مہدئ منتظر ؑ قیامِ عدل اورغلبۂ اسلام کی امید

اس مقام پر ایک مسئلہ پایا جاتا ہے، جس پر توجہ دینے اور اسے بیان کرنے کی ضرورت ہےوہ مسئلہ امام مہدی ؑ سے متعلق ہے، جس کا ذکر رسولِ کریم ؐکے کلام میں آیا ہےاس بارے میں ہم دو راستوں سے آگے بڑھیں گے اور یہ دونوں ہی راستے رسولِ اکرمؐ کے کلام سے منعکس ہوتے ہیں

\r

پہلا کلام جس کا ذکر ہم اس سے پہلے بھی کر چکے ہیں، اس میں رسولِ کریم ؐنے قرآن اور عترت سے وابستگی کے بارے میں گفتگو کی ہے اور دوسرے کلام میں امام مہدی ؑ کے حوالے سے گفتگو فرمائی ہے

\r

پہلا کلام یہ ہے کہ:

\r

”انّی تاکٌ فیکم الثقْلین کتاب اﷲ و عترتی اھل بیتی، لن تضلوا ما تمسّکتم بھماوانَّھمالن یفترقاحتی یرداعلیَّ الحوض۔“

\r

”میں تمہارے درمیان دوگراں قدر چیزیں کتابِ خدا اور اپنے اہلِ بیت چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان دو نوں سے وابستہ رہو گے گمراہ نہیں ہو گے، اور یہ دونوں حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچنے تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔“

\r

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کایہ قول، ایک مسلمان کے ناطے تاریخ کے ہر دور میں ہمیں یہ سوچ دیتا ہے کہ ہم قرآن سے وابستہ رہیں، کسی اور چیز کو اس کی جگہ نہ دیںاسی طرح اہلِ بیت ؑ سے بھی وابستہ رہیں، جو اپنی فکر اور طرزِ عمل میں قرآنِ کریم سے جدا نہیںلہٰذالازم ہے کہ ہمیشہ یہ نظریہ (قرآنِ کریم) اوراس کے لئے رہنما (اہلِ بیت ؑ) موجود رہے

\r

قرآنِ کریم، ایک ایسا نظریہ پیش کرتا ہے جس میں باطل کسی بھی طرف سے داخل نہیں ہو سکتا اور ائمۂ اہلِ بیت ؑ، رسولِ کریمؐ کے بعدایسے امین اور صالح رہنما ہیں جواس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ لوگوں کی زندگی میں قرآنِ کریم پر عمل کی کیا حالت ہےنیزاسکے مفاہیم اور تعلیمات کو انحراف، فساد، لغزش اور خطا سے محفوظ رکھتے ہیں

\r

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی فکری اور عملی روش کا بغور جائزہ لیتے رہیں، اور یہ دیکھتے رہیں کہ ہم قرآن سے وابستہ ہیں یا نہیں؟ کیونکہ قرآن سے وابستگی کا مطلب قرآن کی فراہم کردہ تعلیمات، اسکے قوانین، اسکے دکھائے ہوئے راستوں، اسکے بتائے ہوئے وسائل و ذرائع، اسکے متعارف کرائے ہوئے اہداف اور ہمارے باہمی تعلقات کے لئے اسکے پیش کردہ لائحۂ عمل کی پابندی ہےیہی قرآن سے وابستگی کا حقیقی مفہوم ہےقرآنِ مجید سے تمسک اور اس سے وابستگی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم قرآنِ کریم کو ایک علامت کے طور پر اپنے سینے سے لٹکائے رکھیں، یا اسکی خطاطی کو گھروں میں آویزاں کریں، یا بغیر غور و فکر کے اسکی تلاوت کریں

\r

جب خداوندِ کریم انسان سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ قرآنِ مجید سے وابستہ ہو، تو دراصل اس سے چاہتا ہے کہ وہ قرآن کو اپنے لئے چراغِ ہدایت قرار دےتاکہ جب زمانہ گمراہی کا شکار ہو، تو وہ اس سے رہنمائی حاصل کرےجب تاریکیاں اس پر حملہ آور ہوں، تو قرآن کو نور اور روشنی قرار دے، اسے اپنا امام بنائے اور اس سے رہنمائی حاصل کرے

