توبہ کی کیفیت کیسے پیدا ہوتی ہے
توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟ • استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
پہلی بات یہ جان لیجئے کہ اگر انسان کے وجود میں کوئی ایسا عمل ہو جس کے نتیجے میں اس کے وجود میں پائے جانے والے یہ مقدس عناصر مکمل طور پر ناکارہ ہوجائیںوہ ایک ایسی مضبوط زنجیر سے باندھ دیئے جائیں جس سے وہ آزاد نہ ہوسکیں، توپھر انسان کو توبہ کی توفیق حاصل نہیں ہوتیلیکن جس طرح ایک ملک میں انقلاب اور تبدیلی اس وقت رونما ہوتی ہے جب وہاں اس ملک کی عوام کے درمیان پاکیزہ لوگوں کا ایک گروہ موجود ہوتا ہے، چاہے وہ گروہ بہت چھوٹا ہی کیوں نہ ہواسی طرح اگر انسانی وجود میں بھی کچھ مقدس اور پاک عناصر باقی بچے ہوں، تو انسان کو توبہ کی توفیق حاصل ہوجاتی ہےبصورتِ دیگر اسے ہرگز توبہ کی توفیق نہیں ہوگی
اب کن حالات میں انسان رجوع کرتا ہے، پشیمان ہوتا ہے اور اگر خدا پرست ہو تو خدا کی جانب پلٹتا ہے اور اگر خداپرست نہ ہو تو اس میں ایک دوسری حالت پیدا ہوتی ہے، کبھی پاگل پن اور دیوانگی کا شکار ہوجاتا ہے، اور کبھی دوسری صورتحال پیش آتی ہے
ہم نے کہا کہ ”توبہ“ ایک ردِعمل ہےآپ ایک گیند ہاتھ میں لیجئے اور اسے زمین پر ماریئےگیند زمین سے اچھلے گیآپ کاگیند کو پھینکنایعنی آپ کااپنے ہاتھ کی قوت سے گیند کو زمین پرمارنا، آپ کا عمل ہے اور گیند کا زمین سے اچھلنا ردِعمل ہےیہ ردِ عمل گیند کے زمین سے ٹکرانے سے پیدا ہوتا ہےپس وہ عمل ہے اور یہ ردِعمل، وہ فعل ہے اور یہ آج کل کی عربی اصطلاح میں ردُّالفعل ہے، وہ ایکشن ہے اور یہ ری ایکشن
جب آپ گیند کو زمین پر مارتے ہیں تو وہ کتنی بلند ہوتی ہے؟ اس کا تعلق ایک طرف اُس طاقت سے ہے جو اسے زمین پر مارنے میں استعمال ہوتی ہے، یعنی اُس قوت سے ہے جس سے آپ نے اُسے زمین پر مارا ہے اوردوسری طرف یہ سطحِ زمین کی کیفیت سے وابستہ ہےجس قدر زمین سخت اور ہموار ہوگی، جس قدروہ پختہ ہو گی، اُس کا ردِعمل زیادہ ہوگا (یعنی اتنا ہی گیند زیادہ بلند ہوگی) پس ردِعمل کا تعلق ایک طرف آپ کے عمل کی شدت سے ہے اور دوسری طرف اس سطح کی سختی اور ہمواری سے ہے جس سے گیند جا کر ٹکراتی ہے
گناہوں کے مقابل انسانی روح کا ردِعمل بھی دو چیزوں سے وابستہ ہوتاہےایک طرف اس کاتعلق شدتِ عمل سے ہےیعنی گناہ اور نافرمانی کی شدت سے، اس ضرب کی شدت سے ہے جو آپ کی روح کے پست مقامات روح کے اعلیٰ مقامات پر لگاتے ہیں
انسان کا گناہ جتنا کمتر اور جتنا چھوٹا ہوگا، وہ روح میں بھی اتنا ہی کم ردِعمل پیدا کرے گا، اور جس قدر معصیت بڑی ہوگی، ردِعمل بھی اتنا ہی زیادہ ایجاد کرے گیلہٰذا وہ لوگ جو بہت زیادہ شقی القلب اور سنگدل ہوتے ہیں، اپنی شقاوت اور قساوت ِقلبی کے باوجود اگر ان کا گناہ بہت بڑا ہو، تو ان کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی روح ردِعمل ظاہر کرتی ہےآپ دیکھتے ہیں کہ وہ امریکی پائلٹ جس نے وہ (ایٹم) بم لے جا کر ہیروشیما پر پھینکا تھا، جب وہ واپس آنے کے بعد اپنے عمل کے اثرپرایک نظر ڈالتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ اس نے ایک شہر نذرِ آتش کردیا ہے، بوڑھے جوان، مرد عورت، چھوٹے بڑے سب ایک دَھکتے ہوئے جہنم میں جل رہے ہیں اسی وقت اس کے ضمیر میں ہلچل مچ جاتی ہے، وہ اسے ملامت کرتا ہےحالانکہ ایسے لوگوں کو سنگدل ترین افراد میں سے منتخب کیا جاتا ہے
