مہدئ منتظر ؑ قیامِ عدل اورغلبۂ اسلام کی امید

کسی کاطویل عمرپاناعقلاً ناقابلِ قبول بات نہیں ہےکیونکہ عقل اس میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کرتیجب تک انسان کے اعضاو جوارح کام کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، اور جب تک خدا چاہے انسان طویل عمر پا سکتا ہےوہ علمی نظریات و افکارجن میں انسان اور اسکی طولِ عمر کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے، اُن کی نظر میں اس حوالے سے کوئی سنجیدہ رکاوٹ اور مانع نہیںجب تک خدا چاہے، انسان طویل عمر گزار سکتا ہے

\r

جدید سائنس کہتی ہے کہ ہم اب تک ایسے اصول اور نظریات تک رسائی حاصل نہیں کر سکے، جن کے ذریعے خلیوں (cells) کی تجدید اور ان کی بقا کا راز دریافت کر سکیںاگر ہم یہ چیزیں دریافت کرنے میں کامیاب ہو جائیں، تو انسان طویل زندگی بسر کر نے کے قابل ہو سکتا ہےلہٰذا نظری (theoretically) اعتبارسے (طولِ عمر میں) کوئی رکاوٹ نہیں پائی جاتیلیکن سائنس کا کہنا یہ ہے کہ اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکاہے جس کے ذریعے طولِ عمر کے موضوع کا حقیقی اور خارجی دنیا میں تجربہ کیا جا سکے

\r

یوں عقل اورعلم اس حوالے سے کوئی رکاوٹ محسوس نہیں کرتے اور قرآنِ کریم نے بھی خدا کے ایک نبی (حضرت نوحؑ) کی طولانی عمر کو ثابت کیا ہےحضرت نوح علیہ السلام (طوفان سے قبل) اپنی قوم کے درمیان نو سو پچاس سال رہے تھےطوفان کے بعد آپ کتنی مدت تک حیات رہے، اس بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں

\r

لہٰذا جو ہستی قدرتِ الٰہی کے ذریعے نو سو پچاس سال زندگی بسر کر سکے، وہ ہزار سال اور زندگی گزار سکتی ہےاس بنیاد پر وہ امور جو اُس زمانے میں ممکن ہو چکے ہیں، اُن کے کسی دوسرے زمانے میں واقع ہونے کا امکان بھی پایا جاتا ہےقرآنِ کریم تاکید کرتا ہے کہ طولِ عمر کوئی محال بات نہیں ہےحتیٰ اس کا شمار ویسے بعید مسائل میں بھی نہیں کیا جا سکتا جیساحضرت نوحؑ کے معاملے میں تھا

\r

آج کل کے دور میں ہم سنا کرتے ہیں کہ فلاں انسان نے دوسو سال، تین سو سال عمر پائی ہےلہٰذا جب اس قدر عمر ممکن ہے، تو اس سے زیادہ عمر بھی ایک ممکنہ بات ہےالبتہ خدا کی قدرت ان سب چیزوں سے بالا ہے، لہٰذاامامِ زمانہ ؑ کی طویل عمر کا مسئلہ اُن اسلامی حقائق کے زمرے میں آتا ہے جن میں خارجی پہلو حضوری اور حقیقی پہلو سے ملا ہوا ہے

\r