عقل اور مسئلۂ غیبت
مہدئ منتظر ؑ قیامِ عدل اورغلبۂ اسلام کی امید • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
جس طرح دوسرے تمام انسان پیدا ہوتے ہیں، اسی طرح امام مہدی ؑ بھی دنیا میں تشریف لائے اور خداوندِ عالم کے علم اور ارادے سے پردۂ غیبت میں چلے گئےپیغمبر اسلام ؐاور اُن کے بعد آنے والے ائمہ ؑ نے ہمیں بتایاہے کہ امام مہدی ؑ ظہور فرمائیں گے، تاکہ زمین کو عدل و انصاف سے پُر کر دیں، جیسے کہ وہ اُن کے ظہور سے پہلے ظلم و جور سے بھر چکی ہوگیاگرہم غیبت کے مسئلے کو اپنے عقیدے میں مستحکم کرناچاہیں، تو ہمیں اس نکتے سے واقف ہوناچاہئے کہ غیب پر ایمان عقل و شرع کی بنیادوں پر استوار ہے
\rاس مقام پر ہم ایک سوال اٹھاتے ہیں، اور وہ سوال یہ ہے کہ ہم جنت اور دوزخ پر ایمان رکھتے ہیں آخرت پر بھی ہمارا ایما ن ہےجبکہ ہم میں سے کسی ایک نے بھی نہ جنت و دوزخ کو دیکھاہے اور نہ آخرت کی حقیقت کا مشاہدہ کیاہےہم خدا کے فرشتوں پر بغیر انہیں دیکھے ہوئے ایمان رکھتے ہیں اسی طرح ہم بکثرت غیر حسی امور پر یقین رکھتے ہیں
\rہم اِن چیزوں پرکس طرح یقین رکھتے ہیں؟
ابتدا ہی سے ہم ایک اجمالی جائزے کے ذریعے ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیںہم دیکھتے ہیں کہ آیا یہ چیز ممکن ہے یا غیر ممکن؟ محال ہے یا غیر محال؟
ہم اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا اس بات کا امکان ہے کہ خداوندِ عالم انسان کے مٹی ہو جانے کے بعداُسے دوبارہ اُس کی اصل حالت میں واپس لے آئے؟ کیا خدااسے دوبارہ خلق کر سکتا ہے؟ یا یہ محال ہے؟
\rاسکے جواب میں ہم کہہ اٹھتے ہیں کہ خداوندِ عالم اُس کی ایجاد و تخلیق پر قادر ہے اور اسکے پاس اسے دوبارہ زندہ کرنے کی طاقت بھی ہے:
\rوَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلااًا وَّ نَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیْمٌ قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْٓ اَنْشَاَہَآ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَ ہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمُ
\rاور ہمارے لئے مثل بیان کرتا ہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے، کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہےآپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گااور وہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ہےسورۂ یس ۳۶آیت ۷۸، ۷۹
\rلہٰذا اگر موت سے زندگی کو نکالنا ممکن اور قابلِ قبول ہے، تو پھر عدم میں تبدیل ہو جانے والی زندگی کو واپس لوٹانا بھی ممکن ہےکیونکہ خداوندِ عالم ان دونوں باتوں (خلق کرنے اوردوبارہ زندہ کرنے) پر قادر ہےبلکہ دوبارہ زندہ کرنا، خلق کرنے سے زیادہ آسان ہےکیونکہ خلق کرنابغیر نمونے یا مثال کے ایجاد کرنا ہے، جبکہ دوبارہ زندہ کرنا اس نمونے کی بنیاد پرہے جو پہلے سے موجود ہےلہٰذا ایجاد کا عمل شئے کو وجود میں لانے کا عمل ہے اور اسے دوبارہ واپس لانا نمونہ وجود میں لانے کے بعد اسے دوبارہ اسکی ابتدائی حالت میں پلٹانا ہے
\rایک اور سوال کاجواب باقی رہ گیا ہے، اور وہ سوال یہ ہے کہ ہر ممکن شئے لازماً وجود میں نہیں آتیکیونکہ جنت اور جہنم ممکن امور میں سے ہیں، جبکہ وہ ابھی وجود میں نہیں آئی ہیںپس ہم کس طرح انہیں ثابت کریں؟
\rاس سوال کا جواب یہ ہے کہ: ہمارے لئے پیغمبرؐ آئے ہیں اور ہماری عقل نے ان کی تصدیق کی ہےلہٰذا جب ہم نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کی ہے، تو یہ تصدیق اُن سے محبت و عقیدت کی بنیاد پر نہیں کی، بلکہ یا تو اُن کی نبوت پر قطعی اور یقینی دلائل کے ذریعے ہم نے اُن کی تصدیق کی ہے، یا معجزے (جو ممکن ہے اُن سے پہلے انبیا ؑ جیسے حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت ابراہیم کی مانند معجزات ہوں یا قرآنِ کریم اور دوسرے معجزات جو رسول اﷲ کی درستی اور صداقت کی دلیل ہیں) کے توسط سے اُن کی تصدیق کی ہے
\rمزید آگے بڑھتے ہیںجب ہم پر یہ بات ثابت ہو گئی کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے بھیجے ہوئے نبی ہیں، اور وہ جن باتوں کی ہمیں خبر دے رہے ہیں وہ سچی ہیںتو اسی پیغمبرؐ نے کتابِ الٰہی کے ذریعے ہمیں بتایا ہے کہ جنت اور جہنم کا وجود ہے، عذاب اور رحمت کے فرشتے وجود رکھتے ہیں، انہی نے ہمیں یہ خبربھی دی ہے کہ مہدی ؑ کا وجود ہے، اور وہ آخری زمانے میں ظاہر ہو ں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے
\rہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کے ذریعے ایک محسوس حقیقت پر ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور اسی ایمان کی بنیاد پر غیب پرہمارا ایمان استوار ہے، اور ہم غیب پر یقین رکھتے ہیںلہٰذاامام مہدی ؑ کی غیبت کا مسئلہ ایک کھوکھلا اور بے بنیاد مسئلہ نہیں ہے، اور اس پر ہمارے ایمان کی بنیاد وہم و گمان نہیں ہے، بلکہ غیب پر ایمان ایک علمی و عقلی حقیقت پر استوار ہے، جس پر ہم روشنی ڈال چکے ہیں
\rہم امامِ زمانہ ؑ کی غیبت پر ایمان رکھتے ہیں، کیونکہ ہم رسول اﷲ ؐپر ایمان رکھتے ہیں، اور ہم نے ان کی تصدیق کی ہے، اور اُنہوں نے ہمیں اس بارے میں مطلع کیا ہے، اور کیونکہ یہ ایک ممکن امر ہے اس لئے ہم اس پر یقین رکھتے ہیں
\r