جب وہ (ہواباز) اپنے ملک لوٹتا ہے تو اس کا استقبال کیا جاتا ہے، اس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں، اسے اعلیٰ عہدے پر ترقی دی جاتی ہے، اس کی تنخواہ میں اضافہ کیا جاتا ہے، اخبارات میں اس کی تصویر چھپتی ہے، اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہےلیکن وہ ایسے عظیم ظلم کا مرتکب ہوا تھا، اس کا گناہ اس قدر بڑا تھا کہ اُس نے ایسے قسی القلب انسان کے ضمیر کو بھی بیدار کردیایعنی اس کی روح پر لگنے والی ضرب اتنی شدید تھی کہ ایسے سنگدل انسان کی روح بھی ردِ عمل ظاہر کئے بنا نہ رہ سکییہ شخص بھی جب پارٹیوں میں جاتا تو ہنستا مسکراتا، لوگوں کو بتاتا کہ اس نے یہ کیا وہ کیا، لیکن جب وہ تنہا ہوتا، جب بستر میں سونے کے لئے لیٹتا، تو یکدم وہ منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتا، (وہ سوچتا کہ) ہائے! یہ میں تھاجس نے اتنا بڑا جرم کیا!وائے ہو مجھ پر! میں کیسے عظیم ظلم کا مرتکب ہوا ہوں! نتیجتاً وہ شخص پاگل ہو جاتا ہے، اس کا عمل اسے پاگل خانے لیجاتا ہے
ایساکیوں ہوتا ہے؟
ایسا اسلئے ہوتا ہے کہ اس کا جرم بہت بڑا تھا
معاویہ کی فوج کا ایک سرداربسر بن ارطاۃ انتہائی سنگدل اور عجیب انسان تھامعاویہ نے حضرت علیؑ کو پریشان اور بے بس کرنے کے لئے جو پالیسیاں اختیار کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ وہ ”بسر بن ارطاۃ“یا ”سفیان غامدی“جیسے ایک خبیث فرد کی سربراہی میں کچھ فوجیوں کو حضرت علیؑ کی حکومت کی حدود کے اندر بھیجتے اور ان سے کہتے کہ اب گناہگار اور بے گناہ کو نہ دیکھنا (اسی طرح جیسے آج اسرائیل اسلامی ممالک کے ساتھ کر رہا ہے) جاؤانہیں تباہ و برباد کرنے کے لئے ان پر شبخون مارو، آتش زنی کرو، بے خطا اور خطا کار میں تمیز کئے بغیر جو سامنے آئے اسے تہ تیغ کردو، چھوٹے بڑے کسی پر رحم نہ کرو، ان کا مال و دولت لوٹ لواور معاویہ کے فوجی ایسا ہی کرتےایک مرتبہ انہوں نے اسی بُسر بن ارطاۃ کو بھیجاوہ گیاادھر ادھر سے ہوتا ہوا یمن پہنچا، وہاں اس نے بہت مظالم ڈھائےان ہی میں سے اس کا ایک ظلم یہ بھی تھا کہ اس نے یمن میں امیر المومنین حضرت علی ؑکے گورنر اور آپ کے چچازاد بھائی عبید اﷲ ابن عباس بن عبدالمطلب کے بیٹوں کوپکڑ لیااور ان دو چھوٹے بے گناہ بچوں کی گردنیں اڑادیںکیونکہ یہ ظلم بہت بڑا تھا، لہٰذا آہستہ آہستہ اس سنگدل آدمی کا ضمیر بھی بیدار ہونے لگا اور پھر وہ ضمیر کے عذاب میں مبتلا ہوگیاوہ جب بھی سوتااسے خواب میں اپنا وہ ظلم نظر آتاجب راہ چلتا تو اس کی نظروں کے سامنے یہ دو بے گناہ بچے اور اس کے دوسرے مظالم آکھڑے ہوتےرفتہ رفتہ وہ دیوانہ ہوگیاوہ لکڑی کے گھوڑے پر سوار ہوجاتا، لکڑی ہی کی ایک تلوار ہاتھ میں لیتا اورگلی کوچوں میں دوڑتاپھرتا اور کوڑے مارتابچے اس کے گرد جمع ہوجاتے اور اس کا مذاق اڑاتے
