حاکم اور حکومت کی اہمیت
کلامِ امام حسین ؑ کی چند کرنیں • حجت الاسلام محسن غرویان
وَعلی الاِ سْلاٰمِ السَّلاٰمُ اِذْ قَد بُلِیتِ الاُ مَّۃُ بِراٰعٍ مثلِ یَزیٰد
جب امت یزید جیسے حکمراں کی مصیبت میں مبتلا ہوجائے، تو اسلام کا خدا ہی حافظ ہے۔ (۱)
تشریح و تفسیر
۱ ۔ شاید معاشرے اور اس کے مختلف شعبوں کو انسانی بدن کے نظام سے تشبیہ دی جا سکے ۔ معاشرے کے اقتصادی، سیاسی، اخلاقی اور عسکری شعبے انسانی بدن کے اعصابی نظام، نظامِ ہضم اورنظامِ تنفس کی مانند ہیں۔
انسانی بدن کے مختلف نظاموں کے طرزِ کار اور میکنزم کے مطالعے کے ذریعے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں ((دماغ)) کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور اِس کا کام بدن کے دوسرے نظاموں کو کنٹرول کرنااورانہیں ہدایات جاری کرنا ہے۔ حدیہ ہے کہ اگر دماغ کے کام میں معمولی سا بھی خلل واقع ہو جائے، تو دیگر اعضائے بدن بھی توازن اور کنٹرول سے محروم ہو کر بخوبی کام کرنا چھوڑ دیں گے ۔
معاشرہ، جس کے تمام اعضا ایک جسم کے نظام و اعضا کی مانند سمجھے جاتے ہیں، اس میں بھی حکومت اور ریاست کا ادارہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اور ایک خاص کردار رکھتا ہے ۔
حکومت، انسانی بدن میں موجود دماغ کی مانند معاشرے کے مختلف نظامات اور شعبوں کے کنٹرول اور ان کی ہدایت کی ذمے دار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کے نظام میں معمولی سا نقص اور ضعف معاشرے کے تمام دوسرے شعبوں پر اثر انداز ہو کر ان میں بھی خلل اور کمزوری پیدا کر دیتا ہے ۔ اسی بنا پر اسلامی تعلیمات میں حکومت اور قیادت کا مسئلہ خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ یہاں تک کہ ولایت و حکومت کو دین کا رکن اور اساس قرار دیا گیا ہے کہ جس پر دوسرے دینی نظامات کی بنیاد قائم ہے اور اسکے بغیر اسلام کے کسی بھی اجتماعی حکم و فرمان کا اجرا و نفاذ ممکن نہیں ہو گا ۔(۱)
اس گفتگو کی روشنی میں امام حسین ؑ کے مذکورہ بالاکلام کے معنی و مفہوم واضح ہوجاتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ درحقیقت اگر حکومتِ اسلامی اور امت کے نظامِ رہبری میں خلل واقع ہو جائے، وہ ضعف و انحراف کا شکار ہو جائے تو پھر کوئی بھی آسمانی حکم اور تعلیم اسلامی معاشرے میں درست طور پرجامۂ عمل نہیں پہن سکے گی۔ پس یزید کی مانند طاغوتی حکومتوں کی موجودگی میں اسلام پر فاتحہ پڑھ لینی چاہئے اور اس سے کوئی توقع نہیں رکھنی چاہئے ۔
۲ ۔ کسی معاشرے پر حکومت اور قدرت کا حصول دو طریقوں سے ممکن ہے:
الف : جبری تسلط کے ذریعے ۔
۱ ۔ لولم یجعل لھم اماما قیماحافظا مستودعا لدرست الملۃ اگر کسی اسلامی معاشرے میں اسلامی احکام کے اجرا کا حافظ و نگہبان کوئی زعیم اور قائد نہ ہوہو تو ایسی قوم بکھر کے رہ جائے گی ۔ الامام نظام دین ۔(حاکم اور امام، امتِ اسلامی کا نظام اور قوامِ دین ہے ۔ ) ملاحظہ فرمایئے ولایت فقیہ از امام خمینیؒ ۔
ب : لوگوں کی رضامندی سے ۔
پہلی صورت میں ایک چھوٹا لیکن طاقت ور گروہ، جس کے افکار و رجحانات ممکن ہے معاشرے کی اکثریت کی خواہشات و میلانات کے برخلاف ہوں، زور و زبردستی، طاقت واسلحہ کے زور پر معاشرے پر حاکم حکومت کو گرا کر حکومت و اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ اس طریقے سے حکومت کے حصول کو ایک مکتبی اور اجتماعی انقلاب کی بجائے درحقیقت بالجبر اقتدار پر قبضے (Cope )کا نام دیا جانا چاہئے ۔
اس کے برعکس کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ معاشرے میں ایک انقلاب اور جنبش پیدا ہوتی ہے اور افرادِ معاشرہ ظالم حکمرانوں سے سخت مقابلے اور طویل جد و جہد کے بعد اپنی رضا اور اختیار سے ایک گروہ کو معاشرے کے معاملات چلانے اور اسکے نظم و نسق کے لئے چنتے ہیں ۔ یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک اجتماعی تحریک اور انقلاب کے نتیجے میں ایک حقیقی اور عوامی حکومت برسرِ کار آئی ہے اور اس نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا ہے ۔
