انسان کا عالی اور انسانی پہلو اسکے حیوانی اور شہوانی پہلو سے آزاد ہو ۔
انسان کا خود اپنے آپ کوسزا دینا
ہم نے کہا تھا کہ انسان خود اپنے آپ کو سزا دیتا ہے ۔امیر المومنین علیہ السلام کا ایک بیان میرے ذہن میں آیا ہے ۔ایک شخص حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتاہے ۔استغفار
کرتاہے، توبہ کرتا ہے ۔یعنی استغفار کا صیغہ اپنی زبان پر جاری کرتا ہے ۔وہ بھی ہم میں سے بہت
۱۔ وسائل الشیعہ ۔ج ۱۱۔ص۳۸۔حدیث ۹۔
سے لوگوں کی طرح یہی سمجھتا تھا کہ بس اَسْتَغْفِرُاﷲَ رَبّی وَاَ توبُ اِلَیْہِ کہنے سے توبہ ہو جاتی ہے۔امیر المومنین نے جلال سے بھرے لہجے میں اس سے فرمایا : ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ اَ تَدْری مَاالْاِ سْتِغْفارُ ؟ اَلْاِسْتِغْفارُدَرَجَۃُ الْعِلّیّینَ۔(۱)یعنی خدا تجھے موت دے، تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے! تجھے استغفار کے معنی پتا بھی ہیں جو تو کہہ رہا ہے کہ اَسْتَغْفِرُاﷲَ رَبّی وَاَ توبُ اِلَیْہ ؟ کیا تجھے استغفار کی حقیقت کا علم ہے ؟ استغفار بلند مرتبہ لوگوں کا درجہ ہے ۔ دراصل توبہ خود اپنے آپ کی مذمت کرنا ہے ۔اسکے بعد حضرت نے فرمایا:استغفار کی کئی اصل ہیں، اسکے دورکن ہیں، دوقبولیت کی شرائط ہیں اور دوکمال کی شرائط ہیں، یہ مجموعی طور پر چھ اصل بنتی ہیں ۔اب میں تمہارے لئے بیان کرتا ہوں :
فرمایا: استغفار کا اوّلین رکن یہ ہے کہ: انسان واقعی اپنے سابقہ سیاہ کردار پر شرمندہ ہو۔
دوّم یہ کہ: یہ پختہ عزم کرے کہ آئندہ اس گناہ کا مرتکب نہیں ہوگا ۔سوّم یہ کہ: اگر لوگوں کے حقوق اسکے ذمے ہوں تو انہیں ادا کرے ۔چہارم یہ کہ : اگر اس نے خداوند عالم کے عائد کردہ فرائض کو ترک کیا ہے، تو اُن کا کی تلافی کرے، ان کی قضا ادا کرے۔
مذکورہ تین باتیں ہمارے عرائض کے لئے استدلال نہیں ہیں، ہمارے مدعا کے لئے استدلال، یہ آخری دو نکات ہیں ۔
فرمایا : پنجم یہ کہ: اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری توبہ خالص ہو، سچی اور واقعی ہو، تو اس گوشت کا پتا لگاؤ جو اس گناہ کے دوران اور اس گناہ کے ذریعے تمہارے اندر پیداہوا ہے اور اپنی توبہ اور رنج و غم سے اسے اتنا گھلاؤ کہ تمہارے بدن کی کھال ہڈیوں سے چپک جائے ۔ششم یہ کہ : تمہارا یہ بدن جو نافرمانی کا عادی ہوچکا ہے، اور جس نے لذتِ گناہ کے سوا کوئی اور لذت نہیں چکھی ہے، اسے ایک مدت تک طاعت کی مشکل اور زحمت چکھاؤ۔
کیاتاریخ میں کسی انسان نے اس انداز سے توبہ کی ہے ؟
۱۔ نہج البلاغہ ۔ کلماتِ قصار۴۱۷۔
جی ہاں، یہ تو آج کا دور ہے جس میں توبہ کو بھلایا جا چکا ہے اور ہم نے توبہ کرنے کو فراموش کردیاہے !
