کلامِ امام حسین ؑ کی چند کرنیں

۔۔۔ اَلاٰ تَرَوْنَ اِلی الحَقِّ لاٰ یُعَملُ بِہ وَاِلی الباٰطِلِ لاٰ یُتَناھیٰ عَنہ لِیَرغَبْ المُؤمِنُ فیٖ لِقاءِ اﷲِ فاِنّیٖ لاٰ اَرَی المَوتَ اِلاّ سَعادَۃً وَالحَیاٰۃَ مَعَ الظّالِمیٖنَ اِلاّ بَرَماً۔

کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے بچنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ ایسے حالات میں مومن کو خدا سے ملاقات کی آرزو کرنی چاہئے، میں تو ان حالات میں موت کو سعادت سمجھتا ہوں اور ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو عذابِ جان خیال کرتا ہوں۔(۱)

تشریح و تفسیر

۱ ۔ حق و باطل دو ایسے امر ہیں جن سے انسانی فطرت آشنا ہے۔ یعنی بہت سے مواقع پر انسان خود بخود اور بغیرکسی تعلیم کے حق اور باطل کے درمیان تمیز کی صلاحیت رکھتا ہے۔ حق کا پسندیدہ ہونا اور باطل کا منفور اور قابلِ نفرت ہونا بھی ان امور میں سے ہے جو ہر انسان کی سرشت میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ تمام انسان حق اور باطل کو پہچاننے کے بعد بے غرضی اور اخلاص کے ساتھ حق کی جانب جھکاؤ محسوس کرتے ہیں، ہر چند کھلم کھلا اس کا اظہار نہ کریں۔ اسی وجہ سے یہ سوال بے جا اور نامعقول نظر آتا ہے کہ آیا حق اچھا اور پسندیدہ ہے یا باطل؟

کسی معاملے میں حق اور باطل کو پہچان لینے کے بعد انسان کا ضمیر اور وجدان بغیر کسی شک اور ترددکے حق کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔

امام حسین ؑ کے کلام کا بغور جائزہ لینے پر ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ؑ اپنے اس استفہامی بیان کے ذریعے اسی لطیف نکتے کی جانب اشارہ فرما رہے ہیں۔ گویا اعلان کرناچاہتے ہیں کہ تم تمام انسان جانتے ہو کہ حق اور حقیقت ذاتاً پسندیدہ اور مطلوب ہے اور اس پر عمل ہوناچاہئے اور باطل سب کے لئے ذاتاً نفرت انگیز ہے اور اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ یہ کلام انسان کی اسی حق جو اور حق طلب فطرت کی جانب اشارہ ہے جسے کبھی کبھی ((وجدان)) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

۲ ۔استفہام اور سوال مختلف معنوں کے حامل ہو سکتے ہیں۔ کبھی سوال سے مراد استفہامِ حقیقی ہے یعنی ایک مسئلے کا فہم و ادراک چاہنا ہے ۔ ہماری روز مرہ گفتگوؤں اور بات چیت میں کئے جانے والے اکثر سوالات شاید اسی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ اس قسم کے سوالات کے ذریعے در حقیقت ہم اپنی جہالت دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مجہول کو معلوم بناناچاہتے ہیں۔ مثلاً ہم سوال کرتے ہیں: کیا وقت ہوا ہے؟ کیا آپ کبھی مشہد گئے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی استفہام اور سوال کا مقصد در حقیقت کسی چیز کو جاننا اور سمجھنا نہیں ہوتا، بلکہ مقصد مخاطب کو سرزنش اور توبیخ کر کے اسے کسی کام پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔

مثلاً ایک ایسا شخص جو کسی نابینا راہ گیر کو پرہجوم ٹریفک میں پھنسا دیکھنے کے باوجود اسکی مدد کرنے کی بجائے اپنی جگہ کھڑا رہے، تو خاص لہجے میں ہم اس سے کہتے ہیں کہ کیا تمہیں نظر نہیں آرہا کہ یہ بوڑھا شخص نابینا ہے؟

