سورۂ یوسف کے ایک حصے میں برادرانِ یوسف ؑ کی دھوکا دہی کا تذکرہ ہوا ہے۔ یہ بات پیش نظر رکھتے ہوئے کہ حضرت یوسفؑ اور اُن کے بھائیوں نے حضرت یعقوبؑ کے زیر سایہ ایک ساتھ تربیت پائی، آپ حضرت یوسفؑ کے بالمقابل اُن کے بھائیوں کے مؤقف اور کردار کی کس طرح توجیہ کریں گے؟
دکھائی یہ دیتا ہے کہ بہت سے انسانوں کی مشکل یہ ہے کہ انہوں نے ایمان کو اپنے لیے ایک از خود حاصل امتیاز سمجھا ہوا ہے۔ خواہ یہ انسان انبیا کی اولاد ہوں، ائمہ کی یا علما کی اور خواہ یہ مسلمان معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے اہلِ ایمان ہوں۔ایمان نے ایسے لوگوں کی روح کی گہرائی اور شخصیت کے باطن میں جگہ نہیں بنائی ہوتی اور اس سے ان کا باطن سرشار اور متاثر نہیں ہوا ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظر میں پورا کا پورا دین صرف تقلیدی طور پر محض چند مخصوص عبادی اور معنوی اعمال کی انجام دہی تک منحصر ہو کے رہ جاتا ہے۔
بصد افسوس، اخلاقی مسائل کے بارے میں یہ لوگ سنجید گی اور گہرائی کے ساتھ توجہ نہیں دیتے، جن میں نفسانی خواہشات اور شیطانی وسوسوں کی مخالفت کی ضرورت ہوتی ہے اور جو انسان میں الٰہی اور شیطانی عناصر کے درمیان جنگ کا ایک میدان ہیں۔اسکی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ ان امور میں تربیت کو اپنی شخصیت کے لیے کوئی بنیادی حیثیت دینے کو تیار نہیں ہوتے ۔
عصرِ ائمہ ؑ میں
انبیا، اولیا، علما اور مومنین کی بہت سی اولادوں میں بھی غیر اخلاقی صفات پائی جاتی ہیں۔ عصرائمہ ؑ میں بھی بنی حسین ؑ (جو مقامِ امامت پر فائز تھے) کے خلاف بنی حسن ؑ کا مؤقف قابلِ توجہ ہے، جس سے اُن کے حسد کاپتا چلتا ہے ۔ اسی طرح دوسرے ائمہؑ کے بعض فرزندوں کاطرزِ عمل ہے۔ مثال کے طور پر انہی میں سے ایک کا ہارون الرشید کے دربار میں امام موسی کاظمعلیہ السلام کی چغل خوری کرنا اور اسی طرح امام محمد تقی علیہ السلام کے فرزند جعفر (جو جعفر کذاب کے نام سے مشہور ہے) کا منفی کردار، حسد کی نمایاں مثالیں ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ مذکورہ مثالوں میں ایک ایسی خاص حالت پائی جاتی ہے جو داخلی ماحول کو مثبت کی بجائے (بعض لحاظ سے) منفی باتوں کی پرورش کا ذریعہ بنا دیتی ہے۔ کیونکہ ایسے انسان فضائل اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے معمور فضا میں زندگی بسر کرنے کے باوجود، ان فضائل کے بارے میں کوئی مثبت احساس نہیں رکھتے۔
حضرت یعقوب ؑ کے فرزندوں کا مسئلہ بھی یہی تھا، اس لیے کہ وہ یوسفؑ اور ان کے دوسرے بھائی( ان دس بھائیوں کی مائیں علیحدہ علیحدہ تھیں) کے حوالے سے ایک نفسیاتی کمپلکس کا شکار تھے۔
حضرت یعقوبؑ اپنے دوسرے فرزندوں کی نسبت حضرت یوسف ؑ اور ان کے بھائی (بنیامین) سے زیادہ جذباتی لگاؤ رکھتے تھے اور ان دو کو ان دس پر مقدم رکھتے تھے۔ لہٰذا ان کے بقیہ فرزندوں کا ان سے حسدمیں مبتلاہوجانا شاید اسی جذباتی تفریق کا نتیجہ قرار دیا جاسکے۔
دوسرا قابلِ ذکر امکان یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت یوسفؑ اور ان کے بھائی (بنیامین) کی کامیابیاں ان کے دوسرے بھائیوں کے دل میں ان کے خلاف حسد کی وجہ بنی ہوں اور وہ انہیں نقصان پہنچانے کے بارے میں سوچنے لگے ہوں۔
اگر یہاں کوئی یہ سوال کرے کہ وہ پیغمبر تھے (پس کیوں ایسے طرزِ عمل کے مرتکب ہوئے) تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا پیغمبر ہونا ثابت نہیں۔ غالباً قرآنِ کریم سے بھی یہ بات اخذ نہ کی جاسکے ۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ اپنے طرزِ عمل کی خرابی کا علم ہو جانے کے بعد وہ نیک اور صالح انسان بن گئے ہوں اور اس نفسیاتی کمپلکس سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہو۔