اسلامی تاریخ میں اکثر ظالم حکمراں لوگوں کی خواہشات اور ارادوں پر توجہ کئے بغیر اقتدار پر قابض ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے ایک وسیلے کے طور پر منصبِ اقتدار سے فائدہ اٹھایا ہے ۔ ان سیاہ تاریخی ادوار میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ حکومت و ریاست کے تعین کے سلسلے میں واقعاً لوگوں کے ارادے اور انتخاب کا کوئی کردار رہاہے ۔
تاریخِ اسلام کے ایسے ہی غاصب اور ظالم حکمرانوں کی نمایاں مثالوں میں سے ایک مثال یزید ابن معاویہ ہے، جو ظلم و ستم، عیش و عشرت اور عیاشی سے دلدادگی کی علامت ہے۔
امام حسین ؑ نے اپنے اس کلام میں(( بُلیَتْ )) کے لفظ کے ذریعے دو لطیف نکات کی جانب اشارہ فرمایا ہے :
* ایک تو یہ کہ اس لفظ کے معنی مصیبت اور بلا میں مبتلا ہونے کے ہیں۔ لہٰذایہ اس بات کا عکاس ہے کہ امام حسین ؑ کی نظر میں یزید جیسے شخص کی حکومت ایک بلا اور مصیبت ہے۔
* دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہاں حضرت فعل مجہول بُلِیَتْ استعمال کر کے درحقیقت اس مفہوم کا اعلان و اظہار فرما رہے ہیں کہ ایسی حکومتیں کبھی عوام کی پسند اور حمایت سے برسر اقتدار نہیں آتیں بلکہ امت اور اسلامی معاشرہ جبراً اور مجبوراً ایسی حکومتوں اور حکمرانوں کو قبول کرتا ہے اور اپنی جان و مال کے خوف سے وقتی طور پر خاموش ہو جاتا ہے ۔
اس مفہوم کی وضاحت کے لئے مثال عرض ہے : ایک فردکے ایک جگہ سے دوسرے مقام کی جانب منتقل ہونے کو دو طرح سے بیان کیا جاسکتا ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص یہاں سے وہاں چلا گیا اور کبھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص کو یہاں سے وہاں لے جایا گیا ۔ یہاں دو فعل کا استعمال، ایک بصورتِ معلوم (چلا گیا) اوردوسرا بصورتِ مجہول (لے جایا گیا) در حقیقت اس بات کو واضح کرتاہے کہ پہلی منتقلی ایک انسان کا خود آزادانہ اور اپنے اختیار سے چلا جانا ہے جبکہ دوسری منتقلی اس انسان کی خود اپنی خواہش اور پسند سے نہیں بلکہ کسی دوسرے کے جبر اور اس کی خواہش کی بنا پر ہے۔
امام ؑ نے بھی فعلِ مجہول (بُلیَتْ) استعمال کر کے حکومتِ یزید کے غیر قانونی اور جبری ہونے کا اعلان فرمایا ہے اور اس حکومت میں لوگوں کے حقوق، خواہشات اور آزادی کے پامال ہونے کا ذکر کیا ہے۔
۳ ۔ ہم جانتے ہیں کہ حق کا صرف ایک ہی چہرہ ہوتا ہے لیکن باطل ایک سے زیادہ چہرے اور رنگ بدل سکتا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں باطل حکومتیں مختلف انداز اور شکلوں میں ظاہر ہوئی ہیں، لیکن اسکے باوجود کچھ خاص قسم کے طریقوں اور کاموں کو ان کی عمومی خصوصیات کہا جا سکتا ہے۔ عہدے اور مقام و منصب سے لگاؤ، استکبار اور خود کو بڑا سمجھنا، مال و دولت کا لالچ، عیش و عشرت کی لت، تجمل پرستی، خوش گزرانی قسم کی دوسری صفات تاریخِ بشریت کی تمام عوام دشمن حکومتوں میں مشترک نظر آتی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس قسم کی ایک حکومت کے منحوس اثرات اور خرابیوں کو اس طرح کی دوسری حکومتوں کے لئے بھی تصور کیا جا سکتا ہے۔
امام حسین ؑ نے بھی ان برے اثرات اور خرابیوں کو تمام حکومتوں کے لئے عمومیت دے کر پوری تاریخ کے لئے ایک معیار اور پیمانہ پیش کر دیاہے۔ آپ ؑ نے اپنی گفتگو میں ((مثل)) کا لفظ استعمال کر کے اس نکتے کی جانب اشارہ فرمایا ہے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ یزید ابن معاویہ کی حکومت سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ اس قسم کے ہر دوسرے حاکم اور ظالم کا شیوہ بھی اسکے سوا کچھ اور نہیں ہو گا، اور ایسی حکومتوں کے ہوتے ہوئے اسلام اور آسمانی احکام ہر وقت خطرے میں رہیں گے۔
وعلی الاسلام السلام اذقد بلیت الامۃ براعٍ مثل یزید
۱ ۔ مقتلِ عوالم۔ ص ۱۵۳، مقتلِ خوارزمی۔ ج ۱۔ ص ۱۸۵