دنیائے جوان

فرمانِ الٰہی ہے کہ : اَلْاَخِلاَّآءُ یَوْمَءِذٍبَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّاالْمُتَّقِیْنَ۔ (آج کے دن صاحبانِ تقویٰ کے علاوہ تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے۔ سورۂ زخرف۴۳۔ آیت ۶۷)۔ اس آےۂ کریمہ کو پیشِ نظر رکھا جائے، تو دوستوں کے انتخاب کا مسئلہ جو انوں کے لیے انتہائی درجہ اہمیت کا حامل نظرآتا ہے۔ آپ اس بارے میں کن بنیادوں کا تعین کر تے ہیں؟

صرف جوانوں ہی کی بات نہیں بلکہ ہر با ایمان شخص پر لازم ہے کہ اپنے لیے ایک ایسے ماحول کا انتخاب کرے جہاں اس کا ایمان تقویت اور نشو و نما پائے۔

یہ معاملہ بالکل بیج کی بوائی کے معاملے کی مانند ہے۔ یعنی اگر اسے نامناسب زمین اور غیر موافق ماحول میں بودیا جائے، تو اس کی فطری نشوونما نہیں ہو سکے گی۔ چاہے اسکی نشو و نما کے لیے بہت سے غیر قدرتی ذرائع کام میں لائے جائیں اور یہ اسے تنا ور درخت بنا دیں اور اسکی بقا کا ذریعہ بن جائیں، لیکن اس کے باوجود یہ مصنوعی ذرائع اس کے معنوی پہلو اور اس کی قدرتی خاصیت فراہم کرنے پر قادر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر فطری ذرائع اور غیر قدرتی فضا میں بڑھنے والے نباتات میں وہ خصوصیات نہیں پائی جاتیں جو قدرتی فضا میں اور فطری وسائل کے ذریعے نشوو نما پانے والے نباتات کا خاصَہّ ہیں۔ لہٰذا مومن انسان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے رہن سہن کے لیے فطری فضا اور ماحول فراہم کرے، تاکہ وہاں اس کا ایمان نمو اور افزائش پاسکے۔

اس مقام پر ہمیں اسلام کی وہ ہدایت نظرآتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مرد کو دیند ار عورت سے اور عورت کو ایسے مرد سے شادی کرنی چاہیے جس کے دین و اخلاق کی طرف سے اسے اطمینان ہو۔ کیونکہ گھر کی فضا ایمان کی نشوونما کا گہوارہ ہے۔

اسی طرح اسلام کی یہ ہدایت بھی نظر آتی ہے جس میں ”خضراء الدمن“ سے رشتہ استوار کرنے کو منع کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے :

ایاکم وخضراء الدمن۔۔۔۔قالوا:وماخضراء الدمن؟ قال:المراۃ الحسناء فی منبت السوء۔

کوڑے کرکٹ پر اُگنے والی سبزی سے پرہیز کرو۔ پوچھا گیا: کوڑے کرکٹ پر اگنے والی سبزی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ایسی خوبصورت عورت جس کی پرورش خراب ماحول میں ہوئی ہو۔

یہ تاکید اس بنا پر ہے کہ برا ماحول اس عورت کے ایمان کی فطری نشوونما نہیں ہونے دیتا اور قدرتی طور پر اس کے اخلاق پر بھی ناخوش آئند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح جیسے آلودہ زمین میں کاشت کی جانے والی سبزیوں میں اس زمین کی آلودگیاں بھی شامل ہوجاتی ہیں۔

اس مقام پر انسانوں کوآپس میں ملانے والے ایک اور جذباتی بندھن کے عنوان سے دوست اور ہم نشین کا کردار سامنے آتا ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں انسانی زندگی پر فکر و شعور سے زیادہ جذبات و عواطف اثر انداز ہوتے ہیں۔ کیونکہ فکر کا تعلق عقیدے اور ایمان سے ہوتا ہے اور کسی کااپنے عقیدے اور ایمان کو دوسرے میں منتقل کرنا اس وقت تک مشکل ہے جب تک مقابل کے اندر انہیں قبول کرنے کے سلسلے میں نرم گوشہ پیدانہ کر لیا جائے۔لیکن جذباتی اور عاطفی پہلو انسان کے شعور و احساس کو اس حد تک متاثر کرسکتا ہے کہ ممکن ہے وہ اپنی فکر سے غافل ہو جائے اور اس کے نتیجے میں جذبات کبھی کبھی انسان کی فکر پر بھی غالب آجاتے ہیں اور مقابل کو اس طرح زیر اثر لے لیتے ہیں کہ آخرکار وہ اپنی فکر سے دست بردار ہو کے دوسرے کی فکر قبول کر لیتا ہے۔

