مہدئ منتظر ؑ قیامِ عدل اورغلبۂ اسلام کی امید

اگر امامِ زمانہ ؑ ہمارے درمیان ہوتے ‘تو کیا کررہے ہوتے؟

مہدئ منتظر ؑ قیامِ عدل اورغلبۂ اسلام کی امید   •   آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ

یہ حالات، جن میں ہم چاروں طرف سے سخت چیلنجز میں گھرے ہوئے ہیں، ہمارے وجود کو بڑے بڑے خطرات کا سامنا ہے اور مختلف مشکلات نے ہمارا محاصرہ کیا ہوا ہےبعض لوگ پوچھتے ہیں کہ ان حالات کے مقابلے کے سلسلے میں مراجع، علما اور حوزۂ علمیہ کیا کردارادا کررہے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر ہمارے درمیان امامِ زمانہ ؑ ہوتے اور یہ تبلیغاتی، تعلیمی، سیاسی، اجتماعی اور عسکری وسائل ان کے اختیار میں ہوتے، تو وہ کیا کرتے؟
کیا میدان سے دور ی اختیار کرتے؟
کیا فکری چیلنجز کے مقابلے سے لاتعلق رہتے؟
کیاان چیلنجزسے مقابلے کی بجائے پسپائی اختیار کرتے؟
یا یہ کہ آپ مقابلہ کرنے، جدوجہدکرنے، ماحول بنانے، مشکلات کے حل اور مختلف مسائل پر قابوپانے کے لئے کام کرتے؟

\r

ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر ہم سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں دنیا سے مقابلے کی سکت نہیں رکھتے، تب بھی مراجع، علما اورحوزہ ہائے علمیہ کو دنیا کے ساتھ علمی مقابلے کا مناسب موقع حاصل ہےاور اگرہمیں اپنی سیاسی روش پر یقین ہو، تو ہم دنیا کو اس بات پر آمادہ کرسکتے ہیں کہ وہ سیاسی میدان میں ہمارا احترام کرے

\r

اگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم تمام میدانوں میں کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، تو ہمیں چاہئے کہ موجودہ ذمے داریوں کو اپنے درمیان تقسیم کر لیں، اور تمام اسلامی گروہ اپنی پوزیشن اور صورتحال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسلام کو درپیش مسائل کے مقابل اپنی ذمے داریاں ادا کریںاور اگر تمام گروہ خواہ وہ اصطلاحی معنوں میں دینی ہوں اور خواہ حوزۂ علمیہ سے باہر تعلیمی وثقافتی مراکز ہوں وہ اسلام اور مسلمانوں کی مشکلات کے حوالے سے اپنی ذمے داری کا احساس کریںاس طرح ہم عالمِ اسلام میں بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں

\r

آج اسلام کے لئے دنیا کے دروازے کھلے ہوئے ہیںلیکن ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ اسلام کو کس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا جائےہمیں جاننا چاہئے کہ ہمارا فہمِ اسلام کیا ہو اورہمیں اسلام کے ساتھ اپنے تعلق کاشعور ہونا چاہئے

\r

میں اپنے تمام بھائیوں کو، خواہ وہ علما اور دینی مدارس کے طلبا ہوں، خواہ کالج یونیورسٹی کے افراد، تلقین کرتاہوں کہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق غور و فکر کریں، زمانے کی روش اور اسکی زبان کو سمجھیں، اچھی طرح لوگوں کو پہچانیں، زندگی کے مسائل کا ادراک حاصل کریںکیونکہ آج دنیا زمانۂ پیغمبر ؐسے زیادہ اسلام کی طرف متوجہ ہےعصرِ حاضر میں صاحبانِ فکرو نظر اورمکالمے کو پسند کرنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہےایسے لوگ جنہیں مسائل اور سوالات درپیش ہیں، بہت ہیںیہ لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کی مشکلات کے حوالے سے گفتگو کی جائےلہٰذا یہ نہ سوچئے کہ دنیا میں اسلام کی قبولیت کے حوالے سے مشکل پائی جاتی ہےحقیقت یہ ہے کہ ہم خود مشکل کا شکار ہیں اور تصوریہ کرتے ہیں کہ لوگوں کو مشکل ہےاس پوری صورتحال کو شاعر نے اس شعر میں عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ :

