کلامِ امام حسین ؑ کی چند کرنیں

فَاِنْ تَکُنِ الدُّنیاٰ تُعَدُّ نَفیٖسۃً

فَدٰارُ ثَوابِ الاَعماٰلِ اَعْلاٰوَاَنْبَلُ

وَاِنْ تَکُنِ الاَمواٰلُ لِلتّرکِ جَمعُھاٰ
فَماٰ بالُ مَترُوکٍ بِہ المَراءُ یَبخَلُ

وَاِنْ یَکُنِ اْلاَبدانُ لِلْمَوتِ اُنْشِأَتْ
فَقَعْلُ امْرَاءِ بِالسَّیفِ فی اﷲِ اَفضَلُ

((سمجھ رکھو کہ یہ فانی دنیا، جتنی بھی قیمتی ہو، (اس دوسرے جہاں کے بالمقابل پست اور بے قیمت ہے) اور جہانِ آخرت بلند مرتبہ اور بیش قیمت ہے۔))

((اگر حقیقتا ایسا ہی ہے کہ مال و دولت جمع کرنے کے بعد بالآ خر اسے یہیں چھوڑ جانا ہوتا ہے، تو پھر انسان کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ، دنیوی مال و دولت کے بارے میں اس قدر بخل سے کام لیتا ہے۔))

اور اگر دنیا میں ہمارا یقینی انجام موت ہے اور لازماً ان جسموں کو نابود ہو جانا ہے، تو پھر کیا ایمان اور عقیدے کی راہ میں جان دے دینا، ہر قسم کی دوسری موت سے زیادہ گراں قدر اور بلند تر نہیں ہے؟! (۱)

تشریح و تفسیر

۱۔ اچھی اور قیمتی چیزوں کی پہچان کا ایک ذریعہ ان کا بری اور بے قیمت چیزوں کے ساتھ موازنہ اور تقابل ہے۔ ہمیں بینائی کی قدر و قیمت اس وقت بہتر طور پرمعلوم ہوتی ہے جب ہمارے سامنے کوئی نابینا آ جاتا ہے۔ جب کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو صحت و سلامتی کی قدر پتا چلتی ہے، اسی طرح امن و عافیت کی قیمت اس وقت واضح ہوتی ہے جب مصیبت اور بے امنی کا مزہ چکھتے ہیں۔

اگر ہم اس مادّی دنیا اور اس دنیا کے مظاہر کی اہمیت کو صحیح طرح سمجھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں چاہئے کہ اس کا دوسری دنیا(آخرت)کے ساتھ موازنہ کریں، تب ہی ہم پر اس کی اہمیت یا بے وقعتی واضح اور نمایاں ہو گی۔

قرآنِ کریم بھی مختلف مواقع پر دنیا اور آخرت کا باہمی تقابل کرتا ہے اور فرماتا ہے : والآخرۃ خیرٌ وابقی (آخرت اور جو کچھ اس میں بہتر اور باقی رہنے والا ہے)

یہ آیت اچھے انداز سے، اس دنیا پر آخرت کی برتری کا سبب آشکارا کرتی ہے کیونکہ :

اولاً : عالمِ آخرت کی نعمتوں کو کیفیت کے لحاظ سے بہتر بتاتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جہانِ آخرت درحقیقت عالمِ معنا اور جہانِ مادّی عالمِ صورت ہے ۔ بالفاظ دیگر یہ مادّی دنیا وہ ظاہر ہے جس کا باطن آخرت تشکیل دیتی ہے اور یقینی طور پر صورت کے مقابل عالمِ معنا اور ظاہر کے مقابل باطن کا رتبہ اور اعتبار کہیں زیادہ بلند ہوتاہے ۔

ثانیاً : آخرت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی اور پائیدار ہیں۔ لہٰذا اصولاً اس مادّی دنیا اور اس کے محدود مظاہر کا آخرت کی لامحدود دنیا سے موازنہ کیا ہی نہیں جاسکتا اور عقل بھی کہتی ہے کہ محدود اور لامحدود کے مابین کوئی نسبت نہیں۔

تاہم قرآنِ کریم نے مفہوم کو زیادہ سے زیادہ محسوس تر صورت میں بیان کرنے اور ہمارے لئے قابلِ فہم بنانے کی خاطر موازنے اور تقابل کا راستہ اختیار کیا ہے اور دنیاوی نعمتوں کے مقابل اُخروی نعمتوں کو دائمی، پائیدار اور بہتر اور عالی تر کیفیت کا حامل قرار دیا ہے۔