روابط میں جذبات و عواطف کا کردار

ہمیں بہت سے جوان نظرآتے ہیں جو کچھ جذباتی عوامل کی وجہ سے بعض ایسی پارٹیوں او گروہوں کی جانب مائل ہوجاتے ہیں جو ان کی فکر اوردین سے موافق نہیں ہوتیں۔ یہ صورتحال کبھی تو دوستانہ روابط اور صحبت کے اثر سے وجود میں آتی ہے اور کبھی اس کی وجہ جنسِ مخالف کی جانب رغبت ہوتی ہے۔

ان پارٹیوں سے وابستہ ہو جانے والے بہت سے لوگ جب ان میں اپنی شمولیت کے محرکات کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں، تو ان پر بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ ان کا ان پارٹیوں کی جانب رجحان، ان جذباتی عوامل کا نتیجہ تھا جو انہوں نے اپنے کسی دوست یا ہم نشین سے قبول کیے تھے۔

اس بنیاد پر مومن انسان کو چاہیے کہ اپنے لیے ایسے دوست کا انتخاب کرے جس سے میل ملاپ اسکے ایمان کی تقویت اور نشو و نما کا موقع بھی فراہم کرے۔ لہٰذا لازم ہے کہ نادان کی صحبت سے پرہیز کیا جائے۔ کیونکہ نادان اپنے جہل کے ذریعے جلد یا بدیر اپنے دوست کو گمراہ کر دے گا۔

اسی طرح ”احمق“ سے بھی دوستی نہیں رکھنی چاہیے، جس کی زندگی تواز ن اور اعتدال سے محروم ہوتی ہے۔ کیونکہ ایسا بے وقوف دوست، حدیث کے بقول :یضرک فی الوقت الذی یرید فیہ ان ینفعک۔ (تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے گا لیکن عین اسی وقت ( نہ چاہتے ہوئے بھی) تمہیں نقصان پہنچا بیٹھے گا)

فاسق سے بھی دوستی کا رشتہ استوار نہ کرنا، کیونکہ دوستانہ ماحول کی وجہ سے اسکی بری عادات و اطوار اور ناپسندیدہ آداب و افعال کو نظر انداز کرنے لگو گے اور اس طرح تم بھی گناہ سے آلودہ ہو جاؤگے۔

کافر کو بھی دوستی کے لیے منتخب نہیں کرنا چاہیے اوراسے دوست بنا کے اپنے ذہن کے دروازوں کو اسکے کفر آلود افکار کے لیے نہیں کھول دینا چاہیے۔ یہاں تک کہ اسکے افکار و عقائد معمولی دکھائی دینے لگیں اور انسان انہیں مسترد کرنے کے بارے میں سوچ بچار نہ کرے۔

اسکے برعکس لازم ہے کہ عاقل اور ایسے باایمان شخص کو دوستی کے لیے منتخب کیا جائے جس کے قلب اور روح کی گہرائیوں میں ایمان جاگزیں ہو۔ تاکہ آپ نے جو راہِ حیات اپنائی ہے، آپ کا دوست اپنے تمام تر اثرات کے ساتھ اس سے مختلف راہِ حیات پیش نہ کرے، بلکہ دونوں ایک ہی راہ کے مسافر اور ایک ہی منز ل کے راہی ہوں۔

بُرے دوستوں سے پرہیز

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دوست جذبات و عواطف کے ذریعے اپنے دوست پر مثبت یامنفی اثرات ڈالتا ہے۔ لہٰذا دوستی انسان کی زندگی کے لیے ایک انتہائی اہم مسئلے کی حیثیت رکھتی ہے، اور اس مفہوم کو ہم قرآنِ کریم کی اس آیت میں پاتے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ روزِ قیامت انسان اپنے دنیوی اعمال کا نتیجہ دیکھنے کے بعد یہ کہے گاکہ:

وَ یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ یَقُوْلُ ٰیلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلااًا یٰوَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلااَا نًا خَلِیْلااًا لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْ وَ کَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلااً ۝

اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا اور کہے گا کہ کاش میں نے رسول کے ساتھ ہی راستہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے افسوس، کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔اس نے تو ذکر کے آنے کے بعد بھی مجھے گمراہ کر دیا اور شیطان تو انسان کو رسوا کرنے والا ہے ہی۔
(سورۂ فرقان ۲۵۔آیات ۲۷ تا ۲۹)

