ريَاض القدس (Vol 2)

شہادت عبداللہ بن مسلم بن عقیلؓ

ريَاض القدس (Vol 2)   •   آقای صدرالدین قزوینی

شہادت عبداللہ بن مسلم بن عقیلؓ

علامہ جلس بحار الانوار می فرماتے ہیں کہ جب اصحاب باوفا شہید ہو گئے اور ان میں سے امام حسینؑ کا کوئی یاور و ناصر نہ رہا تو عزیزوں کی شہادت کی باری آئی۔ بس فاول من برن من اهل بيت عبد الله بن مسلم بن عقیل یعنی کہ عزیزوں میں سے عبداللہ بن مسلم بن عقیل اول شہید ہیں۔ آپ سب سے پہلے میدان قتال میں جنگ کے لیے گئے ہیں۔ ابو الفرج کہتے ہیں کہ وهو هرة ناصية ال عقيل یعنی کہ عبد اللہ اولادِ عقیل میں ناصیہ آلِ عقیل مشہور تھے یعنی آل عقیل کی پیسانی مشہور تھے جو کہ آپ کی عظمت خاندانی کی دلیل ہے۔ شکل و شمائل میں جاذب نظر اور عادات میں نیک خو تھے نقاش قدرت نے یہ عجیب خوشنما نقش بنایا تھا۔ فضائل ہاشمی جمع کردئیے تھے۔ آپ کی مادر گرامی قدر جناب رقیہ بنت علی مرتضیٰؑ تھیں۔ عبداللہ بن مسلم حضرت امام حسینؑ کے عموزادہ اور ہمشیر زادہ تھے۔ روضتہ الشہدا میں ہے کہ اس جوانِ ہاشمی نے اپنے آپ کو حضرت امام حسینؑ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ یہ خدمت امامؑ میں آئے قدم امام کو بوسہ دیا اور عرض کیا۔ اے مسند نشینِ امامت اور اے تاجدارِ ولایتِ مرتضوی اندن لی حتى اجول حرمان المتة الى عرصة الاخرة۔ یعنی اے مولا مجھے اذان جہاد مرحمت فرمائے تاکہ میں آپ کا اسلام مسلم بن عقیل کو پہنچاؤں۔ امام حسینؑ نے عبداللہ کو دیکھا کہ آمادہ میدان قتال ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ نور دیدہ ابھی تو میں مسلم بن عقیل کا داغ بھی نہیں بھولا کہ تم آمادہ شہادت ہو۔ تمہارے باپ کی شہادت تمہارے لیے کافی ہے۔ اپنی ماں رقیہ کو ساتھ لے کر اس دشت ہولناک سے نکل جاؤ۔ اس لشکر بے دین کو صرف میرا سر چا ہیے۔ جناب عبد اللہ نے امام حسینؑ کو خدا اور رسول کی قسم دی اور عرض کیا کہ اسے مولا میرے ہی بابا مسلم نے سب سے پہلے جام شہادت نوش کیا ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ آج کے دن عزیزوں میں سے سب سے پہلے میں ہی جام شہادت نوش کروں اور بابا کے اسوہ مبارکہ پر عمل کروں۔ امام حسینؑ نے فرمایا کہ اسے عبداللہ خدا حافظ میری طرف سے اجازت ہے۔ مگر اپنی ماں اور بہن سے رخصت حاصل کرو اور پھر میدان کارزار میں جاؤ۔ ابو مخنف کہتا ہے کہ جب یہ جوان میدان قتال میں پہنچا مانند شیر رجز پڑھا اور قتال شروع کیا۔ لشکر عمر بن سعد کو زیر وزیر کیا اور بڑے بڑے لوگوں کو قتل کیا۔ روضتہ الشہداء میں ہے کہ عبداللہ کے رجز پر قدامہ بن اسد فرازی مقابلہ کے لیے نکلا جسے پسر سعد نے بھیجا تھا۔ یہ ملعون فنِ جنگ میں ماہر تھا۔ آداب حرب و ضرب جانتا تھا۔ اس نے میدان میں پہنچ کر حضرت عبد اللہ پر حملہ کیا۔ کبھی یہ شخص عبدالله کے سامنے سے بھاگ جاتا تھا کبھی شور مچاتا تھا۔ کبھی جنگ سے گریز کرتا تھا۔ اس کا اصل میں یہ مقصد تھا کہ کسی طرح عبداللہ تھک جائیں اور پھر ان کو قتل کرنا اس کے لیے آسان ہو جائے۔ لیکن حضرت عبداللہ نے کوئی عجلت نہیں کی بلکہ صبر سے مقابل رہے۔ قدامہ پھر مقابل آیا۔ اور اس ہاشمی جوان فرزندِ مسلم نے اپنے زمین پر بلند ہو کر تلوار قدامہ کے منہ پر ماری جس سے اس کا آدھا کلہ صاف ہو گیا اور اس کا خون نجس بہنے لگا۔ اسی اثنا میں اس ملعون نے آپ کو گھوڑے سے زمین پر اتار لیا لیکن آپ سنبھل کر پھر سوار ہوئے۔ اور پھر ایک رجزِ تازہ پڑھا۔