ابھی گزشتہ دور کے اخلاق اور سیر و سلوک کے علما میں ایک نام مرحوم آخوند ملاحسین قلی ہمدانی کا ہے ۔آپ کا شمار مرحوم میر زای شیرازی( اعلی اﷲ مقامہ) اور شیخ انصاری علیہ الرحمہ کے شاگردوں میں ہوتا ہے، خودمیرزای بزرگ ان کا بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے ۔ان کے ایک شاگرد جو خود اکابر اور بزرگ علما میں سے تھے، تحریر کرتے ہیں کہ : مرحوم آخوند کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا ۔انہوں نے اسے توبہ کرائی ۔چند دن بعد یہ توبہ کرنے والا شخص دوبارہ آیا، تو ہم اسے بالکل پہچان ہی نہ سکے ۔اتنے مختصر عرصے میں اُس شخص کے بدن کا تمام گوشت گھل چکا تھا ۔
میں اس بات کو نفسیاتی پہلو سے عرض کرتا ہوں ۔میں کہتا ہوں، انسان میں یہ کیاچیز ہے ؟ آخوند ملا حسین قلی ہمدانی کے پاس نہ تازیانہ تھا نہ نیزے کی انی، نہ توپ اور نہ خوفزدہ کرنے والی کوئی اورچیز۔صرف نصیحت اور رہنمائی کی قوت آپ کے پاس تھی، معنویت کی قوت کے حامل تھے ۔اس شخص کے دل اور ضمیر سے مخاطب ہونے کی قدرت رکھتے تھے ۔اس آدمی کے اندر یہ کیسا وجدان پوشیدہ تھا جس نے اسے زندہ کر دیا ۔اور اس طرح خوداسے اسکے اپنے خلاف، اپنے بدن کی شہوانیت کے خلاف اور اس گوشت کے خلاف جو معصیت اور نافرمانی سے پروان چڑھا تھاابھارا کہ جب چند روزبعد لوگوں نے اسے دیکھا، توکہتے ہیں کہ ہم اسے پہچان نہ سکے، وہ اس قدر لاغر ہوچکا تھا ۔
معنوی آزادی، انبیا کا عظیم ترین دستورِ عمل
انبیا کا سب سے عظیم دستورِ عمل معنوی آزادی ہے ۔تزکیۂ نفس دراصل معنوی آزادی ہی ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا(۱)ہمارے دور کا سب سے بڑا نقص یہ ہے
۱۔بے شک وہ کامیاب ہوگیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنا لیا اور وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کر دیا ہے ۔(سورۂ شمس ۹۱ ۔آیت ۹، ۱۰)
کہ ہم سب آزادی کی بات کرتے ہیں لیکن سماجی اور معاشرتی آزادی کے سوا کوئی اوربات نہیں کرتے۔ معنوی آزادی کے بارے میں تو گفتگو بھی نہیں کرتے ۔اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں سماجی اور اجتماعی آزادی بھی حاصل نہیں ہوتی ۔
ہمارے زمانے میں ایک بڑا ظلم جو فلسفے اور فلسفی نظاموں کی صورت میں سامنے آیا ہے یہ ہے کہ بنیادی طور پرانسان کے بارے میں، اسکی انسانی شخصیت اور اسکی معنوی شرافت کے بارے میں کوئی گفتگونہیں کی جاتی، نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ کو فراموش کردیا گیا ہے ۔کہتے ہیں کہ ایسی کسی چیز کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے ۔
انسان ایک دو منزلہ وجود نہیں کہ جس میں ایک عالی منزل ہو اور دوسری ادنیٰ منزل۔ انسان اور حیوان کے درمیان سرے سے کوئی فرق ہی نہیں ہے، }انسان{ ایک حیوان ہے۔زندگی تنازع بقا ہے اور تنازع بقا کے سوا کوئی اورچیز نہیں۔یعنی زندگی ہر انسان کے خود اپنے لئے جدوجہد کرنے اور اپنے مفاد کے لئے جنگ کرنے کے سوا کوئی اور چیز نہیں!
آپ جانتے ہیں اس جملے نے انسانیت پر کیسی سخت چوٹ لگائی ہے ؟!
کہتے ہیں کہ زندگی جنگ اور میدانِ جنگ کے سوا کچھ اور نہیں ۔بلکہ ایک اور جملہ بھی کہتے ہیں کہ جس کے بارے میں بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ بہت صحیح بات ہے ۔ کہتے ہیں : حق لینے والی چیز ہے، دینے والی چیز نہیں ۔ }نہیں نہیں جناب!{حق لینے والی چیز بھی ہے اور دینے والی چیز بھی ۔یہ جملہ کہ حق کو فقط لینا چاہئے اور کوئی تمہیں نہیں دے گا دراصل ضمنی طور پر اس بات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ جناب آپ کو بڑھ کر اپنا حق جھپٹ لینا چاہئے، نہ کہ آپ حق بانٹتے پھریں۔ صاحبِ حق کو خود آگے بڑھنا چاہئے، اگر طاقت ہے تو تم سے بزور اپنا حق چھین لے، اور اگر طاقت نہیں ہے تونہیں لے سکے گا۔
لیکن انبیا یہ پیغام لے کر نہیں آئے ۔انبیا نے کہا ہے کہ حق لینے کی چیز بھی ہے اور دینے کی چیز بھی ۔یعنی انبیا مظلوم کو، پامال ہونے والے کوتلقین کرتے ہیں کہ بڑھو اور اپنا حق لے لو اور دوسری طرف ظالم کو خود اپنے خلاف قیام پر تیار کرتے ہیں، کہ وہ حق }اس کے حقدارکو{دے۔اور وہ اپنے اس عمل میں کامیاب بھی رہے ہیں۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ:خدایا ہم تجھ سے اُن حقیقی آزاد مردوں کے واسطے جو پہلے درجے کی معنوی آزادی کے حامل ہیں سوال کرتے ہیں کہ ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اپنے نفسِ امارہ سے آزاد ہوجائیں ۔
خدایا ! ہمیں معنوی آزادی عنایت فرما، سماجی آزادی عنایت فرما۔
ہم سب کو دنیا اور آخرت کی خیر کرامت فرما۔
خدایا ! ہمیں اسلام کے حقائق سے آشنا فرما۔ ہم سب کی شرعی حاجات کو پورا فرما۔
خدایا! ہم سب کے مرحومین کو بخش دے اور ان کی مغفرت فرما۔
رحم اﷲ من قرأ الفاتحۃ مع الصّلوات