بسم اﷲ الرحمن الرحیم
رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی خوبصورت اور دل نشین ہدایت ہے : ” میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جوانوں کے ساتھ نیکی سے پیش آنا، کیونکہ ان کے دل نرم ہوتے ہیں۔“
سچ بتائیے، کتنے والدین اور اساتذہ آنحضرتؐ کے اس کلام کی جانب متوجہ ہیں۔ اور اگر کچھ لوگ عملاً اس کی جانب متوجہ ہوتے بھی ہیں تو نوجوانوں کے ساتھ اپنے طرزِ عمل میں اس کا کتنا کامیاب مظاہرہ کرسکے ہیں۔
نفسیات دانوں اور تربیت اور معاشرتی علوم کے ماہرین نے جوانوں کے بارے میں مختلف نظریات کا اظہار کیا ہے۔
نفسیات دان، جوانی کو طویل نفسانی بحران اورمختلف تقاضوں او ران کے جوابات کے درمیان شدید کشمکش کا مرحلہ قرار دیتے ہیں۔ اور اس تصور کے ساتھ جوان کا سامنا کرتے ہیں کہ وہ اضطراب، بے چینی، پریشانی، غصے( اور اسی طرح کی دوسری کیفیات جو اُن کی لغت میں عدم توازن کے عنوان کے تحت آتی ہیں) کی حالت میں زندگی بسر کرتا ہے۔
تربیتی علوم کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس دور کا یہ بحران ( بالفرض اگر اس دور میں کسی بحران کے وجود کو قبول کیا جائے) شخصیت کی بنیاد پڑنے اور اسکی نشو ونما کے سلسلے کابحران ہے اور بنیادی طور پر تربیت کے مراکز اس سے نمٹنے کے ذمے دار ہیں، اور انہیں چاہیے کہ جو ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کے اس مرحلے میں اپنا کردار خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کریں۔
معاشرتی علوم کے ماہرین بھی جو ان کو اسی پہلو سے دیکھتے ہیں کہ گویا وہ توافق، تغیر اور طرزِعمل کے بحران کا شکار ہے۔
کیا سچ مچ ”جوانی“ بحران ہے؟ ہم اس خیال سے متفق نہیں۔
اگر ہم بحران اور مشکل کے وجود کو مانتے بھی ہیں تو اسے کہیں اور تلاش کرناچاہیے، جوانوں میں نہیں۔ کیونکہ جو ان تو نرم دل، نیک ضمیر، خوش قلب اور اپنے گردو پیش کی دنیا سے مفاہمت اور تبادلۂ خیال کے لیے تیار رہتا ہے۔ یوں، مشکل جوانوں کی طرف سے نہیں ہے، بلکہ جوانوں کے حوالے سے ہمارے خیالات اور ان سے ہمارا طرزِ عمل مشکل پیدا کرتاہے۔
جی ہاں! جوان (خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں) بنیادی طور پر باغی اور سرکش نہیں ہوتے اور بے چینی اور بے قراری ان کی سرشت کا حصہ نہیں ہوتی۔بلکہ یہ معاشرہ اور ان کے گردو پیش کا ماحول (گھر، اسکول یا تربیت کے مراکز) ہے جو بسا اوقات جو ان کی لطیف اور نرم و نازک طبع کی رہنمائی کے عمل سے نا واقفیت کی وجہ سے ان کی لطافت اور نرمی کو ”درشتی“ اور تشدد پسندی میں بدل دیتا ہے۔ یہ گروہ جوان کو (جو اپنے بچپنے کی سرحد عبور کر کے شعور اور ترقی کے مرحلے میں قدم رکھ چکا ہوتا ہے) غلط طور پر اس کم سن بچے کی مانند سمجھتا ہے جس نے ابھی طفولیت کے دائرے سے قدم باہر رکھاہو۔ شاید اس گروہ کے اسی غیر حقیقی طرزِ فکر کی عکاسی اس شعر میں کی گئی ہے۔
لم تزل (لیلیٰ) بعینی طفلۃ
لم تزد عن امسی الا اصبعا
میری نظر میں لیلیٰ ابھی تک ایک چھوٹی بچی ہے، جو (کل سے ) ایک انگشت برابر بھی نہیں بڑھی ہے۔
