توبہ کیا ہے؟ کیسے قبول ہوتی ہے؟

جب اُس شخص نے حضرت علی ؑ کے سامنے استغفار کی اور حضرت ؑ نے یہ محسوس کیا کہ وہ شخص استغفار کے معنی، اُس کی حقیقت اور اُس کے بلند مقام سے واقف نہیں ہے، توآپ ؑ نے اعتراض کرتے ہوئے اُس سے کہا: ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ، أَ تَدْرِیْ مَا الْاِسْتِغْفَارُ؟ اَلْاِسْتِغْفَارُ دَرَجَۃُ الْعِلِّیِّیْنَخدا تجھے موت دے، تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے اورروئے!تولفظ استغفارکہتا ہے؟ جانتا بھی ہے استغفار کی حقیقت کیا ہے؟ استغفار علیین کا مرتبہ ہے(علیین یعنی وہ لوگ جو قرب ِ الٰہی کے اُن بلند درجات پر فائز ہیں) اِس کے بعد آپ ؑنے فرمایا: استغفار اور توبہ ایک کلمہ ہے جو چھے بنیادوں پر قائم ہے

حضرت علی ؑکی بیان کی ہوئی ان چھے بنیادوں کو علما نے اس طرح سمجھا ہے کہ اِن میں سے دوتوبہ کی رکن و اساس ہیںدوسری دوتوبہ کی قبولیت کی شرط ہیں (یعنی دو توبہ کی حقیقت کو تشکیل دیتی ہیں اور دوسری دو حقیقی توبہ کی قبولیت کی شرط کو) اور آخری دوتوبہ کے کامل ہونے کی شرط ہیں

اب دیکھتے ہیں یہ چھے شرائط ہیں کیا؟
فرماتے ہیں: اَوَّلُھَا النَّدَمُ عَلٰی مَا مَضَی توبہ کی پہلی شرط (رکن) ماضی پر پشیمانی، حسرت، افسوس اور باطنی خلش اور تکلیف ہےیعنی توبہ اُس وقت حقیقی توبہ ہے جب آپ اپنے گزشتہ سیاہ اعمال نامے پر نگاہ ڈالیں، تویکلخت ایک ندامت، ایک پشیمانی، ایک افسوس اور غیرمعمولی حسرت آپ کے اندر پیدا ہو، آپ اپنے دل میں ایک خلش محسوس کریں اور خود سے کہیں کہ یہ میں نے کیا کیا تھا؟

آپ نے دیکھا ہوگا کہ کبھی انسان کوئی کام اس خیال سے کرتا ہے کہ اس سے اُسے فائدہ پہنچے گایہ کام کرنے کے بعد یکایک وہ دیکھتا ہے کہ مثلاً اس کام سے اُسے دس ہزار روپے کا نقصان ہوا ہےجب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے توکہتا ہے:اوہ!اور اپنی انگلی دانتوں میں دبا لیتا ہےہائے! میں نے کیوں ایسا کام کیا؟ اس چیز کو پشیمانی اور حسرت کہتے ہیںکبھی کہتے ہیں کہ:میں نے فلاں کام کیا، اور اب اس کی وجہ سے اتنا پشیمان ہوں، ایساپچھتا رہا ہوں کہ اگر پچھتاوے کے سینگ ہوتے تو ابھی میرے سینگ نکل آتےایسی ہی پشیمانی اور ندامت توبہ کی پہلی شرط ہےخدا نخواستہ آپ کے لب ایک حرام مثلاً شراب سے آلودہ ہیںپھر ایک مرتبہ آپ سوچتے ہیں کہ آخر قرآنِ کریم نے شراب نوشی کے بارے میں کیا کہا ہے؟ قرآن کہتاہے کہ:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلااَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن

اے ایمان والو !شراب، جوا، بت، پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیںلہٰذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کرسکو(سورۂ مائدہ۵آیت۹۰)

شراب، جوا اوربت پرستانہ کام خبائث ہیں، اگربہتری، سعادت اور کامیابی چاہتے ہو، تو اِن سے دور رہوشراب نوشی، سعادت اور کامیابی کے منافی عمل ہےجوا، اسلام میں حرام قرار دیا گیاہے، یہ جس شکل وصورت میں بھی ہوگناہانِ کبیرہ میں اِس کاشمار ہوتا ہے
مسلمان جوا نہیں کھیلتا

غیبت کی مذمت

ہم کیسے مسلمان ہیں جو اسلام کی طرف سے حرام کئے گئے بڑے بڑے کاموں کا بھی ارتکاب کر بیٹھتے ہیں؟ قرآن ہمارے درمیان رائج اس گناہ یعنی غیبت کرنے اورتہمت لگانے کے بارے میں اورکس قدرمتنبہ کرے؟ خدا کی قسم! انسان کو لوگوں کے درمیان رائج اس قدر تہمت پر تعجب ہوتا ہے!!

