کلامِ امام حسین ؑ کی چند کرنیں

((اِنْ لَمْ یَکُنْ لَکُمْ دینٌ وَ کُنتُمْ لاٰ تَخاٰفُونَ المَعاٰدَ فَکُونوا اَحْراراً فیٖ دُنیاٰکُم))

((اگر کسی دین و آئین پر عقیدہ نہیں رکھتے، اور روزِ قیامت کا بھی تمہیں کوئی خوف نہیں، تو کم از کم آزاد مردوں کی سی زندگی تو جیو۔ )) (۱)

تشریح و تفسیر

۱ ۔ اگرچہ امام حسین ؑ نے عاشورا ۶۱ھ ؁کے روز یہ کلام ارشاد فرمایا، اور اس میں آپ ؑ کا مخاطب ایک خاص گروہ تھا، جو آپ ؑ سے جنگ پر آمادہ تھا، لیکن کیونکہ یہ ارشاد ایک آفاقی اصول بیان کر رہا ہے اس لئے اسے کسی بھی صورت میں کسی خاص زمان یا مکان تک محدود نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ عمومی اور ہر دور کے لئے ہے۔

اصولاً حق کی ایک خصوصیت اور خاصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ((حق)) ہوتا ہے۔ حقیقت کبھی بھی کسی خاص زمان و مکان تک محدود نہیں ہوتی، کیونکہ یہ ریاضی کے قواعد مثلاً ۲235۲ 236 ۴ کی مانند ہر زمان اور تمام مکانوں میں یکساں رہتی ہے۔

ایسی گفتگو اور الفاظ جو حق پرمبنی ہوں، وہ زمان و مکان کی قید اور محدودیت قبول نہیں کرتے۔ اور شاید کلامِ الٰہی اورابنیاؑ اورا ئمہ ؑ کے کلمات و فرامین کی جاویدانگی اور دوام کا بنیادی راز یہی ہو۔ امام حسین ؑ کا فرمان بھی اس خصوصیت میں شامل ہے اور کیونکہ آپ ؑ کا کلام بجا اور حق و حقیقت پر مبنی ہے، لہٰذا اسے ہرگز کسی خاص دور اور خاص نسل سے متعلق قرار نہیں دیا جاسکتا، جب تک لیل و نہار کی گردش جاری ہے اور روئے زمین پر انسانی حیات موجود ہے، اُس وقت تک اس کلام کے مصادیق پائے جاتے رہیں گے ۔

۲ ۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ تمام آسمانی ادیان کے رہنما اصول اور اساسی قواعد انسانی عقل وو جدان کے مطابق اور اصطلاحاً انسانی فطرت سے ساز گار ہوتے ہیں۔

بالفاظِ دیگر ابنیائے الٰہی اور رہنمایانِ دین کی اکثر ہدایات و تعلیمات جیسے، والدین کا احترام، کمزوروں اور لاچاروں کی مدد، ظلم و زیادتی سے پرہیز، علم و دانش کاحصول وغیرہ وغیرہ ۔۔ ایسی اقدار ہیں کہ اگر بالفرض انہیں دینی اور مذہبی تعلیمات کے حوالے سے نہ بھی دیکھیں تب بھی انسان انہیں اچھا اور پسندیدہ سمجھتا ہے اور ان کی پیروی کرتا ہے۔

اپنے وسیع معنی میں(( حریّت اور آزادگی)) بھی انہی امور میں سے ایک ہے۔ جوانمردی اور مروت ایک ایسی چیز ہے جسے انسانی فطرت و وجدان بذاتہ پسند کرتے ہیں ۔ اور ان چیزوں کی یہ پسندیدگی اور محبوبیت صرف آسمانی ادیان کے پیروکاروں اور کتبِ الٰہی پر عقیدہ رکھنے والوں ہی تک محدود نہیں بلکہ تمام افرادِ بشر(( حریّت)) یعنی آزادگی، جوانمردی اور مروت کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسکی قدر و قیمت کے قائل ہیں۔

امام حسین ؑ کا مذکورہ بالا کلام کربلاکے مقتل سے تمام انسانوں کو خطاب کر کے درحقیقت ایک عمومی پیغام، اور ایک عالمی منشور ہے، جس میں آپ ؑ نے فرمایا ہے کہ :

((اگر تمہارا کوئی دین و ایمان نہیں اور تمہیں قیامت اور خدا کے سامنے حاضری کا خوف نہیں تو کم از کم دنیا میں آزاد مردوں ہی کی طرح رہو۔))

۱۔ مقتلِ خوارزمی۔ ج ۲۔ ص ۳۳