\r

نیز خدا نے انسان کو حکم دیا ہے کہ قرآن کو اپنا پیشوا قرار دے، اسکی پیروی کرے، کوئی ایسی بات نہ کہے جو قرآن کے موافق نہ ہو، کوئی ایسا عمل انجام نہ دے جو قرآن کے مطابق اور اسکی تعلیمات سے ہم آہنگ نہ ہو

\r

اسکے بعد انسان کو اہلِ بیت ؑ کی قیادت اوراُن کی رہبری سے وابستہ ہونا چاہئےائمۂ اہلِ بیت ؑ خدا کی طرف سے حلال اور حرام کئے گئے امور میں خدا اور اسکے پیغمبرؐ کے امین ہیںلہٰذا انسان کو ان کی قیادت اور رہبری سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئےاسے چاہئے کہ اگر وہ حاضر ہوں، تو ان سے وابستہ رہے اور اگر وہ غیبت میں ہوں، تو ان لوگوں سے وابستہ رہے جن کی انہوں نے نشاندہی فرمائی ہے

\r

اہلِ بیت ؑ کا ارشاد ہے کہ:

\r

”من کان من الفقھاء صائناً لنفسہ، حافظاًلدینہ، مخالفاًلھواہ، مطیعاً لِا مرمولاہ فللعوام ان یقلّدوہ۔“

\r

”فقہا میں سے وہ شخص جوپرہیز گار ہو، دین کا محافظ ہو، نفسانی خواہشات کا مخالف ہو، اور اپنے مولا کے احکام کامطیع و فرمانبردار ہو، عوام کو چاہئے کہ اسکی تقلید کریں۔“

\r

یا وہ حدیث جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ :

\r

”وامّاالحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھاالی رواۃحدیثنا، فانّھم حجّتی علیکم وانا حجۃ اﷲ علیھم۔“

\r

”پیش آمدہ حوادث میں ہماری احادیث کے راویوں سے رجوع کرو، کہ یہ تم پر میری حجت ہیں اور میں اُن پر خدا کی حجت ہوں۔“

\r

یا اہلِ سنت کی وہ احادیث جن میں ارشاد ہوتا ہے کہ:

\r

”العلماء ورثۃ الانبیاء۔“

\r

”علما انبیا کے وارث ہیں۔“

\r

یا :

\r

”الفقھاء امناء الرسل مالم یدخلوا فی الدنیاقیل: یا رسول اﷲ! ومادخولھم فی الدنیا؟ قال: اتباع السلطان، فاذاافعلواذلک فاحذروھم علی دینکم۔“

\r

”فقہا جب تک دنیا دار نہ ہو جائیں اس وقت تک انبیا کے امانتدار ہیںپوچھا گیا:اے اللہ کے رسول ؐ!اِن کے دنیا دارہونے کے کیا معنی ہیں؟ فرمایا:حاکم کی پیرویپس اگر وہ ایسا کریں، تو اپنے دین کی طرف سے ان سے محتاط رہو۔“

\r

نیز :

\r

”واذارایتم العالم محباً للدنیا فاتھموہ علی دینکم، فانَّ کل محبّ یحوط مااَحبّ۔“

\r

”اگر تم دیکھو کہ عالم دنیا طلب ہے، تو اپنے دین کے بارے میں اس سے محتاط رہو، کیونکہ جسے جو چیز عزیز ہوتی ہے، وہ اسکے بارے میں محتاط رہتا ہے۔“

\r

زمانۂ غیبت میں اپنے اسلامی فریضے پر عمل پیرااور اسلامی اصولوں کی پاسداری کے ساتھ سرگرمِ عمل پرہیز گار مجتہد علما ہی وہ لوگ ہیں جو اس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کی قیادت قبول کی جائےالبتہ جب تک اُن کی رہنمائی قرآن سے مطابقت رکھتی ہو

\r

یہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے کلام کا مفہوم تھاآپ کا دوسرا کلام امام مہدی ؑ کے بارے میں ہےاس کلام میں آنحضرت ؐنے فرمایا ہے کہ :

\r

”یخرج لیملا الارض قسطاًوعدلاً کما ملئت ظلماًوجوراً۔“

\r

”وہ قیام کرے گااور زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے پُر کر دے گا جیسے وہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی۔“