ہم نے عرض کیا کہ انسانی روح کی جانب سے ردِ عمل کے اظہار کا دوسرا عامل یہ ہے کہ جس سطح پر ضرب لگ رہی ہو وہ ہموار ہو، مضبوط اور مستحکم ہویعنی اس انسان کا ضمیر، اس کی فطرت اور اس کا ایمان قوی ہواس صورت میں معمولی ضرب کے باوجود ردِ عمل نسبتاً زیادہ ہوگالہٰذا آپ دیکھتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی خطائیں، گناہانِ صغیرہ، حتیٰ وہ اعمال جو مکروہ ہیں اور جنہیں گناہ نہیں سمجھا جاتاوہ باایمان افراد (ایسے افراد جو مضبوط روح کے مالک ہوتے ہیں، جن کا معنوی فرشتہ، جن کا ایمان، جن کا معنوی ضمیر مستحکم ہوتا ہے) کے نزدیک قابلِ مذمت ہوتے ہیں اور یہ اعمال اُن میں ردِ عمل پیدا کرتے ہیں ایسے اعمال جن کے ہم روزانہ سیکڑوں مرتبہ مرتکب ہوتے ہیں اور جنہیں انجام دینے کے بعد ہمارے اندریہ معمولی سا احساس بھی جنم نہیں لیتا کہ ہم نے کچھ کیا ہے(جبکہ) پاک سرشت انسان جوں ہی کوئی مکروہ عمل بھی انجام دیتے ہیں تو ان کی روح مضطرب ہوجاتی ہے اور وہ مسلسل اور بار بار توبہ واستغفارکرتے ہیں
روحانیت کے اعتبار سے ایک انتہائی عظیم ہستی، میرے استاد جن کا میں نے گزشتہ برس ماہِ رمضان میں بھی ذکر کیا تھاوہ مرحوم حاج میرزا علی آقائی شیرازی اصفہانی رضوان اﷲ علیہ ہیں آنجناب ان روحانی شخصیات میں سے ایک عظیم ترین شخصیت ہیں جنہیں میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہےایک رات وہ قم میں ہمارے مہمان تھے اور ہم بھی ان کے ساتھ قم کے ایک عالم کے یہاں دعوت میں مدعو تھےبعض ادبی ذوق رکھنے والے افراد اور شعرا بھی وہاں موجود تھےاُُس رات مجھے معلوم ہوا کہ آنجناب شعر وادب سے کس قدر شغف رکھتے ہیں اور عربی و فارسی کے کس قدر بہترین اشعارانہیں یاد ہیںدوسرے لوگ بھی شعر سنا رہے تھے لیکن انتہائی عام سے اشعار، سعدی اور حافظ وغیرہ کے اشعارآنجناب بھی شعر پڑھ رہے تھے اور بتاتے جاتے تھے کہ فلاں شعرفلاں سے بہتر ہے، فلاں مضمون کو فلاں نے بہتر انداز میں بیان کیا ہے، کس نے اس طرح کہا ہے اور کس نے اُس طرح
شعر پڑھنا اور وہ بھی اس طرح کے شعر پڑھنا گناہ نہیں ہےالبتہ رات کے وقت شعر پڑھنا مکروہ ہےخدا جانتا ہے، جب ہم باہر نکلے تو وہ (ہمارے استاد) شدت کے ساتھ لرز رہے تھےکہتے تھے کہ میں بہت ارادہ کرتا ہوں کہ رات کو شعر نہ پڑھوں لیکن آخر کار اپنے آپ کو نہیں روک پاتامسلسل اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْہ اُن کی زبان پر جاری تھاایک ایسے انسان کی مانند جو انتہائی عظیم گناہ کر بیٹھا ہومعاذ اﷲ اگر ہم نے شراب پی ہوتی، تب بھی اس قدر مضطرب نہیں ہوتے جس قدر وہ ایک مکروہ عمل پر اظہارِ اضطراب کر رہے تھے
ایسے افراد کیونکہ خدا کے محبوب بندے ہوتے ہیں اس لئے خدا کی طرف سے انہیں ایک قسم کی سزا دی جاتی ہے، جبکہ ہم اور آپ اس قسم کی سزاؤں کی اہلیت اور لیاقت نہیں رکھتےآنجناب روزانہ صبح طلوع ہونے سے کم ازکم دو گھنٹے پہلے بیدار ہوجاتے تھے، میں نے شب بیداری کا مفہوم انہی سے سیکھا ہےمیں نے ”شب ِمردانِ خدا روزِ جہان افروزاست“ (اﷲ والوں کی رات روشن دن کی طرح ہوتی ہے) کے معنی انہی سے سیکھے ہیں، عبادت اور خداشناسی کا سبق انہی سے حاصل کیا ہے، استغفار کامفہوم انہی سے سیکھا ہے، حال اور خدا میں مجذوب ہو جانا انہی سے سمجھا ہے
اس رات جب وہ بیدار ہوئے تو صبح کی اذان ہو رہی تھیخدا نے انہیں سزا دے دی تھیبیدار ہوتے ہی انہوں نے ہمیں جگایااور کہا کہ یہ گزشتہ رات کی شعر خوانی کا اثر تھا!!
