توبہ کی مہلت کب تک ہے؟
توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
ہم نے وعدہ کیا تھا کہ توبہ کی جووضاحت حضرت علی علیہ السلام نے کی ہے، اور جس میں توبہ کی حقیقت، اس کی شرائط اور اس کے مرحلۂ کمال کی نشاندہی کی ہے، اُسے آپ کی خدمت میں بیان کریں گےاس بارے میں امام ؑ کے بیان کو عرض کرنے سے پہلے مقدمے کے طور پر ایک سوال کا جواب عرض کرتے ہیںوہ سوال یہ ہے کہ: انسان کی توبہ کس وقت قبول ہوتی ہے، کونسا موقع توبہ کا وقت ہوتا ہے؟ یعنی کس وقت تک انسان کو توبہ کی مہلت حاصل ہے؟
انسان جب تک اس دنیا میں ہے اور اس کارشتۂ حیات باقی ہے اور جب تک موت بالکل اس کے سر پر نہ آجائے، اسے توبہ کی مہلت حاصل ہےجب انسان موت کے چنگل میں گرفتار ہوچکا ہو اور اسے نجات کی کوئی امید نہ ہو، صرف اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں ہوتیوہ آخری لمحات اور لحظات جنہیں احادیث میں وقت ِ معائنہ کہا گیا ہے، یعنی وہ لمحہ جب انسان موت کااور اگلے جہان کا معائنہ کرتا ہے، انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، اور عین اس وقت جبکہ ابھی وہ زندہ ہوتا ہے اسکے باوجود اگلی دنیا کو اپنے سامنے موجود پاتا ہےاس لمحے سے پہلے پہلے انسان کی توبہ قبول ہوسکتی ہےلیکن خود اس لمحے میں توبہ قبول نہیں ہوگیاسی طرح آخرت میں بھی توبہ بے معنی ہوجاتی ہےوہاں نہ انسان کو توبہ کا حوصلہ ہوگا اورنہ اگر بالفرض توبہ کرنابھی چاہے، جو قطعی طور پر حقیقی توبہ نہیں ہوگی، صرف ایک ظاہری عمل ہوگا، اس کی توبہ قبول نہیں ہوگیاس معاملے میں ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ اس سوال کا جواب ہماری گزشتہ رات کی گفتگو کو مکمل کرے گا، اسلئے ہم آج رات یہ گفتگوکر رہے ہیں
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ”معائنے“ کے لمحے میں توبہ کیوں قبول نہیں ہوتیقرآن واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ :
فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْآ ٰامَنَّا بِاﷲِ وَحْدَہٗ وَ کَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہٖ مُشْرِکِیْنَ
پھر جب انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے یکتا پر ایمان لائے ہیں اور جن باتوں کا شرک کیا کرتے تھے سب کا انکار کر رہے ہیں(سورۂ مومن۴۰آیت ۸۴)
یعنی جوں ہی انہوں نے ہمارے انتقام کودیکھا، توبہ کرنا چاہی، ہم اُن کی توبہ قبول نہیں کریں گےجس لمحے ہمارا انتقام ان کے سر پر پہنچے، اس لمحے ان کا اظہارِ ایمان کرنا، اظہارِتوبہ کرنا بے فائدہ ہوگا
کیوں؟ اسلئے کہ توبہ صرف پشیمانی اورصرف پلٹنے کا نام نہیں ہےیعنی اگر انسان کسی بھی سبب سے صرف اپنی گمراہی سے لوٹ آئے، تو اسے توبہ شمار نہیں کیا جائے گاتوبہ اس وقت ہوگی جب انسان کے اندر ایک اندرونی انقلاب پیدا ہوجائےیعنی انسان کی شہوانی، غضبی اور شیطانی قوتیں اُس کی تباہکاریوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں، اور انسان کے وجود کی مملکت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیںیہ ہیں توبہ کے معنیتوبہ یعنی انسان کا اندرونی انقلاب