آپ جانتے ہیں تہمت کیا ہے؟ ہمارے پاس اوّل درجے کے دو گناہانِ کبیرہ ہیں ان میں سے ایک جھوٹ بولنااور دوسرا غیبت کرناہےگناہِ کبیرہ، یعنی وہ گناہ جس کی وجہ سے انسان جہنم میں جانے کا مستحق ہوجاتا ہے

وَ لااَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًاَ(۱)

ایک دوسرے کی غیبت نہ کرنا، کیا تم میں سے کوئی یہ بات پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے(سورۂ حجرات۴۹آیت۱۲)

اے لوگو! ایک دوسرے کی غیبت نہ کرناکیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ مسلمان بھائی کا گوشت کھائے؟  مردے کا گوشت کھاناکس قدرکریہہ اور نفرت انگیز ہےخصوصاً اگر انسان اس مردہ شخص کوجانتا ہو اور وہ اس کا دوست بھی ہوکیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی تعبیر ہوسکتی ہے؟

تہمت، یعنی جھوٹ بھی اور غیبت بھییعنی جب یہ دو گناہ (جھوٹ اور غیبت) مل جائیں، تو اس کا نام تہمت ہوجاتا ہےہمارے درمیان تہمت کتنی عام ہےہم میں سے بعض لوگ مقدس بننے کی خاطر (کسی کی غیبت کرتے ہوئے) اپنی بات سے پہلے ”لوگ کہتے ہیں“ لگادیتے ہیںمثلاً کسی شخص نے کسی دوسرے پر تہمت لگائی، اب ہم چاہتے ہیں کہ اس تہمت کا بار اپنی گردن پر نہ لیں (ہم سمجھتے ہیں کہ خدا کو بھی دھوکا دیا جاسکتا ہے!) لہٰذا ہم کہتے ہیں:لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص ایسا ہے، کہتے ہیں کہ فلاں جگہ ایسی ہےدوسرا ہم سے سننے کے بعد کسی اور جگہ جاکے کہتا ہے:لوگ ایسا کہتے ہیں اور پھر کہتا ہے:میں یہ نہیں کہتاکہ میں کہتا ہوں (بلکہ) دوسرے ایسا کہتے ہیںقرآن نے اس سے بھی منع کیاہے اور اس کو بھی ایک بڑا گناہ شمار کیا ہےفرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ

جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صاحبانِ ایمان میں بدکاری کا چرچا پھیل جائے، اُن کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے(سورۂ نور۲۴آیت ۱۹)

جو لوگ کسی مومن شخص، مومن افرادیا مومنین کے کسی ادارے کے بارے میں کوئی بُری اور قبیح بات پھیلانا پسند کرتے ہیں (اُن کے لئے ایک دردناک عذاب ہے) اگر آپ نے کسی احمق سے، کسی مفاد پرست سے یاکسی ایسے شخص سے جس کی بات کی جڑکے بارے میں آپ جانتے ہوں کہ وہ کہاں ہے کسی کے متعلق کوئی بات سنی ہو، تو آپ کو حق نہیں پہنچتا کہ آپ کہیں کہ ”میں نے سنا ہے“یا یہ کہ ”لوگ کہتے ہیں“خودیہ کہنا بھی کہ ”کہتے ہیں“ تشیع فاحشہ (برائی پھیلانا) ہےدوسرے گناہ بھی اسی طرح ہیں

جو شخص نظربازی کرتا ہے، لوگوں کی عزت وناموس کے ساتھ خیانت کرتا ہے، اسے پتا ہونا چاہئے کہ پیغمبرا سلام کا فرمان ہے :

زِنَی الْعَیْنِ النَّظَر

نظر بازی آنکھوں کا زنا ہے(بحار الانوارج ۱۴)

(اسی طرح) جس نے نماز ترک کی، جس نے روزہ چھوڑا
مجھے نہیں معلوم ہم کس قسم کے مسلمان ہیں؟ انسان کو شرم محسوس ہوتی ہے، لوگ ماہِ رمضان میں سڑک پر چلتے ہوئے، علیٰ الاعلان ہونٹوں میں سگریٹ دبائے چلے جارہے ہوتے ہیں! کوئی گاڑی میں بیٹھا سگریٹ پیتا نظر آتا ہےہر سال پولیس کی جانب سے اعلان کیا جاتا ہے کہ کسی کو روزہ خور وں کے خلاف اقدام کا حق نہیں ہے، خودپولیس کارروائی کرے گیہم نے تو نہیں دیکھا کہ کسی پولیس والے نے کسی روزہ خور کوٹوکا ہو