ایک ایسی روح جس کا ایمان اس قدر مستحکم ہو، جب اُس پر معمولی سی بھی ضرب پڑتی ہےیعنی جب اس کے پست مقامات کی جانب سے اس کے عالی مقامات پراس قسم کا چھوٹا سا حملہ بھی ہوتا ہے، تویہ عالی مقامات اس (حملے) پراپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں، اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہیں، حتیٰ سزا بھی دیتے ہیں کہ دیکھو!ہم تمہیں بخشیں گے نہیں، یوں ہی چھوڑ نہیں دیں گے!
ایک ایسا انسان جو رات کو شعر خوانی کرے، اپنے دو گھنٹے شعر پڑھنے میں گزارے، وہ دو گھنٹے خداوند متعال کے ساتھ مناجات کے لائق نہیں رہتا
آپ کی خدمت میں ایک اور مثال عرض کرتا ہوں: اگر آپ ایک نہایت صاف وشفاف آئینہ لے کر، اسے صاف کرنے کے بعد ایک ایسی صاف فضا میں میز پررکھ دیں جس میں خود آپ بھی بخوشی سانس لینا پسند کرتے ہوںکچھ دیر بعد آپ دیکھیں گے کہ اُس آئنے پر گرد جمی ہوئی ہےیہ گرد آپ کو پہلے محسوس نہیں ہورہی تھی، میز پر بھی یہ آپ کو دکھائی نہیں دے رہی تھیدرو دیوار پر بھی اس کا احساس نہیں ہو رہا تھا
جتنی دیوار زیادہ گندی ہوگی، اُس پرگندگی اور سیاہی کے اثرت اور داغ دھبے اتنے ہی کم دکھائی دیں گےیہاں تک کہ اگر وہ سیاہ اور تارکول زدہ ہو تو اس پر لگنے والا چراغ کا سیاہ دھواں بھی نظر نہ آئے گاپیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہر مجلس میں پچیس مرتبہ استغفار کرتے تھےکہا کرتے تھے کہ: اِنَّہُ لَیُغانُ عَلیٰ قَلْبِیْ وَ اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعِیْنَ مَرَّۃٍ (سفینۃ البحارج ۲ص ۳۲۲)
یہ سب کیا ہے؟ ہم کہتے کیا ہیں اور سمجھتے کیا ہیں؟
فرماتے تھے: میں اپنے دل پر کدورت کے آثار محسوس کرتا ہوں اور اس کدورت کو دور کرنے کے لئے روزانہ ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں
یہ کدورتیں کیا ہیں؟ یہ کدورتیں ہمارے لئے آئینہ ہیں، ہمارے لئے نورانیت ہیں، لیکن اُن کے لئے کدورت ہیںجب وہ ہمارے ساتھ بات کرتے ہیں، چاہے اُن کی بات خدا کے لئے ہو، چاہے وہ ہمارے آئینۂ وجود میں خدا کو دیکھ رہے ہوں، پھر بھی اُن کی نظر میں یہ کدورت ہے
”امِ سَلَمہ“ اور دوسروں نے کہا ہے کہ آنحضرت کی وفات سے ایک دو ماہ پہلے ہم دیکھا کرتے تھے کہ آپ جب بھی اٹھتے یابیٹھتے یا کوئی بھی کام کرتے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْہ ضرور کہتےیہ ایک بالکل نیا ذکر تھا
امِ سلمہ کہتی ہیں، میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! ان دنوں آپ اس قدر زیادہ استغفار کیوں کررہے ہیں؟ فرمایا: مجھے یہی حکم دیا گیا ہےنُعِیَتْ اِلیٰ نَفْسِیہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ آخری سورہ جو آنحضرت ؐکے وجودِ اقدس پر نازل ہوا، وہ سورۂ نصر ہےجب یہ سورہ نازل ہوا تو پیغمبر اکرم کو احساس ہوگیا کہ یہ اُن کی موت کی اطلاع ہےیعنی اب آپ کا وقت پورا ہوچکا ہے، اب تمہیں یہاں سے کوچ کرناہےسورۂ مبارک نصر یہ ہے:
اِذَا جَآءَ نَصْرُ اﷲِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اﷲِ اَفْوَاجً فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ اسْتَغْفِرْہٗ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا
یہ قرآن کس قدر لذت بخش ہے! کس قدر خوبصورت ہے!انسان اسے اپنی زبان پر جاری کرکے لطف اندوز ہوتا ہے، خوشی محسوس کرتا ہے
ارشادِ الٰہی ہے:اے پیغمبر! جب پروردگار کی مدد آجائے، جب پروردگار کی مدد آکر آپ کو آپ کے مخالفین پر فتح عطا کردے، جب آپ کو شہر کی فتح یعنی فتحِ مکہ نصیب ہوجائے، اور جب آپ دیکھ لیں کہ لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہورہے ہیں، تواس کے بعد فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد کیجئے اور استغفار کیجئے کہ وہ توبہ قبول کرنے والا ہے
کیا تعلق ہے اُس ابتدا اور اِس انتہا کے درمیان؟
فتح و کامیابی اور لوگوں کے گروہ در گروہ دین اسلام میں داخل ہونے کے بعد آنحضرت کیوں تسبیح کریں؟
مراد یہ ہے کہ اب آپ کی ذمے داری ختم ہوئی
یہ پیغمبر اسلام ؐ پر نازل ہونے والاآخری سورہ ہے، حتیٰ یہ حضرت علی ؑکے بارے میں نازل ہونے والی آیات اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (سورۂ مائدہ۵آیت۳) اور یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّک (سورۂ مائدہ۵آیت۶۷) کے بھی بعد نازل ہوا ہے
اب آپ اپنی ذمے داری ادا کرچکے ہیں، پس (اپنے پروردگار کی) تسبیح کیجئےپیغمبر اسلام نے محسوس کر لیا کہ مراد یہ ہے کہ اب میرا کام ختم ہو گیا ہے، پس اب اپنی فکر کرواسی لئے آپ ہر وقت تسبیح و استغفار میں مشغول رہاکرتے تھے
لیکن ہم بدبختوں کا دل اُسی تارکول زدہ دیوار کی مانند ہےافسوس ایک کے بعد ایک گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں، ایک نافرمانی کے بعد دوسری نافرمانی کرتے ہیں، لیکن ہماری روح میں کسی قسم کا ردِ عمل پیدا نہیں ہوتامجھے نہیں معلوم ہماری روح کے وہ فرشتے کہاں اورکس قدر قید ہوچکے ہیں، ان کے ہاتھ پاؤں کن زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں، کہ ہمارے دل میں ہلچل نہیں مچتی، ہمارا دل نہیں لرزتا
عبودیت کی پہلی منزل توبہ ہےاگر آپ کو اپنی روح میں کوئی ہلچل نظر آتی ہے، اگرکوئی ندامت دکھائی دیتی ہے، اگر احساسِ پشیمانی دکھائی دیتا ہے، اگر اپنا ماضی سیاہ محسوس ہوتا ہے، اگر یہ محسوس کرتے ہیں کہ جس راستے پر آپ آج تک چلتے رہے ہیں، وہ غلط تھا، زوال کی جانب تھا، جو آپ کو پستی کی طرف لے جا رہا تھااور اب آپ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سے باہر نکلنا ہے، اوپر کی جانب اٹھنا ہے، خدا کی طرف آنا ہے، تو آپ عبودیت، عبادت اور سلوک کی پہلی منزل پر پہنچ چکے ہیں اور یہاں سے آغاز کر سکتے ہیں، اور اگر ایسا نہیں، توپھر یہ ممکن نہیں