دعوت کے دوران
مذکورہ بالا گفتگو کی روشنی میں، ہم اپنے معاشرے کے حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے، اپنے فریضے کو واضح کر سکتے ہیں۔ لہٰذااس بات کو بنیادی عنوان سے پیشِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ علما، مومن والدین اور صالح رہنما و قائدین( معاشرے اور گھر) کی عمومی ایمانی فضا سے مطمئن ہو کے نہ بیٹھ جائیں۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ وہ سوچنے لگیں کہ ان کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی تربیت اور اصلاح کے لیے ایسے مومن معاشرے میں زندگی بسر کرنا ہی کافی ہے جو انہیں سیدھے اور صحیح راستے پر لگا دے۔ بلکہ انہیں لازماً تربیت اور رہنمائی کے ایسے جدید طریقوں سے استفادے کی کوشش کرنی چاہیے جو ان جوانوں کے لیے تازگی اور کشش کے حامل ہوں، تاکہ وہ شوق ورغبت کے ساتھ راہِ راست اختیار کریں۔ یہ کام مختلف طریقوں اور طرح طرح کے حالات سے استفادے کے ذریعے انجام پائے گا۔
ہمارا خیال ہے کہ ایمان کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کر کے، ان طریقوں میں جدّت پیدا کر کے اور اس مقصد کے لیے مختلف مواقع پیدا کر کے مومن معاشرے کی فضا کو یکسانیت اور روٹین (routine) سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ یکسانیت اس بات کا موجب ہوتی ہے کہ ہمارے نزدیک یہ اہم اور حساس مسائل بھی زندگی کے ایسے روز مرہ مسائل کی مانند ہو جاتے ہیں جن کے بارے میں ہم غور و فکر نہیں کرتے اور جن سے بے اعتنا رہتے ہیں۔
حسد کا کوئی فائدہ نہیں
ہمیں سورۂ یوسف سے اس تربیتی مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم حضرت یوسفؑ اور ان کے بھائیوں کی داستان کے ذریعے حاسد میں اُسکے خلاف جذبۂ عداوت بھڑکانے کے سلسلے میں حسد کی تاثیر کو جان سکیں جس سے وہ حسد کرتا ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ ہر چند برادرانِ یوسف، حضرت یوسف ؑ اور ان کے بھائی (بنیامین) سے حسد میں مبتلا تھے اور انہیں قتل کرنے یا نقصان پہنچانے کے لیے منصوبے بناتے تھے، لیکن اس داستان کا نتیجہ بتا تا ہے کہ انہیں اس تگ و دو سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
جب حضرت یوسفؑ ان کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں، انہیں اپنے پاس بلاتے ہیں اور جب خدا وندعالم ان کے والد اور بھائیوں کو طویل جدائی کے بعد اکھٹا کر دیتا ہے، تو آپ کمالِ بزرگواری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اپنے گلے لگا لیتے ہیں۔ اب برادرانِ یوسف پر ظاہر ہوتا ہے کہ یوسف ؑ تو بڑے وسیع النظر انسان ہیں، ایسا بلند مقام اور منصب پالینے کے باوجود وہ ذرا نہیں بدلے اور انہوں نے بد سلوکی اور جیسے کو تیسے کا رَویہ نہیں اپنایا، بلکہ وہ اپنی پیغمبرانہ شخصیت کے تقاضے کے مطابق انہیں اپنے پاس بلاتے ہیں اور درگاہِ خدا میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے حق میں دعا کرتے ہیں۔
وہ لوگ جو نیک اور پاکباز، متحرک اور فعال انسانوں سے حسد کرتے ہیں( خواہ وہ لوگ ان کے اقرباہوں یا اجنبی افراد) انہیں یہ بات سوچنی چاہیے کہ وہ کس طرح ابتدا ہی میں ایسے انسانوں کی شخصیت سے اپنے پسندیدہ مثبت اور درست نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اگر برادرانِ یوسف، حضرت یوسف ؑ سے صاف و شفاف میل جول رکھتے، باہم گفت و شنید کرتے، تو لازماً اس معنوی عنصرکو کشف کر لیتے جس سے حضرت یوسفؑ کی ذات مالامال تھی اور یہی بات ان کی ان بہت سی نفسیاتی پیچید گیوں کو حل کر دیتی جو حضرت یعقوب ؑ کی حضرت یوسف ؑ اور ان کے بھائی (بنیامین) کی جانب خاص توجہ اور مخصوص لگاؤ کو دیکھ کر ان میں پیدا ہوئی تھیں اور ممکن ہے یہ پیچیدگیاں وجودمیں ہی نہ آتیں۔