علیٰ الاعلان روزہ خوری اسلام کی بے حرمتی ہے، یہ عمل قرآن کی بے عزتی کرنا ہے، پیغمبر اسلام کی توہین کرنا ہےاگر آپ روزہ خوری کرنا چاہتے ہیں، تو اپنے گھر میں کیجئےاگرآپ نے اپنے گھر میں روزہ خوری کی، توآپ ایک گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے لیکن جب آپ سڑکوں پر روزہ خوری کرتے ہیں، تو روزہ خوری کے ساتھ ساتھ آپ اسلام کی توہین بھی کرتے ہیں
توبہ کرنے کے لئے پہلے ہمیں چاہئے کہ اپنی کی ہوئی غیبتوں پرایک نظر ڈالیں، اپنی شراب نوشیوں کو پیش نظررکھیں، اپنی کی ہوئی تہمتوں کو مد ِنظررکھیں، اپنے جوا کھیلنے پرنظرڈالیں، اپنی نظر بازیوں کو دیکھیں، خواتین اپنے عریاں لباسوں کاجائزہ لیںپیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے معراج میں ایسی عورتوں کو دیکھا جنہیں ان کے بالوں سے لٹکایا گیا تھا اور آتشیں کوڑوں سے ان کو مار رہے تھےمیں نے حیرت کے ساتھ جبرئیل ؑ سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ جبرئیل ؑ نے کہا: یہ آپ کی امت کی وہ عورتیں ہیں جواپنے بال نامحرموں سے نہیں چھپاتی تھیںاُس وقت بے پردگی کا رواج تو نہیں تھا لیکن رسولؐ نے چشمِ باطن سے دیکھا(یہ چیزیں چودہ سو سال پہلے سے کتابوں میں ہیں) فرمایا: میں نے ایسی عورتوں کو دیکھا جنہیں ان کے سینوں سے لٹکایا گیا تھا اور ان کے سینوں پر کوڑے مارے جارہے تھےیہ عورتیں جو اِس حال میں تھیں، یہ کون تھیں؟ فرمایا: مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت کی وہ عورتیں ہیں جو دوسروں کے سامنے اپنے بدن کی نمائش کرتی ہیں

آخر دنیا کی یہ چار دن کی زندگی کیا حیثیت رکھتی ہے کہ (اِسے اس طرح بسر کرکے) انسان اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے عذابِ الٰہی میں مبتلاکرلے؟ بخدا! درست ہے، بقولِ یہ چکنے گھڑے ہیںیہ جسارت آخرکب تک؟ خدا کے خلاف بغاوت کب تک؟ پیغمبر اسلام کی توہین کب تک؟ اب یہ توہین چاہے زبانی کی جائے چاہے تحریریانسان کیا کہے کہ اِس ملک میں ایسی کتاب شائع ہوتی ہے جو سر تا پا پیغمبر اسلام کی توہین سے بھری ہے او راس کی پشت پر باقاعدہ نمبر بھی ثبت ہے (یعنی وہ باقاعدہ حکومت سے منظور شدہ بھی ہے) اسے اشاعت کی باقاعدہ اجازت بھی دی گئی ہے! ہوش میں آؤ، ذرا سوچو، کب تک غفلت میں پڑے رہو گے؟

اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اﷲِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَق۔“ (سورۂ حدید۵۷آیت ۱۶)

کیا وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہمارے یہ دِل جھک جائیں، خاشع ہوجائیں، یادِ خدا کے لئے نرم ہوجائیں اور خدا کی جانب سے نازل ہونے والے اس برحق قرآن کی پرواہ کریں؟ اس کی تعلیمات پر توجہ کریں؟

دیکھئے محرم آرہا ہےاگرہمارا دل زیادہ سے زیادہ اس بات پر خوش ہوکہ کسی مجلس میں شرکت کر کے چند قطرے آنسو بہا لیں، توواﷲ یہ کافی نہیں ہےہمیں اپنے اوراپنے اسلام کے حال پرکچھ دیرغوروفکر کرنا چاہئےہمارے بچے ہاتھ سے نکل گئے ہیں، ہماری اولادیں ہاتھ سے نکل گئی ہیں، ہماری لڑکیاں ہاتھ سے نکل گئی ہیں، ہمارا معاشرہ ہاتھ سے نکل گیا ہے، ہمیں ان کے بارے میں کچھ سوچنا چاہئے، ہمیں چاہئے توبہ کریں

(دوبارہ امیر المومنین ؑکے کلام کی طرف آتے ہیں)
فرمایا: سب سے پہلے توتمہاری روح میں خلش پیدا ہونی چاہئے، اسے شعلہ ور ہونا چاہئے، تم اپنے آپ کو حسرت میں ڈوبا ہوا محسوس کرو، ندامت اور پچھتاوے میں غرق محسوس کرواپنے گناہوں پر نظر ڈالو! اپنے اعمال کا محاسبہ کرو، اپنے آپ سے حساب لو، دیکھو کہ روزانہ کتنے گناہانِ کبیرہ کا ارتکاب کرتے ہو؟ شیخ بہائی کہتے ہیں:

جد تو آدم بہشتش جای بود
قدسیان کردند بہر او سجود

یک گنہ ناکردہ، گفتندش تمام
مذنبی، مذنب، برو بیرون خرام

تو طمع داری کہ با چندین گناہ
داخلِ جنت شوی اے روسیاہ؟

(اے انسان تیرے جد آدم ؑ بہشت میں تھے اور فرشتوں نے ان کو سجدہ کیا تھالیکن جوں ہی وہ ایک گناہ کے مرتکب ہوئے، اُن سے کہہ دیا گیا کہ بس اب یہ سب کچھ ختمتم گناہ گار ہواب یہاں سے چلے جاؤلیکن اے روسیاہ! تویہ سمجھتا ہے کہ کئی گناہ کرکے بھی جنت میں چلا جائے گا)

