دنیائے جوان

یہاں ہمیں پتا چلتا ہے کہ قرآنِ کریم کے طریقۂ نصیحت کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کوشش کرتا ہے کہ اپنی تربیتی روش کے اجزاروز مرہ زندگی سے حاصل کرے۔ اسی بنا پرو ہ ذہن کو گہرے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ تاکہ فکر کو اس احساس سے آشنا اور اس احساس کو اس پر مسلط کردے جسے انسان اپنے ارد گردکے ماحول کو دیکھ کر، سن کر اور چھو کر حاصل کرتا ہے۔ اور پھر خوف و رجا، حب و بغض جیسے وسائل سے استفادہ کر کے فکر کو انسان کے باطن کا حصہ بنادے۔

اس مقام پر ہمارے علم میں یہ بات آتی ہے اگر وعظ و نصیحت کے اسلوب اور طریقۂ کار کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے اور واعظ اور ناصح مستحکم فکری ذرائع اور نرم و نازک جذباتی وسائل سے استفادہ کرے، اور ان چیزوں کو مدِ نظر رکھے جو انسانی فکر اور احساس کے لیے ضروری ہیں، تو اس طرح گویا اس نے تربیت کا موثر اور کامیاب ترین اسلوب اختیار کیا ہے۔

نصیحت بذریعہ نمونۂ عمل

ایک نکتہ جس کا ذکر یہاں مناسب دکھائی دیتا ہے، وہ یہ ہے کہ کبھی کبھی زبانی کلامی باتیں وعظ و نصیحت پرحاوی ہوجاتی ہیں۔ لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ وعظ و نصیحت اور کلام و گفتگو کے درمیان بہت دوری پائی جاتی ہے۔ ہم اس مضمون کو اس حدیث سے حاصل کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ : من لم یکن لہ من نفسہ واعظ، لم تنفعہ المواعظ۔( جس شخص کے اپنے اندر نصیحت کرنے والا موجودنہ ہو، اسکے لیے دوسروں کی نصیحت بے سود رہتی ہے ) یہ حدیث ہم سے کہتی ہے کہ انسان اپنے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے خود کو وعظ و نصیحت کرسکتا ہے۔
امام علیؑ نے نہج البلاغہ میں اسی موضوع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :

خیرماجربت ما وعظک

ین تجربہ وہی ہے جس سے تم نصیحت حاصل کرو۔ (نہج البلاغہ۔مکتوب۳۱)

لہٰذا، تجربہ کیونکہ فکری پہلو کا حامل بھی ہوتا ہے اور احساس کا پہلو بھی رکھتا ہے، اس لیے وہ انسان کو درس بھی دے سکتا ہے اور فکر بھی، اور گرد و پیش کی حقیقتوں کی شناخت کی اساس پر اس کے لیے محرکِ عمل بھی بن سکتا ہے۔

اسی بنیادپر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے افراد جو اپنی گفتار سے پہلے اوراس سے زیادہ اپنے عمل سے دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں،  وہ اپنے اس طرزِعمل سے نصیحت کے ایک ذریعے کے طور پر استفادہ کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے وعظ و نصیحت کی اصطلاح اپنے اندر تمام فکری وسائل،  سوچ بچار، اعمال اور اثر انداز ہونے والے دوسرے ذرائع لیے ہوئے ہے۔ یہ تمام چیزیں وعظ و نصیحت کے مفہوم کی وسعت کی نشاندہی کرتی ہیں،  جس کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا جاسکتا ہے کہ: وعظ و نصیحت، اس متنوع اورآگہی بخش اسلوبِ عمل کو کہتے ہیں جو انسان کو اسکی لغزشوں کی تصحیح یا اسکے انحراف یا گمراہی کے ازالے، نیز اسکی حیات پر بندآفاق کھولنے کے لیے غور و فکر پر ابھارتا ہے۔

نصیحت لینے والا

نصیحت ناصح کا عمل ہے، ناصح اپنی تمام ترصلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نصیحت چاہنے والے کے سامنے دلائل کے ڈھیر لگاتا ہے۔ لہٰذا نصیحت لینے والے شخص میں بھی نصیحت کے تمام وسائل و ذرائع سے استفادے کی صلاحیت، قابلیت اور ارادے کا پایا جانا ضروری ہے۔

