قیام کا محرک
کلامِ امام حسین ؑ کی چند کرنیں • حجت الاسلام محسن غرویان
((انّی لَم اَخرُج اَشِراً وَلاٰ بَطِراً وَلاٰ مُفسِداً وَلاٰ ظالماً وَاِنماٰ خَرجْتُ لِطَلَبِ الاِ صلاٰح فیِ اُمَّۃِ جَدّیٖ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلّم) اُریٖدُ اَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ واَنھیٰ عَنِ الْمُنکَرِ واَسیرُ بِسیرَۃِ جَدّیٖ وَاَبی عَلیَّ بنِ ابیٖطاٰلبٍ فَمَنْ قَبِلَنی بِقَبُولِ الْحَقّ فَاﷲُ اَولیٰ بِالْحَقِّ وَمَنْ رَدَّ عَلَیَّ ھٰذاٰ اَصبِرُ حَتّيَ یقضِیَ اﷲُ بَینیٖ وَبَینَ القَومِ وھُوَ خَیْرُالحٰاکمیٖنَ ))
((میں بڑا بننے، اکڑنے، عیش کوشی، فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کے ارادے سے نہیں نکل رہا ہوں، بلکہ میں تو صرف اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ نیکیوں کی دعوت دوں اور برائیوں سے روکوں، اور اپنے نانا (حضرت محمد مصطفی ؐ) اور اپنے پدرِ بزرگوار (علی مرتضیٰ ؑ ) کی سیرت اور روش پر چلوں ۔ جس نے میری باتیں قبول کیں، تو بے شک اس نے فرمانِ الٰہی کے سامنے سر خم کیا ہے اور اگر کسی نے میری باتوں کو رد کیا تو میں صبر کروں گا۔ یہاں تک کہ خدا میرے اور اس گروہ کے درمیان فیصلہ کر دے، اور خدا بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔))(۱)
تشریح و تفسیر
۱ ۔ خروج کے معنی ہیں کسی مکان یا کسی جگہ وغیرہ سے باہر نکلنا ۔ اس مفہوم کے ساتھ ساتھ یہ لفظ حکومت کے خلاف مخالفانہ اقدام کے معنی بھی دیتا ہے۔ اور اسی وجہ سے امام حسین ؑ نے اپنے اس کلام میں اس لفظ سے استفادہ کیا ہے۔ حضرت ؑ اس تعبیر کے ذریعے اس نکتے کا اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ کربلا کی سمت میرا سفر ایک معمول کا سفر نہیں، بلکہ اس سفرکا مقصد یزیدی حکومت کے خلاف ایک بنیادی انقلاب ایجاد کرنا ہے۔
۲ ۔ ہر انقلاب اور اجتماعی عمل ایک نظریئے پر مبنی اور ایک فکری نظام اور آئیڈیا لوجی سے سرچشمہ لیتا ہے اور اسی بنا پر مختلف انقلابات اپنے اہداف و مقاصد، اسباب، آرزؤں اور دوسری خصوصیات و امتیازات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے علیحدہ پہچانے جاتے ہیں۔
ایک ایسا انقلاب جس کا سرچشمہ ایمان ہو، اور جو خداوند عالم پر اعتقاد کی بنیاد پر استوار ہو، وہ اپنی تمام باتوں میں ایک ایسے انقلاب سے مختلف ہوتا ہے جس کی بنیاد کسی شخص یا گروہ کے محدود ذاتی اہداف و مقاصد اور خواہشات ہوں۔ ایک اسلامی اور الٰہی انقلاب وہ کہلاتا ہے جس میں اس انقلاب کے قائدین کی ذاتی خواہشات، تمنائیں اور احتیاجات کی تسکین ہدف (Goal) نہیں ہوتی، بلکہ اس کامقصد الٰہی نظام کا قیام اور آسمانی احکام و فرامین کا اجرا و نفاذ ہونا ہے۔
حضرت امام حسین ؑ نے اپنے اس فرمان میں در حقیقت ایک غیر الٰہی انقلاب کی خصوصیات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یعنی آپ ؑ یہ فرما کے کہ: میرا قیام تکبر، عیش کوشی، فساد ا ور ظلم و ستم کی غرض سے نہیں، یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ پست اور بے قیمت امور، صرف ایک غیر الٰہی انقلاب ہی میں ہدف و مقصد قرار دیئے جا سکتے ہیں۔
پس تُعْرَفُ الَاشیٰاءُ بِاَضْد اٰدِھاٰ ( اشیا کو ان کی ضد کے ذریعے پہچانا جاسکتا ہے) کے اصول کی روشنی میں پتا چلتا ہے کہ ان باطل محرکات اور مقاصد میں سے ہر ایک کی ضد ایک الٰہی اور آسمانی انقلاب کے اہداف و مقاصد میں شمار ہو گی، مثلاً :
خود خواہی کے برخلاف خدا خواہی۔
عیش کوشی کے برخلاف اپنی ذمے داری کی ادائیگی کے دوران مصائب و مشکلات پر
صبر و تحمل۔
مفاسد اور خرابیوں کے برخلاف اصلاح اور برائیوں کی بیخ کنی۔
اور ظلم و ستم کے برخلاف عادلانہ الٰہی نظام کا قیام ۔
لہٰذا اس کلام کی روشنی میں الٰہی انقلاب کو غیر الٰہی انقلاب سے جدا کرکے پہچاننے اور حقیقی انقلابیوں اور واقعی مصلحین اور جعلی انقلابیوں اور مصنوعی مصلحین کے درمیان تمیز قائم کرنے کے لئے ایک کسوٹی حاصل کی جا سکتی ہے۔