\r

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس کلام کا مفہوم کیاہے؟

\r

اس حدیث کا مفہوم ہمیں اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ ظلم ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول ہے اوراسے انسانیت کے لئے ایک مشکل قرار دیا جاتا ہےجبکہ عدالت و ہ چیز ہے جو اس مشکل سے نجات دلا سکتی ہے اور انسان اور اسکی زندگی کے لئے ترقی، کمال اورسکون کا باعث ہے

\r

یہ حدیث ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم ہمیشہ اس مسئلے کو سامنے رکھیں کہ حضرت امام مہدی ؑ ظلم وستم کاخاتمہ کریں گے اور عدل و انصاف کو زندگی کی واحد بنیاد کے طور پر قائم کریں گےپروردگار کے اذن سے دنیا میں عدالت کو پھیلائیں گے اور خدا کے ارادے اور اپنے اور اپنے ہمراہ موجودمجاہدین کے جہاد کے ذریعے ظلم کا خاتمہ کریں گے

\r

ہم امام ؑ کے بارے میں اپنے موقف اور طرزِ عمل کا تعین کس طرح کریں؟
اگر ہم ان کے منتظر ہیں اور اس بات کے متمنی ہیں کہ وہ دنیا میں عدل وانصاف قائم کریںاور اگر ہم عدالت پسند اور اسے چاہنے والے ہیں، تو لازم ہے کہ یہ عدالت پسندی ہماری زندگی میں عملی طور پر دکھائی دے

\r

کیونکہ اگر انسان کسی چیز کو پسند کرتا ہے، اور اسکے جامۂ عمل پہننے کا خواہشمند ہوتا ہے، تو قدرتی طور پر اسے اس چیز کو اپنی زندگی اور اپنے معاشرے کی زندگی میں جامۂ عمل پہنانے کے لئے کوشش کرنی چاہئےاب خواہ اسے اس جدوجہد کے نتیجے میں نقصان پہنچے، خواہ فائدہ حاصل ہواسے چاہئے کہ تمام امور میں اپنے خدا کے ساتھ عدالت کامعاملہ رکھے، اپنے گھرانے اور بیوی بچوں کے ساتھ عادلانہ طرزِ عمل اختیار کرےجن لوگوں کے ساتھ بھی اس کا میل جول ہواُن سے عادلانہ بنیادوں پر روابط و تعلقات استوار رکھے، اپنے ہاتھ یا زبان کے ذریعے ان پرظلم نہ کرے، اگراُن سے کوئی مال لے، یا وہ اُس پر کوئی حق رکھتے ہوں، تو اِن معاملات میں اُن کے ساتھ ظلم نہ کرےیہ ہیں عادل ہونے کے معنی

\r

اگر ہمارا طرزِ عمل یہ نہ ہو، تو پھر ہم کس بنیاد پر امام مہدی ؑ کے منتظر ہیں؟
اگر ہماری اپنی شخصیت میں ظلم کی نشانیاں موجود ہوں، تو ہمارا شمار ان لوگوں میں ہو گا جن کے خلاف امام ؑ جنگ کریں گےلہٰذا اگر ہماری زندگی ظالمانہ شمار ہو، تو ہم کیسے ان کے منتظر ہوں گے؟

\r

یہ تمام باتیں ہم سے تقاضا کرتی ہیں کہ ہم عادلوں اور عدالت پیشہ لوگوں کا ساتھ دیں اور ظالموں سے دورر ہیںکیونکہ اگر انسان ظالموں کے ہمراہ ہو، تو اُن کی تائید کرتا ہے، اُن کی حوصلہ افزائی کا موجب ہوتا ہے، اُن کے منصوبوں کو جامۂ عمل پہناتا ہے، اُن کا ساتھی بن کے جنگ کرتا ہے، اُن کے کاموں میں اُن کا ہاتھ بٹاتا ہےاور اگر کوئی انسان ایسا ہو، تو وہ ظالم ہے، ظالم کی پارٹی اور اسکے گروہ میں شامل ہےاگر وہ ظالم کی پارٹی اور اسکے گروہ کا حصہ ہو، تو پھر یہ انسان کیسے امام مہدی ؑ کا منتظر ہوسکتا ہے؟ جبکہ امام مہدی ؑ اسکے گروہ اور (ظالموں کا ساتھی ہونے کی وجہ سے) خود اسکے خلاف جنگ کریں گے