محمد بن ابی طالب کھتے ہیں کہ عبداللہ نے تین حملے کئے اور ان میں ۹۸ افراد واصل جہنم کئے۔ لیکن پیاس کی شدت کی وجہ سے بے طاقت ہو گئے۔ صاحب روضتہ الشہداء لکھتے ہیں آپ نے میمنہ و میسرہ دونوں پر حملہ کیا۔ بہت سے ملعونوں کو قتل کیا۔ اور مرکبوں کو زخمی کیا۔ اور خاص طور پر حمیر بن حمیر کہ وہ نہرواں کے خارجی لوگوں میں سے ایک تھا واصل جہنم کیا۔ اور عبد اللہ نے اپنے مرکز حرب کی جگہ واپس ہونے کا ارادہ کیا لیکن سوار و پیاده لشکر نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اور راستہ مسدود کر دیا۔ اسی دوران خداع دمشقی جو ایک جگہ چھپا ہوا تھا اپنی فوج سے نکلا اور سواروں کی مدد سے آپ پر حملہ کیا۔ اس ملعون نے ینی تلوار سے آپ کے مرکب کے ہاتھ پاؤں قطع کر دیئے۔ اور عبداللہ زمین پر گرے۔ شیخ مفید لکھتے ہیں۔ جب عبداللہ یکہ و تنہا رہ گئے تو عمر بن صبح ملعون نے آپ کی پیشانی پر تیر مارا۔ پھر آپ پر تیر برسنے لگے۔ عبداللہ نے ہر چہ کوشش کی کہ تیر نکال لیں مگر تیر نہ نکلا۔ اور ایک ملعون نے آپکے شکم مبارک پر نیزہ سے وار کیا۔ اور عبد اللہ نے اس وقت امام حسینؑ کو آواز دی کہ آقا جلدی تشریف لائے۔

بروایت ابی مخنف جب عبد اللہ نے کسی کو اپنی بائیں پر نہیں دیکھا تو آہ جگر خراش کھینچیں۔ جب امام مظلوم نے آواز سنی تو بعجلت تمام آپ ان کے پاس پہنچے۔ حالت عبداللہ دیکھی۔ قاتلوں پر نفرین کی اور خدا کی بارگاہ میں عرض کیا۔ پروردگار آل عقیل کے قاتلوں کو قتل کر۔ پھر آپ نے انا للہ وانا اليه راجعون فرمایا، صاحب ریاض الاحزان فرماتے ہیں کہ آپ لاش عبداللہ کو خیمہ بیت الحرب میں لے آئے (بیت الحرب خیمہ سے وہ خیمہ مراد ہے کہ جہاں عزیزوں کی لاش رکھی تھیں) اہلحرم نے ان کی لاش پر ماتم کیا۔

روز عاشوراء محرم شهادت اولاد جناب عقیلؓ

قال العلامه في رياض الاحزان انه لما مضى عبد الله بن مسلم بن عقيل بسبيله إلى الحق وهو غرة ناصية ال عقيل بان الانكسار في وجوه من كان ذلك الاصل الأصيل۔

جب کربلا میں نسیم خزاں بوستان محمدی پر چھا گئی۔ اور حضرت علی اکبرؑ و جناب عبد اللہ راہی جنان ہو چکے تو دوسرے جوانان ہاشمی کف افسوس ملتے ہوئے خدمت امام حسینؑ میں آئے اور ہر ایک دوسرے پر شہید ہونے میں سبقت کرنا چاہتا تھا۔

جعفر بن عقیل خدمتِ امام حسینؑ میں حاضر ہوئے اور اذان جہاد طلب کیا اور تمام عزیز و اقارب کو سلام آخر کر کے تلوار کلف میدان تقال میں پہنچے اور رجز پڑھا۔

انا الغلام الابطحى الطالبي من معشر وهاشم و غالب

ونحن حقًّا سادة الذواب هذا الحسين اطيب الاطاب

میں فرزند ہوں بلمی و طالبی کا ہیں خاندان ہاشم و غالب سے ہوں

اور ہم ہی سیدو سردارہ میں اور ہمارے سردار حضرت امام حسینؑ ہیں جو طیب و طاہر میں

پس آپ نے تلوار کھینچی اور ایک نعرہ بلند کیا اور قتال شروع کیا۔ اور پندرہ کافروں کو تہ تیغ کیا۔

