حضرت علی اکبر کا مرکب عقاب سے زمین پر گرنا اور امام حسین کا پہنچنا
ريَاض القدس (Vol 2) • آقای صدرالدین قزوینی
جب حضرت علی اکبرؑ اپنے مرکب عقاب نامی سے زمین پر گرے۔ و افرش المضمار وارتفع الغبار رمق بطرفه الى الخيام وصاح إلى الامام يا ابنة عليك منى السلام جب کہ شہزادہ علی اکبرؑ زمین فرسس سے زمین پر گرے اور میدان کارزار س گردو غبار کم ہوا تو آپ نے خیام کی طرف نگاہ کی کانی فاصلہ پر خیام تھے نہ روئے پر نظر آیا اور نہ کوئی دوسرا آدمی نظر آیا۔ سر کیسے ساتھ ایک آہ سوزاں کھینچی اور صبیحہ کیا۔ یعنی زور سے پکارا بلند آواز کے ساتھ پکارا کہ اسے بابا میرا اسلام ہو آپ پر۔ خدا حافظ اب علی اکبرؑ کا دم آخر ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے خیام کے صدر دروازہ پر آوازِ سلامِ علی اکبرؑ سنی فرمایا و عليك السلام ولدى قتل الله قتلوك اے نور نظر تم پر بھی میر اسلام ہو جنہوں نے تجھے قتل کیا ہے خدا ان کو قتل کرے۔ پس آپ یہ عجلت تمام مقتل میں پہنچے۔ بروایت روضہ الشہداء حضرت امام حسین نے ہر طرف علی اکبرؑ کو دیکھا۔ نا گاہ عقاب علی اکبرؑ پر نظر پڑی ۔ فرماتے ہیں اے عقاب میرا فرزند کہاں ہے، تو مجھے میرے بیٹے تک پہنچا دے۔ زمانه رسول خدا میں ایک مرتبہ حضرات حسنینؑ گم ہو گئے تو ہرن نے آکر خبر دی تھی اور آ نحضرت جا کر امام حسن وحسین کو لائے۔ اسی طرح عقاب نے بھی حضرت علی اکبرؑ کی نشاندہی کی۔ امام حسین بھی جو ان فرزند تک پہنچے دیکھا کہ ہر طرف سے لشکر کوفہ کے لوگ گھیرے ہوئے ہیں۔ آپ نے صحیحہ کیا اور وہ ملعون لاش علی اکبرؑ سے ہٹ گئے اور دُور دُور چلےگئے۔
اس مقام پر مؤلف کتاب ایک روایت لکھتے ہیں کہ غزوات رسول خدا میں سے کسی غزوہ میں کفار و مشرکین سے مقابلہ ہو رہا تھا کہ رفتہ رفتہ جنگ و حرب میں شدت پیدا ہوئی اور اسی اثناء حرب و ضرب میں ناصر دین حق جناب جابر بن عبداللہ انصاری کو آنحضرتؐ نے اپنے نزدیک طلب فرمایا جا بر حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے لیے کیا حکم ہے کہ بجالاؤں۔ آپ نے ارشاد فرمایا که کہ میری خواہش ہے کہ پانی کی مشک دوش پر رکھو اور جسقدر مسلمان زخمی حالت میں پڑے ہوئے ہیں ان سب کو پانی پلاؤ کیونکہ زخمی کو پیاس زیادہ لگتی ہے ۔ اور حالت نزع میں پانی پلانا بھی ضروری ہے۔ جابر کہتے ہیں کہ میں نے بفرمان رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پانی سے بھری ہوئی مشک اپنے کاندھے پر رکھی اور زرم گاہ میں کہ جہاں شہید اور زخمی مسلمان پڑے ہوئے تھے پہنچا۔ اور سب کو پانی پلایا۔ اور جب کوئی آوازِ العطش آتی تو فوراً اس پر لبیک کہتا اور اس تک پہنچ کر زخمی کو پانی کے پلاتا۔ جابر کہتے ہیں کہ بعدہ میں خدمت آنحضرتؐ میں حاضر ہوا۔ آنحضرتؐ سے سارا حال بیان کیا تو آپ آبدیدہ ہوئے اور آنحضرت نے ان شہید کے بارے میں کہ جنہوں نے تشنگی کی حالت میں جان دی ہے فرمایا کہ وہ وقت جان کندن آبِ کوثر سے سیراب ہوتے ہیں۔ چنانچہ شہدائے کربلا بھی وقت آخر آبِ کوثر سے سیراب ہوتے ہیں۔ شہداء کربلا میں سے بعض نے اس کا اظہار بھی کیا ہے جیسا کہ روایت ہے کہ ظہیر بن جسّان الاسدی جب گھوڑے سے زمین پر گر ے اور امام حسینؑ ان کے سرہانے پہنچے تو امام حسین نے ملاحظہ فرمایا کہ بہترین جنان الاسدی اپنے ہونٹوں کو چوس رہتے ہیں۔ امام حسین نے فرمایا کہ یہ کیا بات ہے، تو جواب دیا، مولی ابھی ابھی پانی پیا ہے۔ اسی طرح حضرت علی اکبرؑ نے بھی وقت آخر آب کوثر پینے کا اظہار کیا ہے۔ مقتل ابی مخنف میں ہے کہ فاستوی جانشا یعنی علی اکبرؑ زخمی حالت میں اٹھے اور بیٹھ گئے۔ اور پھر در خیمہ کی طرف رخ کر کے فرمایا۔ یا ابناء هذا جدی قدستاني بكاسه الا و في لا الظمأ بعدها ابدار یعنی بابا جان میرے بعد حضرت رسول اقدا نے مجھے سیراب فرمادیا ہے۔ اب میں تشنہ نہیں ہوں۔ علماء نے لکھا ہے کہ جب علی اکبرؑ نے اپنے بابا امام حسین سے پانی مانگا تھا تو پانی نہ تھا کہ امام حسین فرزند کا سوال پورا کرتے۔ بابریں حضرت علی اکبرؑ کو حسین کے نانا رسول خدا آبِ کوثر لے کر آئے اور سیراب کیا ۔
الفرج سعید بن ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ جب علی اکبرؑ نے سلام آخر کیا ہے تواپنا سر جھکا لیا اور خاک پر رکھ دیا و جعل يتقلب في دمه کہ آپ کو منہ کے ذریعہ خون آنا شروع ہوا۔ اور اسی بیکسی کے عالم میں آپ کی روح جنت اعلیٰ کو پرواز کرگئی۔ حضرت علی اکبرؑ اس اعتبار سے اپنے پدر عالیقدر سے زیادہ بیکس ہیں کیونکہ جب امام حسین گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے اور شمر ملعون نے آپ کا سر جدا کیا تو اس وقت حضرت زینب ایک ٹیلہ پر کھڑی فریاد کر رہی تھیں کہ اے ابن سعد تو دیکھ رہا ہے اور میرا بھائی ذبیح ہو رہا ہے۔