\r

لہٰذاامام مہدی ؑ کا حقیقی انتظار یہ ہے کہ ہم ایسا موقف اختیار کریں جو ہمیں اس صف میں کھڑا کرے جس میں ہم امامِ زمانہ ؑ کے ساتھ ہوں، ہمیں ایک ایسے راستے پر چلائے جس پر رہتے ہوئے ہم امام ؑ کے ہمرکاب ہو کر جہاد کریں

\r

ہم میں سے ہر ایک اُن کا ساتھی بننے کی خواہش رکھتا ہےہم دعا کرتے ہیں کہ:

\r

”اللھم اجعلنا من انصارہ واعوانہ والمستشھدین بین یدیہ۔“

\r

”بارِالٰہا ! ہمیں اُن کا ناصر و مددگار اور اُن کی رکاب میں شہید ہونے والا قرار دے۔“

\r

امام ؑ کے ساتھی اسلام اور عدل و انصاف کے ساتھی ہیں، امام ؑ کے مددگاروں کو اسلام اور عدل و انصاف کا مددگار ہونا چاہئےامام ؑ کا ساتھ دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے والے لوگ، وہ لوگ ہیں جو اپنے دینی فریضے کی ادائیگی کے دوران اور اولیائے الٰہی اور خدا کے کمزور و لاچار بندوں کی حمایت میں فرمانِ الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے شہادت کو گلے لگاتے ہیں

\r

لہٰذا اگر (آج) ہم کفاراور ظالمین کے مددگار ہوں اور ہم گمراہ لوگوں کی صف میں شمارکئے جاتے ہوں، تو پھرہم کس طرح امامِ زمانہ ؑ کے یاور و مددگار بن سکتے ہیں؟ اور کیسے اُن کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہونے والے ہو سکتے ہیں؟

\r

لہٰذا ہمیں اس مسئلے پر انتہائی سوچ بچارسے کام لینا چاہئےکیونکہ اگر اس بارے میں ہماری سوچ سطحی اورگہرائی سے عاری ہو، تو اس بات کا سبب بنے گی کہ ہم زبان سے تو اپنے آپ کو اُن کا ناصر و مددگار کہہ رہے ہوں گے لیکن لا شعوری طور پر اُن کے دشمنوں کی صف میں ہوں گے
لہٰذا اس حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے کہ اسلام کے نکتۂ نظر سے ہمیں تمام انسانوں کے ساتھ عادلانہ طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئےاس نکتے کو ہم اس آیۂ کریمہ سے اخذ کر سکتے ہیں جس میں ارشادِ باری ہے کہ:

\r

وَ لااَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْااِعْدِلُوْاہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی

\r

اور خبردار کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اس بات پرآمادہ نہ کردے کہ تم انصاف کادامن چھوڑ بیٹھوانصاف سے کام لو کہ یہ تقویٰ سے قریب ترہےسورۂ مائدہ ۵آیت ۸

\r

یعنی تمہاری دینی، اجتماعی اور سیاسی دشمنیاں، تمہیں اپنے دشمنوں اور مخالفین کے ساتھ عادلانہ طرزِ عمل اختیار کرنے سے روک نہ دیںکیونکہ عداوت اور دشمنی ایک چیز ہے اور عدالت اور انصاف دوسری شئےلہٰذا اگرکوئی سرسخت کافر بھی تم پر کوئی حق رکھتا ہو، تو تمہیں اُس کے حق کی حفاظت کرنی چاہئے اور اُسے اُس کا حق دینا چاہئے

\r

اوردوسری بات یہ کہ ”اصولِ کافی“ میں ائمہ ؑ میں سے کسی امام ؑ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ:

\r

اوحی اﷲ الی نبیٍّ فی مملکۃ جبارمن الجبارین، قال لہ: ائتِ ھذا الجبّارو قل لہ انما استعملتک لتکفَّ عنی اصوات المظلومین، فانّی لن ادعَ ظلا متھم ولوکانواکفّاراً