امام حسین ؑ کے اشعار کے پہلے بیت میں دنیا اور اس کے مظاہر کی بے وقعتی اور بے اعتباری ثابت کرنے کے لئے دنیا اور آخرت کے موازنے کی اسی قرآنی روش سے استفادہ کیا گیا ہے۔ دوسری طرف پہلے مصرع میں شرطیہ جملے کی صورت میں یہ فرماکر کہ ((اگر ایسا ہے کہ دنیا واقعاً نفیس اور بااہمیت ہے )) اس مفہوم کو واضح کیا گیا ہے کہ امام ؑ کی نظر میں یہ اہمیت صرف فرضی اور تصوراتی ہے، وگر نہ واضح ہے کہ درحقیقت دنیا ناپائیدار اور بے اہمیت ہے ۔

۲۔ بے شک اگر انسان مستقبل اور معاملات کے انجام سے آگاہ ہو، تو اس کے فیصلے اور اقدامات کی کیفیت دوسری ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ بہت سے ایسے کام انجام نہیں دیتا جو بظاہر اچھے نظر آتے ہیں اور اس کے برخلاف بعض اوقات ایسے کام انجام دیتا ہے جو غیر مفید اور بے نتیجہ شمار کئے جاتے ہیں ۔

علم و آگہی، عمل کا مقدمہ ہے ۔ اگر ایک طالبِ علم کو اس بات کا یقین ہو کہ اسے سالانہ امتحان میں فیل کر دیا جائے گا، تواس کا دل پڑھائی کی جانب سے اُچاٹ ہو جائے گا۔ لیکن اس کے برخلاف اچھے مستقبل کی امید انسان کو ایک اور ہی طرح کا شوق و اشتیاق اور جوش و خروش بخشتی ہے اور اسے عمل اور جد و جہد پر ابھارتی ہے ۔

اگر انسان حیات اور کائنات کے اختتام اور انجام کے بارے میں تھوڑا سا بھی غور و فکر کرے، اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے جدائی کے لمحے کو ذہن میں لائے، اپنے گھر، اپنے باغ، اپنی زمین، اپنی گاڑی وغیرہ سے وداع کے وقت کا تصور کرے، تو یقیناًاس کے اندر ایک خاص کیفیت پیدا ہو گی ۔ ان امور سے اس کے انس، الفت اور شدید محبت کا رشتہ کمزور ہو جائے گا۔ اسی بنا پر ائمۂ دین کی احادیث میں آیا ہے کہ : کَفیٰ بالمَوتِ واٰعِظاً۔

ایک متوازن مزاج اور نصیحت قبول کرنے والے انسان کے لئے وعظ و نصیحت اور کردار سازی کے لئے موت کی یاد ہی کافی ہے ۔

اصولاً اگر انسان موت کے وقت کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھے اور دنیاوی زندگی کا انجام اس کے پیشِ نظر رہے، تو اس کا شعور اس بات کی گواہی دے گا کہ دنیاوی اشیا پر اس کی مالکیت صرف ایک مصنوعی، مجازی اور عارضی مالکیت ہے اور بالآخر وہ بھی اس دنیا کے نظام کے تحت موت کے عفریت کے ہاتھوں ختم ہو جائے گا ۔

دولت جمع کرنا ہرگزاسکی مالکیت کا سبب نہیں ہوتا ۔ البتہ ممکن ہے ایک طرح کا تعلق، اضافہ اور اعتباری نسبت وجود میں لے آئے ۔ لیکن بہر حال انسان کے لئے حقیقی مالکیت وجود میں نہیں آتی۔ کیونکہ بالآخر یہ ملکیت خود بخود مالک سے جدا ہو جاتی ہے۔ اس اہم نکتے کو امام حسین ؑ نے ان اشعار کے دوسرے بیت میں بخوبی واضح کیا ہے ۔ سچ !اگر انسان دنیاوی مال و دولت کی ناپائیداری اور حقارت کو جان لے، تو کسی صورت اس کا اسیر نہ ہو، اس سے دل نہ لگائے اور کسی بھی صورت میں حرص و آز، حسد اور بخل جیسی مذموم صفات میں گرفتار نہ ہو۔