نصیحت ایسے ہی شخص پر کارگر ہوتی ہے جو کسی کلام، عمل، اسوۂ عمل یا متنبہ کرنے والے کسی ذریعے سے متاثر ہوتا ہو۔ لہٰذا ایسا شخص جو مذکورہ عوامل پر بالکل توجہ نہ دے، وہ ایک بے حس لاش کی مانند ہے۔
جس طرح قدرتی طور پر ایک مردہ انسان کا جسم شعورو احساس سے عاری ہوتا ہے، اسی طرح اکثر ایسے زندہ انسانوں میں بھی یہ ایک طبیعی امر ہوجاتا ہے جو اپنی شخصیت کو مردہ کر بیٹھتے ہیں، اپنی فکر کو منجمد کر لیتے ہیں۔ اس بات کا ذکر قرآنِ کریم میں بھی بارہا ہوا ہے، فرمانِ الٰہی ہے:

لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّایَفْقَہُوْنَ بِہَا وَ لَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَ لَہُمْ ٰاذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا ۝

ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں، آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں، کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں۔ (سورۂ اعراف۷۔آیت ۱۷۹)

یہ آیت ہم سے کہتی ہے کہ جب انسان اپنی شخصیت کے فکری یا جذباتی یا ارادی پہلو کو خشک اور منجمد کرلے، تو وہ ایک بے روح اور جامد انسان میں بدل جاتا ہے۔ ایسے ہی انسانوں کے بارے میں قرآنِ مجید کہتا ہے:

سَوَآءٌ عَلَیْہِمْ ءَاَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْن ۝

آپ انہیں ڈرائیں یانہ ڈرائیں یہ ایمان نہیں لائیں گے (سورۂ بقرہ ۲۔آیت ۶)

خَتَمَ اﷲُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَ عَلٰٓی سَمْعِہِمْ وَ عَلٰٓی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَۃٌ ۝

خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے او ر ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے ہیں۔ (سورۂ بقرہ۲۔آیت۷)

یعنی ایسا انسان جس کی شخصیت پر وعظ و نصیحت کی کرنیں بکھری ہی نہ ہوں، وہ کیونکر ان سے متاثر ہوسکتا ہے؟

ابراہیمی ؑ تربیت

 حضرت اسماعیلؑ نے اپنے والدِ گرامی (حضرت ابراہیمؑ) کا خواب سننے کے بعد فرمایا: یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ۔ (بابا!آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کیجیے۔سورۂ صافات ۳۷ ۔آیت ۱۰۲) اور اس طرح انہوں نے خدا کی مشیت کے سامنے تسلیمِ محض ہونے کا مظاہرہ کیا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت اسماعیلؑ کے اس درجۂ تسلیم، اطاعت اور انقیاد کی اقتدا ممکن ہے؟

جب ہم حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کے مختلف مراحل کا مطالعہ کرتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ آپ کے اندر ابتدا ہی سے ایک ایسے انسان کی شخصیت موجود تھی جو اپنی زندگی میں ایک حقیقتِ ِ مطلق کی جانب توجہ کے ذریعے خدا وندِ عالم کی جانب متوجہ ہے۔ اگر ہم قرآنی آیات کی روشنی میں حضرت ابراہیمؑ کے طرزِ عمل کا جائزہ لیں تو دیکھتے ہیں کہ آپ گمراہ کن کافرانہ اور مشرکانہ افکار کو چیلنج کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اپنے اطراف موجود کافر اور مشرک لوگوں کے اذہان میں شکوک و شبہات اور وسوسے پیدا کرتے ہیں۔

اس چیز کا انتہائی کھلا مشاہدہ اس مقام پر کیا جاسکتا ہے جہاں آپ ستاروں اورچاند، سورج کی پرستش کرنے والوں میں شامل ہوجاتے ہیں، تاکہ پہلے تو ان لوگوں کو ان مخلوقات کی عظمت پر متعجب اور حیران کریں اور اسکے بعد فکری مباحثے کے ذریعے انہیں اس بات کی تاکید کریں کہ ستارے، چاند اور سورج معبو د نہیں ہوسکتے، کیونکہ معبود ہونے کا مستحق تو بس وہی ہے جو ہمہ وقت حاضر اور تمام عالم پر محیط ہو۔

مذکورہ گفتگو کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ کہیں گے کہ حضرت ابراہیمؑ کی جدو جہد کا محور معاشرے کو خدا پر ایمان کی جانب لے کے آنا تھا، اور اس مقصد کے لیے آپ نے افرادِ معاشرہ کے افکار پر ضرب لگانے کا طریقۂ کار اختیار کیاتھا ۔آپ کے اس طریقۂ کار کی ایک مثال وہ واقعہ ہے جس میں آپ نے مشرکوں کے بتوں کو توڑ ڈالا اور اس توڑ پھوڑ کا الزام ان کے سب سے بڑے بت پر رکھ دیا، تاکہ بت پرستوں کو اس اعتراف پر مجبور کردیں کہ ان کے معبود بول چال پر بھی قادر نہیں۔ لہٰذا ان مشرکین نے حضرت ابراہیمؑ کے جواب میں کہا: لَقَدْ عَلِمْتَ مَا ھآؤُلاَآءِِ یَنْطِقُوْنَ۔ (تمہیں تو معلوم ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں۔ سورۂ انبیا۲۱۔آیت۵۶)