توبہ کی دوسری شرط (رکن) کیا ہے؟ فرمایا: اَلْعَزْمُ عَلیٰ تَرْکِ الْعَوْدِایک مردانہ عزمِ، ایک پکا ارادہ کہ اب مزید میں یہ عملِ بد انجام نہیں دوں گا

البتہ یہ جو شعر میں نے پڑھے ہیں، اِن سے کہیں میں نے آپ کو مایوس نہ کیا ہویہ نہ سمجھئے گا کہ لیجئے ہمارا تو کام تمام ہوگیانہیں

لااَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اﷲِ

(سورۂ زمر۳۹آیت ۵۳) خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا

جتنے بھی گناہ کئے ہوں، بارگاہِ الٰہی میں لوٹ جائیے، خدا قبول کرلے گا(توبہ کی قبولیت کی) تمام شرائط کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن گناہ کی حد اور مقدار کا ذکر نہیں کیا گیایہ نہیں کہا ہے کہ اگر تمہارے گناہ اس حد تک ہوئے تو تمہاری توبہ قبول ہوگی اور اگر اس سے زیادہ ہوئے تو نہیںبلکہ یہ کہا ہے کہ توبہ کرو، قبول ہوگی، البتہ شرط یہ ہے کہ توبہ صدقِ دل سے کی گئی ہواگرآپ کے باطن میں خلش پیداہوجائے، آپ کی روح میں ایک مقدس انقلاب بپا ہوجائے، آپ گناہ کی طرف نہ پلٹنے کا عزم کرلیں، تو آپ کی توبہ قبول ہےہاں، شرط یہ ہے کہ آپ کاعزم حقیقی عزم ہوایسا نہ ہو کہ یہاں آئے اور دل ہی دل میں اپنے بُرے حالوں پر افسوس کیا اور باہر جاتے ہی سب کچھ بھول گئےاس سے کوئی فائدہ نہیں، بلکہ یہ زیادہ بُری چیز ہے

امام ؑ فرماتے ہیں: جو لوگ استغفار کرتے ہیں اور پھردوبارہ گناہ کرتے ہیں، اُن کا استغفار کرنا استغفار نہ کرنے سے زیادہ برا ہےکیونکہ یہ توبہ کا مذاق اڑانا ہے، خدا کی تضحیک کرنا ہے، توبہ کی تضحیک کرناہے
یہ دوچیزیں توبہ کی رکن ہیں:
پہلی چیز: ندامت، حسرت، باطنی خلش، ماضی پر دکھ، گناہ پر مکمل پچھتاوا
اور دوسری چیز: دوبارہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم اور پکا ارادہ

لیکن توبہ کی دو شرطیں بھی ہیں:
پہلی شرط یہ ہے کہ لوگوں کے حقوق، حقوق الناس اُن کو لوٹانا چاہئیںخدا عادل ہے، وہ اپنے بندوں کے حقوق نظرانداز نہیں کرتا(لوگوں کے حقوق انہیں لوٹانے کے) معنی کیا ہیں؟ آپ نے لوگوں کا مال ہڑپ کیا ہے؟ آپ کو چاہئے کہ وہ مال اس کے مالک کو واپس کریں، یا کم از کم اُس کی رضامندی حاصل کریں آپ نے لوگوں کی غیبت کی ہے؟ آپ کو انہیں راضی کرنا چاہئے، آپ کو چاہئے کہ خود کو چھوٹا بنائیں، اُن کے پاس جائیں، اُن سے کہیں کہ جناب میں نے آپ کی غیبت کی ہے، التماس کرتا ہوں کہ مجھے معاف فرمادیں

ایک قصہ خود میرے ساتھ بھی پیش آیا ہے، نہیں معلوم اسے بیان کرنا درست ہے یا نہیں؟
میری طالب ِ علمی کا زمانہ تھا، طالب ِ علمی کے دنوں میں، البتہ دوسری جگہوں سے کم، لیکن پھر بھی ایسا اتفاق ہوجاتا ہے کہ انسان کسی محفل میں بیٹھا ہوتا ہے اور کچھ لوگ مختلف لوگوں کی غیبت شروع کردیتے ہیں اور بسا اوقات انسان خود بھی اس میں مبتلا ہوجاتا ہےخدا رحمت کرے مرحوم آیت اﷲ العظمیٰ آقائے حجت رضوان اﷲ علیہ پرمیں ایک مرتبہ ایسے حالات میں پھنس گیا اور کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ جا بیٹھا جنہوں نے آقائے حجت کی غیبت کی آقائے حجت میری گردن پر استادی کا حق رکھتے ہیں، میں نے کئی سال ان سے درس پڑھاتھا، حتیٰ اُن کے درس میں ایک عام مقابلے میں اُن سے انعام بھی حاصل کیاتھا