۳ ۔ شہادت کے مسئلے کے جائزے اور اسکی تحلیل کے نتیجے میں ممکن ہے اس کے دو مختلف رُخ سامنے آئیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس مسئلے کا دو مختلف انداز سے سامنا کر سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہم اس کا سامنا جذبات و احساسات کے ساتھ کریں اور دوسرا یہ کہ اسے عقلی انداز سے دیکھیں۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ ممکن ہے جب ہم کسی واقعے کا سامنا احساسات و جذبات سے مغلوب ہو کر کررہے ہوں تو یہ ایک خاص قسم کے ردِ عمل کا تقاضا کرے، جبکہ اگر ہم اسی واقعے کا سامنا اور اس کا تجزیہ عقلی انداز سے کریں، تو وہ اس سے مختلف ردِ عمل کا تقاضا کرے۔

آپ سرِ راہ ایک بچے کو دیکھتے ہیں، جسے ایک عمر رسیدہ شخص پیٹ رہا ہے ۔ آپ بے اختیاراس بچے کی حمایت میں آگے بڑھتے ہیں اور اس مارنے والے شخص کوبرا بھلا کہنے لگتے ہیں۔ اور اس پہلے مرحلے میں اس پٹنے والے بچے کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔

جو چیز آپ کے اس ردِ عمل اور اس بچے سے ہمدردی کا باعث ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ آپ نے صرف آنکھوں سے اس حادثے کا مشاہدہ کیا ہے اور جذبات و احساسات کے ذریعے اس مسئلے کا جائزہ لیا ہے ۔ اس موقع پر کسی قسم کا منطقی تجزیہ و تحلیل آپ نے نہیں کیا۔

اب اس ابتدائی ردِ عمل کے بعد آپ جستجو کرتے ہیں کہ آخر ماجرا کیا ہے، وہ شخص اس بچے کو کیوں مار پیٹ رہا تھا۔ پتا چلتا ہے کہ اس بچے نے بے وجہ اس راہ گیر شخص کو ایک پتھر دے مارا تھا اور اس سے بدزبانی بھی کی تھی اور بغیر کسی وجہ کے اسے گالیاں دے رہا تھا اور یہی بد تمیزی اسکی پٹائی کی وجہ تھی۔

اب آپ عقلی تجزیئے اور منطقی فیصلے کی بنیاد پر اس راہ گیر شخص کو حق بجانب قرار دیتے ہیں اور آپ بھی بچے کو ڈانتے ہیں اور ممکن ہے آپ بھی اسے دو ہاتھ رکھ دیں۔

یہ متضاد فیصلے اور ان کے نتیجے میں دو مختلف قسم کے ردِ عمل اس معاملے کو دو مختلف انداز سے دیکھنے کی وجہ سے ہیں ۔ مسئلے کو جذبات و احساسات سے مغلوب ہو کر دیکھنے کا تقاضا یہ تھا کہ آپ راہ گیر شخص کو قصور وار ٹھہراتے اور بچے کو حق بجانب اور مظلوم سمجھتے ۔ اور اس کے برعکس مسئلے کا عقلی اور منطقی تجزیہ و تحلیل راہ گیر شخص کو حق بجانب اور بچے کو سرزنش اور پٹائی کا مستحق قرار دیتا ہے۔ اور واضح ہے کہ مسئلے کا سامنا کرنے کے ان دو انداز میں سے عقلی انداز قابلِ قدر اور حقیقت پسندی پر مبنی ہے۔

اگر ہم شہادت کو جذبات و احساسات کی نگاہ سے دیکھیں اور اسے سطحی اور سرسری انداز سے لیں تو اس کی ایک خاص شکل سامنے آئے گی ۔کیونکہ اس طرزِ فکر کی صورت میں شہادت جان کے زیاں، بربادی، نابودی اور آخر کارخود اختیاری موت کے سوا کچھ اور نہیں دکھائی دے گی اور اس اندازِ فکر کا تقاضا یہ ہو گا کہ شہادت پر انتہائی افسوس، غم و اندوہ اور بے صبری کا مظاہرہ کیا جائے۔ اس نکتۂ نظر کے ساتھ شہادت نہ صرف یہ کہ کسی تقدس کی حامل نہیں بلکہ کراہت و قباحت بھی رکھتی ہے۔ کیونکہ بظاہر یہ ایک قسم کی خود کشی معلوم دے گی۔ شہادت میں موت انسان کی طرف نہیں آتی ہے، بلکہ اس کے برعکس انسان موت کے استقبال کو بڑھتا ہے اور موت کا انتخاب کرتا ہے ۔ جذبات و احساسات سے مغلوب ہو کر اور صرف ظواہر کو دیکھ کر اس طرح موت کا استقبال ایک طرح کا جنون سمجھا جائے گا ۔لیکن اگر شہادت کے مسئلے کا عقلی تجزیہ و تحلیل کریں تو ہم ایک مختلف نتیجے تک پہنچیں گے۔