جو لوگ جوانوں کو اس نظر سے دیکھتے ہیں، اُن سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ جوانوں پر دباؤ ڈالیں گے، اُن کے سامنے رکاوٹوں میں اضافہ کریں گے اور شریعت کی طرف سے نہیں بلکہ معاشرے کی طرف سے حرام قرار دی ہوئی چیزوں کی تلواراُن کے سروں پر لٹکائے رکھیں گے۔ مثال کے طور پر ہم والدین، مدرسین، معلمین اور مصلحین سے کہتے ہیں کہ وہ اخبارات اور جرائد کے ان صفحات کا مطالعہ کریں جوآپ کے مسائل اور ان کے حل، نفسیاتی و ازدواجی الجھنیں، مشورہ حاضر ہے وغیرہ وغیرہ کے عنوان سے شائع ہوتے ہیں۔ اس مطالعے کے ذریعے انہیں پتا چلے گا کہ نوجوانوں کے مسائل کا غلط ادراک اور مسئلے سے غلط انداز سے نمٹناایک بڑی مشکل ہے۔
نوجوانوں کے مسائل کے غلط ادراک اور ان کے معاملات سے غلط انداز سے نمٹنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان (لڑکے اور لڑکیاں) اپنی مشکلات اور مسائل کے حل کے سلسلے میں اپنے ارد گرد موجود افراد سے رجوع کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، یہ لوگ عام طورپران کے دوست یا سہیلیاں ہوتی ہیں۔ اور یوں وہ ناقص تجربات اور فلموں اور افسانوں کے ذریعے پیش کیے جانے والے اور اخبارات و جرائد میں شائع ہونے والے غیر اسلامی اصولوں پر استوار خیالی حلوں کے ذریعے اپنی مشکلات اور مسائل کے علاج کی کوشش کرتے ہیں۔
ممکن ہے اِس صورتحال کے نتیجے میں جوان (لڑکا یا لڑکی) اپنے گردو پیش کے اس گھٹن زدہ ماحول سے متنفر ہوجائے جو اسے صحیح طور پر نہیں پہچانتا اور اس کے مسائل سے درست طریقے سے نہیں نمٹتا، اور احتجاجاً اس سے اپنا رابطہ منقطع کر کے گوشہ نشینی اختیار کر لے اور معاشرے سے اپنا رشتہ توڑ کر اسکی طرف کھلنے والادروازہ بند کر لے اور اس دروازے کی دوسری طرف اپنے نفسانی، جنسی اور ذہنی خیالات میں غرق ہو کرایک نئی دنیا بسا لے۔ ایسی صورت میں وہ کبھی کبھی ایسی سمت نکل جاتاہے جہاں اس کے خیال میں اسے بہتر طور پر پہچاناجاتا ہے اور جس کی فضااس سے موافق اور ہم آہنگ ہے ۔اورکبھی کبھی سادہ ترین ردِعمل کے طورپرتمام لوگوں سے عداوت، بے زاری اور ان کے بائیکاٹ کے ذریعے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتا ہے۔
ہم نوجوانوں کو یہ منفی مؤقف اپنانے پرآخر کیوں مجبور کر دیتے ہیں؟
کیا یہ مناسب نہیں کہ ہم کھلے دل اور خنداں پیشانی کے ساتھ اُن سے ملیں اور دلنشیں لہجے اور دانائی کے ساتھ ان سے گفتگو کریں اور ان کے لیے قابلِ فہم زبان میں اُن سے کہیں کہ ہم آپ کے دوست ہیں، آپ کی بھلائی کے متمنی ہیں، ہمیں آپ کاغلطیوں اورخطاؤں میں مبتلارہنا پسند نہیں ہے، آپ کو چاہیے کہ اپنے زمانے کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے کے بعد اس میں قدم رکھیں۔
ایسا شخص جو کسی نئے راستے پر قدم رکھناچاہتا ہو، اس کے لیے بہتر ہوتا ہے کہ وہ اسکے بارے میں تجربہ کار اور علم رکھنے والے لوگوں سے معلومات حاصل کرے۔اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو گمراہ، پریشان اور اپنی منزل اور راستے سے دور ہوتاچلا جائے گا۔ ہم آپ پر کوئی چیز ٹھونسنااور مسلط کرنا نہیں چاہتے۔ ہماری خیر خواہانہ نصیحتوں اور ہدایات پر اچھی طرح غور و فکرکیجیے۔ہم آپ کے اردگرد موجود تمام دوسرے لوگوں سے زیادہ آپ کے ہمدرد ہیں، آپ کی کامیابی ہماری کامرانی اورآپ کی ناکامی ہماری نا مرادی ہے، آئیے ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ طرزِ عمل اختیار کریں۔