۳۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا شمار ان امورمیں ہوتا ہے جنہیں اسلام نے واجب قرار دیا ہے اور ہر مسلمان پر فرض عائد ہوتا ہے کہ حتیٰ الامکان نیک اور پسندیدہ امور کی ترویج کے لئے جد و جہد کرے، اور اسکے برخلاف جب کسی ناپسندیدہ چیز کو دیکھے تو اسکے خاتمے کی کوشش کرے۔ اور اگر خطرہ یہاں تک جا پہنچے کہ دین کی بنیاد ہی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، یا اسلامی نظام کی بقا خطرے میں پڑتی دکھائی دے، تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اور سنگین ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ بقائے دین اور نظامِ اسلامی کی حفاظت کے لئے جان نثاری اور فداکاری ضروری ہو جاتی ہے اور مدافعانہ (Defensive) یا حملہ ور آنہ (Offensive) جہاد واجب ہو جاتا ہے۔
امام حسین ؑ بھی یزیدی نظام کے خلاف اپنے قیام کا تعارف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ایک زندہ مثال کی حیثیت سے کراتے ہیں اور اسے ایک دینی فریضہ قرار دیتے ہیں۔
۴ ۔ دینی واجبات پر عمل صرف ایک یا چند افراد کی ذمے داری نہیں، بلکہ تمام انبیا، ائمہ اور دوسرے تمام افرادِ معاشرہ پر احکام و فرامینِ الٰہی عائد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام ؑ اپنے اس کلام میں اس مفہوم کی جانب اشارہ فرماتے ہیں کہ جس چیز پر میں عمل پیرا ہوں اور جن اہداف و مقاصد کے حصول کی کوششوں میں، میں مصروف ہوں، وہ ہرگز نئی چیزیں اور بدعتیں نہیں ہیں بلکہ در حقیقت وہی اہداف و مقاصد ہیں جن کے لئے میرے جد رسولِ خدا ؐ اور میرے والد امیر المومنین علی مرتضیٰ ؑ سرگرداں تھے۔
یہاں ہم یہ نکتہ حاصل کرتے ہیں کہ تمام انبیائے الٰہی، ائمۂ اطہار ؑ اور دینی رہنماؤں کے اہداف و مقاصد یکساں ہیں۔ اور سب الٰہی مقاصد کو جامۂ عمل پہنانے کے لئے کوشاں ہیں ۔ البتہ ان میں سے ہر ایک نے اپنے زمانے کے تقاضوں اور اپنے معاشرے کے احوال و کوائف کے مطابق اپنی الٰہی ذمے داری کی ادائیگی اور اپنے فریضے کی بجا آوری کے لئے ایک خاص طریقۂ کار اپنایا ہے اور اس سلسلے میں بعض کم اور بعض زیادہ اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں کامیاب رہے ہیں۔
۵ ۔ کسی طرزِ فکر یا دین کی حقانیت یا عدم حقانیت کا پیمانہ اسکے پیروکاروں کی کثرت یا قلت نہیں۔ کبھی بھی کسی فکر کے ماننے والے افراد کی کمی یا زیادتی کو اسکے حق یا باطل ہونے کا معیار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لہٰذا کسی فکر اور عقیدے کی جانب ہماراجھکاؤ کبھی بھی اس عقیدے کے پیروکاروں کی کثرت کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہئے اورنہ ہی کسی فکر اور عقیدے کے ماننے والوں کی قلّت دیکھ کر ہمیں اس سے دور ہونا چاہئے ۔ لہٰذا ایک ایسا عقیدہ جس کی بنیاد عقل اور وحی پر کھڑی ہوئی ہو اور جس کی حقانیت بخوبی واضح ہو، اگر اس کا کوئی ایک بھی ماننے والا نہ ہو، تب بھی وہ عقیدہ اپنی حقانیت سے محروم نہیں ہوتا۔ اگر ہم کسی آسمانی مکتب اور دین الٰہی کی حقانیت پر عقیدہ رکھتے ہیں، تو ہمیں کسی بھی صورت میں اس کے ماننے والے افراد کی کمی اور اسکے پیرکاروں کی قلّت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔اس سلسلے میں امیر المومنین ؑ کا یہ کلام کس قدر خوبصورت ہے کہ : لا تَسْتَو حِشُوافی طَریقِ الحَقِّ لِقِلَّۃِ أھلِۃ ( راہِ ہدیت پر افراد کی قلت سے خوف وہراس میں مبتلا نہ ہونا۔نہج البلاغہ۔خطبہ۱۹۹)
یہ اہم نکتہ، ابی عبداﷲ الحسین ؑ کے اس کلام سے بخوبی آشکارا ہے، آپ ؑ دو ٹوک الفاظ میں فرماتے ہیں کہ جو کوئی ہمارے کلام کو اور ہمارے دعوے کی حقانیت کو قبول کرتا ہے، ہمیں اس سے غرض نہیں، درحقیقت اس نے کلامِ الٰہی کو قبول کیا ہے، لیکن جو کوئی ہماری دعوت میں رکاوٹ ڈالے گا اور اسکے خلاف جنگ کا پرچم بلند کرے گا، تو ہم بھی اسکے خلاف ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹ جائیں گے، یہاں تک کہ حق باطل پر چھا جائے اور خدا کا فرمان زمین پر جاری ہو جائے ۔اصبر حتی یقضی اﷲ بینی و بین القوم و ھو خیر الحاکمین۔
۱۔ بحار الانوار۔ ج۱۰۔ ص ۱۷۵، مقتلِ خوارزمی۔ ج ۱۔ ص۱۸۸، مقتلِ عوالم۔ ص ۵۴