صداقت، شبہوں کا ازالہ کرتی ہے
دنیائے جوان • آیت اللہ العظمیٰ سید محمد حسین فضل اللہ قدس سرّہ
آپ کا کیا خیال ہے، کیا ایک سماجی مصلح کی گھریلو زندگی کی ناسازگاری اسکی اصلاحی جدو جہد کو نقصان نہیں پہنچاتی، یا کم از کم اسکی قدر و قیمت کو گھٹا نہیں دیتی؟
بالکل، یہ صورتحال کبھی کبھی داعی اور مصلح کے خلاف عوام کے ذہن میں ایک ناپسندیدہ تاثر چھوڑتی ہے۔ خواہ یہ داعی پیغمبر ہو، امام ہو یا اہلِ ایمان میں سے کوئی شخص۔ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اس صورتحال کے منفی پہلو کو نمایاں کریں اور یہ بات پھیلائیں کہ یہ شخص اپنی دعوت میں سچا نہیں اور اسکی دعوت اور سرگرمیوں کا واحد مقصد لوگوں کو اپنا فریفتہ اور گرویدہ بنانا اور منصب و مقام اور مال و دولت کے حصول کے لیے ان سے فائدہ اٹھانا ہے۔
قرآنِ کریم میں جہاں خداوندِ عالم نے انبیا کی اقوام کے بارے میں گفتگو کی ہے، وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اقوام اپنے پیغمبروں پر تہمت لگاتی ہیں کہ ان کی جدوجہد لوگوں پر تسلط و اقتدار اور مادّی فوائد کے حصول کے لیے ہے۔ جس طرح کہ حضرت موسیٰ اور فرعون کے قصے میں ملتا ہے کہ لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر موسیٰ اپنی دعوت میں سچے ہیں اور اس پر صدقِ دل سے ایمان رکھتے ہیں، تو اس کے اظہار کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے گھرانے کو بھی دعوت دیں اور انہیں بھی اپنے اوپر ایمان لانے والابنائیں۔
اسی طرح جب لوگ دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص بلندبانگ نعرے لگا رہا ہے اور لوگوں کو اصلاح کی دعوت دے رہا ہے، جبکہ خود ان چیزوں کا پابند نہیں، تو اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر وہ اپنی دعوت میں مخلص ہے، تو پہلے خود اپنی اصلاح کرے، بعد میں دوسروں کو دعوت دے۔
جی ہاں ! یہ صورتحال عام حالات میں منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ شخص (عالم یا کوئی بھی دوسرا داعی) لوگوں کو باور کرا دے کہ وہ اپنی دعوت میں سچا ہے اور لوگ بھی اسے اپنے مشن میں مخلص سمجھنے لگیں اور یہ بھی دیکھ لیں کہ وہ اپنی گمراہ اولاد سے سازباز نہیں کرتا اور انہیں دوسرے افراد پر کوئی ترجیح نہیں دیتا، نیز اپنی دعوت کے دوران اس نے اپنے اہلِ خانہ کو راہِ راست پر لانے میں کوئی سستی نہیں کی ہے، کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، تو لوگ دعوت کے سلسلے میں اسکی سچائی اور اخلاص پر یقین کر لیتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ابو لہب، جو پیغمبر اسلاؐم کا چچا تھا، آنحضرؐت کی دعوت کا سخت مخالف تھا، لیکن اس چیز نے لوگوں کے اذہان میں آنحضرتؐ کے لیے کوئی منفی اثر مرتب نہیں کیا، کیونکہ آنحضرتؐ کے دعوتی کردار، دعوتی سرگرمیوں میں آپ کی تن دہی اور سخت جدوجہد اور مسلمان بیگانوں کو غیر مسلم اقربا پر مقدم رکھنے کے عمل نے، لوگوں پر یہ واضح کر دیا کہ آنحضرتؐ کے رشتے داروں پر اسلامی دعوت کے اثرانداز نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی دعوت میں مخلص نہیں، بلکہ یہ اُن لوگوں کی شخصیت میں موجود پیچیدہ عناصر کا نتیجہ ہے۔ اسی بنا پر اس بات نے آنحضرتؐ پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالا۔
ہماری رائے ہے کہ اگرداعیان و مبلغانِ دین اپنے اہلِ خانہ اور رشتے داروں سے برتاؤ میں اس بات کی پابندی کریں اور لوگوں پر یہ بات ثابت ہو جائے کہ وہ اپنے بچوں سے مشفقانہ تعلق کی بنا پر ان کی گمراہی کو نظر انداز نہیں کریں گے، تو اس صورتحال( یعنی ان کے بچوں اور اہلِ خانہ کی گمراہی) کا منفی اثر زائل ہو کر شاید ان کے لیے ایک مثبت عامل میں بدل جائے۔
گمراہ کن ماحول اور اخلاقی مانع
سورۂیوسف میں ہم ایک ایسے جوان کا تذکرہ پاتے ہیں جو شہوت انگیز ماحول میں گھرے ہونے کے باوجود پرہیز گاری کا ثبوت دیتا ہے اور اپنے نفس کی حفاظت کرتا ہے۔ ہمارے زمانے کے جوان کس طرح حضرت یوسفؑ کی تأسی کر سکتے ہیں؟
حضرت یوسفؑ جس صورتحال سے دوچار ہوئے، جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں، تو پتا چلتا ہے کہ انہیں ہمارے زمانے کے نوجوان کی نسبت کہیں زیادہ سخت اور انتہائی دشوار صورتحال کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ کیونکہ موجودہ زمانے میں فریب اور گمراہی کے وسیع مواقع کی طرف نوجوان اپنے شوق اور ارادے سے قدم اٹھاتے ہیں، اور اکثر مواقع پروہ یہ راہ طوعاً و کرہاً اختیار نہیں کرتے اور ان سے ان کی آزادی اور اختیار سلب نہیں کیا جاتا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسفؑ کو اس عورت کے شوہر نے خریدکر اپنا غلام بنایا تھا، جو رات دن آپ کے ساتھ رہتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسفؑ از خود، بغیر کسی بیرونی مداخلت کے اس عورت کی طرف سے بے اعتنائی برتتے ہیں۔ کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ حضرت یوسف ؑ نے اس کے حسن و جمال کی طرف کسی رغبت کا اظہار کیا اور ان کی شخصیت میں موجود جنسی خواہش بیدار ہوئی۔ یہ تمام باتیں اس بات کی علامت ہیں کہ حضرت یوسفؑ اس حالت کی مخالف ذاتی عصمت کے مالک تھے۔
ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ حضرت یوسفؑ کیونکہ غلام تھے اس لیے ان میں اپنی مالکن سے دست د رازی کی جرأت نہ تھی۔ یعنی حضرت یوسفؑ اور اس عورت کے درمیان ایک داخلی حجاب حائل تھا جس نے انہیں اس عمل کے ارتکاب سے روکے رکھا۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اگرچہ یہ حجاب بعض مواقع پر رکاوٹ ثابت ہوتا ہے لیکن لمبے عرصے تک موثر نہیں رہتا، بالخصوص جب خود عورت ارتکابِ گناہ پرآمادہ ہو۔