یہاں تفاہم کا سبب بننے والا مطلوب اور مناسب نکتہ یہی ہے کہ آئیے ایک دوسرے کے قریب آئیں، ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
نسلِ جوان کی تربیت کی غزل کا شاہ بیت یہی نکتہ ہے، جو ہمیں حکمت اور موعظۂ حسنہ کے ذریعے مشکلات کے صاف اور شفاف حل کا راستہ دکھاتا ہے اور اس مشکل کو درشتی، سختی اور تحکّمانہ انداز سے حل کرنے سے منع کرتا ہے۔
ایک دوسرے کو سمجھنا او رسمجھانا، وہ دو موضوعات ہیں جن پر نسلِ جوان کی ہدایت اور رہنمائی کے سلسلے میں بحث و گفتگو ہونی چاہیے۔
کیا ہمارے گھرانوں میں اس دوستانہ اور مخلصانہ طریقے پر عمل کیا جاتا ہے؟
اگر ایسا ہے تو پھر ہم اور ہمارے بچے ایک کامیاب اور کامران زندگی بسر کریں گے۔
ہمارے مدارس اور تعلیم و تربیت کے اداروں میں جوانوں کی امیدوں، آرزؤں، اعتماد، زندگی اور ان کے اعتقادات کا سامنا کس انداز سے کیا جاتا ہے؟
اگر ان میدانوں میں ان اداروں نے درست طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا ہے، تو پس، ہم نے اپنی گرانقدر امانتوں کو قابلِ اعتماد اور پاکیزہ ہاتھوں کے سپرد کیا ہے۔
ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے جوان بے پروا، لا ابالی، کم ہمت، گمراہ اور تباہ شدہ ہوں۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے سے تعلق رکھنے والے جوان ذمے دار اور اپنے زمانے سے آگاہ و آشنا ہوں، تعمیر و ترقی کی جد و جہد میں مصروف ہوں، بلند مقاصد اور تمناؤں کے حامل ہوں اور دوسروں کی اندھی تقلیدسے گریزاں اور معاشرے سے بگاڑ کی جڑیں کاٹنے کے لیے کوشاں ہوں۔ تاکہ عظیم مرتبے اور سر بلندی کے مقام پر فائز ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عزت و توقیر انہیں اسلام کی زیادہ سے زیادہ معرفت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی، اسلام جو دونوں جہانوں کی کامیابی کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی گتھیوں کو سلجھانے اور انسانوں کے سامنے روشن افق کھولنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
اسلام کے نقطۂ نظر سے جوانی، زندگی کے مختلف مراحل کا درمیانی مرحلہ ہے۔ جوانی در حقیقت آگہی، ادراک اور شعور کا دور ہے۔ اگرجوان(لڑکے اور لڑکیاں) ذمے داری کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ ہوتے، تو یہ ممکن نہ تھا کہ خداوندِ عالم شرعی فرائض کی ذمے داری ان پر ڈالتا جس کا لازمہ تعقل، فرمانبرداری اور جزا و پاداش ہے۔
اس سے بڑی ذمے داری اور کیا ہوتی کہ جوان زمین پر خدا کا خلیفہ ہو اور دوسرے مکلفین کی مانند اپنے شرعی فرائض کی ادائیگی کا پابند ہو، اور خود کو انہی کی طرح خدا کے سامنے جوابدہ سمجھے۔ کیونکہ روزِ قیامت تمام لوگ مساوی طور پر خدا کے سامنے جوابدہ ہوں گے، اور لوگوں کی جوانی اور پیری کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ اِن سے سلوک کی بنیاد یہ ہو گی کہ سب یکساں طور پر مکلف تھے۔
