دنیا میں نعمت ہائے بہشتی کے نمونے اور خصائل پیغمبر خدا
ريَاض القدس (Vol 2) • آقای صدرالدین قزوینی
دنیا میں نعمت ہائے بہشتی کے نمونے اور توصیف شمائل و خصائل پیغمبر خدا
جاننا چاہیے کہ خداوند عالم نے جو نعمتیں بہشت بریں میں دائمی طور پر خلق فرمائی ہیں ان کے نمونے دنیا میں بھی پیدا کئے ہیں تاکہ صاحبان نظر قدرت خدا میں غور و فکر کر سکیں اور اس کی معرفت حاصل کریں۔ اور ان نمونہ ہائے بہشتی کی تصدیق حضرت امام جعفر صادقؑ نے فرمائی ہے کیونکہ آپ خداوند کی طرف سے ان چیزوں پر مطلع ہیں۔ مثلا نعمت ہار بہشت میں سے چار نہریں ہیں جو کہ پانی، دودھ، شہد اور خمر کی ہیں۔ اور ہر ایک نہر جدا جدا ہے۔ پانی کے ساتھ ممزوج نہیں ہے بعض نا فہم لوگ اس پر یقین نہیں رکھتے لیکن ہر ایک نہر جدا گانہ حیثیت رکھتی ہے۔ خداوند عالم نے یہ چاروں نہریں بطور نمونہ صفحہ صورتِ بشری میں خلق فرمائی ہیں۔ آب شیریں۔ دردہن ہے یعنی شیریں گفتار ہونا دہنِ انسانی سے متعلق ہے۔ آبِ بے مزہ ناک سے متعلق ہے۔ آب شور آنکھوں سے متعلق ہے۔ آب تلخ کانوں سے متعلق ہے جو کہ ایک دوسرے سے جدا گانہ ہیں۔ آپس میں ممزوج نہیں ہیں۔ اور نعمت ہار بہشتی میں سے بعض دوسری نعمتیں لباس فاخرہ ہے جو رنگ برنگ کا ہوتا ہے۔ اور جو کہ بہشتی لوگوں کو عطا ہوتا ہے اور ہر ایک کو ستر پوشاکیں رنگ برنگ کی عطا ہوتی ہیں۔ اور رنگا رنگی فصل بہار میں چمن میں نظر آتی ہے کہ طرح به طرح رنگ برنگ پھول اور غنچوں سے چمن آراستہ ہوتا ہے، اور خوشبوؤں سے تختہ دار چمن مہکتا ہے۔ تاکہ دنیا دیکھے کہ خداوند عالم قادر مطلق ہے۔ بہشت برین میں ایک درخت بھی ہے جسے طوبی کہتے ہیں جو کہ وسط بہشت میں ہے وہ درخت زمین بہشت میں اگا ہوا ہے اور اس کی شاخیں بہشت کے ہر ایک قصراور غرفوں میں ہیں اور ان سے طرح بر طرح کے میوے حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا نمونہ دنیا میں بھی موجود ہے چنانچہ آفتاب عالمتاب ایک ہے مگر اس کی شعاعیں اس کا نور، اس کی دھوپ، ہر ایک گھر، ہر ایک در اور ہر ایک جگہ پر پڑتی ہے۔ اور اس سے مختلف پھل پھول پختہ ہوتے ہیں۔ بعض روایات و اخبار سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسن و جمال بہشتی کمال ہے۔ خداوند عالم نے جب دنیائے بشریت آباد کی تو قد و قامت آدم، بحد قامت اہل بہشت قرار دی۔ سِن و سال عیسٰیؑ نمونہ ہے، سن و سال اہل بہشت کا زمزمہ (لحن ) داود، نمونہ سرد و اہل بہشت ہے۔ حسن یوسف۔ مشابہت یہ حسن اہل جنت ہے۔ اور اسی طرح حسن علی جو آنحضرتؐ کی صفت ذاتیہ ہے اور یہ انسانی خصلتوں میں سب سے اعلیٰ صفت اور نمونہ اخلاق اہل بہشت ہے۔ یوں تو ایک رسولؐ و نبیؐ کو خداوند عالم نے بہشتی صفات سے آراستہ کیا ہے، لیکن آنحضرتؐ میں تمام صفات جمع کر دی ہیں۔ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ينظر الى أدم وصفوته والى شيث في نسبته والى ادریس في رفعته والى نوح في دعوته والى ابراهيم في خلته والى اسمعيل في فديته والى يعقوب في محنته والى يوسف في صباحته والى سليمان في حشمته و الى لقمان في حكمته والى اسكندر في حكومته والى ذكريا في خدمته والى يحيى في عصمته و الى عيسى فى طهارته۔ یعنی کہ جو شخص اس امر کی خواہش رکھتا ہے کہ وہ آدم کو ان کی صفوت اور نسبت شیثؑ ، رفعت ادریسؑ ، دعوت نوحؑ، خلت ابراہیمؑ، قدرت اسمعیلؑ، محنت یعقوبؑ، صباحت یوسفؑ، حشمت سلیمانؑ، حکمت لقمانؑ، حکومت سکندرؑ، خدمت زکریاؑ، عصمت یحیحٰیؑ، طهارت عیسٰیؑ وغیرہ دیکھے تو میرے چہرہ پر نظر کرے، خداوند عالم نے یہ تمام کمالات مجھ میں جمع فرما دیئے ہیں اور یہی کمالات رسولان و علی مرتضیؑ، حسن مجتبےؑ، حضرت علی ابن الحسینؑ یعنی علی اکبرؑ میں جمع ہیں یہ اٹھارہ سالہ جوان۔ بهشت برین کے جوانوں میں سے ایک نمونہ ہے۔ اسی طرح حضرت ابوالفضل عباس ہیں جو ماہ بنی ہاشم کہلاتے ہیں۔ قاسم ابن حسنؑ کہ صورت و نورانیت میں، اخلاق میں تصویر حسن ہیں۔ عبداللہ بن مسلم بن عقیل کہ جو سردار آل عقیل ہیں محمد بن عبا سی کہ جو صبح الناس ہیں، یعنی انسانوں میں مانند نور صبح ہیں، اور ان سب میں کمالات وصفات جمیدہ جمع ہیں۔ یہ صفات پسندیده تمام جوانان محمدی و مرتضوی میں تھیں اور بالخصوص شهزاده علی اکبرؑ میں جمع تھیں اور آپ ظاہرا بھی شبیہ رسولِ خدا ہیں۔ روایت ہے کہ جب حضرت علی اکبرؑ عازم میدان قتال ہوئے ہیں تو اہل حرم میں شور و غو ما بر پا ہو گیا۔ اور جب امام حسینؑ لاش پسر خیمہ میں لائے ہیں تو اہلحرم ماتم کنان در خیمہ تک آگئے۔ مسند پر لاش علی اکبرؑ کو رکھ دیا۔ پھوپی، بہنوں اور ماں نے لاش علی اکبرؑ پر ماتم و گریہ کہا۔
مجلس درباره معرفت علی اکبرؑ اور تعریف شکل و شمائل
جب حضرت علی اکبرؑ کو اذن جہاد ملا اور آپ مثل اسمٰعیل ذبیحہ بن کر عازم میدان قتال ہوئے تو حضرت امام حسین علیہ السلام نے بہ ہزار حسرت علی اکبرؑ کے سر پر خاک ڈالی۔ مولف کے والد ماجد مرحوم اپنی کتاب ریاض میں تحریر کرتے ہیں کہ فلما تجلی شمس طلعت من افق ظهر العقاب واستولى يده وقدم على اللغان والركاب خرجت عمامة واخوته واحد من به و من العزيمة یعنی کہ جب شہزادہ عالم پشت فرس پر سوار ہوئے اور اہل حرم کو خبر ہوئی کہ علی اکبرؑ عازم میدان قتال ہیں۔ تو ایک مرتبہ پھوپھیاں، بہنیں، اور مخدرات خیمہ سے باہر نکل آئیں۔ اور آپ کے گھوڑے کے گرد حلقہ بنالیا۔ نالہ وفریاد کرنے لگیں اور چاہتی تھیں کہ علی اکبرؑ میدان قتال کو نہ جائیں۔ امام حسینؑ نے سب سے فرمایا کہ دعینه فانه ممسوس في الله مقتول في سبيل الله کہ الے اہلحرم علی اکبرؑ قتل راہ خدا ہوں گے انہیں جانے دو۔ فرجعن حاسرات باكيات ايسات من ناديات عليه تمام مخدرات روتی پیٹتی منتشر ہوگئیں۔ اور وہ شبیہؑ عازم میدان قتال ہوئے۔
چون سراج معرفت و ہاج شد
مصطفای جانب معراج شد
جبرئیل عقل تا میدان عشق
در رکاب آن مه کنعان عشق
یعنی کہ جب دو چراغ تا بنده معرفت زیادہ روشن ہوا تو گویا بعنوان رسول خدار یہ عالم ہو کہ خود مصطفی صلوا علیہ و اگر حراج میں جار ہے ہیں۔ عقل گل یعنی جبرئیل تا میدان عشق شہادت ماہ کنعان حسینی کے ساتھ رہے۔