بے شک تمام انسانوں کولازماً موت کاذائقہ چکھنا ہے، اور کوئی اس سے راہِ فرار اختیار نہیں کر سکتا، ہم سے پہلے آنے والے گزر چکے ہیں، اس وقت ان میں سے کوئی ہمارے درمیان موجود نہیں۔ دوسری طرف موت کے مختلف اسباب و اقسام ہیں، جیسے حادثاتی موت، (روحانی یا جسمانی)امراض کے نتیجے میں موت، پانی میں ڈوب کے مر جانا، خود کشی کر لینا، پہاڑ یا بلندی سے گر کر مر جانا وغیرہ وغیرہ۔ اسی کے ساتھ ساتھ موت کی ایک خاص قسم بھی پائی جاتی ہے جسے انسان خود اپنی آزادی اور اختیار کے ساتھ منتخب کرتا ہے، یہ عقیدے، آزادی اور انسانیت کی راہ میں اختیاری اور انتخابی موت ہے ۔بالفاظ دیگر یہ معبودِ حقیقی اور خالقِ کائنات کی راہ میں موت قبول کرنا ہے ۔

منصف مزاج اور اہلِ معرفت افراد موت کی مختلف اقسام میں سے کونسی موت کا انتخاب کریں گے ؟ انسان کے ضمیر اور عقلِ سلیم کی نظر میں کونسی موت افضل ہے؟ پہلی قسم کا مرنا یا عقیدے اور دین کی راہ میں شہادت کی موت کو گلے لگانا؟

اگر ہم تمام مذکورہ مقدمات سے قطع نظر کرکے ایک منطقی قیاس تشکیل دیں، تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب موت لا محالہ ہم سب کے تعاقب میں ہے اور ہمارا مرنا قطعی اور حتمی ہے تو مسلّمہ طور پر شہادت، موت کی مقدس ترین اور قیمتی ترین قسم ہے۔

اس تجزیئے و تحلیل کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ شہادت ایسی موت نہیں جس کا سامنا کرتے ہوئے انسان ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرے، دکھ اور افسوس محسوس کرے، اسے اپنی جان کا تلف اور برباد ہونا خیال کرے۔

البتہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں انسان کے پاس ادراک کی دو قوتیں ہیں، ایک عقل اور دوسری احساس ۔ لہٰذاوہ لازماً ادراک کی ان دو قوتوں کے تقاضوں کے مطابق شہادت پر ایک خاص ردِ عمل کا اظہار کرتا ہے۔ اسے صرف جذبات و احساسات کی نگاہ سے دیکھنے کا تقاضا، رونا، گڑگڑانا، اضطراب و ناگواری کا اظہار اور اس سے فرار ہے۔ اس مقام پر عقل جذبات و احساسات کی مدد کو بڑھ کر اسے کنٹرول کرتی ہے اور شہادت کے بارے میں اپنی منطقی اور حقیقت پسندانہ تحلیل کے ذریعے انسان کو اطمیان اور آسودگی دے کر اس کے دل کو تسلی دیتی ہے اور وہ بخوشی اس کے استقبال کو بڑھتا ہے۔

اس تفصیلی گفتگو کے بعد اب وہ مناسب وقت آ پہنچا ہے جب ہم امام حسین ؑ کے ان اشعار کے تیسرے بیت پر غور کریں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جو کچھ ہم نے کہا وہ اس بیت میں خلاصے کے طور پر اور اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ امام ؑ فرماتے ہیں :

((بے شک اگر یہ بدن آخر کار فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے، اور سچ اگر موت کا عفریت آخر کار ہمیں اپنے جبڑوں میں جکڑ لے گا ۔ اگر طے ہے کہ بالآخر موت ہمیں چن لے گی، تو پس کیا اچھا ہے کہ ہم خود ایک شریفانہ اور خدا کی راہ میں موت کا انتخاب کریں ۔))

۱۔ مقتلِ خوارزمی۔ ج ۱۔ ص ۲۲۳، مناقب۔ ج ۴۔ ص ۹۵۔