یہ بات ہر انسان کو اپنی گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ حسد کا کوئی عملی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ محسود ( جس سے حسد کیا جائے) کو دشواریوں میں مبتلا کرنے کی ان کی آرزو کو پورا کرتی ہے۔ خاص طور پر اگر وہ مضبوط ایمان کا مالک ہو اور یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ خداوند عالم ہر عامل سے بالاتر ہے اور وہی ہے جو انسانوں میں تغیر و تحول ایجاد کرتا ہے، وہی ہے جو دلوں کو منقلب کرتا ہے، معاملات اورامور کی تدبیر اسی کے ہاتھ میں ہے۔
لہٰذا حاسدوں کا حسد دوسروں پر کوئی منفی اثر نہیں ڈال سکتا، اُن کی دشمنی کسی کو اُس وقت تک کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی جب تک خدا نہ چاہے، کیونکہ کائنات میں کچھ بھی اذن و ارادۂ الٰہی کے بغیر واقع نہیں ہوتا۔
حاسد کو ذرا سوچنا چاہیے
کتنا اچھا ہو کہ حاسد ہماری معروضات پر سوچ بچار کرے اور اپنی فکر اس نکتے پر مرکوز کرے کہ خدا وند عالم کا خزانہ انتہائی وسیع اور لا محدود ہے اور وہ محسود کو بخشی ہوئی کسی چیز میں کمی کیے بغیر اسی طرح کی چیز حاسد کو بھی عطا کر سکتا ہے۔ پس اس کے لیے بہتر ہے کہ وہ حسد کی بجائے غبطہ (رشک) کرے۔ اور غبطہ کے معنی یہ ہیں کہ انسان خدا سے تمنا کرے کہ اس نے فلاں شخص کو جو کچھ عطا کیا ہے، اسکی مانند یا اس سے بھی زیادہ اور بہتر مجھے عطا فرمائے۔
لہٰذا ہمارے خیال میں اس قصے (یوسف ؑ اور برادرانِ یوسف کی داستان) کو حسد کے آغاز اور انجام کے درمیان فرق کے اسباب جاننے کے لیے ایک زندہ نمونہ ہونا چاہیے۔ خاص کر اپنے بھائیوں کی خیانت پر حضرت یوسفؑ کے ردِ عمل کا جائزہ لے کر، نیز اس حقیقت کے بارے میں غور و فکر کر کے کہ خداوندِ عالم نے کس طرح حضرت یوسفؑ کو انتہائی برے حالات سے(جبکہ وہ موت کے منھ میں پہنچ چکے تھے، اور انہیں غلاموں کی منڈی میں پہنچا دیا گیا تھا) نجات دلا کر ایک بلند مقام سے ہمکنار کیا، انہیں شاندار منصب عطا کیا، یہاں تک کہ وہ مصر کے حاکم بن گئے۔ حضرت یوسفؑ ان الفاظ کے ذریعے اسی بات کی جانب اشارہ فرماتے ہیں:
رَبِّ قَدْ ٰاتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ۔
پروردگار تو نے مجھے ملک بھی عطا کیا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بھی دیا، تو زمین اور آسمانوں کا پیدا کرنے والا ہے اور دنیا اورآخرت میں میرا ولی اور سرپرست ہے، مجھے دنیا سے فرمانبردار اٹھانا اور صالحین سے ملحق کر دینا۔
(سورۂ یوسف ۱۲۔آیت ۱۰۱)
ان الفاظ کے ذریعے حضرت یوسف ؑ اس احساس کا اظہار کرتے ہیں کہ ان تمام امور میں خداوندِ عالم کا فضل و کرم ان کے شاملِ حال تھا۔
حاسد انسان کو محسود کے خلاف سازش اور منصوبہ بندی سے قبل حضرت یوسفؑ کے قصے پر غور و فکر کرنا چاہیے۔ اسے سمجھ لینا چاہیے کہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن و مخلص بندے کے مقام اور مرتبے کو اس قدر بلندی تک پہنچا سکتا ہے کہ حاسدآرزو کرنے لگے کہ اے کاش وہ اپنی اسی پہلی حالت پر باقی رہتا تاکہ میں اسکی اس ترقی اور درجات کی بلندی کی وجہ سے روحانی اذیت کا شکار نہ ہوتا۔ حاسد کو حسد سے باز رہنا چاہیے، تاکہ محسود کی ترقی اور درجات کی بلندی اس میں روحانی اذیت وجود میں لانے کا سبب نہ بنے۔
اس ناپسندیدہ عادت کا شکار وہ تمام لوگ جو راہِ خدا میں سرگرمِ عمل ہیں، چاہے وہ علما میں سے ہوں یا ان کا تعلق مومنین سے ہو، انہیں اپنی اس مومنانہ جدوجہد کے راستے میں وسیع النظر اور وسیع القلب ہونا چاہیے اور یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ:
الحسدیاکل الایمان کما تاکل النارالحطب۔
حسد ایمان کو اسی طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ خشک لکڑی کو۔