دنیائے جوان

حضرت لقمان ؑ کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحتوں کی روشنی میں(۱)

آپ کی نظر میں براہِ راست تربیت ایک انسان کی رہنمائی، اصلاح اور نصیحت آموزی کے سلسلے میں کس حد تک مفید اور موثر ہے؟

غالباً تربیت کا شمار ان مسائل میں ہوتا ہے جن میں اثر انداز ہونے والے عوامل مسائل کے ادراک کے موقع پر انسان کے مختلف پہلوؤں کی بنیاد پر مختلف ہوتے ہیں۔ خواہ یہ مواقع غور و فکر کے ہوں یا جذبات و احساسات کے یا انسان کے ارد گرد پھیلی ہوئی فضا اور ماحول ہو۔ اس لحاظ سے قدرتی بات ہے کہ ”گفتگو“ جوانسانوں کے مابین افکار و خیالات کے تبادلے کا ایک وسیلہ ہے فکری، معنوی اور عملی مضامین کی حامل ہونے کی بنا پر تربیت کا ایک انتہائی اہم اور موثر ذریعہ ہے۔

اسی طرح بعض گفتگو ئیں ایسی خاصیت کی حامل ہوتی ہیں کہ انسانوں سے گفتگو کی تاریخ میں بسااوقات ہمیں نظرآتا ہے کہ ان گفتگوؤں میں استعمال ہونے والے الفاظ ذہن کو ایسے معنی سے روشناس کراتے ہیں جو ان الفاظ کے لغوی معنی سے مختلف ہوتے ہیں۔ اور یوں یہ الفاظ مفاہیم کو کبھی وسعت بخشتے ہیں اور کبھی ان کا دائرہ تنگ کردیتے ہیں۔

لہٰذا ”گفتگو“ تربیت کا ایک الٰہی وسیلہ ہے جس سے خدا وندِ عالم نے اپنے انبیا پر نازل کی جانے والی کتب میں استفادہ کیا ہے۔ اسی بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ تربیت کے سلسلے میں گفتگو کے (مثبت اور منفی) اثرات انسانی تاریخ میں ہمیشہ نظرآتے ہیں۔

گفتگو کے ذریعے نصیحت

اسی درمیان ہم کچھ ایسی اصطلاحات سے واقف ہوتے ہیں جو اپنے اندر مختلف مضامین لیے ہوتی ہیں۔ انہی میں سے ایک قرآنِ کریم میں استعمال ہونے والی اصطلاح ”وعظ“ ہے۔

جس مقام پر حضرت لقمانؑ اپنے فرزند سے گفتگو کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے بیٹے کے ذہن کو عقیدے اور زندگی گزارنے کے لیے لازمی مسائل کی جانب متوجہ کریں، وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ وعظ کا لفظ فکری مسائل کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر احساس و جذبات کے بعض پہلوبھی لیے ہوئے ہے۔ کیونکہ انسانی فکر صرف شعور وآگہی اور خشک علم و دانش کے ذریعے آگے نہیں بڑھتی، بلکہ کوشش کرتی ہے کہ ایسی تعبیروں سے بھی استفادہ کرے جو جذبات واحساسات سے لبریز ہوں۔

عقل اور جذبات کا امتزاج

مذکورہ بالا گفتگو سے ظاہر ہے کہ وعظ، فکر کے ساتھ ساتھ انسانی جذبات و احساسات کو بھی تحریک دیتا ہے۔ باالفاظِ دیگر اس میں عقل و جذبات کی آمیزش ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ انسان کے قلب اور ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔
عقل اور جذبات کی آمیزش انسان کے لیے ایک ایسی فضا ایجاد کرتی ہے جو اسکی ہستی کو جھنجوڑ کے رکھ دیتی ہے اور اسے اپنی فکر کی نشوو نما پرابھارتی ہے، اور فکر اپنے مختلف عناصر کی بنیاد پر انسان کی ذات میں داخلے کے لیے وسیع افق کھولتی ہے۔ اس چیز کا مشاہدہ ہم ان تمام نصائح میں کرسکتے ہیں جن کا عقلی پہلو جذباتی پہلو سے دور یا علیحدہ نہیں ہوتا۔

یہ روش تربیت کا غالباً وہ واحد موثر طریقہ ہے جو انسان کی شخصیت میں انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ اکثر لوگ جو صرف فکر پر بھروسا کرتے ہیں، وہ اپنی فکر کو صرف خشک عقلانیت کی صورت میں بیان کرتے ہیں اور مسئلے کو ریاضی کی خشک مساواتوں کی مانند سامنے لاتے ہیں،  جو صرف انسانی عقل و فکرسے سروکار رکھتی ہیں،  اور انسانی شخصیت کے دوسرے پہلوؤں (جیسے جذبات و احساسات) کے تقاضوں کا جواب نہیں دیتیں۔ جبکہ ان کے بالمقابل کچھ دوسرے لوگ مسائل کو صرف جذبات و احساسات کے رنگ میں پیش کرتے ہیں۔ یہ چیز بھی انسان کو گہرے غور و فکر سے باز رکھتی ہے، اور اس کے عقیدے اور فکر میں فاصلہ پیدا کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بعض چیزوں کو فکری طور پر تو قبول کرتے ہیں لیکن ان پر عقیدہ نہیں رکھتے، کیونکہ اُن میں ایمان نہیں پایا جاتا،  جو فکر کو احساس میں بدلتا اور وجود میں ایک ہلچل پیدا کرتا ہے۔


۱۔ مراد حضرت لقمان ؑ کی وہ نصیحتیں ہیں جن کا ذکر سورۂ لقمان کی آیات ۱۳تا۱۹ میں ہوا ہے۔