بروایت ابی مخنف جعفر نیک خو، اور یاوریِ نصرت امام حسینؑ سے سرشار تھے۔ لشکر عمر بن سعد کے چالیس پنتالیس آدمی جہنم کے حوالہ کیئے۔ ایک ملعون کہ جس کا نام بشر بن سوط الہمدانی تھا جو پوشیدہ بیٹھا ہوا تھا نکلا اور آپ پر تلوار کا وار کیا جس سے آپ کا ایک ہاتھ قطع ہو گیا۔ اور پھر اس ملعون نے آپ کے سر مبارک پر ایک گرز مارا جس کے بعد آپ گھوڑے سے زمین پر گرے اور آپ کی روح اقدس ساحت قدس کو روانہ ہو گئی۔

عبد الرحمن بن عقیل۔ جب جعفر بن عقیل شہید ہو گئے تو عبد الرحمن بن عقیل امام حسینؑ سے اذان جہاد لے کر میدان کارزار میں پہنچے آپ نے رجز پڑھا۔

ابي عقيل فاعرفوا مكاني من هاشم وهاشم اخواني

کھو نصدق سادة الاقران هدا حسين شامخ البيان

وسيد الشيب مع الشبان

یعنی کہ میرے پدر عالیقدر عقیل ہیں اسے لوگو ہمارا مقام پہچانو ۔ میں ہاشمی ہوں اور ہاشمیوں کا بھائی ہوں ۔ اور ہمیشہ سے سید و سردار ہوں اور یہ حسینؑ ظاہر ہے کہ صاحب عظمت ہیں اور تمام ضعیفوں اور جوانوں کے سردار ہیں۔ رجبہ کے بعد آپ نے حملہ کیا اور ستراہ ملعونوں کو واصل جہنم کیا۔

عبید اللہ بن عقیل۔

جس وقت عبد الرحمن بن عقیل مصروف کار زار تھے، عبد اللہ بن عقیل بھائی کی نصرت و مدد کے لیے میدان قتال میں پہنچے۔ اور دونوں نے مل کر لشکر عمر بن سعد پر حملے شروع کئے اسی دوران کثرت لشکر عمربن سعد کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ اور عبدالرحمن بن عقیل گھوڑے سے گرے۔ اور ملعون نے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ عبداللہ بن عقیل کا قاتل عبد اللہ بن عثمان تھا۔ اس ملعون نے آپ کے سر پر گرز مارا۔ آپ اس وقت گھوڑے سے گرے اور روح پرواز کرگئی۔

محمد بن ابی سعید بن عقیل

جب عبدالرحمن اور عبداللہ پسران عقیل شہید ہو گئے تو محمد بن ابی سعید اپنے دونوں چچا یعنی عبد الرحمن اور عبداللہ کا انتقام لینے کے لیے بازان امام مظلوم میدان کارزار میں آئے۔ سخت قتال کیا اور اکثر ملعونوں کو تہ تیغ کیا بروایت مدائنی ۔ لقیط بن امیر جہتی نے آپ کو شہید کیا۔

موسی بن عقیل

جناب عقیل کے بیٹوں میں آپ محمد بن ابی سعید کے قتل ہونے کے بعد امام حسینؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اذان طلب کیا۔ آپ کفن گردن میں ڈالے ہوئے تھے اس وقت جوانان با شمی میں ایک شور گریہ بہا تھا۔ امام حسینؑ نے خدا حافظ کہا اور آپ میدان جنگ میں آئے ۔ رتبہ پڑھا ۔ خاندانی تعارف کرایا۔ آپ نے ستر نمونوں کو قتل کیا اور آخر میں خود بھی شہید ہو گئے۔ اولاد عقیل اخلاق عبادت، تواضع میں بے مثل تھے۔ این شهر آشوب اپنی کتاب مناقب میں عون اور محمد کو اولاد عقیل کو شمار کیا

ہے واللہ اعلم بالصواب (بنابر مشہور عون، اور محمد پسران جناب عبد اللہ بن جعفر طیار از بطن جناب سیدہ زینب خاتون تھے)

خلاصه اولاد جناب عقیل رض

جن کا ذکر تفصیلا کہا گیا ہے اور عبداللہ بن سلم کہ ان کا نام زیارت شہداء میں مذکور ہے اور محمدبن مسلم چنانچہ کتاب مناقب میں ہے کہ دو فرزندان مسلم کوفہ میں شہید

ہوئے ہیں اس طرح جناب مسلم کے پانچ فرزند تھے۔ اولاد عقیل ۔ ایک جعفر اور دوسرے بروایت ابوالفرج ومناقب عبدالرحمن بن عقیل تھے ۔ بروایت ہمار عبداللہ بن عقیل، بروایت ابوالفرج موسیٰ بن عقیل بروایت ابی مخنف محمد بن ابی سعید بن عقیل - بروایت مداینی عون و محمد بروایت مناقب اولاد حضرت عقیل سے چودہ افراد کربلا میں شہید ہوئے ہیں