ريَاض القدس (Vol 2)

علی اکبرؑ کا اذن جہاد طلب کرنا

ريَاض القدس (Vol 2)   •   آقای صدرالدین قزوینی

حضرت علی اکبرؑ کا اذن جہاد طلب کرنا اور امام حسینؑ کا لباس جنگ پہنانا اور رخصت کرنا۔

اصحاب و انصار کی شہادت کے بعد اہل بیت طاہرین میں تقریبا تیس افراد تھے امام میں علیہ اسلام خود به فس نفیس آماده کار نظر ہوئے لیکن جوانان هاشمی نے کسی طورپر نہیں چاہا کران سے پہلے امام حسینؑ میدان قتال میں جائیں۔ بلکہ عرض کیا اسے آقا اسے سید سردار ایسا کیوں کر ہوسکتا ہے کہ ہم زندہ رہیں اور آپ ہماری آنکھوں کے سامنے قتل ہوں خدا یہ وقت نحس ہیں نہ دیکھا ہے ۔ اس وقت حضرت شہرزاد علی اکبرؑ نے اپنے بابا کی خدمت میں عرض کیا۔

کما فی الریاض عن الروضة فقال يا ابتاه لا ابقاني الله بعدك طرفة عين

اے پدر عالیقدر ا سے بابا جان آپ کے بعد زندہ رہتے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔ اب اذان جہاد عطا کیجئے یہ سن کر امام حسینؑ کے چہرہ کا رنگ زرد ہو گیا فرمایا اسے بیٹا یہ کیا کہتے ہو تم شبیہ رسول خدا ہو تمہیں میرے بعد بندہ رہنا چاہتے۔ حضرت علی اکبرؑ نے عرض کیا کہ آپ کے بعد زندہ رہنا حرام ہے۔ ایسی زندگی کہ آپ نہ ہوں علی ابرکو پسند نہیں ہے۔ اس وقت اہل حرم میں گریہ و بکا کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔

فاخذ في الالحاج عليه والبكاء والزمه و الجزع والان المجرم کا گریہ وبکا دیکھ کر حضرت علی اکبرؑ نے اپنے جد بزرگوار یم اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا واسطہ دے کہ امام حسینؑ سے اذان جہاد طلب کیا۔ اپنے حلقہ میں لیے ہوئے تھے بیبیاں دامن سے لپٹی ہوئی تھیں۔ فلما كثرت مبالغة في الاستيذان واشد جزعه وهو عطشان اذن له الحسين وهو طمان- آخر کار شہزادہ نے انتہائی گریہ وزاری اور بیقراری کا مظاہرہ کیا کہ ان جہاد جہاد ملاجائے۔ امام حسینؑ نے فرمایا

گر خون آغشتہ کردو کا گلت

غم مخور مشکین شود آن سنبلت

یعنی کہ اے فرزند اگریہ ہی خواہش ہے کہ میدان قتال میں جاؤ اور عروس مرگ سے ہمکنار ہو تو بخوشی اجازت ہے۔ اپنے خون میں اپنی زلفیں رنگین کرد۔ غم مت کرو. یہ سن کر شہزادہ علی اکبرؑ کا چہرہ شوق شہادت میں چکھنے لگا ۔ امام حسینؑ نے بیٹے کو لباس جنگ سے آراستہ کیا۔ آلات حرب حجیم علی اکبرؑ پر سجائے ہاں بہنیں ۔ پھر پھیاں سمجھیں کہ علی اکبرؑ دولہا بن رہے ہیں۔ روایت میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں ۔

ورتب على قامتہ اسلحة الحرب والبسته الدرع وشد في وسطه منطقة له من الأديم فوضع على مفرقة مغفر ا فولا ديا وقلده سيفا مصر يا واركبر العقاب براقا با نوبيا

یعنی جسم علی اکبرؑ پر لباس جنگ پہنایا مغفر فولادی سر پر رکھا۔ اور کمر بند کر جو تبرکات پیغمبری سے تھا زیب کمر کیا ۔ تلوار مصری میان میں رکھی ۔ اور زیب کمر کی۔ اور اپنے مرکب براق مثال پر سوار ہوئے مؤلف نے اس وقت کی منتظر کشی اس طرح کی ہے ۔

یگفتا بحال نگین سر پسر

جدا گشتی از من تو جان پسر

تو رفتی و غم محفل با شکست

پر محفل دگر یوں دل ما شکست .