افسوس کہ ہم اپنے یہاں تربیت کے میدان میں ایک تلخ حقیقت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ وہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے بعض لوگ بچے کو اس کی زندگی کے پہلے سات برس اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں، دوسرے سات برس میں بھی اسی حال میں رہنے دیتے ہیں اور تیسرے سات برس میں بھی اسے کھلا چھوڑے رکھتے ہیں۔ جبکہ ہمیں چاہیے کہ اس کی زندگی کو مختلف مراحل میں تقسیم کریں اور ہر مرحلے کے تقاضوں کے مطابق عمل کریں۔ یعنی دوسرے سات برس میں اسے ادب تمیز سکھائیں او رتیسرے سات برس میں اسکے ساتھ دوست اور ہم نشیں کا سا طرزِ عمل اختیارکریں۔
اسی طرح ہم یہ بھی بھلا بیٹھتے ہیں، یا اس بات کی طرف سے بھی غافل ہوتے ہیں کہ جوانی اور شباب سے قبل کا مرحلہ دراصل جوانی کے مرحلے کی تمہید اور اس میں قدم رکھنے کوآسان بنانے کا مرحلہ ہے، تاکہ انسان نہایت سکون اور بغیر کسی پیچیدگی کے اس مرحلے میں قدم رکھ سکے۔ کیونکہ کسی کے اس دنیا میں آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے داخل ہو کریہاں کی ہر چیز کو حیرت و استعجاب کی نظروں سے دیکھنے او رخود کو ایک مشکل اور دشوار وادی میں پانے اور کسی کے رفتہ رفتہ اس نئی دنیا کی اشیا سے واقف ہونے کے بعد اوریہاں کی مشکلات سے نبردآزما ہونے کی تیاری کے ساتھ اس میں داخل ہونے کے درمیان بہت فرق ہے۔
اسی طرح خود کو کسی آب و ہوا کا عادی بنانے کے بعد وہاں جانے اور بغیر کسی تیاری کے یک بیک ایک مختلف آب و ہوا کی حامل سر زمین پر قدم رکھنے کے درمیان بھی بہت فرق ہے۔
بچپنے کا مرحلہ اسکولوں میں قائم مونٹیسوری اور نرسری کے مراحل کی مانند ہے۔ اسلامی شریعت میں بھی تمیز (اچھے برے کی تمیز رکھنے والے) بچے کی عبادت کو فرض اور واجب کے عنوان سے قبول نہیں کیا جاتا (کیونکہ وہ ابھی مکلف نہیں ہوا ہے) بلکہ اسکی عبادت مستحب اور عباد ت کا عادی بنانے کے عنوان سے مقبول ہے۔
ایک اور پہلو جسے ہمیں ملحوظ رکھنا چاہیے، وہ یہ ہے کہ جوان لڑکے کی تربیت کی مشکلات اور مسائل علیحدہ ہوتے ہیں اور جوان لڑکی کی تربیت کی مشکلات اور مسائل کچھ اور۔ افسوس کہ بہت سے مذہبی اور متدین گھرانوں میں بھی اس نازک اور لطیف موجود (لڑکی) کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور اسی بنیاد پر اس سے سلوک کیا جاتا ہے۔ اسی طرح لڑکیوں پر لڑکوں کو ترجیح دینا، حتیٰ لغزشیں اور خطائیں سرزد ہونے کی صورت میں بھی ردِ عمل کے اظہار میں لڑکیوں سے امتیازی سلوک برتنا، گزشتہ زمانے کی مانند اب بھی ان گھرانوں تک میں معمول ہے جو جدیدمادّی آسائشوں اور سہولتوں سے تو بہرہ مند ہیں لیکن لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین عادلانہ سلوک سے بے بہرہ۔
مذکورہ مسائل او ران کے علاوہ دوسری مشکلات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے حضرت آیت اﷲ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اﷲ کی خدمت میں ایک ایسی نشست کے انعقاد کی تجویز پیش کی جس میں نوجوانوں کی مشکلات اور مسائل کا جامع انداز میں گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے۔
