ريَاض القدس (Vol 2)

اول شہید علی اکبرؑ

ريَاض القدس (Vol 2)   •   آقای صدرالدین قزوینی

شہدائے کربلا میں اول شہید علی اکبرؑ اور زیارت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام

کتاب مستطاب تحفة الزائرین جو کہ حضرت علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کی تالیفات میں سے ایک تالیف (کتاب) ہے اور یہ کتاب زائرین مشاہدہ مقدسہ کے لیے ایک دستور العمل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب میں ابوحمزہ ثمالی سے ایک زیارت معقول ہے جس میں حضرت صادق آل محمد علیہ السلام نے ابو حمزہ ثمالی کو اس طرح زیارت حضرت علی اکبرؑ تعلیم کی ہے کہ جب تم زیارت قبر حضرت علی اکبرؑ کرنے کا ارادہ کرو تو ہاسے جد حضرت امام حسن علیہ السلام کی قبر مبارک کے نزدیک جاؤ۔ اور پائیں مزار امام حسینؑ قبر حضرت علی ابن الحسینؑ ہے یعنی حضرت علی اکبرؑ کی قبر ہے۔ اس جگہ سلام کرو اور زیارت قبر علی اکبرؑ کرو۔ اگر مومنین کرام اس زیارت ماثورہ میں حضرت امام جعفر صادق آل محمد کے فقرات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ شہزادہ علی اکبرؑ قتل اول ہیں۔

زیارت میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں السلام عليك يا بن رسول الله و ابن خليفة رسول الله ورحمة الله وبركاته طَلَعَت شمس او غربت۔ یعنی کہ قبر حضرت علی اکبرؑ علیہ السلام کی طرف اشارہ کر کے اس طرح سلام کرے کہ فرزند رسول خدا، اسے خلیفہ رسول خدا کے نور نظر، اسے بنت رسول اللہ کے نور دیدہ میرا سلام ہو آپ پر اور خدا کی حمت اور برکتیں نازل ہوں آپ پر آفتاب نکلا اور غروب کر گیا اب ہم زیارت کے بعض فقرات کا ترجمہ کرتے ہیں اسے آقا زادے اسے شہزادہ السلام عليك وعلى روحك وبدنك . یعنی آپ کی روح اور بدن پر سلام ہو مؤلف کتاب فرماتے ہیں کہ اگر یہ بندہ ناچیز ابو شمالی کی جگہ ہوتا تو حضرت صادق آل محمد سے سوال کرتا کہ اے مولی یہ سلام کراے علی اکبرؑ آپ کی روح پر سلام ہو ۔ روے علی اکبرؑ تو اعلی علیین میں ہے۔ اپنے آبا و اجداد کی خدمت میں ہے یا روح مجروحی کہ کہ روز عاشوراء شدت پیاس اور پیش آفتاب سے افسردہ تھی ۔ اور ایسی پژمردگی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئی اور جب شہزادہ علی اکبرؑ شہید ہوئے اور حضرت امام حسینؑ لاش پسر پر پہنچے تو فرمایا ، اے علی اکبرؑ ما أنت فقد استرحت من هم الدنيا وغمها وصرت الى روح وراحة وبقی ابوك فريدا وحيدا وما اسرع بک ۔ یعنی اے علی اکبرؑ تو دنیا سے رخضت ہو گیا ۔ اور نہائے دنیا سے نجات پا گیا۔ اور تیری روح راحت کو پہنچی۔ لیکن تیرا بابا یکہ و تنہا رہ گیا میری دوسری گزارش حضرت صادق آل محمد سے یہ ہے کہ اسے مولی ہم جو سلام کرتے ہیں یہ تو بدن علی اکبرؑ کو ہے جیساکہ کہتے ہیں و علی بدنك - یعنی کہ وہ بدن خون آلودہ جو پائیں قبر حضرت امام حسینؑ دفن ہے یا آپ کے اس بدن کو جو بعد ظہر روز عاشوراء زخموں سے چور چور کہ جس کے بارے میں روایت میں یہ الفاظ ہیں فقطعوه بسيوفهم اربا اربا ۔ پھر حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا اسے ابوحمزہ شمالی یہ کہو کہ اسے آقا زاد ہے ۔ بابی انت والي من مذبوح ومقتول من غیر جرم - یعنی پدر مادر (ماں باپ) اسے علی اکبرؑ آپ پر فدا ہوں کہ آپ بے جرم و بے خطا قتل کئے گئے ۔ علامہ مجلسی بہار میں فرماتے ہیں کہ فقر به الناس باسيا فهم که دش فهم کہ دشمنوں نے حضرت علی اکبرؑ کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور تلوار مارنا شروع کیں۔ اور جسمِ مبارک ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۔ اور جب آپ کی روح خنجر سے یہ نگرۂ اقدس پہنچی اور اس وقت آپ کو ذبح کیا گیا کہ جب عمر سعد ملعون نے حکم دیا کہ شہیدوں کے سر ان کے بدن سے جدا کئے جائیں، تو حضرت علی اکبرؑ کا سر مبارک تن سے جدا کیا گیا صادق آل محمد فرماتے ہیں۔

