کلامِ امام حسین ؑ کی چند کرنیں

اِنَّ قَوماً عَبَدواﷲَ رَغْبَۃً فَتِلکَ عِبادَۃُ التُّجّٰارِ وَاِنَّ قَوماً عَبدواﷲَ رَھْبَۃً فَتِلکَ عَبادَۃُ الْعَبیٖدِ وَاِنَّ قوماًعَبَدواﷲ شُکْراً فَتِلکَ عِباٰدَۃُ الْاَ حرارِ وَھی اَفْضَلُ العِباٰدَۃِ

بے شک ایک گروہ بہشت اور آخرت کی ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کی امید میں خدا کی عبادت کرتاہے، ایسی عبادت تاجروں کی سی عبادت ہے۔ ایک دوسرا گروہ عذاب اور دوزخ کے خوف سے خدا کی عبادت میں مشغول ہے، یہ غلاموں کی سی عبادت ہے۔ جبکہ ایک اور گروہ ہے جو خدا کو شکر و سپاس کے لائق اور اس کاحقدار سمجھ کر اسکی عبادت کرتا ہے، ایسی عبادت احرار اور آزادوں کی عبادت ہے، اور یہی سب سے بہتر عبادت ہے۔ (۱)

تشریح و تفسیر

۱ ۔ عربی زبان میں ((عَبَّدَ)) کے معنی ہیں صاف کرنا اور ہموار بنانا۔ لہٰذا جب ((عبدّ الطریق))کہا جاتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں راستے کو صاف اور ہموار کرنا۔ لفظ عبادت بھی جو خدا کی پرستش کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے در حقیقت ایک طرح سے دل کو گندگی سے پاک و صاف کرنے اور روح کو صرف اور صرف خالقِ کائنات کی بندگی کے لئے خالص کر دینے کی جانب اشارہ ہے۔

خدا کے مخلص بندوں کے دل آیئنے کی مانند شفاف اور روشن ہوتے ہیں اور ان سے صرف نورِ الٰہی منعکس ہو تا ہے، کسی بھی صورت میں اس پر گناہوں کا زنگ اور نافرمانیوں کی گرد یا تو بیٹھی ہی نہیں یا حقیقی تو بہ کے ذریعے صاف ہو چکی ہے۔

۲ ۔ ((رغبت)) کے معنی کسی چیز کی جانب میل یا اسکی جانب جھکاؤ ہے ۔اگرچہ امام حسین ؑ کے اس کلام میں اس بات کا ذکر نہیں ہوا ہے کہ یہ میل و رغبت کس جانب ہے لیکن قرائن، آیات اور دوسری روایات پیشِ نظر ہوں تو واضح ہے کہ اس سے مراد نعمات اور بہشت میں خداوند عالم کی طرف سے ملنے والی جزا کی جانب میل و رغبت ہے۔

تاجر پیشہ انسان اپنے تجارتی سودوں میں جب کسی کو کوئی مال دیتا ہے تو اس کے عوض کوئی چیز وصول کرتا ہے ۔یہاں کسی کو کچھ دینا، اس سے کچھ لینے کے لئے ہوتا ہے۔ یعنی اگر فریقِ مقابل مال کے بدلے میں اسے پیسے یا کوئی جنس ادا نہ کرے، تو تاجر یا ہرگز اسے کچھ حوالے نہیں کرے گا۔

لوگوں کا ایک گروہ بھی عباداتِ الٰہی جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ میں یہی نکتۂ نظر رکھتا ہے۔ یعنی ان امور کی انجامدہی کو در حقیقت خد اسے تجارت اور ایک سودا سمجھتا ہے۔ اور خود کو خدا کے سامنے طلبگار اور حقدار شمار کرتا ہے، اور ہر عبادت کو کسی لذت اور نعمت کے حصول کے لئے انجام دیتا ہے۔ یہاں تک کہ بالفرض اگر خداوند عالم ان نعمات اور لذتوں کا وعدہ نہ کرتا، تو یہ لوگ بھی کبھی خدا کے سامنے سجدہ ریز نہ ہوتے اور اسکی عبادت نہ کرتے۔ شایدیہ کہنا درست ہو کہ اکثر افراد کی عبادات صرف اُخروی جزا اور نعمتوں کے لئے ہوتی ہیں۔

۳ ۔ انسان اپنے مزاجوں اور ذہنوں میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں۔ ایک گروہ لذتوں اور خوشیوں کااس قدر شوقین ہوتا ہے کہ ان کے حصول کے لئے ہر قسم کے خطرات قبول کرنے پر تیار ہو جاتا ہے، تاکہ مثلاً بہترین خوراک اور پوشاک حاصل کرلے ۔ ایسے لوگ کبھی کبھی معمولی معمولی چیزوں کے لالچ میں بھی صعوبتیں، مشقتیں اور مشکلات جھیلتے ہیں۔

ان لوگوں کے برعکس ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جنہیں لذتوں سے کچھ خاص لگاؤ اور رغبت نہیں ہوتی، لیکن صعوبتوں اور سختیوں سے شدید خوفزدہ رہتے ہیں اور معمولی تکلیف اور دباؤ برداشت کرنے کی تاب نہیں رکھتے۔ممکن ہے ایسے لوگ کبھی معمولی عذاب اور سختی کے خدشے کی بنا پر بہترین لذتوں اور خوشیوں کو چھوڑ دیں، تاکہ اس طرح اپنے آپ کو سختیوں اور صعوبتوں سے محفوظ رکھ سکیں۔بالفاظِ دیگر ان لوگوں کے لئے اہم چیز مشکل اور زحمت سے محفوظ رہنا ہے، خواہ کوئی لذت ملے یا نہ ملے ۔