یعنی امام حسینؑ نے وقت وداع علی اکبرؑ زبان حال سے بسمال تم فرمایا کہ نور نظر تم مجھ سے جدا ہو رہے ہو۔ میری محفل ہونی ہوگئی اور محفل پر کیا منحصر ہے تیری جدائی سے شکستہ ہو گیا اس وقت اہلحرم ، پھوپھیاں ، بہنیں ، ماں علی اکبرؑ کو حلقہ میں لیے ہوئے تمھیں در خیمہ سے جب علی اکبرؑ نکلے ہیں تو ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے بھرے گھر سے جنازہ نکلتا ہے خدا حافظ کی صدائیں بلند تھیں ۔ پھر ایک مرتبہ اہل حرم میں شور و شیون بلند ہوا ۔ اور پھر بچوں نے شہزادہ علی اکبرؑ کے گھوڑے کو اپنے حلقہ میں لے لیا۔ رکاب سے لیٹ گئے ۔ علی اکبرؑ میدان قتال میں نہ جاؤ جو بھی میدان کارزار میں جاتا ہے زندہ واپس نہیں آتا ۔ ام لیلی حسرت سے بیٹے کو دیکھ رہی تھیں۔ زینب خاتون سوچ رہی تھیں کہ جسے اٹھارہ سال پالا ہے۔ وہ اب خاک و خون میں مل جائے گا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ خطاب کروں اسے ہاجرہ مادر اسمعیل ذرا عالم بالا سے شہزادہ کی رخصت کا منظر دیکھئے کہ کس شان سے ام لیلی نے اپنے جوان بیٹے کو قربان کیا ہے ۔

کتب مقاتل میں ہے کہ حضرت زینب خاتون جناب ام لیلی سے زیادہ بیقرار تھیں ما در علی اکبرؑ جناب ام لیلی یہ سمجھتی تھیں کہ علی اکبرؑ جناب زینب خاتون کے لیے ان کے بیٹے کی جگہ ہیں ۔ اسی احترام زینب خاتون کی وجہ سے ام لیلی نے زیادہ بے چینی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ البتہ اتنا اپنی زبان سے فرمایا اسے علی اکبرؑ تم نے مجھے اپنی دادی فاطمہ کے سامنے سرخرد کر دیا ۔ جاؤ بیٹا خدا حافظ و ناصر پھر خداوند عالم سے مناجات کی اور کہا یا را یوسف على يعقوب و یا را واسمعیل علی هاجره من د عَلَى وَلَدِى - یعنی اسے قد خداوند عالم که یوسف کو چالیس سال بعد ان کے پدر عالی قدر یعقوب سے ملایا۔ اسمعیل کو دوبارہ ہاجرہ سے ملنا نصیب ہوا۔ تو میرے علی اکبرؑ کو مجھ سے دوبارہ ملادے ۔ اسے مومنین ام لیلیٰ کی یہ دعا پوری ہوتی اور شہزادہ علی اکبرؑ زخمی حالت میں جب مقتل سے واپس آئے ہیں سر مبارک شگافتہ ، زخموں سے تن چور چور ہو رہا تھا ۔ باپ کی خدمت میں آئے۔ ماں نے بھی بیٹے کو دیکھا اور زینب خاتون نے بھی دیکھا۔ میں سوال کروں جب بیلیوں نے زخمی حالت میں جوان بیٹے کو دیکھا ہو گا تو ان کے دل پر کیا گزری ہوگی۔ اس وقت تمام المحرم فریاد کر رہے تھے ۔ اسے شیعو دوبارہ جب علی اکبرؑ آئے۔ ہیں تو خود نہیں آسکے ۔ بلکہ امام حسینؑ بیٹے کی لاش خیمہ میں لے کر آئے ہیں۔ در خیمہ پر پہنچے پکار کے فرمایا اسے بچو علی اکبرؑ کی لاش خیمہ میں لے جاؤ عواد اردو۔ بچے نکلے اور لاش علی اکبرؑ خیمہ میں لے گئے ۔ مسند پر لاش رکھ دی ۔ بہنوں نے بین گئے۔ زینب خاتون نے ماتم کیا۔ ام لیلی بیٹے کی لاش پر آئیں اس طرح کہ فقہ سہارا دے رہی تھیں جب ناشی علی اکبرؑ کے پاس پہنچیں فرماتی ہیں بیٹا علی اکبرؑ یہ ماں تم پر فدا ہو ۔ سینہ پر ہاتھ کیوں رکھا ہے۔