کلامِ امام حسین ؑ کی چند کرنیں

فَلَعَمْریٖ مَاالِامامُ الاّ العاٰملُ بِالکتابِ وَالآ خِذُ بِالقِسْطِ والدّاٰینُ بِالْحَقِّ وَالحاٰ بُس نَفْسَہ عَلیٰ ذاتِ اﷲ۔

میری جان کی قسم، سچا پیشوا اور امامِ برحق وہی ہے جو کتابِ خدا پر عمل کرتا ہو، جو عدل و انصاف پر کاربند ہو، جو حق کا پیروکار ہو، جس نے اپنا پورا وجود راہِ خدا میں وقف کر دیا ہو، اور صرف اسی کا فرما نبردار ہو۔ (۱)

تشریح و تفسیر

۱ ۔اس کلام میں امام حسین ؑ کا امام اور امامت کے لئے شرائط بیان کرتے ہوئے قسمیہ الفاظ سے کام لینا نیز ((الا ))کا کلمہ استعمال کرنا، آپ ؑ کی نظر میں ان شرائط و صفات کی اہمیت اور ان پر تاکید کا عکاس ہے ۔یہاں تک کہ کسی بھی صورت مناسب نہیں کہ انسان ان صفات کو کم اہمیت سمجھے اور ان سے غفلت اور لاپرواہی برتے۔

۲۔ امتِ اسلامی کی امامت و رہبری، کوئی سادہ اور آسان کام نہیں۔ اور ہر کوئی آسانی کے ساتھ اس مقام کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ امامت آسمانی احکام کی انجامدہی کی ذمے داری، اورکارِ رسالت کا تسلسل ہے، اور یہ خود ایک ایسا بارِ گراں ہے جسے اٹھانے کے لئے پیغمبرؐ جیسی شخصیت کا ہونا ضروری ہے جو اس راہ پر قدم رکھے اور اس سنگین ذمے داری کو قبول کرے۔ لہٰذا امام ؑ میں سخت اور کڑی صفات کا پایا جانا ضروری ہے۔ تاکہ ہر کوئی امامت اور رہبری کا جھوٹا دعویٰ نہ کر ے۔ اور لوگوں کے پاس بھی امامت کے حقیقی دعویداروں اور جھوٹے مدعیوں کی پہچان کا ایک پیمانہ موجود ہو۔

مذکورہ بالا کلام اور اسکی جملہ بندی پر غور، اور گہرائی کے ساتھ اسکے جائزے کے ذریعے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امام میں یہ تمام شرائط موجود ہوناچاہئیں۔ اور کسی فرد میں ان میں سے ایک یا چند شرائط کی کمی اسکے ادعائے امامت کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہو گی۔

۳۔ امام ؑ کا یہ کلام ایک طرف تو امامِ حق کی خصوصیات بیان کر رہا ہے اور دوسری طرف اسلامی تعلیمات میں امامت کے مفہوم کو واضح کرتا ہے۔ کتابِ خداپر عمل، عدل و انصاف کا لحاظ رکھنا، حق و حققیت کا اجرا اور صرف خدا کے سامنے تسلیم ہونا، وہ خصوصیات ہیں جن کے ذریعے امام اور حقیقی پیشوا کو پہچانا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف امامت کا مفہوم اسکے سوا کچھ اورہے ہی نہیں کہ امامت یعنی کتابِ آسمانی کے احکام کے اجرا اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے کارِ رسالت کو مسلسل جاری رکھنا۔

۱۔ کتاب الارشاد۔ ص ۲۰۴، مقتلِ خوارزمی۔ ج ۱۔ ص ۱۹۵، ۱۹۶۔