\r

اذا ساء فعل المرء ساء ت ظنونہ
وصدّق ما یعتادہ من توھم

\r

”اگر کسی انسان کا کام بگڑ جائے تو اس کے خیالات بھی بگڑ جاتے ہیں

\r

اور وہ ہمیشہ اپنے وہم ہی کو درست سمجھنے لگتا ہے۔“

\r

ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم تن آسانی اور سستی کو پسند کرتے ہیںہمیں ایسے انسان بننے کی کوشش کرنی چاہئے جن کے بارے میں خدا نے فرمایا ہے کہ:

\r

”اَلَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اﷲِ وَ یَخْشَوْنَہٗ وَ لااَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اﷲَ وَ کَفٰی بِاﷲِ حَسِیْبًا۔“

\r

”وہ لوگ اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اسکے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں، اور اللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے۔“ (سورۂ احزاب ۳۳آیت ۳۹)

\r

اورایسے لوگوں کی طرح بن جائیں کہ:

\r

”اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ اِیْمَانًاوَقَالُوْا حَسْبُنَا اﷲُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اﷲِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْہُمْ سُوْٓءٌاوَّ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اﷲِ وَ اﷲُ ذُو فَضْلٍ عَظِیْم۔“

\r

”یہ وہ ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لئے عظیم لشکر جمع کرلیا ہے، لہٰذا ان سے ڈرو، تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے خدا کافی ہے اور وہی ہمارا ذمے دار ہےپس یہ مجاہدین خدا کے فضل وکرم سے یوں پلٹ آئے کہ انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی اور انہوں نے رضائے الٰہی کا اتباع کیا اور اللہ صاحبِ فضلِ عظیم ہے۔“ (سورۂ آلِ عمران ۳آیت ۱۷۳، ۱۷۴)

\r

جو کوئی آپ کی روح میں خوف و ہراس کے بیج بوتا ہے، راہِ خدا کی طرف دعوت، رضائے خدا کی خاطر وعظ و نصیحت اورخدا کی راہ میں جہاد کے بارے میں آپ کے اندر خوف و وحشت پیدا کرتا ہے، وہ شیطان کی راہ پر ہےکیونکہ خداوند متعال نے فرمایا ہے:

\r

”اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفاُااَوْلِیَآءَہٗ فَلااَا تَخَافُوْہُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْن۔“ َ

\r

”یہ شیطان صرف اپنے چاہنے والوں کو ڈراتا ہے، لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو اور اگر مومن ہو تو مجھ سے ڈرو۔“ (سورۂ آلِ عمران ۳آیت ۱۷۵)

\r

اور :

\r

”اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لااَا تَحْزَنْ اِنَّ اﷲَ مَعَنَا۔“

\r

”وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو، خدا ہمارے ساتھ ہے۔“ (سورۂ توبہ ۹آیت ۴۰)

\r

جب سخت ترین حالات میں مشرکینِ مکہ غار کے دہانے پر کھڑے تھے، اُن کے اور پیغمبرؐ کے درمیان چند انگشت سے زیادہ فاصلہ نہ تھا، انہوں نے غار پر دھاوا کیا ہوا تھا، اور پیغمبر کا ساتھی خوف و ہراس کا شکارتھا، اسکے باوجود پیغمبر مطمئن تھے:

\r

”اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لااَا تَحْزَنْ اِنَّ اﷲَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اﷲُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَ کَلِمَۃُ اﷲِ ہِیَ الْعُلْیَا۔“

\r

”وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو، خدا ہمارے ساتھ ہےپھر خدا نے اپنی طرف سے اپنے پیغمبر پر سکون نازل کردیا اور ان کی تائید ان لشکروں سے کردی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اللہ ہی نے کفار کے کلمے کو پست بنا دیا ہے اور اللہ کا کلمہ درحقیقت بہت بلند ہے۔“ (سورۂ توبہ ۹آیت ۴۰)