اس قسم کا سوال در حقیقت اس لئے نہیں ہے کہ ہم مخاطب سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمہیں معلوم نہیں ہے، تم نہیں جانتے ہو، بلکہ اسے سرزنش کرکے اس بات کی ترغیب دینے کی غرض سے ہوتا ہے کہ اسے چاہئے کہ وہ ایسے مواقع پر نابینا شخص کا ہاتھ پکڑ کر سڑک عبور کرنے میں اسکی مدد کرے۔

اس نکتے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ امام حسین ؑ کا استفہامی بیان دوسری قسم سے تعلق رکھتا ہے، یعنی حضرت ؑ سوالیہ انداز میں یہ فرماتے ہوئے کہ :کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا۔۔۔۔۔ یہ بیان کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں کہ تم کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش بیٹھے ہو؟ کیوں تم باطل کے سامنے مہر برلب ہو؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اس صورتحال کے خلاف حرکت، جوش اور ولولے کا اظہار نہیں کر رہے ؟

یہ خود اس بات کا عکاس ہے کہ ایسی امت اور معاشرہ جس نے باطل کے سامنے سکوت اور خاموشی اختیار کی ہوئی ہو اور اپنے لبوں پر خاموشی کی مہر لگائے بیٹھا ہو، امام حسین ؑ کی نظر میں سرزنش اور توبیخ کا مستحق ہے۔ اور وہ لوگ جو اپنی آنکھوں سے حق و حقیقت کی پامالی کا نظارہ کریں اور اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہ کریں، واقعی سرزنش اور توبیخ کے حقدار ہیں۔

۳ ۔ خدا پر ایمان اور اعتقاد لا زماً عملی آثار و نتائج رکھتاہے اور انسان کو جد و جہد اور کوشش پر ابھارتا ہے۔ جہاں حرکت اور جد و جہد نہ ہووہاں درحقیقت سچا ایمان نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسلام کی نگاہ میں ایمان اور عمل لازم و ملزوم ہیں اوریہ کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔ ایمان اور اعتقاد اگرچہ قلبی امور میں سے ہیں، لیکن زبان سے اقرار اوراعضا و جوارح سے عمل بھی ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔

امام حسین ؑ اپنے اس کلام میں فرماتے ہیں کہ : (ظلم و ستم کے دور میں) مومن کوخدا سے ملاقات کی آرزو کرنی چاہئے۔ یہاں ((مومن)) کی صفت کا استعمال، اس نکتے کا اعلان ہے کہ حقیقی ایمان جہاد اور عملی کوششوں کا تقاضا کرتا ہے اور دونوں کسی صورت ایک دوسرے سے جدا اور علیحدہ علیحدہ نہیں ہیں۔

اس مقام پر، امام حسین ؑ در حققیت اس نکتے کا اعلان فرما رہے ہیں کہ ایمان کا لازمی تقاضا جہاد، شہادت اور فداکاری ہے۔ اس موقع پر ایک اور نتیجہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ہمیں اپنے ایمان اور اعتقاد میں اس قسم کے آثار و نتائج نظر نہیں آئیں، تو ہمیں اپنے ایمان اور اس کی بنیاد کی اصلیت کے بارے میں شک اور شبہ کرتے ہوئے اس کی مضبوطی کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔

۴۔ ((موت و حیات)) دو باہم متصادم اصطلاحیں اور مفاہیم ہیں، جو مختلف مواقع اور معاملات میں استعمال ہوتے ہیں اور ہر ایک میں مخصوص معنی کا اظہار کرتے ہیں۔

جب ہم بائیلوجی اور فزیالوجی کے موضوع کے تحت موت و حیات کی بات کرتے ہیں، تو اسمیں ہماری مراد اقدار، اخلاق اور معنویات کی موت و حیات نہیں ہوتی۔ یعنی اس موقع پر ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ ایسا موجودذی حیات ہے جو رشد و نمو اور حرکت کا حامل ہو اور جس موجود میں یہ آثار نظر نہیں آئیں وہ مردہ موجود ہے۔ یہاں جسمانی اور فزیکل موت و حیات کی بات ہے۔