ہمارے اس اقدام کی وجہ یہ نہیں تھی کہ اس حساس اور اہم موضوع پر کسی مسلم مصنف نے تحریر نہیں کیا ہے، لیکن ہمارا خیال ( جہاں تک ہماری اطلاع ہے ) یہ ہے کہ اس وقت تک اس بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں اس قدر صراحت اور جرأت نہیں پائی جاتی جو موصوف کے کلام میں موجزن ہے۔ البتہ ہم اس بات کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ صاف گوئی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور جرأت کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
لیکن کیا حقیقت کو یوں ہی پوشیدہ رہنے دیا جائے، گو ہریوں ہی صدف میں بند رہے، آخر کب تک؟
ہمارا خیال ہے کہ حقیقت کو چھپانا، اسے مسخ کرنا یا اسے کھیل بنا لینا (خواہ ایساکم ہو، خواہ زیادہ)ایک جرم ہے۔ ایسے لوگ جو حقیقت کے آزادانہ اظہار سے خوف کھاتے ہیں وہ نسلِ جوان کو مضبوط بنیادوں پر محکم قدموں کے ساتھ کھڑے ہونے کی نعمت سے محروم رکھتے ہیں، جو اُن کے لیے ایک وسیع افق میں داخلہ ممکن بناتی ہے۔ اسلام کبھی بھی ان وسیع آفاق پر کھلنے والی راہیں بند نہیں کرتا، بلکہ اس کا گناہ ان لوگوں کی گردنوں پر ہے جنہوں نے مختلف بہانوں سے ان آفاق پر کھلنے والی راہوں کو بند کردیا ہے۔
بہر صورت آج ہمیں کچھ ایسے علما میں یہ شجاعت نظر آرہی ہے جنہوں نے اس مرحلے کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے اور وہ لوگوں کو اپنے علم و دانش سے فیضیاب کرنے پر کمر بستہ ہیں۔
ہم آیت اللہ فضل اﷲ کے ہمراہ ایک ایسی حقیقت کے رو برو کھڑے ہیں جو ایک طویل عرصے سے ہماری نظروں سے اوجھل ہونے کے باوجود اب بھی اپنی تمام تر اصالت، حرارت، صداقت اور عظمت کے ہمراہ معاشرتی حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔
ہم نے (زیر نظر کتاب میں)جوان اور جوانی کے موضوع سے اپنی گفتگو کاآغاز کیا ہے، جو انوں کے بارے میں رسولِ کریمؐ کی ہدایت، نصیحت اور ان قرآنی آیات سے سبق لیاہے جن میں جوانوں سے باپ کے مقام و مرتبے، بیٹے کی حیثیت، رسالت کی ذمے داری اور دوستی و ہم نشینی وغیرہ جیسے موضوعات پر گفتگو کی ہے۔
اس کے بعد جوانی اور بلوغ کے مرحلے کی خصوصیات و امتیازات اور اس سے متعلق دوسرے مسائل پر گہرائی اور تفصیل کے ساتھ گفتگو کا دروازہ کھولا گیا ہے۔ اس مقام پر ایسے مسائل بھی زیر بحث لائے گئے ہیں جن پر شرم وحیاکے پردے میں اور انتہائی نجی محفلوں میں بھی سرگوشیوں میں گفتگو کی جا تی ہے۔
ہمارانقطۂ نظر یہ ہے کہ نوجوانوں کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی تعمیر اور نشو و نما تمام افرادِ معاشرہ کی مشترکہ ذمے داری ہے، اور اس ذمے داری کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی اپنی سرگرمیوں اور کوششوں کو اس مقصد کے لیے ہم آہنگ کریں۔
ہم نے اس گفتگو میں نوجوانوں کی تربیت سے تعلق رکھنے والے بنیادی اور اہم مسائل کا جائزہ لیا ہے۔ ایک مسلمان معلم و مربی کے کردار سے گفتگو شروع کرتے ہوئے تقلید، خود باختگی، جزاو سزا، مغربی زندگی اور جنسی تعلیم و تربیت کے موضوعات تک گفتگو کا دامن وسیع کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہم نوجوانوں کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے موضوع سے بھی غافل نہیں رہے اور ایک نشست میں ہم نے آیت اﷲ فضل اﷲ سے سیاسی، سماجی اور طلبا کے مسائل کے بارے میں بھی دریافت کیا۔