ایک مرحلے پر پہنچنے کے بعد، جب انسان کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ موت کے چنگل میں پھنس چکا ہے اور عذاب ِ الٰہی اسے اپنے سامنے نظر آتا ہے، ظاہر ہے وہ ایسے موقع پر اظہارِ ایمان کرتا ہے، لیکن ایمان کا یہ اظہار اُس کے اندر پیدا ہونے والا مقدس انقلاب نہیں ہوتاقرآن، فرعون کے بارے میں کہتا ہے :
حَتّٰیآا اِذَآ اَدْرَکَہُ الْغَرَقُلا قَالَ ٰامَنْتُ اَنَّہٗ لااَآ اِٰلہَ اِلَّا الَّذِیْٓ ٰامَنَتْ بِہٖ بَنُوْآ اِسْرَآئِیْلَ
یہاں تک کہ جب غرق ہونے کے قریب پہنچ گیا تو اس نے آواز دی کہ میں اس خدائے واحد ہٗ لا شریک پر ایمان لے آیا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں(سورۂ یونس۱۰آیت ۹۰)
فرعون جب تک دنیا میں ہے اوراس کے جسم کو دنیا کی ہوالگ رہی ہے وہ فرعونیت کا مظاہرہ کرتا ہے، کوئی دلیل نہیں مانتا، کسی وعظ و نصیحت کوقبول نہیں کرتا، موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلے منعقد کرواتا ہے، خود جادوگر ایمان لے آتے ہیں لیکن وہ مزید سرکشی کا اظہار کرتا ہے، موسیٰ اور ان کی قوم کے قتل کے درپے ہوجاتاہے، اُن کا تعاقب کرتا ہےجب وہ دریا میں ڈوبنے لگتا ہے، پانی اسے گھیر لیتا ہے، اُسے اپنی زندگی کا اختتام نظر آنے لگتا ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب اُس کے پاس بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رہا، تو کہتا ہے: قَالَٰامَنْتُ اَنَّہٗ لااَآ اِٰلہَ اِلَّاالَّذِیْٓ ٰامَنَتْ بِہٖ بَنُوْآ اِسْرَآئِیْلہاں، میں اب موسیٰ کے خدا پر ایمان لے آیا
اب یہاں پہنچ کر اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی
خدا اس کی توبہ کیوں قبول نہیں کرے گا؟
کیا خدا بخل سے کام لے رہا ہے؟
نہیں، اگر توبہ ہو تووہ قبول کرے! یہ توبہ ہی نہیں ہےتوبہ، یعنی باطن میں پیدا ہونے والا ایک مقدس انقلابیہ مقدس باطنی انقلاب نہیں ہے
ایک ایسا انسان جو دریا کی تہہ میں ہو، جس کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہو، وہ جس طرف بھی نگاہ اٹھائے اُسے پانی ہی دکھائی دے، اور اس حال میں وہ توبہ کا اظہار کرے، تو ایسے شخص کا ضمیر منقلب نہیں ہوا ہے، اُس کی فطرت زندہ نہیں ہوئی ہے، اُس نے خود اپنے خلاف قیام نہیں کیا ہےبلکہ اب اس حال میں جب وہ اپنے آپ کوبے بس اور لاچار محسوس کر رہا ہے، تو مجبوراً اظہارِ تسلیم کر رہا ہےلہٰذا اُس سے کہتے ہیں کہ: ٰٓالْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْل
تو آواز آئی کہ اب جبکہ تو پہلے نافرمانی کر چکا ہے(سورۂ یونس ۱۰آیت ۹۱)
