زمانۂ غیبت میں ہماری ذمے داری
مہدئ منتظر ؑ قیامِ عدل اورغلبۂ اسلام کی امید • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
امامِ زمانہ ؑ کی غیبت کی بات کرتے ہوئے، ہمیں اپنی ذمے داریوں اور کردار کابھی جائزہ لینا چاہئےہم اس بات کے قائل ہیں کہ امامِ زمانہ ؑ ایک غیبی مشن رکھتے ہیں، وہ ظہور کریں گے تاکہ خالص اور واضح اسلام کو، ایسے اسلام کو جس میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہوگا، اور جس میں فرقہ وارانہ اختلاف اور ایک سے زیا دہ اجتہادات کی گنجائش نہیں ہوگی، ہمارے سامنے پیش کریں گےیہاں تک کہ بعض احادیث کے مطابق لوگ سمجھیں گے کہ وہ ایک نیا دین لے کر آئے ہیں، جبکہ قرآنِ کریم نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ رسولِ خداؐ کے بعد کوئی نیا دین نہیں آئے گا:
\r”اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلااَامَ دِیْنًا۔“
\r”آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے۔“ (سورۂ مائدہ ۵آیت۴)
\rاور حدیث میں آیا ہے کہ :
\r”حلال محمدحلال الی الیوم القیامۃ وحرامہ حرامٌ الی یوم القیامہ۔“
\r”حلالِ محمد تا قیامِ قیامت حلال ہے اور حرامِ محمدتاقیامِ قیامت حرام ہے۔“
\rلہٰذا کوئی اس بات پر قادر نہیں کہ دین میں کوئی تبدیلی یا تغیر پید اکرےلیکن لوگوں کا اسلام سے دور ہو جانااور اجتہادات میں اختلاف (جس نے اسلام کے بہت سے امتیازات کو برباد کر دیا ہے) اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ امامِ معصوم ؑ کی مانند ایک فردہو جو معاملات کو اُن کی صحیح جگہ پر لائےکیونکہ جب ہم ایک مسئلے میں دو یا اس سے زیادہ نظریات دیکھتے ہیں، تو یہ بات ممکن نہیں رہتی کہ ہم یہ فیصلہ صادر کریں کہ یہ سب کے سب اسلام کے مطابق ہیںجبکہ ممکن ہے ان میں سے کوئی ایک یا بعض اسلام کے مطابق ہوں اور بقیہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہوکیونکہ اسلام کی حقیقت ایک ہی ہے
\rلہٰذا جب لوگ ایک طویل مدت تک مختلف اسلامی مذاہب اورمجتہدین کے ساتھ زندگی گزاریں گے، تو اصل اسلام کی روشن اور صاف ستھری صورت بھلا بیٹھیں گےاسی بنا پر (امام مہدی ؑ کے ظہور کے موقع پر) لوگ خیال کریں گے کہ اُنہیں نظر آنے والی چیز ایک نیا دین ہےاگرعجیب محسوس ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے یہ تعبیر قابلِ قبول نہ ہو، تو ایک اورمثال عرض کرتے ہیں آج کل ہی دیکھ لیجئے کہ جب لوگ فقہا کے درمیان مشہورفتاویٰ میں ایک نامانوس فتویٰ دیکھتے ہیں، توکہتے ہیں کہ یہ جدید فقہ ہےحالانکہ وہ جدید فقہ نہیں ہوتی بلکہ فقہ کا صرف ایک جدید فہم ہوتا ہےایسی جدید فقہ ایجادکرنا جو عہدِ رسالت میں نہیں تھی اور عہدِ رسالت میں موجود جدید فقہ پر ایک نیا فہم پیش کرنا، دو مختلف باتیں ہیں
\rایک سوال باقی رہتا ہے، اور وہ یہ کہ زمانۂ غیبت میں ہماری ذمے داری اور فریضہ کیا ہے؟
