توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

ایک شخص امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور استغفار کیاوہ شخص بھی ہماری طرح یہ سمجھتا تھا کہ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْہ بول دینے سے توبہ ہوجاتی ہےاور اگر اس (اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ) کے ”غ“ کو زیادہ گاڑھا کر کے بولیں، تو ہماری توبہ بہت اچھی ہوجائے گیحضرت علی ؑ سمجھ گئے تھے کہ یہ بدبخت کس قدرگمراہ ہےبہت کم ایسا ہوا ہے کہ آپ ؑ نے اتنی شدت اختیار کی ہو اور اتنے سخت لہجے میں بات کی ہولیکن یہاں پر سخت لہجے میں بات کی اور فرمایا:

ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ، أَ تَدْرِیْ مَا الْاِسْتِغْفَارُ؟ اَلْاِسْتِغْفَارُ دَرَجَۃُ الْعِلِّیِّیْنَ

”خدا تجھے موت دے! تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے! کیا تجھے معلوم ہے استغفار کیا ہے؟ استغفار بلند مرتبہ انسانوں کا درجہ ہے۔“   (نہج البلاغہکلماتِ قصار۴۱۷)

استغفار، توبہ کی حالت اور ایک مقدس کیفیت ہے، ایک مقدس اور پاک فضا ہےآپ توبہ کی حالت پیدا کیجئے، سچی توبہ کیجئے، اس کے بعد آپ خود کو ایک مقدس فضا میں محسو س کریں گےآپ کو احساس ہوگا کہ لطف و عنایت ِ الٰہی آپ کی روح پر سایہ فگن ہےمحسوس کریں گے کہ فرشتوں کے ایک گروہ نے آپ کو گھیراہوا ہےآپ پاک ہو جائیں گےکیونکہ توبہ کی حالت میں انسان خودپسندی سے دور ہو جاتا ہےاپنے آپ کو ملامت کرتا ہے اور اپنے گناہوں کو نظر میں رکھتا ہے

اسلام میں کہتے ہیں کہ اگر توبہ کرنا چاہتے ہو، تو کسی پادری کے پاس جانے کی، کسی مولوی کے پاس جاکر اسے اپنے گناہ بتانے کی ضرورت نہیں ہےخدا کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرو، اسے اپنے گناہ بتاؤکیوں کسی انسان کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار و اعتراف کرتے ہو؟ اپنے غفار الذنوب (گناہوں کو معاف کرنے والے) خدا کے سامنے اقرار کرو

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لااَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اﷲِط اِنَّ اﷲَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا

کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت ِ خدا سے مایوس نہ ہونا کہ اﷲ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے(سورۂ زمر۳۹آیت ۵۳)

یہ خدا کی آواز ہے: اے میرے زیادتی کرنے والے بندو! اے میرے گناہ گار بندو! اے میرے معصیت کار بندو! اے میرے وہ بندو جنہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے! میری رحمت سے ناامید نہ ہوناآؤ میرے پاس آؤمیں مان لوں گا، قبول کرلوں گاتوبہ کی فضا میں داخل ہوجاؤ

اس حدیث ِقدسی میں کتنے اعلیٰ اندازسے توبہ کی توصیف کی گئی ہے: اَنِینُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ تَسْبِیْحِِ الْمُسَبِّحِیْنَیعنی اﷲ تبارک و تعالیٰ، اس رحمت ِمطلق و کامل نے فرمایاہے کہ: گناہ گاروں کی نالہ و زاری، مجھے تسبیح کرنے والوں کی تسبیح سے زیادہ پسند ہےجاؤ اوراپنے خدا کی بارگاہ میں نالہ و فریاد کروسوچو تاکہ تمہارے گناہ تمہیں یاد آجائیںکسی دوسرے سے نہ کہنادوسروں کے سامنے گناہ کا اقرار خود گناہ ہےلیکن اپنے دل میں (تم خود تو جانتے ہی ہو، خود ہی اپنے قاضی اور اپنے محتسب بن جاؤ) اپنے گناہوں کو نظر میں رکھو، اس کے بعد ان گناہوں کو ذات ِپروردگار کے سامنے لے جاؤ، اپنی کوتاہیاں بیان کرو، گریہ کرو، زاری کرو، مغفرت طلب کرو، پاکیزگی مانگوخدا تمہیں بخش دے گا، تمہاری روح کو پاک و پاکیزہ کردے گا، تمہارے دل کو خالص کردے گا، اپنا لطف تمہارے شاملِ حال کردے گا اور اس کے بعد ایک لذت، ایک ایسی حالت تمہارے اندر پیدا ہوجائے گی کہ عبادت کی مٹھاس محسوس کروگے، گناہ اور گناہوں کی لذت تمہاری نظروں میں گر جائے گی، پھر تم میں فلاں شہوت انگیز فلم دیکھنے کی رغبت نہیں رہے گی، لوگوں کی ناموس کی جانب دیکھنے کی طرف مائل نہیں ہوگے، تمہارا دل غیبت کرنے، جھوٹ بولنے، لوگوں پر تہمت لگانے کو نہ چاہے گا، تم دیکھو گے کہ تمہاری پوری توجہ پاکیزہ اور اچھے کاموں کی جانب ہے