مادّی، تعلیمات و نظریات میں بھی موت و حیات کی اس کے علاوہ کوئی اور تفسیر نہیں لیکن الٰہی تصورِ کائنات اور اسلامی تعلیمات میں موت و حیات کی اصطلاحات دوسرے معنوں کے لئے بھی استعمال ہوتی ہیں۔ کیونکہ انسان ایک ایسا موجود ہے جس کے دو پہلو ہیں اور وہ جسم و بدن کے علاوہ ایک اور عنصر کابھی مالک ہے جسے روح کہتے ہیں ۔ لہٰذا موت و حیات جسمانی پہلو کے علاوہ انسان کے معنوی اور روحانی پہلو میں بھی مد نظر ہوتے ہیں۔ قرآنِ کریم کے نکتۂ نظر سے یہ بھی ممکن ہے کہ ایک انسان زندہ اور جسمانی طور پر مکمل سلامت اور صحت مند ہونے کے باوجود مردہ ہو۔ کیونکہ ایسے انسان کی بشری روح اور انسانی نفس کی موت واقع ہو چکی ہے اور اس میں معنویت اور انسانیت کا کوئی نام و نشان نہیں رہا ہے۔

سعادت اور شقاوت کے الفاظ بھی کبھی روح کے بارے میں کہے جاتے ہیں اور کبھی لذتوں یا جسمانی تکلیفوں کے بارے میں استعمال ہوتے ہیں۔ ایسا انسان جس کی ضروریات خوراک اور پوشاک وغیرہ کے لحاظ سے پوری ہوتی ہوں، جو ناز و نعم کے ساتھ دن گزار رہا ہو، وہ جسمانی سعادت کا حامل ہے لیکن ممکن ہے روحانی اور معنوی اعتبار سے انتہائی شقاوت اور بد بختی کی حالت میں ہو۔ اسکے برعکس یہ بھی ممکن ہے کہ ایک انسان جو مادّی اورظاہری اعتبار سے فقر و تنگدستی کا شکار ہو، وہ روحانی اورمعنوی کمالات کے لحاظ سے کمال و سعادت کی بلندیوں پر فائز ہو۔

ایک ایسا معاشرہ جسے فساد اور تباہی نے پوری طرح گھیر رکھا ہو اور یزید جیسے حاکم اس پر مسلط ہوں، اس میں درحقیقت انسانیت، شرافت اور معنویت مٹ جائیں گی۔ اس موقع پر روحانی اور معنوی حیات کا ذکر بے معنی ہو گا اور انسانی سعادت اور کمال جیسے مفاہیم اور اصطلاحات کھوکھلے اور پوچ ہو جائیں گے۔

اگرچہ ممکن ہے ایسے معاشرے میں مادّی رفاہ و آسائش کے امکانات ہر لحاظ سے موجود ہوں لیکن حقیقی سعادت اور واقعی انسانی کمال ہرگز حاصل نہ ہو سکے گا۔

مذکورہ وضاحتوں کے ذریعے، امام حسین ؑ کے زیر بحث کلام کا مفہوم بخوبی روشن ہو جاتا ہے او واضح ہو جاتا ہے کہ یزیدی حکمرانواں کے دورِ اقتدار میں موت اور شہادت کیوں سعادت اور خوش بختی ہے اور ایسے حالات میں زندہ رہنا کیوں ذلت و عار قرار دیا گیا ہے۔

امام ؑ کے اس کلام میں اہم اور بنیادی ترین نکتہ حیات و سعادت یا موت اور شقاوت کا روحانی اور معنوی پہلو ہے جسمانی اور مادّی پہلو نہیں۔

۱۔ لہوف۔ ص ۳۴