حضرت ابراہیم ؑ ان لوگوں سے اسی طرح بحث و مباحثہ کرتے تھے، تاکہ ان پر ان کے افکار کا غلط ہونا واضح کردیں۔ اور جب آپ اپنے والد (بعض مفسرین کے مطابق اپنے چچا) کی کبھی نرم لہجے میں اور کبھی سختی کے ساتھ مخالفت کرتے تھے، تب بھی اسی طریقۂ کار سے کام لیتے تھے۔ آپ نے اپنے زمانے کے ظالم بادشاہ کے سامنے بھی یہی اسلوب اپنایا:

اِذْ قَالَ اِبْرَاہِیْمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ قَالَ اَنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُ قَالَ اِبْرَاہِیْمُ فَاِنَّ اﷲَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ ۝

جب ابراہیم نے کہا کہ میرا خدا زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے، تو اس نے کہا کہ میں بھی زندہ کر سکتا اور مار سکتا ہوں۔ تو ابراہیم نے کہا کہ میرا خدا مشرق سے سورج طلوع کرتا ہے تو مغرب سے طلوع کر دے،  تو کافر مبہوت رہ گیا۔ (سورۂ بقرہ ۲۔آیت ۲۵۸)

الٰہی انسان

ہم دیکھتے ہیں کہ (ان مذکورہ واقعات میں) حضرت ابراہیمؑ میں ایک ایسی حالت پائی جاتی ہے جس نے انہیں ایک ایسا الٰہی انسان بنا دیا تھا جو اپنی ذمے داری محسوس کرتا ہے کہ ہر حال میں ایک خدا پسند زندگی بسر کرے، خدا کی پرستش کرے اور اپنے آپ کو صرف اسی کا بندہ سمجھے، یہاں تک کہ تمام دنیوی تعلقات، دشواریوں اور حالات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے یہ محسوس کرے کہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ خدا کے لیے وقف ہو نا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ خدا وندِ عالم آپ کے بارے میں فرماتا ہے :

وَ اتَّخَذَ اﷲُ اِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلاً ۝

اور اﷲ نے ابراہیم کو اپنا خلیل اوردوست بنایا ہے (سورۂنساء ۴۔آیت ۱۲۵)

یہ حضرت ابراہیمؑ کی خدا سے انسیت کا فطری نتیجہ ہے کہ خدا بھی انہیں اپنا دوست قرار دیتا ہے۔ یہ دوستی ان دونوں کے درمیان دو طرفہ باہمی محبت ایجاد کر دیتی ہے اور یہ انسان کے اپنے معبود سے ارتباط کا بلند ترین درجہ ہے، یہ بندگی کا وہ درجہ ہے جو تکمیل پاتے پاتے دوستی پر منتہی ہوتا ہے۔خداوند عالم اور حضرت ابراہیمؑ کے درمیان پائی جانے والی یہ دوستی، جس کا سرچشمہ خدا کی بندگی ہے اور جو احساس کی گہرائی میں نشو و نما پاتی ہے اور ایک ایسی حالت ہے جس کے تحت حضرت ابراہیمؑ اپنے وجود اور کائنات کو خدا کی ذات سے قائم سمجھتے ہیں اور یہ انہیں ایک ایسے درجے پر پہنچا دیتی ہے کہ وہ خدا سے مردوں کو زندہ کرنے کی خواہش کرتے ہیں:

قَالَ اِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلٰی وَ ٰلکِنْ لِّیَطْمَءِنَّ قَلْبِیْ ۝

ابراہیم نے کہا کہ پروردگار مجھے یہ دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے۔ ارشاد ہوا، کیا اس پر تمہارا ایمان نہیں ہے۔ عرض کی: ایمان تو ہے لیکن اطمینانِ قلب چاہتا ہوں۔ (سورۂ بقرہ۲۔ آیت ۲۶۰)

اس کی معنی یہ ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ خداوند عالم سے ہمکلام ہوتے وقت اور پروردگار کے ساےۂ لطف میں زندگی بسر کرتے ہوئے خدا کی محبت، عبودیت، اطاعت اور ایک مومنانہ معرفت سے گندھی ہوئی قابلِ رشک زندگی گزارتے ہیں۔

