ريَاض القدس (Vol 2)

روز عاشوراء جوانان ہاشمی میں اول شہید کا اذان جہاد طلب کرنا

ريَاض القدس (Vol 2)   •   آقای صدرالدین قزوینی

بسم الله الرحمن الرحيم

احادیث و روایات سے مستفاد ہوتا ہے کہ جب تک اصحاب و انصار امام حسینؑ میں سے ایک تن بھی باقی رہا۔ اس وقت امام حسین تک کے عزیزوں اور اولاد میں سے کوئی شہید نہیں ہوا۔ لیکن بعد شہادت انصاران امام حسین عزیزوں او بچوں کی شہادت کی نوبت آگئی ۔ البتہ اس مقام پر یہ تعین کرنا کہ ام حسین کے عزیزوں میں سے پہلا شہید کون ہے محل اختلاف ہے اہلبیت امام حسین میں سے علی اکبر پہلے شہید ہیں یا عبد اللہ ابن مسلم بن عقیل۔ اس بات پر مورخین اور مقاتل کا اجماع ہے کہ پہلے شہید جناب عبد اللہ بن سلم بن عقیل ہیں۔ لیکن مصنف کامل السقیفہ اور محمد بن ادریس علیہ الرحمہ صاحبِ کتابِ سرائر فرماتے ہیں اول تقتل في الواقعة يوم الطف من آل ابی طالب علی ابن الحسين، صاحب مقاتل بھی اس امر کے قائل ہیں اول قتيل مع الحسين ابن علی الاکبر کہ امام حسینؑ کے فرزند علی اکبر پہلے شہید ہیں۔

مرحوم سید علیہ الرحمۃ کتاب الہوف میں فرماتے ہیں کہ فلما لم يبق مع الحسين سوى اهلبيته خرج علی ابن الحسين شيخ مفيد عليه الرحمة كتاب الارشاد فرماتے ہیں کہ اصحابِ امام حسینؑ میں سے ہر ایک امام کی خدمت میں حاضر ہوتا اور اذان جہاد طلب کرتا۔ اور میدان قتال میں جاتا یہاں تک کہ تمام اصحاب روز عاشورا قبل از اعزاء واقرباء حسینؑ شہید ہو گئے۔ اس وقت فتقدم علی ابن الحسین یعنی اس وقت علی اکبر نے میدان قتال میں جانے کی پیش قدمی کی۔ اہل تاریخ اور اکثر صاحبان مقاتل نے لکھا ہے کہ جب حضرت امام حسینؑ کے سامنے اصحاب انصار میں سے کوئی باقی نہ رہا تو آپ نے فرمایا الان وصل النوبة الى اے میرے جوانوں اب میرے جان و سر دینے کی نوبت آ پہنچی ہے۔ جوانان ہاشمی نسب و حب سب کے سب نے امام حسینؑ کے قدم مبارک پر سر دیا امام اور عرض کیا اے مولی اے سید و سردار ایسا کس طرح ہو سکتا ہے کہ آپ شہید ہوں اور ہم زندہ رہیں لا ینبغى محاربتك ونحن احیاء۔ آپ کی نوبت شہادت ابھی نہیں پہنچی ہے جب تک کہ ہم زندہ ہیں پہلے ہم شہید ہوں گے۔ چنانچہ سب سے پہلے عزیز واقارب میں حضت علی اکبر بن الحسین نے اذان جہاد طلب کیا۔ امیر خواند شاہ صاحب کتاب روضته الصفا میں لکھتے ہی کہ قائلان بر تقدم علی اکبرؑ لکھتے ہیں کہ جب حضرت امام حسینؑ نے خود میدان قتال جانے کا عزم کیا تو اہل بیت میں سے آپ کے فرزند علی اکبر نے پیش قدمی کی ہے اور بعض بزرگ و اجلی ہستیاں اس امر کی بھی قائل ہیں کہ عبداللہ بن مسلم بن عقیل پہلے شہید ہیں چنانچہ محمد ابن شهر آشوب کتاب مناقب میں فرماتے ہیں کہ اول من برز من بینی باشم عبداللہ بن مسلم علامہ مجلسی نے کتاب بحار جلد۱۰ میں ایسا ہی فرمایا ہے۔ جلاء العیون (فارسی) میں بھی اسی طرح مرقوم ہے کتاب حبیب السیر کہ جب امام حسینؑ نے میدان جہاد میں جانا چاہا تو اہل بیت جمع ہو گئے اور عبداللہ ابن مسلم بن عقیل نے سبقت کی۔ میدان قتال میں گئے اور جام شہادت نوش کے ابی مخنف اور لوط ابن یحیحی نے اپنے مقاتل میں لکھا ہے کہ اول شہید کے بارے میں یا قوال مذکو رہ پائے جاتے ہیں یعنی کہ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ حضرت علی اکبر ابن الحسین اول شہید ہیں اور بعض کے نزدیک عبداللہ ابن مسلم بن عقیل پہلے شہید ہیں۔ لیکن مقابلتاً کثیر اقول یہی ہیں کہ حضرت علی اکبر ہی پہلے شہید ہیں۔ لیکن علامہ شیریں گفتار کتاب ریاض الاحزان میں فرماتے ہیں کہ و نراجح عندى تقدم على بن الحسين عليهما السلام لورود الخبير وتكاثر اهل السنر یعنی کہ میرے نزدیک یہ ہی اقوی ہے کہ حضرت علی اکبر پہلے شہید اور زیارت نامبہ مقدسہ میں کہ جس میں شہدا کو بلا کے اسماء گرامی درج ہیں امام علیہ السلام سے منقول و ماثور ہے کہ جب حضرت علی اکبر کی قبر مبارک کی زیارت کا ارادہ کرے، فقت عند رجلى الحسين وهو قبر على ابن الحسين فاستقبل القبله بوجهك فان هناك حوضة الشهداء یعنی رو بیلہ کھڑا ہو کہ جہاں گنج شہداء علیہم السلام سے انگشت شہادت سے اشارہ کرے اور کہے السلام عليك يا اول قتيل من نسل خير سليل من سلالة ابراهيم الخليل صلى الله عليك وعلى ابيك یعنی که سلام ہو اول شہید پر کہ جس نے تمام عزیز واقارب میں اپنی جان امام حسینؑ پر قربان کی اور جو خلاصہ نسل خلیل خدا ہے۔ پس اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جناب علی اکبرؑ اقرباء میں سب سے پہلے شہید ہیں اور خون آلودہ لاش علی اکبر سے امام حسینؑ نے برچھی کا پھل نکالا اور فرمایا اے بیٹا اس قوم نابکار کو خدا قتل کرے کہ اس نے تمہیں قتل کیا اورتم پر رحم نہ کیا اور حرمت رسول خداؐ کو ضائع کیا۔ اسے میرے فرزند تو شبیہ رسول خدا تھا اے نور نظر تمام کائنات کا درد و سلام ہو تجھ پر۔ علامہ مجلسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ منتقد بن مّرہ نے کمین گاہ سے آپ کے سر مبارک پر گرز مارا اور شہزادہ علی اکبر گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے۔ اور کسی بے رحم نے تلوار سے جسم علی مبارک ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ حضرت علی اکبر نے بحسرت خیمہ کی طرف نگاہ کی۔ رافعاً صوبہ یا ابتاه۔ بدرد و یاس آواز دی کہ اسے بابا، دادا جان آبِ کوثر لائے ہیں۔ امام حسینؑ مقتل میں پہنچے دیکھا کہ اٹھارہ سالہ جوان خون میں غلطاں پڑا ہوا ہے۔ سر شگافتہ ہے۔ بدن زخموں سے چور چور ہے فرماتے ہیں یا ولدی علی الدنیا بغدك العفا- اے نور نظر تیرے بعد زندگی بے کیف ہو گئی۔ اسے فلک تو نے فرزند کو مجھ سے جدا کر دیا اور غمِ علی اکبر میں مجھے سوختہ کر دیا۔