خداوندِ عالم کی پیش کی ہوئی اس مثال میں ہم ایک ایسے انسان کو پاتے ہیں جو دنیا میں اپنی گمراہی اور کج روی پر حسرت و ندامت کا اظہار کرتا ہے۔ اسکی تباہی او ر نا مرادی کی وجہ ایسے دوستوں کا اثر قبول کر لینا ہے جو گمراہی اور برُے کاموں کو اسکے سامنے سجا سنوار کر پیش کرتے تھے اور اسکے جذبات و احساسات کو اپنے قابو میں کیے ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں یہ انسان خدا کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔

ایک قرآنی مثال

اگر ہم اس موقع پر چند مثالیں پیش کریں، تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآنِ کریم میں تابع اور متبوع، پیر واور پیشواکے الفاظ عام معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی یہ پیروی استکبار و استضعاف کا سبب بن جاتی ہے۔ لیکن ہم ان دو عنوانات سے جامع ترین معنی اخذ کر سکتے ہیں اور انسانوں کی ہر قسم کی اطاعت و پیروی کو اسکے دائرے میں شامل کر سکتے ہیں، خواہ وہ احساسات اور عواطف کے زیر اثربیوی کا شوہر کی اطاعت کرنا ہو، یا شوہر کا بیوی کی، یا اسی طرح ایک دوست کا دوسرے دوست کی پیروی کرنا ہو:

اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا وَ رَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْبَابُ وَ قَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّءُوْْا مِنَّا کَذٰلِکَ یُرِیْہِمُ اﷲُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْہِمْ وَ مَا ہُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنَ النَّار ۝

اس وقت جبکہ پیشوا اپنے پیروکاروں سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور سب کے سامنے عذاب ہوگا اور تمام وسائل منقطع ہو جائیں گے اور پیروکار یہ بھی کہیں گے کہ اے کاش ہم نے ان سے اسی طرح بیزاری اختیار کی ہوتی جس طرح یہ آج ہم سے اظہارِ بیزاری کر رہے ہیں۔خدا ان سب کے اعمال کو اسی طرح حسرت بنا کر پیش کرے گا اور ان میں سے کسی کو بھی جہنم سے چھٹکارا نہیں ملے گا۔ (سورۂبقرہ۲۔آیات۱۶۶، ۱۶۷)

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ قرآنِ کریم زور دے کر یہ بات کہہ رہا ہے کہ خود پیروکارہی جوابدہ ہوں گے، خواہ انہوں نے جذباتی یا مادّی دباؤ کے زیر اثر ہی گمراہ فرد کی پیروی کی ہو۔

قرآنِ کریم انسانوں کو متنبہ کرتاہے کہ وہ مذکورہ تجربے سے استفادہ کریں، اس سے نصیحت حاصل کریں، عبرت پکڑیں اور ایسی فضا سے چھٹکارا حاصل کریں جو اُن پر ایسا دباؤ مسلط کر دیتی ہے۔ ہم اس مفہوم کو قرآنِ کریم کی ایک دوسری آیت سے اخذ کرتے ہیں جس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

اِِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلآءِکَۃُ ظٰلِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اﷲِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْھَا فَاُولٰٓءِکَ مَاْواٰاہُمْ جَہَنَّمُ وَ سَآءَتا مَصِیْرًا ۝

جن لوگوں کو فرشتوں نے اس حال میں اٹھایا کہ انہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا اور ان سے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم زمین میں کمزور بنادیے گئے تھے فرشتوں نے کہا کہ کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم ہجرت کرجاتے۔ ان لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترین منزل ہے۔ (سورۂ نساء ۴۔آیت ۹۷)

لہٰذا جب خداوندِ سبحان ان نامراد لوگوں کو ان کی گمراہی اور مستکبر وں کے ساتھ ان کی ہمراہی کی وجہ سے مواخذے کے قابل سمجھتاہے، تو قدرتی بات ہے کہ ان سے چاہتا ہے کہ وہ گمراہی کا سبب بننے والے ماحول سے دوررہیں، تاکہ اس ماحول کا دباؤ انہیں گمراہ نہ کردے۔ اس اشارے کے ذریعے یہ آیت رہنمائی کرتی ہے کہ ہر انسان کو ایسے جذباتی یا مادّی دباؤ میں آنے سے خود کو بچاناچاہیے جس سے اسکے گمراہ ہو جانے کا امکان ہو اوراگراُسے ایسے دباؤ سے بچنا محال نظرآتا ہو، تو اس پر واجب ہے کہ اس زہریلے ماحول سے دوری اختیار کرے، تاکہ نجات پاسکے۔