اس پہلو سے ہم حضرت ابراہیمؑ کو ایک ایسا انسان پاتے ہیں جس کی زندگی خدا کے سامنے تسلیم و انقیاد کا ایک کامل مظہر ہے۔ اس حقیقت کو ہم اس قرآنی تعبیر سے بھی درک کرتے ہیں جس کے مطابق حضرت ابراہیمؑ ہی وہ پہلے شخص ہیں جن کے بارے میں ”مسلم“ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے:

مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ ہُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ہٰذَا ۝

 یہی تمہارے بابا ابراہیم کا دین ہے اور اس نے تمہارا نام پہلے بھی اور اس (قرآن)میں بھی مسلم رکھا ہے۔ (سورۂ حج۲۲۔آیت۷۸)

اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ وَصّٰی بِہَآ اِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَ یَعْقُوْبُ ٰیبَنِیَّ اِنَّ اﷲَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلااَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۝

جب ان سے ان کے پروردگار نے کہا کہ تسلیم ہو جاؤ تو انہوں نے کہا کہ میں رب العالمین کے لیے سراپا تسلیم ہوں، اور اسی بات کی ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ اے میرے فرزند و اﷲ نے تمہارے لیے دین کو منتخب کر دیاہے، اب اس وقت تک دنیاسے نہ جاناجب تک واقعی مسلمان نہ ہوجاؤ۔ (سورۂ بقرہ۲۔آیت ۱۳۱، ۱۳۲)

لہٰذا حضرت ابراہیمؑ نے لفظ ”اسلام“ کو خدا سے سننے کے بعد اوّلین بار اسے ایک طرزِ حیات کے طور پر جاری کیا اور اسکی پیروی کی۔ اس بنا پرتمام ابراہیمی نبوتوں (اگر یہ تعبیر درست ہو تو) نے اسلام کو اس لفظ کے عام معنی کے لحاظ سے اپنا یا:

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اﷲِ الْاِسْلااَامُ ۝

دین اﷲ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔ (سورۂ آلِ عمران ۳۔آیت ۱۹)

وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلااَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ۔

اور جو اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین تلاش کرے گا، تو وہ دین اس سے قبول نہ کیا جائے گا۔ (سورۂ آ لِ عمران۳۔آیت۸۵)

یہاں اسلام سے مراد وہ توحیدی دین و مذہب ہے جو تمام نبوتوں میں نظرآتا ہے۔ فطری بات ہے جو ہمیں نظرآتی ہے کہ اپنی پوری زندگی شعوری، وجدانی اور عملی لحاظ سے خدا کے لیے وقف کر دینے والے حضرت ابراہیمؑ عام لوگوں کودعوتِ اسلام دینے کی جدوجہدکے ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ اپنے گھرانے کے اندر بھی ایک تربیتی تحریک ایجاد کریں۔تاکہ جس طرح وہ خود ایک اعلیٰ پائے کے مسلمان ہیں، اسی طرح یہ اسلام ان کی اولاد میں بھی منتقل ہو جائے۔یہ وہی چیز ہے جس کا ذکر قرآنِ کریم میں آیا ہے:

وَ وَصّٰی بِہَآ اِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَ یَعْقُوْبُ ٰیبَنِیَّ اِنَّ اﷲَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلَّاوَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۝

اور اسی بات کی ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ اے میرے فرزندو! اﷲ نے تمہارے لیے دین کو منتخب کر دیا ہے، اب اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک واقعی مسلمان نہ ہو جاؤ۔ (سورۂ بقرہ۲۔آیت ۱۳۲)

اسلام ایک تربیتی اسلوب

اسلام اسی تربیتی اسلوب کا نام ہے جس کے بارے میں حضرت ابراہیمؑ نے اپنی اولاد سے چاہا کہ وہ اس کے ذریعے فرمانِ الٰہی کی پیروی کرے۔ واضح ہے کہ یہ وہ تربیتی اسلوب ہے جس نے اپنے آپ کو اسماعیلؑ اور یعقوبؑ کی زندگیوں میں مجسم کیا۔

جب ہم آيۂ قرآن: فَبَشَّرْٰنہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ ۝  (اور پھر ہم نے انہیں ایک نیک دل فرزند کی بشارت دی۔سورۂ صافات ۳۷۔آیت ۱۰۱)کو پڑھتے ہیں تو ہمیں پتاچلتا ہے کہ مدتِ دراز تک ناامیدی کے بعد حضرت ابراہیمؑ کو ایک فرزند کی خوش خبری دی گئی ہے۔ خداوندِ عالم انہیں ایک ایسے فرزند سے نوازتا ہے جس کے پائے ثبات میں سخت اور دشوار حالات میں بھی تزلزل اور لڑکھڑاہٹ پیدا نہیں ہوتی۔

