ريَاض القدس (Vol 2)

جوانواں کا سبقت کرنا

ريَاض القدس (Vol 2)   •   آقای صدرالدین قزوینی

شهادت جوانان محمدی و مرتضوی اور خود امام حسینؑ کا برائے کار زار تیار ہونا لیکن جوانواں کا سبقت کرنا۔

بسم الله الرحمن الرحيم۔ لما هبت الرياح خريف الحتوف من مهب الرماح والتبال والسيوف على حدائق الاصحاب والانصار و ذهبت بما فيها من الخضارة والنضارة والماء والاوراق و الاشهار۔

جب کہ زمین کربلا پر دشمنوں کی طرف سے ظلم و ستم شروع ہوا اور کوفہ و شام کے بدنہاد مسلمانوں نے چین فاطمی کو برباد کردیا۔ بوستان دین نبوی مرجھا گیا۔ اور اوراق کتاب ناطق پارہ پارہ ہو گئے۔ اور اکثر اشجار چمن نبی و فاطمہ قطع کر دیے گئے چمن کی حفاظت کرنے والی باڑھ ریختہ ریختہ کر دی گئی ۔ اس وقت یہ عالم ہوا کہ ہے۔

بر آمد یکی مر مر از دشت کین

بسی نخل من ریخت از باغ دین

خنراں آمد و بوستان از دشد

دل از اتش تشنگی سرد شد

یعنی دشت کہ بلا میں ایک تند و تیز آندھی چلی جس سے بہت نخل (اشجار) باغ مصطفوی مرجھا مرجھا گر پڑے۔ چمن فاطمی میں خزاں چھا گئی۔ بوستان مرتضوی زرد پڑ گیا۔ اور دل آتش تشنگی سے ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔

وما قنعت بنشر اوراق مواردات الخدود

بل قمعت اصول نخيل موزونات القدود

بے رحم کو فیوں نے دین نبویﷺ اور گلستان مرتضوی کو خراب و برباد کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اشجار دینیہ اور ایمانی شگوفوں کو قطع کر دیا ہے۔

درآمد شهادت پرخرم بهار

گلستان شد آن پهنه کارزار

گلستان کہ بودش درختان سناں

سرسبزه اش خنجر جاں ستاں

یعنی کہ چین میں تازہ تازہ شهادت بصد خوشی و شادمانی پھر آئی ہے۔ اور گلستان حسینی میدان کارزار ہو گیا ہے اور گلستاں کہ اس کے درخت سنتان ہیں اور سبزہ چین خنجرجان ستان ہے۔

دم غنچہ پیکاں زہر آبدار

غوبالبلاں نالہٴ زخم دار

رخ کشته خیری و گلنار خون

بنفشه خط و داغ و لاله دروں

مگر بوستاں بود دشت نبرد
که شگفت گلها در او سرخ وزرد

ندانم گلشن را که بود آبیار

مگر زآبِ شمشیر جنگی سوار

یعنی کہ چمن میں بغیر کھلے ہوئے پھولوں کا لہو زہر آلود تیر اور برچھی کی بھال بنا ہوا تھا۔ بلبلوں کا شور وغل نالہ بسمل بن کر بلند ہو رہا تھا۔ تازہ تازہ اُگی ہوئی چیزیں خونِ گلنار بنی ہوئی تمھیں۔ بنقشہ خط یعنی نیلگوں و صحاریان جن میں سرخی اُبھر رہی تھی۔ اور چمن دشت پرنبرد کا نقشہ کھینچا ہوا تھا۔ اس میں سرخ و زرد شگفتہ کھلے ہوئے تھے۔ لیکن نامعلوم اس چمن میں آبیاری کی گئی یا نہیں اتنا جانتا ہوں کہ اس چمن کی آبیاری آب شمشیر سے کی گئی۔

طارت عنادل ارواح الفتوة والحمية من الاغصان وحارت انهار والحماية والصيام بلا جريان

یعنی جوان و غیرت دار بلبلیں اشجار کی شاخوں سے شکوہ و عظمت آدمی لے اُڑی تھیں اور نہر حمایت و نصرت کے پانی سے خشک ہو گئی تھیں۔ صغیر کبیر، برناو پیر، سالار و سردار، غلام خدمت گزار سب ہی شہید ہو چکے تھے۔ نہ سپاہ تھی نہ اصحاب و انصار،

و نضرب نقوس اهل الإيمان و السلام والاجساد و اقشعرت و نزعزعت قواعد البنية الصلاح والرشاد