ہم سمجھتے تھے کہ مختلف پہلوؤں پر مشتمل ہماری وسیع گفتگو اس وقت تک ناقص رہے گی جب تک فقہی مسائل، بالخصوص نوجوانوں سے تعلق رکھنے والے شرعی مسائل کے ذریعے اسے مکمل نہ کر لیں، تاکہ ان بہت سے مسائل اور مشکلات کے شافی جواب سامنے لائے جاسکیں جن پربہت زیادہ نزاع پایا جاتا ہے۔
ہم نے آیت اﷲ فضل اﷲ سے غنا اور موسیقی، جدید فیشن، کھیل کود اور تفریح کے وسائل، فال نکالنے، دست شناسی، ستاروں کے حال اور ذہن میں اٹھنے والے ایسے ہی دیگر مسائل کے بارے میں سوال کیے جن سے آج کے جوانوں کو واسطہ پڑتا ہے۔ گفتگو کا یہ سلسلہ دو سال کے عرصے تک جاری رہا۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ یہ سست روی ہماری ہی وجہ سے تھی۔
ہم نے آیت اﷲ فضل اﷲ سے سوال کیا کہ خود انہوں نے اپنی جوانی کے ایام کس طرح بسر کیے، جوانی میں اپنی تربیت کے لیے کیا راستہ اپنایا، نیز اپنے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں کس اسلوب کو اختیار کیا۔یہی اس مجموعے کا آخری حصہ ہے جس کے متعلق ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ اسکی تکمیل بے عیب اور بے نقص ہوئی ہے۔
بہرحال، اس گفتگو کے ذریعے ہم جن امور کو زیر بحث لا سکے ہیں وہ اس وسیع و عریض میدان میں اٹھایا جانے والا ایک بڑا اور مضبوط قدم ہے۔
ہم یہ بتادینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم نے معائب دور کرنے، مباحث کی تکمیل اور نقائص کے ازالے کے سلسلے میں اپنی سی بھرپور کوشش کی ہے، اس کے باوجودہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ کتاب کے ہر حصے میں کچھ نہ کچھ نقائص رہے ہوں گے۔
یہ وہ حقیقت جسے ہم نے ابتدا ہی میں محسوس کر لیا تھا، اور اس سے ہم آغاز ہی سے واقف تھے، لہٰذا ہم نے ہر حصے کے آخرمیں اس حصے میں زیربحث آنے والے موضوعات پر ضمیمۂ احادیث کے عنوان سے احادیثِ معصومین ؑ پیش کرنے کا اہتمام کیا۔ اسی طرح کتاب کے آخر میں ہم نے ایک اور ضمیمے کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں نوجوانوں سے متعلق آیت اﷲ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اﷲ کے استفتاء ات کو نقل کیا گیا ہے۔
بہر صورت ہم نوجوانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ کتاب کے بارے میں اپنی تنقید اور تبصرے سے دریغ نہیں کریں گے، تاکہ نہ صرف ہم خود ان سے مستفید ہوں بلکہ آئندہ اشاعت میں انہیں پیشِ نظر رکھیں۔
آخر میں خداوندِ عالم کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ ہمارے اس نا چیز ہدیے کو قبول و مشکور فرمائے اور روزِ جزا ہمیں اس کے ثواب سے بہرہ مند فرمائے : یَوْمَ لاَ یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لاَ بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَی اﷲَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ۔ (جس دن مال اور اولاد کوئی کام نہ آئے گا، مگر وہ جو قلبِ سلیم کے ساتھ اﷲ کی بارگاہ میں حاضر ہو۔ سورۂ شعراء ۲۶۔آیت ۸۸، ۸۹)
احمد احمد۔ عادل القاضی
بیروت۔ یکم جنوری ۱۹۹۵ء