ایک مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ یہ بات ٹھیک نہیں ہےمیں کیوں وہاں جا پھنسا؟ ایک مرتبہ گرمیوں میں وہ حضرت عبد العظیم (کے حرم کے علاقے) میں تشریف لائے ہوئے تھےایک دِن سہ پہرکے وقت میں نے ان کے گھر پر دستک دی اور کہا کہ اُنہیں بتائیں فلاں آیا ہےوہ اندرونی میں تھےاجازت عنایت کیمجھے یاد ہے کہ میں اندر گیا، اُن کے سر پر ٹوپی تھی اور وہ ایک تکئے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے (وہ بوڑھے اور بیمار تھے، یہ اُن کے انتقال سے دو تین سال پہلے کی بات ہے) میں نے عرض کیا: جناب ِ عالی میں ایک بات عرض کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوںانہوں نے فرمایا:کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا:میں نے آپ کی غیبت کی ہے، البتہ بہت کم، لیکن نسبتاً زیادہ غیبت سنی ہےمیں اپنے اِس عمل پر پشیمان ہوں، کہ آخر میں کیوں ایک ایسی محفل میں شریک رہاجس میں لوگ آپ کی غیبت کررہے تھے، پھر میں نے آپ کی غیبت سنی اور کیوں خود میری زبان پر بھی آپ کی غیبت آگئیاب جبکہ میں نے عزم کرلیا ہے کہ کبھی آپ کی غیبت نہیں کروں گا، اور ہرگز کسی سے آپ کی غیبت نہیں سنوں گالہٰذا میں یہ عرض کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے معاف کردیں، مجھ سے درگزر فرمائیں

وہ جس بزرگواری کے حامل تھے، انہوں نے اُس کامظاہرہ کرتے ہوئے مجھ سے فرمایا: ہم جیسے لوگوں کی غیبت کرنے کی دو قسمیں ہیں ایک مرتبہ (ہماری غیبت) اس طرح کی جاتی ہے کہ اُس سے اسلام کی توہین ہوتی ہے اور ایک مرتبہ (غیبت) خود ہماری ذات سے متعلق ہوتی ہے(میں سمجھ گیا کہ ُان کا مقصد کیا ہے) نہیں، میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی اورکوئی ایسی جسارت نہیں کی جس سے اسلام کی توہین ہوتی ہوجو کچھ تھا وہ آپ کی ذات سے متعلق تھاانہوں نے فرمایا: میں نے تمہیں معاف کیا

انسان اگر توبہ کرنا چاہتا ہے، تواُسے چاہئے کہ لوگوں کے حقوق اور اُن کے قرض ادا کرےایسا شخص جس کے ذمے زکات ہو اور اس نے وہ ادا نہ کی ہو، اُس کی گردن پر حق الناس ہے، اسے چاہئے کہ وہ ادا کرےایسا شخص جس کے ذمے خمس ہو اوراُس نے وہ ادا نہ کیا ہو، اُس کی گردن پر حق الناس ہے، اُسے چاہئے اُسے ادا کرےایسا شخص جس نے رشوت لی ہو، اُسے چاہئے وہ اسے اس کے مالک کو واپس کرےایسا شخص جس نے کسی بھی ذریعے سے کوئی حرام مال بنایا ہے، اُسے چاہئے کہ اُس مال کو واپس کرےاگر کسی نے کسی پرکوئی زیادتی کی ہو، تو اسے چاہئے کہ اُ س کی رضاحاصل کرےتوبہ، یوں ہی نہیں کی جاسکتی!

حضرت علی ؑنے فرمایاہے: توبہ کی شرط یہ ہے کہ لوگوں کے جو حقوق تمہارے ذمے ہیں اُنہیں واپس لوٹاؤمثلاً آپ نے لوگوں کا مال ہڑپ کیا ہے اور اب اُنہیں دینے کے لئے آپ کے پاس کچھ نہیں ہے او رآ پ ایسے حالات میں ہیں کہ اُن تک دسترس نہیںمثلاً وہ لوگ مرچکے ہیں ایسی صورت میں استغفا رکریں، اُن کے لئے مغفرت طلب کریں، انشاء اﷲ خدا اُنہیں (آپ سے) راضی کردے گا

توبہ کی (قبولیت کی) دوسر ی شرط یہ ہے کہ حقوق اﷲ ادا کریںحق اﷲ سے کیامراد ہے؟ مثلاً روزہ حق اﷲ ہے، روزہ خدا کا ہےجو روزے آپ نے چھوڑے ہیں اُن کی قضا کیجئےجو نمازیں آپ نے چھوڑی ہیں، ان کی قضا ادا کیجئےآپ مستطیع تھے لیکن حج کو نہیں گئے تھے، آپ کو چاہئے کہ اپنا حج انجام دیںیہ مذاق نہیں ہےحج کے بارے میں آیا ہے کہ اگر کوئی صاحب ِ استطاعت ہوجائے اوراُسے کوئی عذرِ شرعی بھی نہ ہو، یعنی اُسے طبیعی استطاعت حاصل ہو اور سفر کے لحاظ سے کوئی رکاوٹ نہ ہواُسے مالی استطاعت حاصل ہو اوراُس کی اقتصادی حالت اسے اجازت دیتی ہوجسمانی استطاعت رکھتا ہو اورایسا مریض نہ ہو جو چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوتا، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے، یہاں تک کہ مر جائے، ایسا شخص مرتے وقت اسلام کی حالت میں دنیا سے نہیں جائے گااُس کے پاس خدا کے فرشتے آتے ہیں اور اُس سے کہتے ہیں: مُتْ اِنْ شِئْتَ یَہُوْدِیِّاً وَ اِنْ شِئْتَ نَصْرَانِیِّاً (وسائل الشیعہج ۸ص۲۰، ۲۱) تم نے اسلام کے اِس رُکن کو انجام نہیں دیااب تمہیں اختیار ہے، چاہوتو یہودی مرواور چاہوتو نصرانیاب تم مسلمان نہیں مر سکتے