اس کے بعد حضرت علی ؑنے استغفار کے لئے چھے شرائط کا ذکر کیا، جن میں سے دو توبہ کی رکن ہیں، دو توبہ کی قبولیت کی شرط ہیں، اور آخری دو کمالِ توبہ کی شرائط ہیں انشاء اﷲ کل رات آپ کے سامنے اس حدیث کی تشریح کریں گے

آپ دیکھتے ہیں کہ اُن پاکیزہ ترین پاک لوگوں کو اس بات سے لذت حاصل ہوتی تھی کہ اپنے خدا کے ساتھ گفتگو کریں، اپنی تقصیر و کوتاہی، اپنے گناہ (کہ ان کا گناہ ہماری نسبت ترکِ اولیٰ ہے اور ترکِ اَولیٰ سے بھی ایک درجہ بلند تر ہے) کے بارے میں بات کریںحَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ (نیک لوگوں کی نیکیاں صاحبانِ قرب کے لئے گناہ ہیں)

دعائے ابوحمزہ ثمالی کو پڑھئے، دیکھئے کہ امام علی ابن الحسین ؑ اپنے خدا کے ساتھ کس طرح گفتگو کرتے ہیں؟ کس طرح نالہ و فریاد کرتے ہیں؟ اَنِینُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ تَسْبِیْحِِ الْمُسَبِّحِیْنَ

دعائے ابوحمزہ ثمالی علی ابن الحسین ؑ کا نالہ وفریاد ہےآیئے خدا کے اس پاک وپاکیزہ بندے کے نالہ وفغاں کا کچھ حصہ دیکھتے ہیں انہیں اس بات سے لطف اور لذت حاصل ہوتی تھی کہ اپنے خدا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنی تمام تر حقارت، اپنے فقر، اپنی احتیاج ونیازاور اپنی کوتاہیوں کا ذکر کریں آپ کہا کرتے تھے کہ بارِ الٰہا !میری جانب سے کوتاہی ہی کوتاہی ہے اور تیری جانب سے لطف ورحمت مَوْلَایَ مَوْلَایَ اِذَا رَأیْتُ ذُنُوْبِیْ فَزَعْتُ وَ اِذَا رَأَیْتُ کَرَمَکَ طَمَعْتُ (دعائے ابو حمزہ ثمالی)

علی ا بن الحسین ؑفرماتے ہیں: میرے خدا! میرے مولا! میرے آقا! جب میری نظر اپنے گناہوں پر پڑتی ہے تومجھ پرخوف وہراس طاری ہوجاتا ہےلیکن جوں ہی میری نگاہ تیری طرف اٹھتی ہے، تیری رحمت کو دیکھتا ہوں، تو میرے دل میں امید پیدا ہوجاتی ہےمیں ہمیشہ خوف اور امید کے درمیان رہتا ہوںجب میں اپنی طرف دیکھتا ہوں تو مجھ پر خوف طاری ہوجاتا ہے، اور جب تجھے دیکھتا ہوں تومجھ پر امید غالب آجاتی ہےجی ہاں، وہ ایسے تھے

دو جملے مصائب کے بھی آپ کی خدمت میں عرض کروں گانو محرم کو عصر کے وقت لشکرِ عمر سعد نے عبید اﷲ ا بن زیاد کے حکم سے (امام حسین ؑپر) حملہ کردیاوہ اسی رات حسین ؑ سے جنگ کرنا چاہتے تھےامام حسین ؑ نے اپنے بھائی ابو الفضل العباس ؑکی وساطت سے ان سے ایک شب کی مہلت طلب کیفرمایا: بھیا! ان سے کہو کہ آج کی رات ہمیں مہلت دے دیںمیں کل جنگ کروں گامیں تسلیم ہونے والا نہیں ہوںمیں جنگ کروں گا لیکن مجھے آج ایک رات کی مہلت دے دیں (غروب کا وقت تھا) پھر اسلئے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ حسین ؑ وقت گزارنا چاہتے ہیں، یہ جملہ فرمایا: بھیا! خدا خود جانتا ہے کہ میں اس کے ساتھ مناجات کو پسند کرتا ہوںمیں چاہتا ہوں کہ آج کی رات اپنی زندگی کی آخری رات کے طور پر اپنے خدا سے مناجات میں بسر کروں اوراسے اپنے لئے توبہ و استغفار کی شب قرار دوں