قرآنِ کریم لوگوں کے باہمی عمومی روابط اور ان کے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کے باب میں مذکورہ تربیتی اسلوب پیش کرتا ہے اور انہیں دوسروں کی فکر کے سامنے نہ جھکنے، فکری استقلال پر قائم رہنے، اندھی تقلید سے پرہیز، دباؤ کے ماحول سے دوری اور ایمان کی حفاظت کے لیے ٹھوس اور بنیادی سعی و کاوش کی ہدایت کرتا ہے۔

دوست میدانِ حشرمیں

اس مقام پر ہم اس آےۂ کریمہ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں جس میں ارشادِ رب العزت ہے:

اَلْاَخِلاَّآءُ یَوْمَءِذٍم بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ ۝

آج کے دن صاحبانِ تقویٰ کے سوا تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے۔ (سو رۂ زحزف۴۳۔ آیت ۶۷)

کیونکہ اس دنیا میں بر قرار ہونے والی دوستیوں کے بارے میں عالمِ آخرت میں جوابدہ ہونا پڑے گا، اور وہاں ان تمام دوستوں کا مواخذہ کیا جائے گا جو دنیا میں لہو ولعب، خیانت و گمراہی اور کفر و شرک کے معاملات میں باہم شریک تھے۔ اور انہیں اپنے حتمی مقدر کا سامنا کرنا پڑے گا، اور ایک کو دوسرے کی گمراہی کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ اور یوں ایسا شخص جودنیا میں اپنے کسی دوست کے زیر اثر انحراف اور گمراہی کی راہ پر چل پڑا ہوگا، جب روزِ قیامت اس پر انکشاف ہو گا کہ اس کا یہ دوست درحقیقت دوستی کے لبادے میں اس کا دشمن تھا، تو یہ حقیقت جان کر وہ اس سے الجھ پڑے گا، اسکے دل میں اسکے لیے عداوت اور عناد پیدا ہو جائے گی اور گزشتہ دوستی دشمنی میں تبدیل ہو جائے گی۔

لیکن وہ پرہیز گار افراد جو دنیا میں نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار رہے ہوں گے، فرامینِ الٰہی کے سامنے خاضع اور سر جھکائے رہے ہوں گے، جن کی پیشانیاں خدا کے سامنے سربہ سجود رہی ہوں گی اور جو ایک دوسرے کو حق اور صبر کی نصیحت کرتے رہے ہوں گے، قدرتی بات ہے کہ ان کی دوستی آخرت میں بھی قائم اور پائیدار رہے گی، کیونکہ دنیامیں ان کا بندھن صالح بندھن تھا، جو محض اس دنیا تک محدود نہیں رہتا بلکہ سرائے آخرت میں بھی جاری رہتا ہے۔

دوستوں کے حقوق

عوام الناس میں مشہور ہے:الصدیق عندالضیق۔(دوست وہ ہے جو برے وقت میں کام آئے) یا:فی الاسفارتعرف الاخوان۔(دوستی سفر میں پہچانی جاتی ہے) اسی طرح کی اور بھی کہاوتیں معاشرے میں رائج ہیں۔آپ فرمایئے کہ ایک دوست کے دوسرے دوست پر کیا حقوق ہوتے ہیں؟

در حقیقت دوستی اور رفاقت دو افراد کے درمیان احساس کی یگانگت کی ایک صورت ہے۔ لہٰذا جب لوگ دوستی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو در حقیقت ایثار اور و فاموضوعِ بحث ہوتا ہے۔ شاید وہ ضرب الامثال جن میں کہا گیا ہے کہ ”دوست وہ ہے جوبرے وقت میں دوست کے کام آئے ”یا“ دوست کو پہچاننا ہو تو سفر میں پہچانو“ اس بات کی عکاس ہوں کہ بدحالی اور سفر وہ دو حالتیں ہیں جن میں انسانوں کے جو ہر کھلتے ہیں، ان کی اصلیت سامنے آتی ہے۔

جب ہم دائرۂ ایمان میں دوستی کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ اسلام مومن انسان پر فرض عائد کرتا ہے کہ اپنے مومن بھائی سے اس کا تعلق کشادہ روئی پر مبنی ہو، وہ اس کا مونس و غمخواربنے، اس سے سختیاں دور کرے، اسکی ضروریات کا خیال رکھے، تمام معاملات میں اسکی مدد کے لیے آگے بڑھے اور اسکی جان، مال، عزت وآبرو کی حفاظت کرے۔ لہٰذا ایمانی اخوت کے اعتبار سے( جو دوستی کے بندھن کی مضبوطی کو دو چند کردیتی ہے) مومن انسان پر واجب ہے کہ مشکلات، دشواریوں اور زندگی میں پیش آنے والے سخت حالات میں اپنے مومن بھائی کی مدد اور اس سے تعاون کے لیے بلا تاخیر قدم اٹھائے۔