امام ؑ نے ایک راوی کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے ہمارے لئے ایک ایسے راستے کی نشاندہی کی ہے، جو ہمیں اختیار کرناچاہئےآپ نے اپنے چار نوابین کے دور میں اپنے پیروکاروں کو سمجھایا کہ غیبتِ صغری ٰکا دور ختم ہونے کو ہے (جس کے دوران لوگ ان چارنائبین کے توسط سے بالواسطہ امامِ زمانہ ؑ سے رابطہ کرتے تھے) اور غیبتِ کبری ٰکا آغاز ہونے والا ہےلہٰذا امام ؑ نے سوال کرنے والے شخص کو جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:
واماالحوادث الواقعۃ (نئے پیدا شدہ حالات و حوادث میں)
ایسے حوادث جن کے احکام و قوانین سے ہمیں آشنا ہونا چاہئے
فارجعوافیھا الی رواۃ احادیثنا (ایسے لوگوں سے رجوع کرو جو ہماری احادیث جمع کرتے ہیں، انہیں نظم و ترتیب دیتے ہیں اور انہیں سمجھتے ہیں)
\rفانھم حجتی علیکم (یہ تم پر میری حجت ہیں)
تاکہ تم سرگردانی کا شکار نہ ہو
وانا حجۃ اللّٰہ (اور میں اُن پر خدا کی حجت ہوں)
\rاِس بنیاد پر زمانۂ غیبت میں ہماری ذمے داری یہ ہے کہ وہ علما جواسلام کاعلم رکھتے ہیں، متقی و پرہیز گار ہیں، جو خدا اور اسکے رسول سے مخلص ہیں، جو ظالم حکام سے تعلق نہیں رکھتے، جو کسی ظالم طاقت کے زیر اثر نہیں اور جو سیاسی، اجتماعی اور اقتصادی گمراہی کا شکار نہیں، ہم اُن سے رجوع کریں
\rرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کا مضمون بھی یہی ہے، جس میں آنحضرتؐ نے فرمایا ہے کہ :
\r”العلماء امناء الرسل، مالم یدخلوا فی الدنیا، قیل: یا رسول اللّٰہ!وما دخولھم فی الدنیا؟ قال (ص) : اتباع السطان۔“
\r”علما امانتدارانِ رسل ہیں، جب تک وہ دنیا میں ملوث نہ ہوں، پوچھا گیا: اے اللہ کے رسولؐ!دنیا میں ملوث ہونے کے کیا معنی ہیں؟ فرمایا: بادشاہ کی اتباع۔“
\rایسے لوگ جو ظالم و جابر سلطانوں کی پیروی کرتے ہیں، اُن کے کاموں کو اچھا بنا کے پیش کرتے ہیں، اُن کے موقف کی تائید کرتے ہیں، اور اُن کی خواہشات کے مطابق جنگ یا صلح کے فتوے دیتے ہیں اس طرح دنیاوی مال ومقام کے حصول کے لئے ان لوگوں نے اپنا علم ودانش بادشاہوں کے حوالے کر دیا ہےجبکہ یہ حکام نہ صرف اس عالم کوکوئی فائدہ نہیں پہنچاتے بلکہ معاشرے میں اُس کے مقام اور دین سے غلط استفادہ کرتے ہیں
\rلہٰذا عالم کو چاہئے کہ وہ امامِ زمانہ ؑ کے نائب، انبیاؑ کے وارث اور پیغمبر وں ؑ کے امین کا کردار ادا کرےاور ایک ایساانسان بنے جو دوسرے کی دنیا کے لئے اپنا دین نہ بیچ ڈالےیا اپنا دین اپنی ہی دنیا کے عوض فروخت نہ کردے، ظالموں کے ظلم اور فاسقوں کے فسق کی توجیہ نہ کرے اور اسکی جدوجہد: کلمۃ اﷲ ھی العلیا وکلمۃ الشیطان ھی السفلی (اللہ کا بول بالہ ہو اور شیطان کا بول نیچاہو) کے لئے ہواور ایسا بنے جس کے بارے میں حضرت علی ؑ نے فرمایا ہے کہ
\r”لا یزید نی کثرۃ الناس حولی عزۃً ولا تفّرقُھم عنی وحشۃً۔“
\r”اپنے گرد لوگوں کی کثرت دیکھ کر میری ہمت نہیں بڑھتی، اور نہ اُن کا چھٹ جانا مجھے خوف و وحشت میں مبتلا کرتاہے۔“ (نہج البلاغہ مکتوب۳۶)