\r

خداوندِ عالم نے ظالم حکمرانوں میں سے ایک کی سلطنت میں زندگی بسر کرنے والے ایک پیغمبر کو وحی کی اور اُن سے فرمایا کہ اس ظالم کے پاس جائیں اور اس سے کہیں کہ میں تمہارے لئے ایک ایسا عمل انجام دیتا ہوں جس کے عوض (تم یہ کرو کہ) میرے کانوں تک مظلوموں کی صدائیں نہ پہنچ پائیں، کیونکہ میں مدد کے لئے دی جانے والی صداؤں کو مسترد نہیں کر سکتا، چاہے یہ صدائیں دینے والے کافر ہی کیوں نہ ہوں

\r

لہٰذا خداوندِ عالم نے ظلم کو تقسیم نہیں کیاہے، اسکے حصے بخرے نہیں کئے ہیں کہ کوئی ظلم جائز ہو اور کوئی نا جائزاسی طرح خدا وندِ عالم ہم سے خطاب فرماتا ہے کہ:

\r

”اِنَّ اﷲَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ۔“

\r

”بے شک خداعدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔“ (سورۂ نحل ۱۶آیت ۹۰)

\r

”وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی۔“

\r

”اور جب بات کرو تو انصاف پر مبنی، چاہے اپنے اقربا کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔“ (سورۂ انعام ۶آیت ۱۵۲)

\r

”یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاﷲُ اَوْلٰی بِہِمَا فَلااَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا۔“

\r

”اے اہلِ ایمان! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور خدا کے لئے گواہ بنو، چاہے اپنی ذات یااپنے والدین اور اقربا ہی کے خلاف کیوں نہ ہوجس کے لئے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیر اللہ دونوں کے لئے تم سے اولیٰ ہےلہٰذا خبردار خواہشات کی اتباع نہ کرناتاکہ انصاف کرسکو۔“
(سورۂ نساء ۴آیت ۱۳۵)

\r

لہٰذا اگر ہم حقیقی معنوں میں عدالت پر یقین رکھتے ہیں، تو لازم ہے کہ ہم اپنے تمام مقاصد میں شعور و آگہی، بیداری، شجاعت اور منصوبہ بندی کی بنیاد پرقدم اٹھائیںکیونکہ حدیث امام مہدی ؑ کے حوالے سے ایک اہم امر کی جانب اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ کہ: یملا الارض قسطاًوعدلاً کما ملئت ظلماًوجوراً (زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے پُر کر دے گا جیسے وہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہو گی) یعنی وسیع پیمانے پر عدالت کا قیام پوری زندگی کے لئے ایک مقصد کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک اسلامی اصول شمار ہوتا ہےاگر ہم سورۂ حدید کی پچیسویں آیت:

\r

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ

\r

بے شک ہم نے اپنے پیغمبروں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجاہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کونازل کیا ہے، تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریںسورۂ حدید۵۷آیت۲۵

\r

جسے ہم ہمیشہ پڑھا کرتے ہیں کی بنیاد پر گفتگو کریں، تو پتا چلتا ہے کہ اس میں قسط سے مراد عدالت ہی ہے اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے تک تمام رسالتیں، عقیدے، قوانین اور تعلیمات انسان کے اپنے آپ سے، اپنے خدا سے اور اپنے اردگرد رہنے والے انسانوں سے تعلقات میں عدالت کے قیام کے لئے تھیں

\r

لہٰذا عدل و انصاف ایک ایسا بنیادی مسئلہ ہے جس کی بنیاد پر اسلام استوار ہوا ہےلہٰذا انسان کو چاہئے کہ خود سے عدالت برتے اور کفر، سستی، غفلت اور گمراہی میں مبتلا ہو کر اپنے آپ پرظلم نہ کرےخدا کے ساتھ عدالت سے پیش آئے، اسکی وحدانیت کا قائل ہو، اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دے، اسکی اطاعت کرے، اسکی مخالفت سے باز رہے، کسی پرظلم نہ کرے، اپنے ماحول اور دنیا سے بھی عادلانہ طرزِ عمل اختیارکرےاور حق کے سوا کوئی اور سلوک نہ کرے