پہلا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو عباداتِ الٰہی کے مسئلے میں تاجروں کا سا رَویہ رکھتے ہیں۔ (ایسے ہی لوگوں کی جانب ہم دوسرے نمبر کے ضمن میں اشارہ کر چکے ہیں )جبکہ اس پہلے گروہ کے برخلاف، دوسرا گروہ عبادات اور خدا کی طرف سے عائد کردہ فرائض کو حصولِ لذت کے لئے انجام نہیں دیتا، بلکہ مشکلات سے محفوظ رہنے اور خدا کے عذاب اور سختیوں سے نجات کی خاطر بجا لاتا ہے۔ شاید اگرصرف اور صرف اجر و ثواب کا مسئلہ درپیش ہوتا، عذاب اور سزائیں نہ ہوتیں، تو یہ گروہ کبھی خدا کی عبادت اور اسکے احکام کی بجاآوری پر تیار نہ ہوتا، لیکن کیونکہ الٰہی احکام انجام نہ دینے کی صورت میں عذاب اور دوزخ کا خطرہ درپیش ہے، لہٰذا یہ خدا کی عبادت بجا لاتے ہیں۔

۴۔ لوگ خداوند عالم کی شناخت و معرفت کے حوالے سے بھی مختلف درجات و مراتب رکھتے ہیں۔ اس معرفت کی انتہا وہ معرفت ہے جو اولیائے خدا اور انبیائے الٰہی ذاتِ پروردگار کے بارے میں رکھتے ہیں۔ ہمارے عصر کے عظیم فقیہ، عارف اور بلند پایہ فلسفی، جمہوری اسلامی ایران کے بانی، حضرت امام خمینیؒ کے بقول یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے سامنے اپنی کسی حیثیت کے قائل نہیں ہوتے اور کائنات میں جو کچھ بھی ظاہر و پنہاں ہے اسے اس (ذاتِ باری) کے جلوؤں میں سے ایک جلوہ اور اس کی ہستی کے مظاہر میں سے ایک مظہر سمجھتے ہیں۔

ان لوگوں نے خدا کو عبادت و پرستش کا مستحق سمجھ کر جان و دل سے اسکی عبودیت اور بندگی کا طوق اپنی گردن میں ڈال لیا ہے اور ہر حال میں اسکے فرمان کے سامنے تسلیم ہیں۔ نعمتوں کی امید یا عذاب اور سختیوں کے خوف سے نہیں بلکہ صرف اس لئے اپنے خالق کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں کیونکہ اسے عبادت و پرستش کے لائق سمجھتے ہیں۔

یہ لوگ درحقیقت نہ ہی تو آخرت کی نعمتوں اور خوشیوں کی چاہت کے اسیر ہیں اور نہ دوزخ کے خوف سے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ اپنے معبود کے جلال و جمال میں محو ہیں اور صرف وہی ان کی نظروں کا محور ہے، کسی اور طرف ان کی نگاہ جاتی ہی نہیں۔

۵ ۔ تاجر، غلام اورآزاد کی ان تین صفات کا موازنہ کرکے شاید یہ کہا جا سکے کہ پہلے دو گروہوں پر تیسرے گروہ کویہ فوقیت اور امتیاز حاصل ہے کہ : پہلے دو گروہ (تاجر اور غلام) ایک طرح کی اسیری میں مبتلا ہیں۔ ایک گروہ نعمتوں اور لذتوں کا اسیر ہے، تو دوسرامشکلات اورصعوبتوں کے خوف کا اسیر۔ وہ واحد گروہ جسے ان امور میں سے کسی کی فکر نہیں اور جو خدا کی عبادت صرف اور صرف اسے عبادت کا مستحق سمجھ کر کرتا ہے، وہ تیسرا گروہ ہے، جو واقعاً آزاد کی صفت کا حقدار ہے۔

۶ ۔ہماری اس گفتگو سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ تیسرے گروہ( آزاد) کی عبادت کیوں سب سے بہتر عبادت اور پرستش کی بہترین قسم شمار کی گئی ہے۔

آخری جملے میں ((افضل ))کی صفت کااستعمال، ایک اور ظریف نکتے کی جانب اشارہ کرتا ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ ہر چند تیسرے گروہ کی عبادت برترین اور افضل ترین عبادت ہے لیکن اسکے معنی یہ نہیں ہیں کہ پہلے دو گروہوں کے اعمال یکسر عبادت ہی شمار نہیں کئے جائیں گے۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، اس موازنے میں تینوں گروہوں کے عمل کی وجہ اشتراک خدا کی عبادت اور پرستش ہے ۔ لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا تھا، خدا کے بارے میں انسانوں کی شناخت و معرفت کے مختلف مراتب و درجات کی بنیاد پر ان کی عبادتوں کی کیفیت اور قدر و قیمت بھی مختلف ہوتی ہے، اوراسکی وجہ سے بعض کو بعض پر امتیاز حاصل ہو جاتا ہے ۔لہٰذا ہمیں اپنی عبادات اوردینی فرائض کی انجامدہی کے دوران ہرگز پژمردگی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ ممکن ہے ہم انہی صوری اور ظاہری اعمال کی تکرار اور مسلسل انجامدہی کے اثر سے خدا کی معرفت کے بلند درجات و مراتب تک پہنچ کر اپنی عبادات کی کیفیت اور قدر و قیمت میں اضافہ کر لیں۔

۱۔ تحف العقول۔ ص ۱۷۵