الشیخ فخر الدین لکھتے ہیں کہ جب اہلحرم نے خبرِ شہادت حضرت علی اکبر سن کر عورتوں میں شور برپا ہو گیا۔ وا علی اکبراہ کی آوازیں بلند ہو گئیں۔ امام حسینؑ نے جب اہلحرم کی گریہ وزاری کو دیکھا تو آپ کو شدید صدمہ ہوا۔ تلقین صبر کی۔ اور فرمایا اے بہن زینب و ام کلثوم اور اے بیٹیوں، تمہیں تو ابھی بہت زیادہ گریہ و بکا کرنا ہے ابھی تو ایک جوان کا ماتم کیا ہے اور بھی جوان شہید ہوں گے جس قدر صدمہ علی اکبر تھا کسی کو کیا خبر

داعئ کہ حسینؑ از غم اکبر بجگر برداشت

جز خالقِ اکبر ز دل او کہ خبر داشت

تا آندم آخر کہ برید ند سرش را

او دیدہٴ حسرت بسوے نعش پسر داشت

میسوخت خود از تشنگی و در دم آخر

از سوز لب خشک پسر دیدہ برداشت

یعنی کہ حضرت علیؑ اکبر کے شہید ہونے پر جو صدمہ امام حسینؑ کو ہوا اور جو داغ قلبِ امام حسینؑ نے برداشت کیا، سوائے خداوند عالم اس کی کسی کو کیا خبر۔ امام حسینؑ نے سر کو کٹتے ہوئے دیکھا تو حسرت کے ساتھ لاش پر نظر کی دیکھاکہ علی اکبرؑ تشنگی سے سوختہ ہیں، دم آخر سوکھے ہوئے لب ہیں مگر آنکھوں میں آنسو ہیں۔ مؤلف کتاب صدر بیقدر ملتمسِ دعا ہیں مومنین کرام ان کو سورہ فاتحہ سے نوازیں۔