آےۂ کریمہ: فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ۔(پھر جب وہ فرزند، ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کے قابل ہوگیا۔سورۂ صافات۳۷۔آیت۱۰۲) اس بات کی علامت ہے کہ اسماعیلؑ اپنے والد کے ساتھ گزاری ہوئی مدتِ حیات میں مکمل طور پر ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ اور یہ ایک فطری بات ہے، خاص طور پر اس وقت جب ایک طویل عرصے کی ناامیدی کے بعد ایسا پیارا بچہ انسان کو نصیب ہوا ہو۔ حضرت ابراہیمؑ خداوند عالم کے ساتھ اپنی تمام قلبی اور ایمانی وابستگی، اور اپنی معنوی معرفت جو فکری، روحی، عبادی اور عملی پہلوؤں کا آمیزہ تھی، اپنے فرزند اسماعیلؑ میں منتقل کرتے ہیں، یہاں تک کہ سراسر تسلیم و انقیاد کی جو حالت حضرت ابراہیمؑ میں موجود تھی وہ اب حضرت اسماعیلؑ میں بھی پائی جاتی تھی۔

جذباتی احساسات اور نفس کے خلاف جنگ

خداوندِ عالم حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی زندگی کو مستقبل کے تمام باپوں اور بیٹوں کے لیے بارگاہِ الٰہی میں اعلیٰ ترین تسلیم و انقیاد کی ایک مثال کے طور پر پیش کرناچاہتا تھا۔ شفقتِ پدری، کسی اور کے ہاتھوں اپنے بیٹے کو ذبح ہوتے نہیں دیکھ سکتی، چہ جائیکہ باپ خود اپنے ہاتھوں اپنے فرزند کو ذبح کرے۔ یہ اسی صورت میں ممکن نظرآتا ہے جب باپ اس محبت و چاہت کا گلا گھونٹ دے جو قدرتی طور پر اسے اپنے اکلوتے، خوبصورت اور محبوب فرزند سے ہوتی ہے۔

دوسری طرف اسماعیلؑ بھی اپنے نفس اور اپنی ذات سے محبت کے خلاف جہاد کے اعلیٰ ترین درجات پر اسی طرح پہنچے ہوئے ہیں جس طرح دونوں (باپ بیٹوں) نے ایمان کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کے خلاف جنگ کی تھی، اور ایمان کے اس درجے پر فائز ہیں جو ان سے کہہ رہا ہے کہ آگے بڑھ کراس چیلنج کا جواب دیں۔ لہٰذا حضرت ابراہیمؑ کے لیے ضروری تھا کہ اپنی شفقتِ پدری کو فنا کر دیں اور حضرت اسماعیلؑ کے لیے بھی لازم تھا کہ اپنی ذات کے احساس کو مار ڈالیں اوریوںیہ دونوں اس آزمائش سے کامیابی کے ساتھ باہر نکلیں۔ ہم کلامِ الٰہی میں دیکھتے ہیں کہ:

قَالَ ٰیبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی ۝

انہوں نے کہا کہ بیٹا میں مسلسل خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے

اس سوال کے جواب میں اسماعیل ؑ بلا تامل اور بے دھڑک کہتے ہیں:

یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اﷲُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ ۝

بابا آپ کو جو حکم دیا جار ہا ہے اس پر عمل فرمایئے انشاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (سورۂ صافات۳۷۔آیت۱۰۲)

باپ اور بیٹا

مذکورہ گفتگو سے پتا چلتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اپنے فرزند کی تربیت کرتے ہوئے، انہیں تسلیم و اطاعت کے ایک ایسے اعلیٰ مرتبے تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے جہاں انسان خدا کی طلب اور خواہش کے سامنے اپنی ذات کو بھلا بیٹھتا ہے۔حضرت ابراہیمؑ نے برسوں کی نا امیدی کے بعد صاحبِ اولاد ہونے والے اکثر باپوں کی مانند رَویہ اختیارنہیں کیا۔ انہوں نے حضرت اسماعیلؑ کی پرورش ناز و نعم کے ساتھ نہیں کی اور انہیں ایسی آزادی نہیں دی کہ وہ عیش کوشی اور لہو و لعب میں پڑ جائیں۔ اور خود پر وہ حالت طاری نہیں ہونے دی جس کے ہوتے ہوئے باپ کو بیٹے کی خطائیں مقدس نظرآتی ہیں اور اسکی برائیاں نیکیاں معلوم دیتی ہیں۔ کیونکہ باپ کی شدید محبت ایسے بیٹے کی آزردگی برداشت نہیں کر سکتی۔