لمحے بھر پہلے جب تم آزاد تھے، اُس وقت تم نے یہ بات کیوں نہ کہی؟ گھڑی بھر پہلے جب تم آزاد تھے، اگر اُس وقت یہ کہا ہوتا، تو پتا چلتاکہ تمہارے اندر ایک مقدس انقلاب پیدا ہوا ہےلیکن اب جب یہ کہتے ہو، تو یہ، کسی مقدس انقلاب کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ مجبوری اور بے بسی کی بنا پرہے
دنیا کا کونسامجرم ایسا ہے جو عدالت کے کٹہرے میں آنے کے بعد پشیمانی کا اظہار نہیں کرتا؟ لیکن یہ پشیمانی نہیں ہے، اصلاح نہیں ہے، راہِ راست پرآنے کی علامت نہیں ہےاگرگرفتار ہونے سے پہلے خودمجرم کے اندر انقلاب پیدا ہو جائے اور اس کے پاس جرم کرنے کاموقع ہو، اُس کے باوجود جرم کا مرتکب نہ ہو، تواس کا نام توبہ اور مخلصانہ رجوع ہےپس آخری لمحات میں، اس حال میں کہ جب انسان کو دوسری دنیا نظر آنے لگتی ہے اُس کی توبہ قبول نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ توبہ ہوتی ہی نہیںایسا نہیں ہوتا کہ وہ توبہ ہے لیکن اسے قبول نہیں کیا جاتا، نہیں، یہ اصلاً توبہ ہوتی ہی نہیں ہے
رہی بات یہ کہ اُس دوسری دنیا میں انسان کی توبہ کیوں قبول نہیں ہوتی؟ توپہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا جواب اسی پہلے جواب سے واضح ہےکیونکہ اُس دنیا میں بھی انسان ہر چیز کو دیکھ لیتا ہے، سب کچھ اُس کے سامنے ہوتا ہےلہٰذا جب وہ وہاں پرتوبہ کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خدایا! میں پشیمان ہوں، تو اُس کا یہ اظہارِ پشیمانی اُس میں پیدا ہونے والے باطنی مقدس انقلاب کی وجہ سے نہیں ہے، ایک آزاد انقلاب نہیں ہے
دوسری بات یہ کہ جوں ہی انسان اس دنیا سے قدم باہر رکھتا ہے، اُسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اب اُس کی حیثیت کیاہےاُس کی حیثیت اُس پھل کی سی ہے جو ایک درخت پر تھااور اب پک کریا کسی بھی وجہ سے درخت سے جدا ہو گیا ہے
پھل جب تک درخت پر رہتا ہے، اُس وقت تک درخت کے نظام کا تابع ہوتا ہےاگر اُس کی نشوونما ہوتی ہے، تو درخت کے ذریعے ہوتی ہےاگر اُس تک پانی پہنچتا ہے، تو درخت کی جڑوں کے راستے پہنچتا ہےاگر غذائی مواد اُس تک پہنچتا ہے، تو درخت کے ذریعے پہنچتا ہےاگر وہ ہوا سے استفادہ کرتا ہے، تو درخت کے ذریعے استفادہ کرتا ہےاگر اُس کا ذائقہ میٹھا ہوتا ہے، تو اُس عمل اور ردِ عمل کا نتیجہ ہوتا ہے جو درخت میں انجام پاتا ہےاگر اُس کا رنگ بدلتا ہے، تو یہ بھی درخت ہی کے ذریعے ہوتا ہے
جوں ہی پھل درخت سے جدا ہوتا ہے، اُس کے لئے موجود تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیںمثلاً لمحے بھر پہلے جو سیب زمین پر گرا تھا، وہ کچا درخت پر موجود تھا، اُس کے لئے اِس بات کا امکان تھا کہ وہ پک جائے، ایک اور مرحلہ طے کرلے، اُس کا رنگ بدل جائے، اُس کے حجم میں اور اضافہ ہوجائے، ذائقہ اور خوشگوار ہوجائے، اُس کی مٹھاس بڑھ جائے، وہ زیادہ خوشبو دارہوجائےلیکن جوں ہی وہ درخت سے گرتا ہے، اُس کے لئے تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیںیعنی جس لمحے وہ درخت سے گرا تھا وہی اُس کی آخری کیفیت، آخری حالت ہوتی ہے