کیسے ممکن ہے کہ انسان مسلمان ہو اور نماز نہ پڑھتاہو؟ مجھے یاد آیا کہ دو تین رات قبل جب میں نے فُضَیل بن عَیاض کے بارے میں بات کی تھی، تو بعد میں مجھے ایک محترم خاتون کا ایک خط دیا گیا، جس میں لکھا تھا کہ اگر آپ اپنے سننے والوں کا احترام کرتے ہیں تو اپنی تقریر میں اس بات کا بھی تذکرہ کریںکیونکہ یہ بات بتانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بہتر ہےلہٰذامیں بیان کرتا ہوں:
انہوں نے لکھا تھا کہ میں ایک رات صرف اُسی پہلی مرتبہ کے لئے یہاں آئی تھی لیکن میں اس قدر متاثر ہوئی کہ میں نے فیصلہ کیا کہ دوبارہ بھی یہاں آؤں گیمیں آج آئی ہوں اورآئندہ بھی آؤں گیمیں نے تربیتی علوم میں ماسٹرز کیا ہے، پرنسپل ہوں (اس وقت مجھے یہ یاد نہیں کہ وہ پرائمری اسکول کی پرنسپل تھیں یا ہائی اسکول کی) آپ نے بہت سی باتیں کیں فُضَیل بن عَیاض میں قرآن کی ایک آیت سُن کرانقلاب بپاہوگیا، یا نماز اور حضورِ قلب کے بارے میں بیان کیامیں بدقسمت جو سرے سے قرآن کے معنی ہی نہیں سمجھتی، کیا کروں؟ میں، جو نماز کے معنی ہی نہیں سمجھتی میرے لئے اِس کے دوران حضورِ قلب کیونکر ممکن ہے؟ گویا یہ خاتون اپنی زبانِ حال سے یہ کہہ رہی ہیں کہ ہم نے نرسری پڑھی، پرائمری پڑھی، ہائی اسکول اور کالج، یونیورسٹی کی تعلیم بھی مکمل کی لیکن قرآن ہمیں کہیں نہیں سکھایا گیالہٰذا آپ یہاں اس حد تک عربی سکھانے کا کوئی بندوبست کیجئے کہ لوگ کم و بیش قرآن کے معنی سمجھ سکیں، نماز کے معنی جان سکیں اور کم ازکم نماز کو اُس کی روح کے ساتھ پڑھ سکیں، قرآن کو اس کی روح کے ساتھ پڑھ سکیں، قرآن کی ایک آیت بھی پڑھیں، تو اسے سمجھیں

میں (دوستوں کے مشورے سے) آپ سب کے لئے ایک جوا ب دینا چاہتا ہوںمیں نے ہمیشہ اظہار کیا ہے اور اس کو واجب ترین واجبات میں سے سمجھتا ہوں کہ مسلمان عربی زبان سے واقفیت حاصل کریں، وہ سمجھیں کہ نماز میں کیا پڑھتے ہیں، اپنے قرآن کو سمجھیںلیکن کیا کیا جائے کہ دنیا کی ہوس نے ہمیں اس طرح گرفت میں لے لیا ہے کہ کیونکہ انگریزی زبان آمدنی اور مادّیات کی کنجی ہے اسلئے ہم اپنے سات سالہ بچے کو بھی انگریزی سیکھنے بھیج دیتے ہیںبہت کم گھرانے ایسے ہوں گے جن میں کم از کم ایک فرد انگریزی نہ جانتا ہو لیکن ہم اس بات کے لئے تیار نہیں کہ عربی کے لئے ایک کلاس ترتیب دیں اور خدا کی خاطر عربی زبان سیکھیں، اپنی نماز کے لئے عربی سیکھیں، اپنے قرآن کے لئے عربی سیکھیںکئی مرتبہ اعلان کر چکے ہیں کہ ہم یہاں عورتوں اور مردوں کے لئے عربی سیکھنے کی کلاس ترتیب دینے کو تیار ہیں، لوگ آئیں اور اپنے نام درج کرائیں، عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ کلاسیں ہوں گی، یہ ادارہ (حسینیہ ارشادمراد ہے) ان کے لئے مفت عربی زبان سکھانے کے انتظام کوتیار ہے کیونکہ یہ واجب ہے
(پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں)

