دنیائے جوان

حضرت یوسف ؑ نے جس صورتِ حال کا شدت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ یعنی عزیز مصر کی بیوی کی ناجائز خواہش کو جس سختی سے مسترد کیا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کے اس اجتناب کا سبب کوئی داخلی حجاب نہ تھا، بلکہ جو چیز حائل ہوئی وہ ایمانی رکاوٹ تھی۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اﷲ رب العزت فرماتا ہے: وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ وَ ہَمَّ بِہَا لَوْ لااَآ اَنْ رَّاٰا بُرْہَانَ رَبِّہٖ۔ ( اور یقیناًاس عورت نے ان سے برائی کا ارادہ کیا اور وہ بھی ارادہ کر بیٹھتے، اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے۔ سورۂ یوسف۱۲۔ آیت۲۴)

بعض لوگ اس آیت کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ حضرت یوسفؑ نے اس عورت سے برائی کا قصد کر لیا تھا، لیکن جس تفسیر کی جانب ہمارا جھکاؤ ہے اور جسے ہم قرآنی بیان کے نزدیک ترین سمجھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ محضغیر شعوری طور پر اسکی جانب مائل ہوئے تھے، بالکل اسی طرح جیسے انسان اپنی پسندیدہ غذا کی طرف راغب ہوتا ہے اور اس موقع پر غیر شعوری طور پر بھوک محسوس کرتا ہے، لیکن یہ میل اور رغبت دیر پا نہیں ہوتی، کیونکہ یہ غیر شعوری ہوتی ہے، ارادی اور عمدی نہیں: لَوْ لااَآ اَنْ رَّاٰا بُرْہَانَ رَبِّہٖ (اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے) یعنی اگر ان کا ایمان بیدار نہ ہو جاتا۔ لہٰذا عصمت کے معنی حرام کھانوں، مشروبات اور حرام خواہشات کی جانب سے بے رغبتی اور بے میلی نہیں، بلکہ اسکے معنی یہ ہیں کہ معصوم حرام کا ارتکاب نہیں کرتا، حرام میں ملوث نہیں ہوتا اور جبلی اور فطری رجحانات کے زیرا ثر عملِ بد کا مرتکب نہیں ہوتا۔

اس داستان کی شکل و صورت اس وقت اور واضح ہو جاتی ہے جب عزیز مصر کی بیوی مصری بیگمات کی ایک محفل جماتی ہے اور وہاں ان کے سامنے حضرت یوسفؑ کو طلب کرتی ہے اور جوں ہی ان عورتوں کی نگاہ حضرت یوسفؑ کے سراپے پر پڑتی ہے، وہ بے اختیار کہہ اٹھتی ہیں: حَاشَ لِلّٰہِ مَا ہٰذَا بَشَرًا اِنْ ہٰذَآ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیْمٌ۔ (ماشا ﷲ یہ تو انسان نہیں بلکہ کوئی محترم فرشتہ ہے۔سورۂ یوسف۱۲۔آیت ۳۱)

اس مو قع پر حضرت یوسفؑ کو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ ان کے گرد حصار تنگ سے تنگ تر ہوتا چلا جا رہا ہے، یہاں تک کہ ان سے بے اعتنائی ان کے بس سے باہر ہو جائے گی، کیونکہ اس سلسلے میں وہ اپنی پوری طاقت صرف کر چکے تھے۔

اس صورتِ حال پر توجہ کے ذریعے ہم حضرت یوسفؑ کی اس تکلیف اور اذیت کو محسوس کر سکتے ہیں جو آپ نے اس عورت کی گمرا ہ کن دعوت سے بچاؤ کے سلسلے میں اٹھائی تھی۔ اور یہی درد و رنج ہے جس کی بنا پر وہ خدا سے التجا کرتے ہوئے فرماتے ہیں: رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہ وَ اِلَّا تَصْرِف عَنِّیْ کَیْدَہُنَّ اَصْبُ اِلَیْہِنَّ۔(پروردگار! یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ مجھے دعوت دے رہی ہیں اور اگر تو ان کے مکر کا رخ میری طرف سے موڑ نہ دے گا، تو میں ان کی طرف مائل ہو سکتا ہوں۔ سورۂ یوسف۱۲۔آیت ۳۳)