\r

ہمارے یہاں جتنا اعتمادبڑی طاقتوں پرکیاجاتا ہے، اُس سے کہیں زیادہ اعتماد ہمیں خداوندِ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر ہوناچاہئےکیونکہ بعض جماعتیں یا ممالک کہتے ہیں کہ جب تک امریکا، برطانیہ اور فرانس ہمارے ساتھ ہے کوئی ہمارے مقابلے پر نہیں آسکتالیکن ہم کہتے ہیں کہ: حَسْبُنَااﷲُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ (ہمارے لئے خدا کافی ہے اور وہی ہمارا ذمے دار ہےسورۂ آلِ عمران۳آیت۱۷۳) کیونکہ ہم صرف خدا کے وجود سے تقویت محسوس کرتے ہیں، اس لئے کہ اُسی کی قدرت ہمیں مستحکم اور ثابت قدم رکھتی ہےہمیں چاہئے کہ اس سے وابستہ رہیں اور سوچیں کہ ہم اپنی قدرت وقوت کے عوامل و عناصر کو کس طرح کام میں لائیں

\r

ہم کسی پر جارحیت کرنے کے لئے طاقت نہیں چاہتے، بلکہ ہم اس لئے طاقتور بننا چاہتے ہیں تاکہ ہم پروگرام اور منصوبے بنائیں، کوشش کریں، حقائق کا جائزہ لیں

\r

جب ہم: اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآبَیْنَھُمْ (وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحمدل ہیںسورۂ فتح ۴۸آیت ۲۹) کی بنیاد پر کوشش کریں گے، تو کامیابی ہمارے قدم چومے گیجبکہ یہود: بَاْسُھُمْ بَیْنَھُمْ شَدِیْدٌ تَحْسَبُھُمْ جَمِیْعًاوَّقُلُوْبُھُمْ شَتّٰی (ان کی دھاک آپس میں بہت ہے اور تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ سب متحد ہیں، ہر گز نہیں، ان کے دلوں میں سخت تفرقہ ہےسورۂ حشر ۵۹آیت ۱۴) شکست کا شکار ہوگئے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ اُن کی شدید جنگ وجدال ان کے درمیان رافت و رحمت ایجاد کرنے کا موجب نہیں بنی تھی(اب ہم مسلمانوں کی حالت بھی یہی ہے) ہم قوی ہیں لیکن ہمارے دل آپس میں متفرق ہیں، لہٰذا: وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اﷲِ تَبْدِیْلاً (اور خدا کی سنت میں ہرگز تبدیلی نہیں پاؤ گےسورۂ احزاب ۳۳آیت ۶۲) کیونکہ خداوندِ عالم نے کامیابی اور فتح کو کچھ حقیقتوں کے ساتھ ممکن قرار دیا ہے اور ہمارے سامنے مختلف تجربات رکھے ہیں

\r

امامِ حجت ؑ پر ایمان رکھنے والے بعض افراد کی مشکل یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ زمانۂ غیبت میں دینی سرگرمیوں اوراسلام کے لئے جدو جہد کو منع کیا گیا ہےحتیٰ ان میں سے بعض لوگ اصلاحی عمل کو ناجائز سمجھتے ہیں، وعظ و نصیحت کو حرام قرار دیتے ہیںکیونکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ لوگوں کو جتنی زیادہ نصیحت کی جائے گی وہ ان کے انسا ن بننے کا سبب بنے گی اور ان کا انسان بننا حضرتِ حجت ؑ کے ظہور میں مزید تاخیر کا باعث بنے گااور اگر ہم نے اسلام کے لئے جد و جہد کی اور مختلف جگہوں پر اسلامی حکومتوں کے قیام میں کامیاب ہو گئے، تو ایسا کر کے ہم حضرت مہدی ؑ کے خلاف ایک تخریبی عمل کے مرتکب ہوں گے

\r

یہ لوگ اسلام کو متوقف کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ اسلامی احکام کسی بھی زمانے میں توقف پذیر نہیں: حلال محمد حلال الی یوم القیامۃ وحرام محمد حرامٌ الی یوم القیامۃ (حلالِ محمدروزِ قیامت تک حلال ہے اور حرامِ محمدروزِ قیامت تک حرام) جہاد متوقف نہیں ہو سکتا، امر بالمعروف و نہی عن المنکرمتوقف نہیں ہو سکتا اوردیگر احکامِ الٰہی قابلِ توقف نہیں ہیں