ہمارے خیال میں حضرت اسماعیلؑ اس آزمائش کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے۔ نیز حضرت ابراہیم ؑ میں بھی دعوت و رسالت اس قدر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ آپ اپنے بیٹے کو انسانی محبت و شفقت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے، بلکہ اسے بھی چشمِ رسالت سے دیکھتے تھے۔ وہ خود سے کہتے تھے کہ اسماعیلؑ بھی انسان ہے، اسے بھی خدا کے ایک مخلص بندے کی مانند توحید کے راستے پر گامزن ہونا ہے۔ لہٰذا ایسا نہ ہو کہ ہمارا باہمی رشتہ ہمیں شخصی اور انفرادی تعلق میں غرق کر دے، بلکہ مجھے چاہیے کہ اسے بھی خدا کا ایک بندہ سمجھتے ہوئے خدا کی عبودیت اور بندگی کی تاکید کروں۔ علاوہ ازایں وہ انسانی معاشرے کا ایک فرد ہے، پس مجھ پر لازم ہے کہ اسے ایسا انسان بناؤں جس کے ایمان و استقامت کے تجربے سے انسانیت مستفیض ہو۔

شخصیت میں رسالی اور انسانی پہلو کی آمیزش

حضرت ابراہیمؑ اپنی شخصیت میں رسالی اور انسانی پہلو کی آمیزش اورانہیں یکجاکرنے پر قادر رہے۔ آپ کی انسانی شخصیت کی رو سے پدرانہ کردار کا تقاضا تھا کہ اپنے بیٹے سے شفقت اور محبت کے ساتھ پیش آئیں۔ انہوں نے محبت کے ذریعے اپنے فرزند کو قربِ الٰہی اور خدا کے بھر پور اور ابدی فیوضات کا حامل ہوجانے کی منزل تک بلند کیا۔
حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت کے رسالی پہلو کے تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ خود کو اپنے فرزند کے لیے بھی ویسا ہی رسول سمجھتے تھے، جیسے رسول آپ دوسرے سب لوگوں کی ہدایت کے لیے تھے۔لہٰذا آپ کچھ ایسے لوگوں کی مانند عمل نہیں کرتے تھے جو دوسروں کو تو دعوت دیتے ہیں لیکن خود ان کے اہلِ خانہ اور اولادیں اس دعوت سے بے بہرہ رہتی ہیں۔ اور آپ یہ نہیں چاہتے تھے کہ صرف دوسروں کی آزادی پر قدغن لگائیں اور خود اپنے گھر انے کو اس دعوت سے دور رکھیں۔

حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کی ذاتی شخصیت کی تعمیر کے بعد ان کی پیغمبرانہ شخصیت کی نشو ونما کے لیے بھی اقدام اُٹھائے ۔ ابھی جبکہ آپ اپنے اس فرزند کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں مصروف تھے، آپ نے انہیں خانۂ کعبہ کی دیواروں کو بلند کرنے کے کام میں شامل کیا: وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ (اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم و اسماعیل خانۂ کعبہ کی دیواروں کو بلند کر رہے تھے۔ سورۂ بقرہ۲۔آیت ۱۲۷)

اور اس طرح آپ اپنے فرزند کو تعمیر کعبہ کے روحانی اور معنوی ماحول میں لائے ۔ یہ محض ایک مادّی اور جسمانی عمل نہ تھا بلکہ معنویت اور روحانیت سے بھر پور ایک کوشش تھی۔ اسی طرح اسحاقؑ اور یعقوبؑ نے بھی کیا: اَمْ کُنْتُمْ شُہَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْم بَعْدِیْ قَالُوْا نَعْبُدُ اِٰلہَکَ وَ اِٰلہَ ٰابَآءِکَ اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ اِٰلہًا وَّاحِدًا وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ (کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا اور انہوں نے اپنی اولاد سے پوچھا کہ میرے بعد کس کی عبادت کرو گے، تو انہوں نے کہا کہ آپ کے اورآپ کے آباؤ اجداد ابراہیم و اسماعیل و اسحاق کے پروردگار خدائے و حدہ لاشریک کی اور ہم اسی کے مسلمان اور فرمانبردار ہیں۔ سورۂ بقرہ۲۔ آیت۱۳۳)

ہمیں قرآنِ مجیدمیں اس تربیتی اسلوب کا تفصیلی ذکر نہیں ملتا جسے حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت اسماعیلؑ و اسحاقؑ اور حضرت اسحاقؑ نے حضرت یعقوب ؑ کے بارے میں اپنایا لیکن یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے ایک طرف اپنے پند ونصائح کے ذریعے اور دوسری طرف اسوۂ عمل کے توسط سے اپنے بچوں کے لیے ایک ایسا مناسب ماحول فراہم کیا جس نے انہیں آپ کی تعلیمات سے روشناس کیا۔ اور ان ہی اقدامات کا نتیجہ ہے کہ آپ کے فرزند اسماعیل ؑ، اسحاق ؑ اور یعقوبؑ سب کے سب اطاعتِ الٰہی کے خوگر ہوئے۔