انسان درخت ِ کائنات کا پھل ہے، دنیا کے درخت کا پھل ہےہم انسانوں کے لئے موجود تمام امکانات، اسی کائنات، اسی دنیا میں ہیںہمارے لئے اچھے ہونے کا امکان اسی دنیا میں پایاجاتاہے، ہمارے بُرے اور بدتر ہونے کے وسائل بھی اسی دنیا میں موجود ہیںجب ہم اس دنیا میں موجود ہوتے ہیں، توکائنات اور دنیا کے درخت پر ہوتے ہیں، اس درخت کا پھل ہوتے ہیں
این جہان ہمچون درخت است اے گرام
ما بر آن، چون میوہ ھای نیم خام
جب تک ہم کائنات کے درخت کی شاخ پر ہیں، ہمارے پاس تمام امکانات موجودہیںاگرہم عبادت کریں، توپکے ہوئے پھل کی طرح پک جائیں گے اور اگر گناہ کے مرتکب ہوں، توسڑے ہوئے پھل کی مانند سڑ جائیں گےجیسے کوئی کیڑا یا گھن (۱) درخت کے ذریعے اس پھل تک پہنچ گیا ہو
توبہ بھی امکانات میں سے ایک امکان ہےاُس پانی یا خوراک کی مانند ہے جو درخت ِ کائنات کے ذریعے ہم تک پہنچنا چاہئےلہٰذامرنے کے بعد ہمارے کام نہیں آئے گی
کیوں؟
اسلئے کہ ہم نے عرض کیا کہ توبہ ایک مقدس انقلاب ہے، اور تمام تبدیلیوں، تغیرات اور انقلابات کا تعلق اِس دنیا سے ہےاپنی راہ کو بدلنا، اپنی سمت میں تبدیلی لانا سب کا سب اِس دنیا سے تعلق رکھتا ہےاوپر اٹھنا اور نیچے گرنا اس دنیا میں ممکن ہےجوں ہی ہم اُس دنیا میں قدم رکھیں گے، جس حد اور درجے میں ہوں گے، جس راہ پر ہوں گے، جس سمت ہمارا رخ ہوگا وہیں ٹھہر کے رہ جائیں گےاُسی مقام پر ہمارے عمل کی آخری حد ختم ہوجائے گی
ایک اور مثال پیش خدمت ہے:
بچہ جب تک رحمِ مادر میں ہوتا ہے، ماں کے وجود سے وابستہ ہوتا ہےاُس کی خوراک ماں کی جانب سے ہے، اُس کے بدن کا مائع او رپانی ماں کے وجود سے ہے، اُس کی تندرستی اور بیماری ماں سے ہےلیکن جیسے ہی وہ ماں سے پیدا ہوتا ہے، ماں سے اُس کی یہ وابستگیاں ختم ہوجاتی ہیں، اُس کی زندگی ایک اور نظام کے تابع ہوجاتی ہےاور اب وہ ایک لمحے کے لئے بھی اُس پہلے نظام کے ساتھ، جو رحمِ مادر کا نظام تھا، زندگی بسر نہیں کر سکتاجوں ہی انسان اِس دنیا سے جاتا ہے، اُس کی زندگی کا نظام یکسر بدل جاتا ہےاور اُس کے لئے اِس دنیا کے نظاموں سے معمولی سے استفادے کاامکان بھی نہیں رہتاعمل اور توبہ، پیش قدمی اور پسپائی، اوپر اٹھنا اور نیچے آنااور راستے اور سمت کو تبدیل کرنا، یہ سب باتیں اِس دنیا سے تعلق رکھتی ہیں
حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے:
اَلْیَوْمَ عَمَلٌ وَ لَا حِسَابٌ وَ غَدًا حِسَابٌ وَ لَا عَمَلَ (۲)
