دنیائے جوان

شاید یہ چیز ہم پر حضرت یوسف ؑ کے پیغمبرانہ روح کا حامل ہونے کی وضاحت کر سکے کہ اسی وقت سے جبکہ آپ کے بھائیوں نے آپ کے خلاف سازش کے تانے بانے بنے اورآپ سے دغابازی کے مرتکب ہوئے اور اس وقت تک جبکہ آپ کو قید میں ڈالا گیا، آپ نے کسی ایک فرد سے بھی ایمان و تقویٰ کے سلسلے میں رہنمائی و ہدایت حاصل نہ کی تھی، بلکہ آپ کو اندرونِ خانہ سے بھی اور معاشرے کی طرف سے بھی گمراہی کی جانب دعوت و ترغیب دی گئی تھی۔
جب ہم زندان میں آپ کی قید کے عرصے پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو آپ وہاں بھی لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینے میں کوشاں نظرآتے ہیں: یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّار۔ (اے میرے قید خانے کے ساتھیو! تم ہی بتاؤ کہ متعدد خدا بہتر ہیں یا ایک خدائے واحد و قہار۔ سورۂ یوسف۱۲۔آیت ۳۹)

اس گفتگو سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ حضرت یوسف ؑ دعوتی ذہنیت کے مالک تھے اور صرف اپنی اصلاح اور تہذیبِ نفس ہی کو کافی نہیں سمجھتے تھے، آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ دوسروں کو بھی پیغامِ الٰہی سے آشنا کریں، اپنی اور اپنے معاشرے کی اصلاح کے لیے پایا جانے والا یہی دعوتی جذبہ تھا جو حضرت یوسفؑ کو یہ مؤقف اپنانے پر آمادہ کرتا تھا اور یہی وہ چیز ہے جس پر ہم ایمانی اور دعوتی جذبے کی تربیت اور نشوونما کے پروگرام بنانے کی ضرورت کے دوران تاکید کرتے ہیں۔

اس مقام پر ہم یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اصلاحِ معاشرہ کے لیے سرگرمِ عمل مومن کی جدوجہد اسے قوتِ مدافعت بخشتی ہے اور اسے دوسروں کے اثرات سے محفوظ رکھتی ہے۔ لیکن ایسا مومن جو اس سلسلے میں اہتمام نہیں کرتا اور معاشرے کی اصلاح سے لا تعلق رہتا ہے، وہ ایسی قوت اور مدافعت کا مالک نہیں ہوتا۔
حضرت یوسفؑ جو اپنی دعوت اور پیغام کے سلسلے میں ایک فعال اور متحرک انسان تھے، ہمارا اعتقاد ہے کہ اسلامی بنیاد پر ان کی تربیت اور اپنی دعوت کے سلسلے میں ان کی شعوری کوششوں نے انہیں اس مقام پر ثابت و استوار رکھا اور ان کے قدموں میں لغزش نہ آنے دی۔

ان کی ثابت قدمی اور استقلال کی وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ جن لوگوں کے درمیان وہ زندگی بسر کر رہے ہیں ان کی انہیں ہدایت و رہنمائی کرنی چاہیے، نہ کہ وہ خود ان لوگوں کے اثرات قبول کرنے لگیں۔

کیا عورت بھی ایسے کردار کی مالک ہو سکتی ہے؟

یہاں تک مرد کے مضبوط کردار کی بابت گفتگو ہوئی ہے، جس کی مثال حضرت یوسفؑ تھے، عورت کے کردار کی مضبوطی اور اسکی اہمیت و اثرات کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

جب ہم حضرت یوسفؑ کے کردار کی پختگی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں، تو ہماری نظر میں (عورت کے مقابل) ایک مرد کی شخصیت نہیں ہوتی ہے، بلکہ انہیں ہم ایک مخلص، باایمان اور داعیانہ کردار کے حامل انسان کے طور پر دیکھتے ہیں، جو خدا کی طرف دعوت اور اسکی راہ میں جہاد کے راستے پر گامزن ہے۔ لہٰذا یہاں ایک مسلمان اور مومن عورت بھی ہماری مخاطب ہے۔ تاہم جو چیز ضروری ہے وہ ماحول اور معاشرے میں سالم اور درست تربیتی ماحول کی فراہمی اور حرکت اور جدو جہد کی ذہنیت کا پیدا کرنا ہے، جو مسلمان عورت اور اسی طرح مسلمان مرد کو کردار کی پختگی عطا کرے۔پھر یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ کسی کی انسانیت جانچنے کا پیمانہ یہ نہیں ہے کہ اُس نے اپنی خواہشات کی کتنی تسکین کی ہے، بلکہ پیمانہ یہ ہے کہ اُس نے کس قدر اپنے فریضے کو اداکیاہے۔ اس بات کی جانب اشارہ ابن عباس کے نام امیر المومنینؑ کے ایک مکتوب میں ہوتا ہے، جس میں آپ نے تحریر فرمایا:

فلا یکن افضل مانلت فی نفسک من دنیاک بلوغ لذۃ او شفاء غیظ و لکن اطفاء باطل و احیاء حق۔ و لیکن سرورک بما قدمت و اسفک علی ماخلفت و ھمک فیما بعد الموت۔

 بردار تمہارے لیے دنیا کی سب سے بڑی نعمت کسی لذت کا حصول یا جذبۂ انتقام کی تسکین ہی نہ بن جائے۔ بلکہ بہترین نعمت باطل کے مٹانے اور حق کے زندہ کرنے کو سمجھو اور تمہارے لیے خوشی کا باعث وہ اعمال ہوں جنہیں تم نے پہلے بھیج دیا ہے اور تمہارے لیے باعثِ افسوس وہ سرمایہ ہو جسے صحیح مصرف کے بغیر چھوڑا ہے اور تمہاری تمام تر فکر موت کے بعد کے مرحلے کے بارے میں ہونی چاہیے۔ (نہج البلاغہ۔ مکتوب۶۶)

اس گفتگو کو دیکھئے تو یہ تاکید کرتی نظرآتی ہے کہ انسان کی تمام تر جدو جہد اپنی خواہشات کی تسکین کے لیے نہ ہو، بلکہ اس کی پوری کوشش اپنے اوپر عائد ہونے والے فرائض اور ذمے داریوں سے عہدہ برآہونے کے لیے ہو۔ البتہ اسکے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم اپنی جبلّتوں اور فطری خواہشات کا گلا گھونٹ ڈالیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ فطری خواہشات اور جبلّتوں کو کنٹرول کر کے انہیں خدا پسند سمت دیں اور اس سلسلے میں خدا کی قرار دی ہوئی حدوں کاخیال رکھیں اور اس بات کو ذہن نشین رکھیں کہ ایک متحرک، فعال، خدا کے دین کی طرف دعوت دینے والے اور احکامِ الٰہی پر عمل پیرا مسلمان کی حیثیت سے دوسرے انسانوں کو جبلّتوں کے تسلط سے نجات دلانا ہماری ذمے داری ہے، نہ کہ ہم خود بھی جبلّتوں کے زیر تسلط آکر اس بحران کو دو چند کر دیں۔