بابی انت و امی یا من دمك المرتضى الى حبيب الله له بابی انت و امی من مقدم بين يدى ابيك بحسبك ويبكى عليك محترفا عليك قلبه يرفع دمك بكفه الى عنان السماء ولا يرجع من قطرة ولا تسكن عليك من ابيك ذفرة ودعك للفراق

یعنی کہ میرے ماں باپ فدا ہوں اسے علی ابن الحسینؑ تم پر۔ یہ تصور کرتے ہوئے کہ آپ زخمی حالت میں میدان قتال سے واپس آئے اور اپنے بابا حسینؑ کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا ہے کہ اسے بابا پیاس بے چین کر رہی ہے ۔ شدت کی تشنگی ہے اس وقت امام حسینؑ نے بیٹے کو دیکھا اور فرمایا اسے علی اکبرؑ اب تم شہداء میں شامل ہونے والے ہو۔ اسے بیٹا اب تمہیں تمہارے دادا آپ کو تر پلائیں گے ۔ اسے فرزند تم بہت زخمی ہو۔ میرا دل بے چین ہو رہا ہے۔ اور اے بیٹا تمہارا خون میرے نانا کی خدمت میں ہدیہ کیا جا رہا ہے اسے نانا یہ خون آپ کی شبیہ کا ہے۔ علی اکبرؑ شبیہ پیغمبر خدا تھے مرحوم السید لہوف میں فرماتے ہیں کہ حضرت علی اکبرؑ کے گلو سے مبارک پر ایک تیر لگا تھا جس سے خون جاری تھا زیارت میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ دمی بسمهم فوقع في حلقه فخرقة واقبله ينقلب بدمه یعنی تیر حضرت علی اکبرؑ کے گلو سے مبارک پر لگا میں سے گلوے مبارک پھٹ گیا۔ اس وقت کی حالت زار کا نقشہ مولف نے نظم میں پیش کیا ہے ہے۔

بابا بیا که تیغ جفا ساخت کار مَن

برگ پخیده کشت خزاں نو بهار مَن

بابا ز پا فتادم و جانم بلب رسید

دست اجل گرفت زکف اختیار مَن

قائل تنم زنجیر این پاره پاره کرد

رحمی نکرد و بر مره اشکبار مَن

تا برینم بود رمقی بر سرم بیا

بنگر بوقت مرگ بر احوال زار مَن

این ضربت عمود که فرقتم شگافته

بوده زبان تحمل از کف قرار مَن

از بیغ ظلم رشتهء عمرم گسیخته

بلبلا بگود گرنگشه انتظار مَن

با با بیا که کار من از دین و آن گذشت

تعجیل کن که وقت وداع از میاں کزشت

یعنی اسے بابا تیغ جفا نے میرا کام تمام کر دیا۔ اور خان نے میرے غنچہء نو شگفتہ کو پژ مردہ کر دیا ہے۔ اور قاتلوں نے میرے جسم کو پارہ پارہ کر دیا ہے ۔ اور نتیجہ موت نے میرا اختیار سلب کر لیا ہے۔ یعنی کہ میں بے بس ہو گیا ہوں، مجھ پر میرے گریہ پر قاتل نے رحم نہیں کیا ہے۔ ابھی رمق جان باقی ہے، میرے سرہانے تشریف لائے۔ اور اپنی آنکھوں سے مرا دم آخر کتے دیکھتے اور یہ گرز کی ضربت جو میرے سر پر لگی ہے ملاحظہ فرماتے ۔ اس ضرب سے میرا قرار رخصت ہو گیا ہے ۔ اور تیغ ظلم نے میری عمر کو ختم کر دیا ہے۔ اور میری ماں ام لیلی سے کہنا کہ میرا انتظار نہ کر ہے ۔ اسے بابا جان اب کوئی دم میں میرا کام تمام ہونے والا ہے ۔ جلد آئیے جلد آئیے ایسا نہ ہو کہ وقتِ وداع گزر جائے۔