انبیا کی اولادیں بھی دوسروں کی مانند ہوتی ہیں

 قرآنِ مجید میں حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کے کردار کے بالمقابل حضرت نوح ؑ اور ان کے فرزند کے کردار کا ذکر بھی آیا ہے۔۔۔ایک طرف ذبح ہو جانے کو کہا جا رہا تھا، دوسری طرف نجات کی طرف بلایا جا رہا تھا، ایک طرف تسلیم و رضا تھی، دوسری طرف انکار اور روگردانی۔۔۔اس چیز سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟

انبیا، اولیا اور علما کے بچے بھی دوسرے انسانوں کی مانند اچھے یا بُرے ماحول کا اثر قبول کرتے ہیں۔ اور جب معاشرے میں موجود مثبت اور منفی عوامل انہیں اپنی اپنی طرف کھینچنے کے لیے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کریں، تو وہ خود بھی اندرونی طور پر کشمکش سے دوچار ہو جاتے ہیں، جو اس بیرونی دباؤ کا ردِ عمل ہوتا ہے۔

لہٰذا ضروری نہیں کہ پیغمبر کا بیٹا بھی لازماً صالح اور نیک کردار ہو، یا امام، عالمِ دین یا مجاہد کا بیٹا بھی ہو بہو اپنے باپ کی خصوصیات کا مالک ہو۔ کیونکہ اس کا باپ ماحول میں موجود اجزا میں سے ایک جز ہوتا ہے اور ان سینکڑوں عوامل میں سے ایک عامل ہے جو اسکی شخصیت کی تعمیر پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ باپ دوسرے متضاد عوامل کی وجہ سے، یا اپنی دعوتی زندگی کی مجبوریوں کی بناپر ایسی کمزور صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں کہ اپنے گھرانے پر خاطر خواہ اثر انداز نہیں ہو پاتے۔ یہ بکثرت د اعیانِ دین (انبیا، ائمہ اور علما) کی مشکل ہے۔ کیونکہ بسااوقات دعوتی زندگی کی مجبوریاں، مشکلات اور پیچیدگیاں انسان کو اپنے اہلِ خانہ کی طرف توجہ نہیں دینے دیتیں۔

گمراہ معاشرے کا اثر

یہاں اس نکتے کی جانب اشارہ کر دینا بھی مناسب دکھائی دیتا ہے کہ کبھی کبھی گمراہ معاشرہ باآسانی، بغیر کسی مزاحمت کے پیغمبر کے اہلِ خانہ کو بھی اپنی راہ پر لگا لیتا ہے۔ دراصل پیغمبر کی جدوجہد ایک بڑی جماعت کے خلاف ہوتی ہے، اور مشکل یہ ہوتی ہے کہ یہ مخالف جماعت اتنے زیادہ مادّی اسباب و وسائل اور وسیع امکانات و ذرائع سے لیس ہوتی ہے کہ پیغمبر اور ان کے اصحاب کے لیے ان سے مقابلہ آسان نہیں ہوتا۔

اسکی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اور ان کے اصحاب کے پاس تمام و سائلِ قدرت موجود نہیں ہوتے، اور وہ طاقت کے کچھ ہی ذارئع کے حامل ہوتے ہیں جو انہیں قدرتی طور پر حاصل ہوتے ہیں۔ کیونکہ دعوت کا میدان انسانی طاقتوں اور صلاحیتوں کے اظہار کا میدان ہے، غیبی قوتوں کو بروئے کار لانے کا میدان نہیں۔ اس میدان میں غیب بعض خاص مواقع پر اور معین حدود ہی میں دخل دیتا ہے اور بسا اوقات تو بالکل ہی دخل انداز نہیں ہوتا۔

اس ماحول میں(گمراہ) معاشرہ پیغمبر، امام یا عالم کے گھرانے پر دباؤ ڈالتا ہے، اسے بھی اپنے پھندے میں کسنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے معاشرے میں دباؤ ڈالنے والے عناصر کی کثرت پیغمبر کے اہلِ خانہ کو بھی گمراہی کی سمت لے جاتی ہے اور ممکن ہے کبھی ان مصلحین کی مخلصانہ کوششوں کو شکست سے دو چار کردے۔

