تربیت کا غلط انداز
توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
اگر آپ نے تجربہ کیا ہو (تو دیکھا ہوگا کہ) کچھ لوگ جو تربیت کے فن سے واقف نہیں ہوتے، وہ نہیں جانتے کہ انسانی وجود میں جو قوتیں موجود ہیں اُن سب میں تربیت کے حوالے سے حکمتیں اور مصلحتیں پائی جاتی ہیں اگر ہمارے اندر شہوانی غرائزپائی جاتی ہیں، تو وہ لغو اوربے کار نہیں ہیںہمیں طبیعی احتیاج کی حد میں ان شہوانی غرائز کی تسکین کرنی چاہئےان کی ایک حد ہے، ایک حق ہے، ایک حصہ ہےہمیں ان کا مقررہ حصہ انہیں دینا چاہئےاس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ سواری کے لئے اپنے گھر میں ایک گھوڑارکھتے ہیں یاحفاظت کے لئے گھر میں ایک کتّا پالتے ہیں اس گھوڑے یااس کتّے کو خوراک کی ضرورت ہے، آپ پر لازم ہے کہ اسے خوراک فراہم کریں
اب کچھ کج سلیقہ لوگ ایسے ملتے ہیں جو اپنے آپ پر یا اپنے زیرِ کفالت بچوں پر جبر کرتے ہیںبچے کے لئے کھیل کود ضروری ہے اور خودکھیل کود کی یہ ضرورت پروردگار کی حکمتوں میں سے ہےبچے کے بدن میں انرجی کی جو مقداراکھٹی ہوتی ہے اُسے وہ صرف کھیل کود کے ذریعے خارج کرسکتا ہےبچے میں کھیل کودکے لئے غریزہ پایا جاتا ہےاب ہمیں کچھ ایسے افراد نظر آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیںبہت خوب، اچھی بات ہے
آپ کیسے تربیت کرنا چاہتے ہیں؟
وہ اپنے پانچ چھے سالہ بچے کودوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود کی اجازت نہیں دیتے، جس کسی محفل میں خود جاتے ہیں اپنے بچے کو بھی ساتھ لیجاتے ہیںکیوں؟ تاکہ اس کی تربیت ہو، اسے ہنسنے سے منع کرتے ہیں، اسے کھانے سے منع کرتے ہیںیا ایسے افراد بھی پیدا ہوگئے ہیں (ہم نے خوددیکھا ہے) کیونکہ وہ خود عمامہ پہنتے ہیں، ایک عبا ایک عمامہ اور خاص چپل بنواتے ہیں، پھر اپنے آٹھ سالہ بچے کے سر پر عمامہ رکھتے ہیں، اس کے شانوں پر عبا ڈالتے ہیں اور اسے اپنے ہمراہ لئے ادہر ادہر پھرتے ہیں
یہ بچہ اس حال میں بڑا ہوتا ہے کہ اس کے وجود میں پائی جانے والی احتیاجات کی تسکین نہیں ہوئی ہوتی، اس کے سامنے بس خدا، قیامت، آتش جہنم کا تذکرہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ بیس برس سے زیادہ عمر کو پہنچنے پراس میں اکھٹی ہونے والی وہ قوتیں، وہ شہوتیں اوروہ تمایلات جن کی تسکین نہیں ہوئی ہوتی یکلخت زنجیر توڑ ڈالتی ہیں
وہ بچہ جسے آپ دیکھا کرتے تھے کہ اپنے باپ کی تلقین کے زیرِ اثر بارہ سال کی عمر میں جس کی نماز بیس منٹ طویل ہوا کرتی تھی، جو نمازِ شب پڑھاکرتا تھا، دعا ئیں پڑھتا تھا، پچیس سال کی عمر میں یکایک آپ کو سرسے پیر تک فسق و فجور میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے
کیوں؟
اسلئے کہ آپ نے اعلیٰ روحانی مقامات کے بہانے اس کی تمام غرائز کوکچل دیا تھاالبتہ بچے کی فطرت میں خدا تھا، قیامت اور عبادت تھی لیکن آپ نے خدا اور عبادت کے اس فطری جذبے کو اس انداز سے اس کے اندرمضبوط کیا کہ اس کے سارے غرائز (کی تسکین) کا راستہ روک دیا، اس کے سارے غرائز کو قید کردیا، انہیں غضبناک اور ناراض کردیا، انہیں جیل میں ڈال دیا، ان کا حق اور حصہ انہیں نہیں دیا(اب وہ غرائز) ایک موقع کی تلاش میں تھے، جوں ہی انہیں ایک موقع ملتا ہے، جوں ہی وہ بچہ ایک فلم دیکھتا ہے یا کسی محفل میں ایک جوان لڑکی سے راہ و رسم پیدا کرتا ہے، اسی وقت یہ جمع شدہ اور کچلی ہوئی قوتیں یک بیک سارے بندھن توڑ ڈالتی ہیں اور اس عمارت کو جسے اس کے باپ نے غلط انداز میں اس کے وجود میں تعمیر کیا تھامسمار کر ڈالتی ہیں، بالکل اسی طرح جیسے بارودپھٹتا ہے، پھٹ پڑتی ہیں
