جب ہم خود سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر کیا وجہ تھی کہ حضرت نوحؑ کا بیٹا اہلِ ایمان میں شامل نہ ہوا؟ تو قرآن کی رو سے ہمیں اس میں حضرت نوحؑ کی زوجہ اور ان کے بیٹے کے باہمی تعلق کا ہاتھ نظرآتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اُن کے بیٹے پر زیادہ اس کی ماں کی تربیت کا اثر ہوتا ہے اوروہ بہت کم باپ کے اثرات قبول کرتا ہے۔ کیونکہ اس کا باپ یکا وتنہا ہے، جبکہ اسکی ماں کا رابطہ(اپنے اقربا اور دوسروں کے ساتھ ساتھ) پورے معاشرے سے ہے۔ اور قدرتی بات ہے کہ بچہ اکثریتی گروہ کے اثرات قبول کرتا ہے۔ جبکہ اس کا باپ جو عظیم اور بھاری ذمے داریوں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے اور اس کے گرد مومنین کا ایک بہت چھوٹا سا گروہ ہے، اپنے بیٹے پر اثر انداز نہیں ہو پاتا۔
اس وضاحت کے ذریعے ہم حضرت اسماعیلؑ اور حضرت نوحؑ کے بیٹے کے مسئلے کے درمیان فرق کو سمجھ سکتے ہیں۔ اسکی تشریح یہ ہے کہ حضرت اسماعیلؑ نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں حضرت ابراہیمؑ نے انہیں گمراہ کن دباؤ سے محفوظ رکھا، حضرت اسماعیلؑ ایک ایسے گھرانے میں پروان چڑھے جہاں انحرافی اور گمراہ کن رجحانات کا گزر نہ تھا، اس لیے کہ ان کی والدہ بھی صالح خاتون اور مومنہ تھیں۔
اسی بنا پر اسلام شادی بیاہ کے معاملے کو اہمیت دیتا ہے اور مومنین کو تاکید کرتا ہے کہ وہ اپنے لیے دیندار شریکِ حیات کا انتخاب کریں۔
ایک شخص رسولِ کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ میں کن خصوصیات کی حامل خاتون سے شادی کروں؟آنحضرتؐ اس سے فرماتے ہیں کہ دیندار (لڑکی) کو شریکِ حیات منتخب کرو۔ اسی طرح آنحضوؐر شوہر کے لیے بھی اسی شرط کو اہمیت دیتے ہیں۔فرماتے ہیں:
اذا جاء کم من ترضون خلقہ ودینہ فزوجوہ الا تفعلوہ تکن فتنۃ فی الارض وفساد کبیر
جب بھی تمہارے پاس کوئی ایسا مرد تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگنے آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم مطمئن ہو، تو اسکے ساتھ اپنی لڑکی کی شادی کر دو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو روئے زمین پر بڑا فتنہ و فساد پھوٹ پڑے گا۔“
اسلام گھرانے کی بہتری اور سلامتی کی غرض سے تاکید کرتا ہے کہ خاتونِ خانہ دین کی پابند ہو اور مرد کو بھی متدین ہونا چاہیے، تاکہ بچے کی اوّلین پرورش گاہ ہی ایسی ہو جو اسکے فکرو شعور اور جذبات و احساسات کو مطلوبہ سطح تک بلند کر سکے اور گمراہی سے محفوظ رہنے کے لیے اسکے اندر ابتدائی حفاظتی رکاوٹ کھڑی کر دے۔
لیکن اگر والدین کے درمیان کشمکش پائی جائے۔ مثلاً باپ بچوں کو دین و مذہب کا پابند بنانا چاہتاہو لیکن ماں انہیں لادینیت اور گمراہی کی طرف دھکیلنا چاہتی ہو ( یا اس کے برعکس ہو) تو ایسی صورت میں قدرتی بات ہے کہ بچوں کی مناسب تربیت نہیں ہو سکتی۔
ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ تربیت کے سلسلے میں والدین کا عامل ہی ہر مرض کی دوا ہے۔ لیکن یہ بات زور دے کر ضرور کہتے ہیں کہ بچے کے مستقبل کے بناؤیا بگاڑ میں والدین کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ البتہ دوسرے عوامل کے اثرات کا بھی ہم انکار نہیں کرتے۔
اس گفتگو کی روشنی میں حضرت نوحؑ کی داستان، ہمیں سکھاتی ہے کہ باپ کو اپنی اولاد کی تربیت کی جانب متوجہ رہنا چاہیے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس اطمینان کے ساتھ نہیں بیٹھے رہنا چاہیے کہ اس کا بیٹا مستقبل میں ایک صالح اور نیک کردار انسان ثابت ہو گا۔ نیز اسے اپنی بیوی کے بُرے کردار اور اخلاق کی طرف سے بھی چوکناّ رہنا چاہیے، کیونکہ اس کا اثر اس کے بچے پر پڑتا ہے۔ تاہم اگر طاقتور عوامل کے اثرات قبول کرنے کی وجہ سے اسکی اولاد گمراہ ہو جائے، تو اس بات کو اسے اپنے اوپرحد سے زیادہ سوار نہیں کرناچاہیے اور خود کو کسی مشکل میں نہیں ڈالناچاہیے۔ لوگوں کو بھی بیٹے کے بگاڑ کو باپ کی خرابی کی دلیل نہیں سمجھنا چاہیے۔ بدقسمتی سے بعض لو گ ایسے مواقع پر یہی کہتے ہیں کہ جاؤ جاؤ پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرو۔
درست ہے کہ خداوندِ عالم نے اہلِ خانہ کی رہنمائی اور اقربا کو تنبیہ و ہدایت، انسان کی ذمے داری قرار دی ہے، لیکن اسکے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس بارے میں صد در صد ذمے دار ہے۔ بلکہ اس پر اتنی ہی ذمے داری عائد ہوتی ہے جتنی اس میں اس سلسلے میں قدرت اور توانائی ہے۔