کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ برادرانِ یوسف کے اس نامناسب طرزِ عمل کی وجہ ان کا مفاہیم (خواب کی تعبیر وغیرہ) سے مکمل طور پرآگاہ نہ ہونا تھا۔ جبکہ کچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ ان کے اس طرزِ عمل کی وجہ ان کا روحانی ضعف تھا۔آپ کیا فرماتے ہیں؟
خواہ وہ مفاہیم (خواب کی تعبیر وغیرہ) سے مکمل طور پرآگاہ رہے ہوں یا ان کی آگہی ناقص ہو، بہر صورت روحانی پہلو اس مسئلے کا بنیادی پہلو ہے۔ کیونکہ ایک مسلمان کی زندگی کو صحیح سمت پر لگانے اور اسی راستے پر گامزن رکھنے کے لیے صرف مکمل آگہی ہی کافی نہیں، بلکہ اس سلسلے میں بنیادی کردار اس کے روحانی پہلو کو حاصل ہے۔ کیونکہ انسان کی حرکت اور عمل اس کے روحانی پہلو سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی پہلو ہے جو اسے زندگی کے اہم مسائل میں سختیوں اورمحرومیوں پر تحمل کی قدرت بخشتا ہے اور یہی روحانی پہلو اور اخلاقی امور کی پابندی ہے جو اسے الٰہی فرائض کی بجاآوری پر آمادہ کرتی ہے۔
اس بنیاد پر ہمارا خیال ہے کہ معنوی اور روحانی پہلو ہی اس مسئلے کی بنیاد اور اساس ہے۔ اسی بنا پر ہم نے ابتدا میں کہا تھا کہ ایسے افراد جو دینی ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں اور جنہوں نے دین کو تقلیدی اور موروثی طور پر اپنایا ہوا ہے اور وہ دین کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہیں (جس میں کسی دوسرے کو دخل اندازی کی اجازت نہیں) اور یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ جب اپنے علما کو متوجہ کرتے ہیں، اور انہیں ان کے منفی طرزِعمل سے آگاہ کرتے ہیں، تو وہ بھڑک اٹھتے ہیں اور ان لوگوں سے اظہارِ ناراضگی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم ہمیں پڑھاتے ہو، جبکہ تمہیں جو کچھ آتا ہے وہ ہمارا سکھایا ہوا ہے اور ہم ہی تمہیں وعظ و نصیحت کرتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ علما ان لوگوں سے زیادہ علم و ادراک کے مالک ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ عملی لحاظ سے اخلاقی مسائل کی زیادہ پابندی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے۔