توبہ کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہےایسا انسان جو گناہ اور نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے، نفسانی خواہشات اور حیوانیت میں ڈوبا ہواہوتا ہے، جب وہ اپنے وجود کے فرشتے کو اس قدر اذیت دیتا ہے اور اس کی خواہشات کی تسکین نہیں ہونے دیتا، تو اچانک ایک دھماکہ ہوتا ہے
آخر میں اور آپ بھی تو انسان ہیں، ہمارا ایک دہان نہیں ہوتااگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کا صرف ایک دہان ہے اور آپ کو فقط اسی سے غذا فراہم کی جائے، تو آپ غلط فہمی میں مبتلا ہیں آپ کے سینکڑوں دہان ہیں آپ کے لاتعداد سر ہیں، لاتعداد دہان ہیں، ان سب سے آپ کو غذا پہنچنی چاہئے
ان لاتعداد دہان میں سے آپ کاایک دہان عبادت کادہان ہےآپ کے لئے ضروری ہے کہ عبادت کے ذریعے اپنی روح کی تسکین کریںیعنی آپ کو اسے اس کایہ حق اور یہ حصہ دیناچاہئےآپ ملکوتی صفات کا حامل ایک وجود ہیں آپ کو اس عالم کی طرف محوپرواز ہوناچاہئےاگر آپ اس فرشتے کوقید کردیں، توکیا آپ جانتے ہیں کہ اس کے بعد کیابیماریاں اور کتنی زیادہ مشکلات جنم لیں گی؟
بسا اوقات آپ دیکھتے ہیں کہ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے والا جوان، ایک ایسا جوان جسے تمام وسائل اورآسائشیں فراہم ہیں، وہ ایک انتہائی معمولی بات پر خودکشی کرلیتا ہےلوگ کہتے ہیں نہ معلوم اس نے کیوں خودکشی کرلی؟ یا یہ کہتے ہیں کہ ارے یہ تو بہت چھوٹی سی بات تھی! کیوں خودکشی کرلی؟
دراصل وہ جوان اس بات سے واقف نہیں تھا کہ اس کے وجود میں کچھ مقدس قوتیں قید تھیںوہ مقدس قوتیں اُس کی زندگی کے اس انداز سے آزردہ تھیں، ان کی برداشت ختم ہوچکی تھی جس کے نتیجے میں اس طرح کا ایک طوفان اٹھا
کبھی کبھی آپ دیکھتے ہیں کہ ایک انسان سب کچھ ہونے کے باوجود مضطرب اورپریشان ہےبقول شاعر :
آن یکی در کنج زندان مست و شاد
و ان دیگر در باغ ترش و بی مراد
وہ جیل کی کوٹھڑی میں بھی خوش و خرم ہے اور دوسرا باغ کے اندر رہتے ہوئے بھی غمگین اور نامراد ہے
آپ دیکھتے ہیں کہ وہ ایک پر آسائش ماحول میں رہتا ہے، زندگی کی تمام سہولتیں اسے میسر ہیں، اس کے باوجود وہ پریشان ہے، ناخوش اور زندگی سے ناراض ہے
راہ لذت از درون دان نز برون
احمقی دان جستن از قصر و حصون
لذت کا راستہ اندر سے ہے نہ کہ باہر سےاس کو محل اور قلعہ میں تلاش کرنا حماقت ہے
اسلئے کہ کچھ لذتیں ایسی بھی ہیں جوخود انسان کے اندر سے اسے پہنچنا چاہئیں نہ کہ باہر سےاوریہ لذتیں انسان کی معنوی لذتیں ہیں
چنانچہ ”توبہ“ انسانی روح کے اعلیٰ اور مقدس مقامات کا اُس کے حیوانی اور پست مقامات کے خلاف ظاہر ہونے والاردِ عمل ہے
”توبہ“یعنی انسان کی فرشتہ صفت مقدس قوتوں کااُس کی شیطانی اور درندہ صفات قوتوں کے خلاف قیام وانقلابیہ ہے توبہ کی حقیقت
رجوع کرنے، ندامت اور پشیمانی کی یہ حالت انسان میں کیسے پیدا ہوجاتی ہے؟