فرماتے ہیں: اے لوگو ! آج عمل کا دن ہے، حساب کادن نہیںدنیا جزا اور احتساب کا مقام نہیںالبتہ یہ نہیں کہہ رہے کہ دنیا میں کسی مکافات ِعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑتابعض اعمال کی دنیا ہی میں مکافات ہےاور دنیا میں انسان کو جن مصیبتوں کا سامناکرنا پڑتا ہےاُن میں سے بعض انسان کے عمل کا نتیجہ ہوتی ہیںلیکن یہ نہ سمجھئے گا کہ خدا ہر بُرے عمل کا حساب اسی دنیا میں لے لیتا ہے، اور نہ یہ تصور پیدا ہوکہ جس کسی بُری حالت کا انسان کو شکار ہونا پڑتا ہے وہ اُس کے کسی گزشتہ عمل کا نتیجہ ہوتی ہےنہیں، ایسا نہیں ہے
لہٰذا اگر اِس دنیا میں انسان کو کوئی سزا نہیں ملتی، تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس کا حساب صاف ہےنہیں، ایسا نہیں ہےاوراگر کسی کو دنیا میں کوئی سختی دیکھنا پڑے، تو یہ اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ اعمالِ بد کا مرتکب ہوا ہےمثلاً یہ جوایک سیلاب آیا اور پاکستانیوں کو ہلاکت سے دوچار کیا (۳) کیا یہ اُن کے بُرے عمل کی دلیل ہے؟ یعنی خدا نے اِس دنیا ہی میں اُن کا حساب کردیا ہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہےاسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ: اَلْیَوْمَ عَمَلٌ وَ لَا حِسَابٌ وَ غَدًا حِسَابٌ وَ لَا عَمَلَدنیامقامِ عمل ہے، مقامِ حساب نہیںاِس کے برعکس آخرت مکانِ عمل نہیں، صرف اور صرف حساب لئے جانے کی جگہ ہے
پس یہ جو انسان کے لئے توبہ کا وقت موت اور اُس کے آثار نظر آنے سے پہلے تک محدودکیا گیا ہے، اور جب انسان کو موت اپنے سر پر نظر آنے لگے (جیسے فرعون کے ساتھ ہوا تھا) تو ایسے وقت میں اُس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، اور اسی طرح عالمِ آخرت میں توبہ نہ ہونے کا سبب وہی باتیں ہیں جنہیں ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا
اِن سے ہمیں کیا نتیجہ حاصل کرنا چاہئے؟
بقول حضرت علی علیہ السلام: اَلْیَوْمَ عَمَل (آج عمل کا دن ہے) لہٰذا ہمیں موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئےاُن لوگوں میں سے نہیں ہونا چاہئے جویہ سوچ کرتوبہ میں تاخیر کرتے رہتے ہیں کہ ابھی بہت وقت پڑاہےخداوند عالم فرماتا ہے:
یَعِدُہُمْ وَ یُمَنِّیْہِمْط وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا (۴)
یہ امید رکھنا کہ ابھی دیر نہیں ہوئی، ابھی توہماری کافی عمر باقی ہے، ابھی ہم نے دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے، یہ شیطانی بہلاوے ہیں، نفسِ امارہ کے فریب ہیں انسان کو توبہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے
یہاں ہماری تمہید ختم ہوئی، اب حضرت علی ؑ کے کلام کی طرف آتے ہیں:
۱درخت یا غلے میں لگنے والا ایک کیڑا
۲آج عمل کا دن ہے، حساب نہیں ہے اور کل حساب کا دن ہوگا، عمل کی گنجائش نہیں ہوگی(نہج البلاغہخطبہ۴۲)
۳یہ اُس زمانے میں پاکستان میں آنے والے ایک سیلاب کی جانب اشارہ ہے
۴شیطان اُن سے وعدہ کرتا ہے اور اُنہیں امیدیں دلاتا ہے، اور وہ جوبھی وعدہ کرتا ہے وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے(سورۂ نسا ۴آیت ۱۲۰)