توبہ انسان کا امتیاز ہے
توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
”توبہ“ ایک قسم کا باطنی انقلاب ہے، ایک قسم کا قیام ہے، انسان کاخود اپنے خلاف ایک قسم کا انقلاب ہےاس لحاظ سے یہ انسان کے امتیازات میں سے ہےنباتات اپنا راستہ بدلتے ہیں لیکن اپنے خلاف قیام نہیں کرتے، کربھی نہیں سکتے، اُن میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہوتی جمادات اورنباتات کے درمیان فرق یہ ہے کہ جمادات اپنی بقا کے لئے خود سے اپناراستہ تبدیل نہیں کرسکتے، جبکہ یہ حیرت انگیزصلاحیت نباتات میں پائی جاتی ہے (حیوانات میں بھی موجود ہے)
انسان میں اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ خود اپنے خلاف قیام کرتا ہے، حقیقتاً قیام کرتا ہےاپنے خلاف انقلاب بپا کرتا ہے، واقعاً انقلاب بپا کرتا ہےدو مختلف اور باہمی طور پر جدا جداچیزیں (ایک دوسرے کے خلاف) قیام اور انقلاب بپا کرسکتی ہیںمثلاً ایک ملک میں معاملات کی باگ ڈورکچھ لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، بعد میں کچھ دوسرے لوگ ان کے خلاف قیام اور انقلاب بپا کردیتے ہیںیہ کوئی انہونی بات نہیں ہے(کیونکہ) جن لوگوں کے خلاف انقلاب بپا ہوا ہے وہ دوسرے افراد ہیں اورجنہوں نے انقلاب بپا کیا ہے وہ دوسرے لوگ ہیں اُنہوں نے اِن پر ظلم کیاتھا، اِنہیں ناراض اور باغی بنا دیاتھا، جو ان کی طرف سے بغاوت اور انقلاب کا سبب بنا اورانہوں نے اچانک انقلاب بپاکردیا، زمامِ حکومت ان سے چھین لی اور ان کی جگہ پر خود بیٹھ گئےاس میں کوئی نہ ہونے والی بات نہیں
لیکن ایک انسان کے خود اپنے اندر سے انقلاب اٹھنا، خود اپنے خلاف قیام کرنا، یہ کیسے ممکن ہے؟
کیا ممکن ہے کہ ایک شخص خود اپنے خلاف اٹھ کھڑا ہو؟ ہاں ممکن ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک شخص ہے، جبکہ اس کے اس خیال کے برخلاف ایسا ہے نہیںوہ ایک واحد شخص ہے لیکن ایک مرکب شخص ہے، بسیط شخص نہیں ہے (۱) یعنی ہم جو یہاں بیٹھے ہیں، حدیث میں آنے والی تعبیر کی رو سے ایک جماد یہاں بیٹھا ہے، ایک نبات بھی یہاں بیٹھا ہے، شہوت رکھنے والا ایک حیوان بھی یہاں بیٹھا ہے، ایک درندہ بھی یہاں بیٹھا ہے، ایک شیطان بھی یہاں بیٹھا ہے اورعین اسی حال میں ایک فرشتہ بھی یہاں بیٹھا ہےیعنی شاعروں کے بقول انسان ایک ایسا نادر و نایاب معجون ہے جس کے وجود میں تمام خصوصیات جمع ہیںکبھی وہ شہوانی حیوان (جس کا مظہر سُوَر کو سمجھا جاتا ہے) انسان کے وجود میں پایا جانے والا وہ سُوَر اُس پر حاوی ہوجاتا ہے، اور (اپنے اندر موجود) درندے، شیطان اور فرشتے کوابھرنے کا موقع نہیں دیتاکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُن میں سے کوئی ایک اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، صورتحال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے، اورانسان کے وجود پر ایک نئی حکومت قائم ہوجاتی ہے
گناہ گار انسان، وہ انسان ہے جس کے اندر کا حیوان اس پر مسلط ہے، یا اس کے اندر کا شیطان اس پر مسلط ہے، یا اس کے وجود کا درندہ اس پر حاوی ہےعین اُسی وقت ایک فرشتہ، ایک عالی قوت بھی اس کے وجود میں محبوس اوراسیر ہے
۱بسیط یعنی غیر مرکب