عاشور کی وہ شب، اگر آپ جان لیں کہ وہ کیسی رات تھی! معراج تھی، اس رات خوشی، شادابی اور مسرت حکم فرما تھیاس رات انہوں نے خود کو پاک و صاف کیا، حتیٰ اپنے بالوں کی بھی آرائش کی

ایک خیمہ تھا جس کا نام خیمہ ٔ تنظیف (صفائی کا خیمہ) تھااس خیمے میں کوئی موجودتھا اورباہر دو آدمی اپنی باری کے انتظار میں تھےان میں سے ایک نے جو بظاہر بُرَیر تھے، دوسرے کے ساتھ مذاق کیادوسرے نے اُن سے کہا: آج کی رات مذاق کرنے کی رات نہیں ہےانہوں نے کہا: بنیادی طور پر میں بھی شوخ طبیعت آدمی نہیں ہوں لیکن آج کی رات مذاق کی رات ہے

جب دشمن نے آکر ان توبہ کرنے والوں اور ان استغفار کرنے والوں کو دیکھا تو آپ جانتے ہیں انہوں نے ان کے بارے میں کیا کہا؟ امام حسینؑ کے خیمے کے قریب سے گزرنے کے بعد کہنے لگے (یہ دشمن کے الفاظ ہیں!!) : لَھُمْ دَوِیٌّ کَدَوِیِّ النَّحْلِ مَا بَیْنَ رَاکِعٍٍ وَ سَاجِدٍ (دمع السجومص ۱۱۸) یوں محسوس ہوتا تھا جیسے انسان شہد کی مکھیوں کے چھتے کے قریب سے گزرا ہو

شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کیسے بلند ہوتی ہے؟
امام حسین ؑ اور ان کے اصحاب کے ذکر، دعا، نماز و استغفار کی آواز بھی اسی طرح بلند تھی
امام حسین ؑ فرماتے ہیں: میں چاہتا ہوں آج کی رات کو اپنے لئے توبہ و استغفار کی شب قرار دوں (چاہتے ہیں اپنی شب ِ معراج قرار دیں)
کیا ہمیں توبہ کی ضرورت نہیں ہے؟
انہیں تو ضرورت ہو اور ہمیں نہ ہو؟
جی ہاں، حسین ابن علی ؑ نے وہ رات اِس طرح بسر کیعبادت میں بسر کیاپنے اور اپنے اہلِ بیت کے کام انجام دیئے، اور اسی رات اپنے اصحاب کے سامنے وہ عظیم خطبہ ارشادفرمایا

آپ کے سامنے صحرائے کربلا کے ایک تائب کا ذکر کرنے کے بعد اپنے عرائض ختم کروں گا:
ایک قبول ہونے والی توبہ، ایک انتہائی سچی توبہ، کربلا میں حر ابن یزید ریاحی کی توبہ ہےحر، ایک بہادر اورمضبوط انسان ہےپہلی بار جب عبید اﷲ ابن زیاد نے حسین ابن علی ؑ سے مقابلے کے لئے ایک ہزار سواروں کو بھیجنا چاہا، تو (اُن کی سربراہی کے لئے) اُسی کا انتخاب کیاوہ اہلِ بیت پیغمبر پر ظلم و ستم کا مرتکب ہوا

ہم نے عرض کیا تھا کہ جب بڑا ظلم سرزد ہوتا ہے تو انسان کا ضمیر، اگر نیم مردہ ضمیر بھی ہو، توردِعمل ظاہر کرتا ہےاب دیکھئے کہ روح کے پست مقامات کے مقابلے میں روح کے اعلیٰ مقامات کس انداز سے اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں؟

راوی کہتا ہے کہ میں نے لشکرِ عمر سعد میں حرا بن یزید ریاحی کو اس حال میں دیکھا کہ وہ بید کی طرح لرز رہے تھےمجھے تعجب ہوا، آگے بڑھا اور کہا: حر! میں تمہیں بہت بہادر انسان سمجھتا تھااگر مجھ سے کوئی پوچھتا کہ کوفہ کا بہادر ترین انسان کون ہے، تو میں تمہارا نام لیے بغیر نہ رہتاتم کس طرح خوفزدہ ہو؟ تمہارے جسم پر لرزہ طاری ہےحر نے کہا: تم غلط سمجھ رہے ہومیں جنگ سے خوفزدہ نہیں ہوں(اس نے کہا ہوگا:پھر کس چیز سے ڈر رہے ہو؟ ) میں اپنے آپ کو جنت اور جہنم کے درمیان دیکھ رہا ہوںمیرے لئے جنت یادوزخ کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہےمجھے سمجھ نہیں آرہاکہ کیا کروں، یہ راستہ اختیار کروں یا وہ راستہ؟