\r

رہی وہ روایت جو یہ کہتی ہے کہ زمانۂ غیبت (یعنی حضرتِ حجت ؑ کے ظہور سے قبل) جو بھی پرچم بلند ہو گا وہ گمراہی کا پرچم ہو گا، تو اس حوالے سے عرض ہے کہ اس روایت کے بارے میں بہت سے تحفظات ہیں

\r

جو انسان اسلام اور مسلکِ اہلِ بیت ؑ کی طرف دعوت دے اور امام خمینیؒ کی مانند پوری دنیا کے مقابل کھڑا ہو جائے، توکیا اسکے بار ے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا پرچم گمراہی کا پرچم ہے؟

\r

لہٰذاایسی روایات پر غور و فکر کی ضرورت ہےکیونکہ ممکن ہے یہ روایات جعلی ہوں، یا یہ کہ ان سے کچھ اور مراد ہواس لئے کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ ایک خاص زمانے میں اہلِ حق کے پاس انقلاب اور تحریک کی قوت نہ ہو

\r

کیا خداوندِ عالم اپنے بندو ں سے یہ تقاضا کرسکتا ہے کہ وہ اسلام کے نفاذ کا مطالبہ نہ کریں، لوگوں کی اصلاح نہ کریں؟
کیا یہ بات معقول نظر آتی ہے؟

\r

خداوندِ عالم نے ہمیں عقل دی ہے، ہمیں قرآنِ کریم عنایت فرمایا ہے، اور ہمیں حکم دیا ہے کہ صحیح سنتِ نبویؐ اور میراثِ اہلِ بیت ؑ کی پیروی کریںلہٰذا یہ بات درست نہیں کہ ہم صرف اس قسم کی کچھ روایات کی وجہ سے تما م چیزوں کوروک دیں

\r

کیا ہم ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے اسلام اور اپنی تحریک کو متوقف کر دیں، اور انقلاب اور تبدیلی کے سلسلے میں اپنے تمام ارمانوں، آرزؤں، مقاصد اور پروگراموں سے اس امید پر دست بردار ہوجائیں کہ ایک دن امام ؑ آ کر اس پوری دنیا کو بدل ڈالیں گے؟

\r

قرآنِ کریم اس قسم کے عقیدے کو قبول نہیں کرتاکیونکہ خداوندِ عالم نے اپنی جانب دعوت کو کسی خاص زمانے سے وابستہ نہیں کیا ہےامر بالمعروف و نہی عن المنکر کو کسی خاص زمانے میں منحصرقرار نہیں دیا ہے اور جہاد کے لئے کسی خاص دور کا تعین نہیں کیا ہےلہٰذا تمام لوگ اسلام کے بارے میں ذمے دار ہیں، اسلام کے لئے جدوجہد ایک امانت کی طرح اُن کے کاندھوں پرعائد ہوتی ہےوہ اسلام جو خدا اور اسکے رسول کی امانت ہے:

\r

”أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ“

\r

”اگر وہ} رسول {مر جائیں یا قتل ہو جائیں، تو کیا تم الٹے پیروں پلٹ جاؤ گے۔“ (سورۂ آلِ عمران۳آیت ۱۴۴)

\r

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ نسلاً بعدِ نسلٍ اس راہ کو جاری رکھیں اور اسکی پیروی کریں:

\r

”وَ لْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔“

\r

”اور تمہارے درمیان ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو لوگوں کو خیر کی دعوت دے، نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ کامیاب ہیں۔“ (سورۂ آلِ عمران ۳آیت ۱۰۴)