\r”الذلیل عندی عزیزٌحتی آخذالحق لہ، ولقوی عندی ضعیفٌ حتیٰ آخذ الحق منہ۔“
\r”کمزور میری نظر میں طاقتور ہے جب تک میں اُس کا حق نہ دلوا دوں، اور طاقتور میری نظر میں کمزور ہے جب تک میں اس سے دوسرے کا حق نہ دلوا دوں۔“ (نہج البلاغہخطبہ۳۷)
\rعالم کو چاہئے کہ اپنے تما م معاملات میں حق اور عدل پر عمل کرےضعیف اور کمزور افراد کا مددگار بنے، اُن کے ساتھ زندگی بسر کرے، اُن کے ساتھ لطف اور شفقت پر مبنی طرزِ عمل اختیار کرے، اُنہیں وعظ و نصیحت کرے، اُنہیں تعلیم دے، اُن کی وفاداری اور دینداری کی قدر کرے، کیونکہ خداوندِ عالم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:
\r”وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَداٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَ لااَا تَعْدُ عَیْنکَاٰا عَنْہُمْ تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ لااَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَواٰاہُ وَ کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۔“
\r”اور اپنے نفس کوان لوگوں کے ساتھ صبر پر آمادہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اسی کی مرضی کے طلبگار ہیں، اور خبردار تمہاری نگاہیں ان کی طرف سے پھر نہ جائیں کہ زندگانئ دنیا کی زینت کے طلبگار بن جاؤ اور ہرگز اسکی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کر دیا ہے اور وہ اپنی خواہشات کا پیرو ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرنا ہے۔“ (سورۂ کہف ۱۸آیت ۲۸)
\rضروری ہے کہ عالم کا دل ہر حالت میں تمام انسانوں کے لئے کھلا ہوا ہووہ تمام انسانوں سے محبت کرتا ہو، مومنین سے عشق رکھتا ہو، تاکہ راہِ ایمان میں اُن کا ساتھی و مددگار ہو، غیر مومن انسانوں سے بھی محبت کرے، تاکہ راہِ ایمان کی جانب اُن کی رہنمائی کرسکے اور اپنے دل میں ذرّہ برابر کینہ و عداوت نہ رکھے، بالکل حضرت محمد مصطفی ؐکی طرح، جن کا دل تمام انسانوں کے لئے دھڑکتا تھا اور جو تما م انسانوں کے ساتھ مہربانی اور شفقت سے پیش آتے تھے
عالم کوبہترین اخلاق کا مالک ہونا چاہئےتاکہ لوگوں کے ساتھ نرمی و رحمت اور کامل توجہ کے ساتھ زندگی بسر کرے
لوگوں نے اس کے حق میں جو برائی کی ہو اُس سے درگزر کرے، لوگوں کے درمیان فتنہ و فساد پیدا نہ کرے، اہلِ ایمان کے اجتماع میں ذاتی، گروہی یا قومی تعصبات پیدا نہ کرےکیونکہ حدیث شریف کہتی ہے :
\r”من تعصّب او تُعصّب لہ، فقد خلع ربقۃ الاسلام من عنقہ۔“
\r”جو کوئی تعصب سے کام لے، یا اسکے حق میں تعصب کیا جائے، اسکی گردن پر سے اسلام کی رسی اٹھا لی جاتی ہے] اسے دائرۂ اسلام سے خارج کردیا جاتا ہے [۔“
\rاسکے بعد امام مہدی ؑ اپنے کلام کو مکمل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
\rفاِذاارایتم العالم محباًلد نیاہ (اگرتم دیکھو کہ عالم دنیا طلب ہے)