لیکن آخرکار حر نے جنت کا راستہ اختیار کیااس نے آہستہ آہستہ اپنا گھوڑا ایک طرف کیااس طرح سے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ اس کا مقصد او رہدف کیا ہےجیسے ہی وہ ایک ایسے مقام پر پہنچاجہاں اب کوئی اس کا راستہ نہیں روک سکتا تھا، اُس نے یکایک اپنے گھوڑے کو چابک رسید کی اور امام حسین ؑ کے خیموں کی طرف آگیالکھا ہے کہ اس علامت کے طور پر کہ میں جنگ کی نیت سے نہیں آیا ہوں، امان کی غرض سے آیا ہوں، حر نے اپنی ڈھال کو الٹا کرلیاتھاامام حسین ؑ کے قریب پہنچتا ہے، سلام عرض کرتا ہے، اور اس کا پہلا جملہ یہ ہوتا ہے کہ: ھَلْ تَریٰ لِیْ مِنْ تَوْبَۃٍ؟ (لہوفص۴۳) کیا اس گناہ گار کی توبہ قبول ہوگی؟ امام حسین ؑ فرماتے ہیں: ہاں! قبول ہے

امام حسین ؑ کی کرم نوازی دیکھئے! یہ نہیں فرماتے کہ یہ کیسی توبہ ہے؟ ہمیں اس مشکل میں ڈالنے کے بعد اب توبہ کرنے آئے ہو؟ لیکن حسین ؑ اس طرح نہیں سوچتے تھےحسین ؑ ؑہر صورت میں لوگوں کی ہدایت کرنا چاہتے ہیں اگرآپ ؑ کے تمام جوانوں کو قتل کرنے کے بعد بھی عمر سعد کا لشکر توبہ کرلیتا، تب بھی آپ ؑفرماتے کہ تم سب کی توبہ قبول کرتا ہوںاس کی دلیل یہ ہے کہ جب حادثۂ کربلا کے بعد یزید ابن معاویہ نے علی ابن الحسین ؑ (امام زین العابدین) سے کہاتھا کہ اگر میں توبہ کرلوں تو کیا میری توبہ قبول ہوگی؟ توامام ؑ نے فرمایاتھا کہ: ہاں، اگر تو واقعی سچی توبہ کرلے توقبول ہوگیلیکن اُس نے توبہ نہیں کی

حر نے امام حسین ؑ سے کہا: آقا!مجھے میدان میں جانے کی اجازت دیجئے تاکہ میں آپ پر اپنی جان فدا کردوںامام ؑ نے فرمایا: تم ہمارے مہمان ہو، گھوڑے سے نیچے آؤ، چند لمحے یہاں ٹھہروحر نے عرض کیا: آقا! آپ کی اجازت سے میرا جانا بہتر ہوگا

حر شرمندہ تھے، انہیں شرم آرہی تھیکیوں؟ اسلئے کہ وہ دل میں کہہ رہے تھے کہ خدایا میں ہی وہ گناہگار ہوں جس نے سب سے پہلے تیرے اولیا کے دلوں کو تڑپایا تھاتیرے نبی کی اولاد کو دہشت زدہ کیا تھا
وہ کیوں حسین ابن علی ؑ کے ساتھ بیٹھنے پر تیار نہیں ہوئے؟
کیونکہ انہوں نے یہ سوچا ہوگاکہ میں یہاں بیٹھوں، تو کہیں ایسا نہ ہو کہ حسین ؑ کا کوئی بچہ یہاں آجائے، اس کی نظر مجھ پر پڑے اور میں شرم کے مارے ڈوب مروں

’وَ لَاحَوْلَ وَ لَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلَہِ الطَّاہِرِیْنَ۔“
”بِاِسْمِکَ الْعَظِیْمِ الْاَعْظَمِ، اَلْاَعَزِّ الْاَجَلِّ الْاَکْرَمِ یَااَللّٰہ۔ ۔ اَللّٰہُمَّ اقْضِ حَوَائِجَنَا، وَاکْفِ مُہِمَّاتِنَا، وَاشْفِ مَرْضَانَا، وَ ارْحَمْ مَوْتَانَا، وَ اَدِّ دُیُوْنَنَا، وَوَسِّعْ فِیْ اَرْزَاقِنَا، وَاجْعَلْ عَاقِبَۃَ اُمُورِنَا خَیْراً، وَ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَ تَرْضیٰ۔“
”رَحِمَ اللّٰہُ مَنْ قَرَأالْفَاتِحَۃَ مَعَ الصَّلَوٰاتِ۔“