ہم کچھ ایسے انبیا، اولیا اور علما کا مشاہدہ کرتے ہیں جنہیں نا مناسب بیویوں کی طرف سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان بیویوں نے ان کے بر خلاف راہ اختیار کی۔ لہٰذا قرآنِ کریم میں حضرت نوح ؑ اور حضرت لوطؑ کی ازواج کے بارے میں آیا ہے:

ضَرَبَ اﷲُ مَثَلاًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوْطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتہُمَااٰا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اﷲِ شَیْءًا وَّ قِیْلَ ادْخُلاَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ ۝

خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کے لیے نوح اور لوط کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے کہ یہ دونوں ہمارے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں، لیکن جب ان سے خیانت کی مرتکب ہوئیں تو ان کی زوجیت نے خدا کی بارگاہ میں انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بھی جہنم میں داخل ہونے والے دوسرے لوگوں کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔ (سورۂ تحریم۶۶۔آیت ۱۰)

رسالت سے خیانت

اس گفتگو سے یہ بات بھی علم میں آتی ہے کہ خیانت سے مراد صرف عزت، آبرو اور ناموس کی خیانت نہیں، بلکہ سب سے بڑی خیانت مقامِ رسالت اور امانتِ نبوت سے خیانت ہے۔اور قدرتی طور پر یہ خیانت انبیا، اولیا اور علما کی اولادوں پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

اگر کوئی ماں فکری اور عملی طور پر گمراہ اور کفرآمیز رجحانات سے متاثر ہو، تو یہ چیز انتہائی برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ کیونکہ اس صورت میں وہ اپنے گھر میں کافرانہ رجحانات کے داخلے کا ذریعہ بنتی ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک وقت پیغمبر خود کو (معاشرے کی مانند) گھر میں بھی محصور محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے گھرانے کو اس بنا پر گمراہ کن رجحانات سے محفوظ نہیں رکھ پاتا کہ وہاں اس کی اہلیہ اسکی مخالف ہوتی ہے۔ اور حتیٰ اس صورتحال سے باہر نکلنے کا امکان بھی اس کے پاس نہیں ہوتا۔

گو کہ ہمیں قرآنِ کریم میں حضرت نوحؑ کے بیٹے کی جانب کوئی تاریخی اشارہ نہیں ملتا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے والد اسے خطاب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے ہمراہ کشتی میں سوار ہو جاؤ، اور نقصان اٹھانے والوں میں نہ جاملو: ارْکَبْ مَّعَنَا وَ لاَا تَکُنْ مَّعَ الْکٰفِرِیْنَ (ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہو جاؤ اور کافروں میں نہ ہو جاؤ۔سورۂ ہود ۱۱۔ آیت۴۲) لیکن جیسا کہ واضح ہے حضرت نوحؑ کا بیٹا گمراہ ہے، وہ اپنے والد کے احترام کو ذرّہ برابر ملحوظ نہیں رکھتا، ان کی تنبیہ کو خاطر میں نہیں لاتا، ان کے غیب کے ساتھ تعلق پر ایمان نہیں رکھتا اور یہ بات نہیں مانتا کہ اس کا باپ اس بڑی مشکل سے نمٹنے کے لیے اتنی طاقت کا مالک ہے کہ کسی اور میں اتنی قدرت نہیں: قَالَ سَاٰوِیْٓ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِ۔ (اس نے کہا میں عنقریب کسی پہاڑپر پناہ لے لوں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔سورۂ ہود۱۱۔آیت ۴۳)۔ حضرت نوحؑ جو، اب اپنے بیٹے کی ہدایت سے ناامید ہو چکے تھے، فرماتے ہیں: لاَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اﷲِ (آج کوئی حکمِ خدا سے بچانے والانہیں ہے۔ سورۂ ہود۱۱۔آیت۴۳)

اس موقع پرحضرت نوحؑ نے اپنے پروردگار کو جو صدا دی اس میں اعتراض کا پہلو نہ تھا، بلکہ آپ نے اسے سوال اور التماس کے لہجے میں پکارا تھا۔ کیونکہ خدا وندِ عالم نے ان سے ان کے فرزند کی نجات کا وعدہ کیا تھا:

وَ نَادٰی نُوْحٌ رَّبَّہٗ فَقَالَ رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ وَ اِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَ اَنْتَ اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ قَالَ یَانُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَہْلِکَ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ۝

(اور نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار ! میرا فرزند میرے اہل میں سے ہے اور اہل کو بچانے کا تیرا وعدہ بر حق ہے اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ ارشادہوا: نوح! یہ تمہارے اہل میں سے نہیں ہے، یہ عملِ غیر صالح ہے۔ سورۂ ہود۱۱۔ آیت ۴۵، ۴۶)