کلامِ امام حسین ؑ کی چند کرنیں

اِمامٌ دَعاٰ اِلیٰ ھُدیٰ فَاَ جاٰ بُو ا اِلَیہِ وَاِماٰمٌ دَعاٰ اِلیٰ ضَلاٰ لَۃٍ فَأ جاٰبوا اِ لَیھاٰ، ھٰؤُ لاٰءِ فی الجَنَّۃِ وَ ھٰؤُ لا ءِ فی الناّٰرِ وَھُوَ قُولُہ تَعالیٰ فَریقٌ فی الجَنَّۃِ وَ فریقٌ فی السَّعیرِ

((ایک امام و پیشوا ایسا ہے جو لوگوں کو سعادت اور ہدایت کی طرف دعوت دیتا ہے، اورایک گروہ اس کی دعوت کو قبول کر کے اس کی پیروی کرتا ہے۔ اسکے بالمقابل ایک ایسا بھی امام اور پیشوا ہے، جو لوگوں کو ضلالت اور گمراہی کی طرف بلاتا ہے، ایسے رہنما کے پیروکار بھی ہوتے ہیں ۔ ان دونوں گروہوں میں سے پہلا گروہ اہلِ جنت کا گروہ ہے، جبکہ دوسرا گروہ جہنم میں جائے گا۔ اور یہ کلامِ الٰہی اسی بارے میں ہے کہ : ایک گروہ جنتی اور ایک گروہ جہنمی۔))

تشریح و تفسیر

۱۔ انسان کے اندر ہمیشہ دو باہم مخالف پہلو کشمکش اور ایک دوسرے کے ساتھ حالتِ جنگ میں رہتے ہیں۔ عقل اورنفس دونوں میں سے ہر ایک انسان کو ایک خاص سمت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر الٰہی اور آسمانی پہلو انسان کو معنویات، کمالات اور اعلیٰ و ارجمند اقدار کی جانب کھینچتا ہے۔ اسکے مقابل حیوانی اور دنیوی پہلو اسے زیادہ سے زیادہ حیوانی شہوتوں اور نفسانی خواہشات کے حصول میں مشغول رکھ کر بلندی اور کمال کے حصول سے باز رکھتا ہے۔

۲۔ دورانِ عمل انسان ان دونوں (انسانی اور حیوانی پہلوؤں) میں سے جس پہلو کی جانب جھکاؤ ظاہر کرتا ہے، اسی کے کیمپ میں اسکا شمار ہونے لگتا ہے۔ یعنی وہ یا تو انسانی صف میں ہوتا ہے، یا حیوانی صف میں۔

وہ لوگ جو عقل کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور اپنے نفس کو عقل کے تسلط اور اسکے کنٹرول میں لے آتے ہیں، وہ ایک گروہ میں قرار پاتے ہیں، اور وہ لوگ جو نفسانی خواہشات اور شہوتوں کے اسیر ہو جاتے ہیں، وہ ایک دوسرا گروہ تشکیل دیتے ہیں۔

یہیں پر تاریخِ بشریت بھی دو کناروں میں تقسیم ہو جاتی ہے، دو صفوں میں بٹ جاتی ہے، ایک گروہ حق کی صف میں کھڑا نظر آتا ہے اور دوسرا گروہ باطل کی صف میں۔ اس موقع پر ہدایت اور گمراہی کے ان دونوں گروہوں کے درمیان جنگ و رزم آرائی قدرتی اور ناقابلِ اجتناب ہے۔کیونکہ حق و باطل، نور و ظلمت اور ہدایت و ضلالت کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ و ستیز کی حالت میں رہتے ہیں۔

۳ ۔ انسانی تاریخ کے ہر دور میں حق کی صفوں اور باطل کے گروہ میں ایسے لوگ پیدا ہوئے ہیں اور پیدا ہوتے ہیں جو دوسروں سے آگے بڑھ کر اپنے اپنے گروہ کی قیادت ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ اور اپنے اپنے گروہ کی امامت و پیشوائی کے منصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔ ایسا شخص جو حق کے گروہ کا امام ہو وہ ((امام الھدیۃ)) کہلاتاہے، اور اسکے مدِ مقابل کو ((امام الضلالۃ)) کہتے ہیں، ایک ((نور)) کی طرف دعوت دیتا ہے اوردوسرا ((نار)) کی طرف بلاتا ہے ۔ ھٰؤُلاٰءِ فی الجَنَّۃِ وَھٰوؤلا ءِ فی النّٰارِ۔

تاریخِ بشریت اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ابنیائے الٰہی اور آسمانی رہنماؤں کے بالمقابل ہمیشہ طاغوتوں نے صف بندی کی ہے اوراِن لوگوں نے ہدایت کی طرف ابنیا کی دعوت کے برخلاف انسانوں کو گمراہی کے راستے کی جانب دھکیلا ہے۔

امام حسین ؑ نے اپنے اس کلام میں، انسانی تاریخ میں موجود اس گروہ بندی اور ان دونوں مراکز کی امامت و پیشوائی کی جانب اشارہ کر کے، آیۂ قرآن کو سند قرار دیتے ہوئے (سورۂ بنی اسرائیل ۔ آیت ۷۱) ان دونوں کے انجام کو بیان فرمایا ہے :

فَریقٌ فی الجَنَّۃِ وَ فریقٌ فی السَّعیر۔