\r

لہٰذا امام مہدی ؑ اپنے زمانے میں اپنا کردار ادا کریں گےاور اگرہماری زندگی ہی میں وہ زمانہ آ پہنچے، تو ہمیں ان کے گرد اگرد ہونا چاہئےتاکہ ہمارا شمار ان کے ساتھیوں اور ان کے لشکر میں ہولیکن اپنے زمانۂ ظہور میں امام مہدی ؑ کا کردارآج ہمارے فریضے کو ختم نہیں کر دیتا، بلکہ ہمیں چاہئے کہ اس خدائی وعدے کو یاد رکھیں اورعالمگیر عدالتِ اسلامی (جس کی جانب ہم نے اپنی گفتگو کی ابتدا میں اشارہ کیا ہے) کے نفاذ کی کوشش کریں اور اس الٰہی وعدے سے وہ حقیقی فکر حاصل کریں جس کے تحت اسلام اور عدل و انصاف کے لئے جدوجہدہماری ذمے داری ہے

\r

اگرچہ اسلام کے وسیع پھیلاؤ یا اسلامی عدالت کے عالمی نفاذ کے لحاظ سے آج کے زمانے اور حضرتِ حجت ؑ کے ظہور کے دور میں فرق پایا جاتا ہےلیکن جزیات کے اعتبار سے مسئلہ ممکن نظر آتا ہےکیونکہ انسان وہی انسان ہےاس زمانے میں خدا اسکے عقل و قلب کو وسعت دیدے گا اور اس طرح شاید تمدن کے کمال پر پہنچنے، علم و دانش کے انقلاب اور فکری اور معنوی میدانوں میں معرفت کی وسعت کی وجہ سے انسان اس مقام پر پہنچ جائے کہ بغیر کسی معمولی سے ابہام اور شک و شبہے کے حقیقت کا مشاہدہ کرسکے اور انسان میں تشخیص اور تمیز کی قوت بڑھ جائےالبتہ ضروری نہیں ہے کہ تمام ہی لوگ اس طرح کے ہو جائیںلیکن ہمیں اس طرف سے مطمئن رہنا چاہئے کہ اُس دور میں ہمہ جانبہ کامیابی کے نتیجے میں لوگوں کی ایک عظیم اکثریت علم، معرفت اور عقل کے ایک ایسے درجے پر پہنچ جائے گی کہ حقائق اُس کے سامنے واضح ہوں گے

\r

اگر آج کاانسان ہمیں حقیقت سے شناسائی کی اس عظیم منزل پرپہنچا ہوا نظر نہیں آتا، تو اسکی وجہ یہ ہے کہ مختلف ثقافتی، سیاسی، اجتماعی اور فطری رکاوٹوں نے حقیقت کو اس سے پوشیدہ رکھا ہوا ہےآج کے انسان کی عقل، معرفت کے حصول کے لئے کچھ ہی راستے جانتی ہے اور اگر انسان کے لئے معرفت و شناخت کے حصول کے راستے کامل ہو جائیں اور وہ معرفت تک دسترس حاصل کر سکے اور اسکی جانب قدم بڑھاسکے، تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ کسی ایک خطے، ایک گروہ، یا ایک مرکز میں اسلام کا نفاذ کرسکے

\r

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تجربہ ہمارے سامنے ہےآپ نے اپنے انسانی پہلو سے دعوت کا کام کیااور (غیبی راستوں سے نہیں بلکہ) اپنی بشری قدرت کے ساتھ اس سلسلے میں جدوجہد کیہر چند بعض مواقع پر، جبکہ رسالت خطرے میں تھی (جیسے جنگِ بدرکے موقع پر) خدا کی غیبی امداد پیغمبر ؐکے شاملِ حال تھی

\r

باوجود یہ کہ پیغمبرؐ اپنی بشری توانائی کے ذریعے اپنے تجربے کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے اور تمام دنیا کو مسلمان نہ کر سکے، لیکن آپ دنیا کو اسلام سے روشناس کرانے میں ضرور کامیاب رہےیہی وجہ ہے کہ خدائے متعال فرماتا ہے: لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (تمہارے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونۂ عمل ہےسورۂ احزاب ۳۳آیت ۲۱) کیونکہ پیغمبر اسلام ؐنے انسانی ذرائع سے کام لے کر دعوت کا آغاز کیا اور جو مادّی و سائل اُن کے اختیار میں تھے (جو سب کے سب حتیٰ اُن سے بھی زیادہ ہمارے پاس موجود ہیں) اُن کے ہمراہ بھرپور جد و جہد کی

\r