حق و باطل کی ازلی جنگ
کلامِ امام حسین ؑ کی چند کرنیں • حجت الاسلام محسن غرویان
((لَو لَم یَکُنْ فی الدُّنیاٰ مَلْجَاٌ ولا مَأویٰ لَماٰ باٰیَعْتُ یَزیدَ بْنَ مُعاوِیَۃَ))
((اگر اس وسیع و عریض دنیا میں میرے لئے کوئی بھی پناہ گاہ نہ رہے، تب بھی میں یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کروں گا۔))(۱)
تشریح و تفسیر
۱ ۔ بے شک انقلابی اور مکتبی رہنماؤں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ان کا صاف گو اور بے باک ہونا بھی ہے۔ ان کی یہ صفت نہ صرف دشمن کے حوصلوں کو پست کرنے میں انتہائی موثر ہوتی ہے بلکہ ان کے اپنے طرفداروں اور پیروکاروں کے عقیدے کی مضبوطی اوراستواری کا سبب بھی بنتی ہے اور انہیں بلند حوصلہ اور عزمِ صمیم عطا کرتی ہے۔
امام حسین ؑ کے مذکورہ بالا کلام میں سب سے پہلی قابلِ توجہ بات اس کلام کا واضح ہونا اور اس کا لب ولہجہ ہے، جو اپنے مکتب اور عقیدے کی حقانیت پر عزمِ راسخ اور پختہ ایمان کا عکاس ہے اور خود یہ چیز تمام انقلابی رہنماؤں کے لئے نمونۂ عمل ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط ارادوں کے حامل رہنماؤں اور ڈھل مل یقین اور کمزور ارادے کے حامل لیڈروں کی پہچان کا ایک معیار ہے۔ (۲)
۲۔ حاکمیتِ الٰہی کے لئے مصروفِ کار ایک اجتماعی تحریک اور انقلابی جنبش کو صرف اور صرف خدا کی قدرت پر بھروسہ کرنا چاہئے اور اسکے سوا کسی جائے پناہ پر نظر نہیں رکھنا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر تمام شیطانی قوتیں اس تحریک کے خلاف جنگ کا پرچم بلند کر دیں، تب بھی اسے خوف و ہراس میں مبتلا نہیں کر سکیں گی۔
امام ؑ اپنے اس کلام میں انتہائی واضح انداز میں اعلان فرما رہے ہیں کہ میں نے خدا کے سوا کسی شخص یا کسی طاقت پر بھروسہ نہیں کیا ہے اور جہاں کہیں بھی ہوں اپنی صدائے مظلومیت اور اسلام کی حقانیت کی آواز عالمِ بشریت کے کانوں تک پہنچاتا رہوں گااور کائنات کے ہر ہر ذرّے کو آزادی اور حریت کی دعوت دوں گا۔
۳۔ جس طرح دن کی روشنی اور رات کی تاریکی کا ملاپ نہیں ہوسکتا، اسی طرح حق اور باطل کے درمیان بھی آپس میں نباہ ممکن نہیں ۔کیونکہ نور اور ظلمت، سفیدی اور سیاہی ایک دوسرے سے ایسے متضاد امور ہیں جن کا ایک جگہ جمع اور متحد ہونا کسی صورت ممکن نہیں۔ لہٰذا تاریخِ بشریت کے اوراق ہمیشہ ان دو گروہوں کے باہمی تصادم کے گواہ ہیں ۔
تاریخ کے کسی دور میں حق اور باطل کے پیروکار، آپس میں صلح و مسالمت کے ساتھ نہیں رہ سکے اور نہ رہ سکتے ہیں۔
امام حسین ؑ اپنے کلام میں دنیا بھر کے حریت پسندوں کے قائد کی حیثیت سے یزید کا برائی، بدکرداری اور ظلم و ستم کی علامت کے طورپر تعارف کراتے ہوئے، انتہائی واضح الفاظ میں یہ اعلان فرماتے ہیں کہ تاریخ کے تمام حسین اور حسینی، یزید ابن معاویہ جیسے ظالموں اور تاریخ کے دوسرے یزیدیوں کے ہاتھ پر نہ تو کبھی بیعت کریں گے اور نہ ہی ان سے مصالحت اور ساز باز کریں گے۔
۱۔ مقتلِ خوارزمی۔ ج ۱۔ص ۱۸۸۔ مقتلِ عوالم۔ ص ۵۴
۲ ۔ جب ایران کے اسلامی انقلاب کے قائد، امام خمینی ؒ کو جبراً عراق چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تو آپ نے فرمایا تھا کہ : اگر کسی حکومت نے مجھے اپنے ملک میں اقامت کی اجازت نہ دی، تو میں کشتی میں سوار ہو کر سمندر کی بھپری ہوئی موجوں کے درمیان اپنی صدا کو جو دراصل مظلوم مسلمانوں کی صدا ہے، اہلِ دنیا کے کانوں تک پہنچاؤں گا۔