کلامِ امام حسین ؑ کی چند کرنیں

((اَللَّھمَّ اَنتَ ثِقَتیٖ فیٖ کُلِّ کَرْبٍ وَرَجاٰئی فیٖ کُلِّ شِدَّۃٍ وَاَنْتَ لیٖ فیٖ کُلِّ اَمرٍ نَزَل بیٖ ثِقَۃٌ کَمْ مِنْ ھَمٍّ یَضْعفُ فیہ الفُؤ اٰدُ وَتَقِلُّ فیہ الحیٖلَۃُ وَیُخذَلُ فیٖہ الْصَّدیقُ ویُشَمِّتُ فیٖہ العَدُوُّ اَنزَلُتہ بِکَ وُ شَکَوتُہ اِلیکَ رَغبَۃً مِنّیٖ اِلَیکَ عَمَّنْ سِواٰکَ فَکَشَفَتَہ وَ فَرَّجتَہ فَانتَ وَلیُّ کلِّ نِعمَۃٍ وَ مُنْتَھیٰ کَلِّ رَغْبۃٍ))

((پالنے والے! تو ہی ہر رنج و غم میں میرا بھروسہ ہے، ہر سختی میں تو ہی میری امیدوں کا مرکز ہے، جب بھی مجھ پر کوئی مصیبت پڑی، تو تو ہی میرا آسرا اور اس مصیبت سے چھٹکارے کا ساماں ہے۔نہ جانے کتنے مصائب و آلام تھے جن میں دل کمزور پڑا، چارہ جوئی کی راہ مسدود ہوئی، دوستوں نے ساتھ چھوڑ دیا، دشمنوں نے خوشیاں منائیں ۔میں نے ان مصائب و آلام میں گھِر کر تیری طرف رجوع کیا، اپنا غم تجھ ہی سے بیان کیا، تیرے ماسوا سے بے نیاز ہو کر تجھ ہی سے آرزو مند ہوا اور تو نے وہ مصائب و آلام دور کر دیئے، ان کے گھیرے سے مجھے باہر نکال دیا۔ تو ہی ہر نعمت کا مالک اور تمام نیکیوں والا اور قبلۂ حاجات ہے۔))

تشریح و تفسیر

۱۔ سچوں کی صداقت اور دوستوں کی دوستی کو عام حالات میں نہیں پرکھا جا سکتا۔ ناگوار حالات اور مشکل اور سخت ایام میں سچے دوستوں اور جھوٹے دوست نماؤں اور منافقوں کو پہچانا جا سکتا ہے۔

وہ لوگ جو صرف جاہ و مقام، مال و دولت، خوشیوں اور لذتوں کی امید میں انسان کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اس سے دوستی اور برادری کا رشتہ جوڑتے ہیں، وہ در حقیقت دھوکے باز دوست اور مکار و عیار افراد ہوتے ہیں۔

امام ؑ اپنے اس کلام میں اس نکتے کی جانب بھی اشارہ فرماتے ہیں کہ انسان کے حقیقی دوست خوشیوں اور آسودگی کے دنوں میں نہیں بلکہ ناگوار حوادث اور مصیبتوں کے پیش آنے پر پہچانے جاتے ہیں۔

۲ ۔ اہلِ معرفت صرف خدا کی ذات کو قدرت و طاقت کا منبع و مبداسمجھتے ہیں، دوسری تمام توانائیوں اور طاقتوں کو اسی سے وابستہ اور اسی کی عطا سمجھتے ہیں ۔ کیونکہ خدا کے سوا تمام کو معلول اور اسی سے عین الربط قرار دیتے ہیں اور اسکے لامحدود وجود اور اسکی بے پایاں قدرت کی ایک شعاع شمار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلاؤں اور سختیوں کے موقع پر بھی ہرگز محدود مادّی قوتوں پر اعتماد اور بھروسہ نہیں کرتے اور اپنا دستِ نیاز صرف اسی بے نیاز ((خدا))کے سامنے دراز کرتے ہیں۔

امام حسین ؑ اپنی اس مناجات میں عشقِ الٰہی سے سرشار دل کے ساتھ اپنے معبود سے محو کلام ہیں اور اپنے ایک ایک لفظ کے ذریعے خدا کی ذات پر اپنے ایمان، اعتماد اور توکل کا درس دے رہے ہیں۔

آپ ؑ کاپیغام یہ ہے کہ تمام ظاہری قدر توں اور طاقتوں کے اوپر، آخر کار کامیابیوں اور ناکامیوں کاتعین کرنے والی ذات، ذاتِ کردگار ہے، انسان کو چاہئے کہ صرف اسی سے دل لگائے اور صرف اسی سے امید رکھے۔

ومن اﷲ التوفیق و علیہ التکلان۔