سیاسی تحریکیں اور عدالت کا مسئلہ
مہدئ منتظر ؑ قیامِ عدل اورغلبۂ اسلام کی امید • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
سماج میں تبدیلی کے لئے جد و جہد کرنے والی بہت سی اسلامی اور غیر اسلامی تحریکوں کی مشکل یہ ہے کہ وہ صرف حکومتی میدان میں عدالت کے قیام کی بات کرتی ہیںجبکہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں عدالت کی بات نہیں کرتیںہم بخوبی یہ بات جانتے ہیں کہ انفرادی عدالت اجتماعی عدالت کی راہ ہموار کرتی ہے اور سماجی اور اجتماعی سطح پر عدالت سیاسی عدالت کا راستہ صاف کرتی ہےخداوند عالم فرماتا ہے:
\rاِنَّ اﷲَ لااَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ
\rخدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل لےسورۂ رعد ۱۳آیت ۱۱
\rلہٰذا اگر عدالت کے نفاذ کے لئے انسان خود اپنے آپ کوتبدیل نہ کرے، تو بھلا کس طرح موجودہ صورتحال میں تبدیلی لا سکتا ہے؟ کیونکہ در حقیقت خود انسان نے اس صورتحال کو جنم دیا ہے
\rخداوندِ عالم نے دنیا کی تعمیر کی ذمے داری خود انسان کے سپرد کی ہےاور اس سے تقاضا کیا ہے کہ وہ اپنی طاقت، عزم وارادے اور شعورو آگہی کے ساتھ اپنی ذمے داری کے مطابق زمین کا انتظام چلائے، کیونکہ وہ زمین پر خدا کا جانشین ہے
\rاس مقام پر ایک سوال ابھرتا ہے اور وہ یہ کہ آخرکیوں اسلامی یا غیر اسلامی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتیں؟ (خواہ یہ تحریکیں اصلاحی ہوں یا انقلاب اور تبدیلی کی داعی)
\rاس سوال کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ ان تحریکوں کے بعض سرگرم افراد عدل و انصاف سے کام نہیں لیتےاور اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ذاتی یا شخصی تعصب کا شکار ہوتے ہیں، اور اگروہ شخصی تعصب سے بالا ہوں، تو گروہی تعصب میں مبتلا ہوتے ہیںلہٰذا ان کی تحریک تمام انسانوں کو مدِ نظر رکھنے کی بجائے اُن کے لئے دروازے بند کردیتی ہے اوروہ لوگ اپنے آپ کو ایک ارفع اور دوسروں سے بلند چیز سمجھنے لگتے ہیں اس طرح وہ خود اندر سے کمزور ہو جاتے ہیں
لہٰذا ہمیں چاہئے کہ تحریکوں اورتنظیموں کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ آزادمنش بھی رہیں اور اپنے آپ کو شخصیت پرستی، گروہ پرستی، قبیلہ پرستی، قوم پرستی اور فرقہ پرستی میں گرفتار نہ ہونے دیںبلکہ ہمیں چاہئے کہ وسیع النظری سے کام لیں، تاکہ ہمارا وجود تمام لوگوں کے لئے، تمام انسانوں کے لئے اور تمام اسلام کے لئے ہو
لہٰذااگرہم معاشرے میں تبدیلی کے متمنی ہیں، تو لازم ہے کہ ہم اپنے افکار، جذبات اور احساسات کو ان تنگ دائروں سے باہر نکالیں
\rکیونکہ اگر ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ امام مہدی ؑ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، تو ہمیں اسی طرح یہ عقیدہ بھی رکھنا چاہئے کہ وہ پورے عالم کے بارے میں سوچیں گے، اُن کا دل پوری دنیا کے لئے دھڑکے گا، اور اُن کا قیام تعصب، علاقہ پرستی یا قوم پرستی کے تنگ حصار تک محدود نہ ہو گابلکہ تمام انسانوں کے لئے ہو گاکیونکہ اﷲ رب العزت رب العالمین ہے، ہمارے نبی بھی تمام دنیا کے پیغمبر ہیں، امام تمام عالمین کے لئے امام ہیں، اور ناگزیر ہے کہ مصلح بھی دنیا کے تمام انسانوں کے لئے مصلح ہو
\rجو ذمے دار مسلمان ان افکارو عقائد کا حامل ہے، اُسے چاہئے کہ اپنے آپ کو ایسا انسان سمجھے جس کے ذمے ایک عالمگیر مشن ہےاسے چاہئے کہ حکمت، موعظۂ حسنہ، جدالِ احسن، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور جہاد کے ذریعے حتیٰ الامکان تمام انسانوں کو دائرۂ اسلام میں لانے کی منصوبہ بندی کرے
\rہمیں اپنے آپ کو تنگ دائروں میں قید نہیں کرنا چاہئےبلکہ ہمیں چاہئے کہ اپنے پاک و پاکیزہ پیغام اور اپنی ذمے داری کی بنیاد پر عمل کریںتاکہ اسکے ذریعے ایک عادلانہ حکومت کے قیام کی خاطر اس عظیم تحریک کے ناصر و مددگار بن سکیں جس کے توسط سے اسلام کو عزت و سربلندی نصیب ہوگی، ظلم و نفاق ذلیل و رسوا ہوگا اورہم خدا کی بندگی کی طرف دعوت دینے والے بنیں گے
\r