اصحاب و انصار و یاورانِ امام مظلوم۔ سر کٹائے ہوئے۔ بے گور و کفن ریگ گرم پر پڑے ہوئے تھے۔ جسم ہاء مبارکہ زخموں سے چور چور تھے ۔ جگر تلواروں سے کڑے ٹکڑے ہو گئے تھے وا حسرتا جو عارفان امام حسین علیہ السلام تھے وہ تشنہ لب شهید ہو گئے تھے۔ اور یہ وہ ہستیاں تھیں کہ امت مسلمہ میں تقوی و پرہیز گاری میں مشہور تھیں مگر کوفیوں نے ان کی قدر کو بھلا دیا؎

صاروا ولولا قضاء الله يمسكمهم

لم يتركوا لبنى سفيان من اثر

صاحب روضتہ الشہداء لکھتے ہیں کہ جب امام حسینؑ بے یار و انصار رہ گئے اور سوائے شہزادگان خانوادہ نبوت و امامت کوئی دوسرا باقی نہ رہا۔ اس وقت امام مظلوم نے ان کو بحسرت و یاس دیکھا۔ آہ سوزان جگر سے کھینچی۔ رخ مبارک پر ایک ایسی حالت طاری ہوئی کہ سوائے ذات باری کسی کو اس پر آگاہی نہ تھی۔ جل الاله و ليس الحزن بالغة۔ جوانان بنی ہاشم نے اس صورت حال کا مشاہدہ کیا۔ اور حضرت امام عالی مقام کے گرد جمع ہوئے اور عرض کیا اسے نور دیدہ مصطفوی اے ماہ آسمان ہدایت، اسے رھبرِ وادیِ شہادت۔ اور اسے قاسم جنان۔ ہم آپ کے بعد زند گی نہیں چاہتے۔ امامِ غریب نے جب ان کا یہ سخن سنا، آبدیدہ ہوئے۔ ان کے حق میں دعاء خیر کی ۔ اور پھر یکے بعد دیگرے سب کو رخصت کیا اذنِ جہاد دی۔ اور اصحاب کی شہادت کے بعد جوانانِ علیؑ و فاطمہؑ نے رکابِ امام حسینؑ کو بوسہ دیا۔

میدان قتال میں گئے اور تھوڑی ہی دیر میں بھرے ہوئے خیمہ خالی ہو گئے۔ امام حسینؑ نے اس وقت آہ جگر سوز کھینچی اور فرمایا۔ هل من يقدم الى جوادی آیا ہے کوئی جو میرے لیے اسپ مرگ لائے واحسرتا میر سے جوان کہاں چلے گئے۔ علی اکبر کہاں ہیں۔ قاسم کہاں ہیں۔ عون و محمد کہاں ہیں جب کوئی جواب نہ ملا۔ تو زینب خاتون در خیمہ پر آئیں اور فرمایا بھیا حسینؑ اب بیکسی نہیں دیکھی جاتی۔ اے میرے ماں جائے، بہن سواری لانے کے لیے تیار ہے۔ اس وقت تمام اہل حرم میں ایک کہرام بپاء ہو گیا واحسیناہ کی صدائیں بلند ہوئیں، فعند ذلك بجنا النساء الهاشميات و الحرائر الفاطميات لمشاهدتكم على هذا الحال ومعانية المال۔ آہ واویلا اس وقت عورات ہا شمیہ میں کوئی گیسو پریشان کئے ہوئے تھی کوئی سینہ کوبی کر رہی تھی۔ کوئی منہ پر طمانچہ مار رہی تھی کسی بی بی کو غش آرہا تھا۔ سکینہ خاتون سکتہ کی حالت میں کھڑی تھی ۔ اس وقت بیبیاں علیؑ و فاطمہؑ کو پکار رہی تھیں اسے شاہ نجف مدد کو آئے ۔ اسے بی بی فاطمہ مزار سے نکلئے اور اپنے حسینؑ کی بیکسی دیکھئے۔ فجعلت تند بهم وتنوح عليهم بزفرات واغوال۔

دل چاہتا ہے کہ مومنین سے ایک سوال کروں اہلِ حرم کی نگاہ کبھی مقتل کی طرف اُٹھتی ہے تو اصحاب امام حسینؑ کے لاشے نظر آتے ہیں جو خاک و خون میں غلطاں ہیں۔ ریگ کر بلا لاشوں پر کفن بنی ہوئی ہے۔ جوانان ہاشمیہ کی شہادت کا ذکر تفصیلاً کیا جائے گا۔