اس کے بعد حضرت علی ؑ نے دوموضوع بیان کئے ہیں، جو سچی توبہ کی تکمیل کی شرائط ہیںفرمایا: توبہ، اُس وقت توبہ ہے جب اُس گوشت کو گھلادو جسے تم نے حرام کھا کر پروان چڑھایا ہےیہ انسان کا گوشت نہیں ہےیعنی؟ یعنی یہ گوشت جو رت جگے کی محفلوں میں تمہارے بدن پر چڑھا ہے، یہ بدن جو تم نے بنایا ہے حرام سے ہے، تمہاری ہڈیاں حرام سے بنی ہیں، تمہاری جِلد حرام سے بنی ہے، تمہارا گوشت حرام سے بناہے، تمہارا خون حرام سے بناہےتمہیں کوشش کرنی چاہئے کہ ان کو پگھلاؤ اور اس کی جگہ وہ گوشت نشو ونما پائے جو حلال ذرائع سے پیدا ہوا ہواپنے آپ کو گھلاؤ
یقینا، اِس بات کاآپ کو یقین نہیں آرہاہوگا

میرے والد بتاتے تھے کہ مرحوم حاج میرزا حبیب رضوی خراسانی، جن کے شعر آج کل آپ لوگ بہت سنتے ہیں اور جو خراسان کے ایک بڑے مجتہد، عارف، فلسفی اور حکیم تھے، اچھے ڈیل ڈول کے مالک اور بہت فربہ تھےزندگی کے آخری دنوں میں ان کی ملاقات ایک اہلِ دِل، اہلِ معنی اور اہلِ حقیقت ہستی سے ہوئیحاج میرزا حبیب نے اپنے اس علمی مقام، معاشرے میں اپنی اس شہرت اور خراسان کے درجۂ اوّل کے مجتہد ہونے کے باوجود اس زاہد، متقی اور روحانی انسان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے

والد صاحب بتاتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد میں نے اچھے تن وتوش کے مالک اُن حاج میرزا حبیب کواِس حال میں دیکھا کہ اُن کا بدن انتہائی لاغر ہوچکا تھا (لوگ دبلا ہونے کے لئے یورپ جاتے ہیں اور ڈائٹنگ کرتے ہیں!) ہم نے دیکھا کہ حاج میرزا حبیب کا بدن اپنی عمر کے آخری حصے میں گُھل کر کم ہوگیا تھاوہ حضرت علی ؑ کے فرمان کا مصداق بن گئے تھے کہ اس گوشت کو (البتہ میں اُن کی شان میں گستاخی نہیں کرسکتا اور یہ نہیں کہہ سکتا کہ حرام کے راستے سے) جوتم نے غفلت کے عالم میں پروان چڑھا یاہے، اسے گھلاؤ

چھٹی شرط بھی آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوںفرمایا:یہ بدن جس نے اس قدر گناہوں کی لذت چکھی ہے، اسے طاعت کی تکلیف کا مزہ چکھاؤنزاکت اور نازونعم کی فضا سے باہر نکلو، ناز ونعم کادلدادہ شخص خدا کا بندہ نہیں بن سکتاایسا شخص سرے سے انسان ہی نہیں بن سکتا، وہ انسان ہی نہیں آپ روزہ رکھتے ہیں، دشوار ہوتا ہےکیونکہ دشوارہوتا ہے اسلئے خاص طور پر رکھئےآپ ساری رات عبادت میں گزارنا چاہتے ہیں، لیکن آپ کو دشوار محسوس ہوتا ہے، کیونکہ دشوار محسوس ہوتا ہے اسلئے خاص کریہ کام کیجئےکچھ عرصے اپنے آپ کو مشقت اور صعوبت میں ڈالیں، اپنی تربیت کریں

قرآن میں دو تعبیریں ہیں، جن کا ذکر اُس نے توبہ کے بعدکیا ہے ایک یہ کہ توبہ کو تطہیر کے ساتھ ملاتا ہےمثلاً ارشاد ہوتا ہے:

اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ

بے شک خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے(سورۂ بقرہ۲آیت۲۲۲)

خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کوپسندکرتا ہے
قرآن کیا کہنا چاہتا ہے؟
کہتا ہے، توبہ کرو اور توبہ کے پانی سے خود کو دھو ڈالو، پاک کروچشمِ بینا رکھوصفائی صرف بدن کی نہیں ہوتیبدن کو ہم اچھی طرح صاف رکھتے ہیں البتہ یہ نہ صرف کوئی بُری بات نہیں بلکہ اچھی بات بھی ہے، اسے صاف رکھنا بھی چاہئےہمارے رسولؐ دنیا کے صاف ترین رہنے والے لوگوں میں سے تھےہم ہر روز شاور لیتے ہیں، چند دنوں میں ایک بار اپنے بدن پر صابن لگاتے ہیں، اپنا لباس تبدیل کرتے ہیں، اپنے کوٹ پینٹ کو صاف ستھرا اور داغ دھبوں سے محفوظ رکھتے ہیںکیوں؟ اسلئے کہ ہم صاف ستھرا رہنا چاہتے ہیںتو کیا آپ صرف یہی بدن ہیں؟ اپنے آپ کو پاک کیجئے، اپنی روح کو پاک کیجئے،