یعنی جب دیکھو کہ وہ عالم، دین اور اپنی ذمے داریوں پر توجہ نہیں دیتا اور اسلام کی سربلندی اور امتِ اسلامیہ کی عزت کے لئے کوئی کام نہیں کرتا، اور اسکی تمام تر توجہ اپنے مفادات کے حصول اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہے اور (حلال وحرام) ہر ذریعے سے حصولِ مال پر توجہ دیتا ہے
فاتھموہ علی دینکم (تو اپنے دین کے بارے میں اس سے محتاط رہو)
یعنی ایسے شخص سے دینی تعلیمات کے حصول اور دینی امور میں اس کی پیروی کر کے اسکی ہمراہی اختیار نہ کرو
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے لوگوں کے سوالات کے جواب دینے کی ذمے داری اُن صالح انسانوں پر عائد کی ہے جو اسلام اور ائمۂ اہلِ بیت ؑ کی میراث سے وابستہ اور اسکے پابند ہوںلہٰذا اسی بنیاد پرمجتہدین امام ؑ کے عام نائبین ہیںکیونکہ وہ تمام عادل مجتہدین جو اپنے علم کے ذریعے اسلام اور انسانوں کی خدمت پر کمر بستہ رہتے ہیں اور معاشرے کے روزہ مرہ مسائل کے حوالے سے اپنی ذمے داری پر عمل کرتے ہیں، وہ نائبِ ِ امام ؑ ہیں، جوانفرادی اور اجتماعی میدانوں میں امام ؑ کی نیابت کے مالک ہیںفتاویٰ کے حصول کے لئے ان لوگوں سے رجوع کرنے کا مسئلہ جسے ”تقلید“ کہا جاتا ہے، ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی جڑیں اسلام میں پیوست ہیں امام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے کہ:
\r”فاما من کان من الفقھا ء صائناً لنفسہ، حافظاً لدینہ، مخالفاً لھواہ، مطیعاً لا مرمولاہ، فللعوام ان یقلّدوہ۔“
\r”فقہا میں سے وہ شخص جوپرہیز گار ہو، دین کا محافظ ہو، نفسانی خواہشات کا مخالف ہو، اور اپنے مولا کے احکام کامطیع و فرمانبردار ہو، عوام کو چاہئے کہ اسکی تقلید کریں۔“
\rشرعی مسائل میں مجتہدین کی تقلید کا مسئلہ ایک اسلامی، انسانی اور عقلی مسئلہ ہے، جس کی بنیاد عالم سے جاہل کا رجوع کرنا ہےخداوند عالم فرماتا ہے:
\r”فَسْءَلُوْآ اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لااَا تَعْلَمُوْن۔“
\r”اگر تم نہیں جانتے، تو جاننے والوں سے پوچھو۔“ (سورۂ نحل ۱۶آیت ۴۳)
\rلہٰذا لوگ جس طرح طبی مسائل میں طبیب، انجینئرنگ اور تعمیرات کے مسائل میں انجینئر کے پاس جاتے ہیں، اسی طرح اپنے دینی احکام میں مجتہدین سے رجوع کرتے ہیں
\rیہی وجہ ہے کہ امامِ زمانہ ؑ کی غیبت ایک خلا پیدا ہوجانے اورلوگوں کو دربدری کے عالم میں چھوڑ دینے کا سبب نہیں بنیاس کمی کو عادل، متقی اوراپنے فریضے کی بنیاد پر عمل کرنے والے مجتہدین کے ذریعے پورا کر دیا گیا
\rایسے علما جو لوگوں کی مشکلات اور اُن کی دینی ضروریات کے حل کے لئے کوشاں رہتے ہیں، اور امامت کے راستے کو جو نبوت کاراستہ ہے جاری رکھے ہوئے ہیں، اُن کے مقابل ہماری ذمے داری یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اُن سے منسلک رہیںکیونکہ انہوں نے اپنا معاملہ خدا سے کیا ہے اور اپنے کاموں میں انتہائی زحمتیں اور اذیتیں برداشت کی ہیںہم پر لازم ہے کہ اُن کا ساتھ دیں، اُن کی مدد کریںکیونکہ اُن کی مدد کرنا امامِ حجت ؑ کی مدد کرنا ہے
\r