اپنے قلب کوپاک کیجئے، اپنے دل کو پاک کیجئےاپنے اس قلب، دل اور روح کو آبِ توبہ سے پاک کیجئے ”اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ۔“

قرآن کی ایک اور تعبیر یہ ہے کہ وہ بعض دوسرے مقامات پر توبہ کو کلمۂ اصلاح کے ساتھ بیان کرتا ہے:

فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اﷲَ یَتُوْبُ عَلَیْہِط اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ

پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے، تو خدا اس کی توبہ قبول کرلے گا کہ اﷲ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے(سورۂ مائدہ۵آیت ۳۹)

کل رات ہم نے عرض کیا تھا کہ انسان کی خصوصیات اور امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات اس کا نصف وجود اس کے دوسرے نصف وجودکے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، انقلاب برپا کردیتا ہےاوریہ بھی عرض کیا تھا کہ یہ قیام اور یہ انقلاب کبھی تو انسان کے وجود کے پست مقامات کی جانب سے ہوتا ہے، شہوت قیام کرتی ہے، غضب اٹھ کھڑا ہوتا ہے، شیطنت سر ابھارتی ہے اور کبھی یہ قیام انسان کی روح کے اعلیٰ مقامات کی جانب سے ہوتا ہےعقل قیام کرتی ہے، فطرت جوش میں آتی ہے، ضمیر اٹھ کھڑا ہوتا ہے، دل اور ضمیر کی گہرائی قیام کرتی ہے

اگر انسان کے وجود کے غیرمقدس مقامات کی جانب سے قیام ہو، (یہاں جب ہم اعلیٰ اور پست کہتے ہیں تو مراد مقدس او رغیر مقدس ہے) حیوانی عناصر کی طرف سے قیام ہو، تو اس قیام و انقلاب کا نتیجہ ایک ہلچل اور افراتفری کی صورت میں برآمد ہوتاہے، اس کا نام بلوہ ہےکل رات ہم نے مثال عرض کی تھی کہ جن لوگوں نے تقدس، زہد اور تقویٰ کے نام پر خواہشات کے اعتبار سے محرومی اٹھائی ہے اور خود کو محروم رکھا ہے، یکاک دیکھتے ہیں کہ وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، ایک عجیب دھماکے کی سی کیفیت اورافراتفری کا عالم اُن پرطاری ہو جاتا ہےاسے دھماکے اور بلو ے کے سوا کوئی اور نام نہیں دیاجاسکتالیکن یہ کیفیت اُس قیام اور انقلاب کے برخلاف ہے جوانسانی وجود کے مقدس عناصر کی جانب سے برپا ہوتا ہےوہ انقلاب جو عقل انسانی وجود میں برپا کرتی ہے، وہ شورش جوانسان کی خدا شناس اور خدا پرست فطرت برپا کرتی ہے، وہ ایک مقدس انقلاب ہےمقدس انقلاب اصلاح کے ساتھ ساتھ ہوتا ہےمقدس انقلاب ماضی کے قبیح اثرات کا خاتمہ کردیتا ہےمقدس انقلاب قصاص لیتا ہے

وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُآولِی الْاَلْبَابِ

صاحبانِ عقل، تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے(سورۂ بقرہ۲آیت ۱۷۹)

ہم نے عرض کیا تھا کہ حضرت علی ؑ نے فرمایاہے: اپنے بدن سے انتقام لو، قصاص لوجو گوشت حرام سے پروان چڑھا ہے، اسے گھلاؤ، اُسے تحلیل کرویہ نفسانی خواہشات سے قصاص اور انتقام لینا ہےانقلاب جب مقدس ہوتا ہے، تو گزشتہ بُرے اثرات کو مٹانا چاہتا ہے اور مٹا بھی دیتا ہےاسی لئے قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ: فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَ اَصْلَحَیعنی جو توبہ اور اصلاح کرے

بنیادی طور پر توبہ ایک اصلاحی قیام ہے اس کے سوا کچھ اور نہیں
آج جاگنے کی رات ہےہمیں چاہئے آج کی شب دعا کریں، قرآن سر پر رکھیںلہٰذا میں اپنی گزارشات کو مختصر کرتا ہوں

ہم نے کل رات عرض کیا تھا کہ انسان کا ایک امتیاز توبہ ہے، نیز یہ بھی عرض کیا تھاکہ راستہ بدلنا، رُخ تبدیل کرنا صرف انسان کا خاصّہ نہیں ہے، حیوانات میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے اور حتیٰ نباتات میں بھی کسی حد تک یہ صفت موجودہےلیکن راہ کی جس تبدیلی کا نام توبہ ہے اورجس کے معنی ایک قسم کا مقدس اندرونی انقلاب ہے، یہ صرف انسان کے ساتھ مختص ہےیہ بات ذہن میں رہے

نوعِ بشر کے تمام رہنماؤں کے مقابلے میں انبیا کو ایک امتیاز او رایک خصوصیت یہ حاصل ہے کہ دوسرے رہنما معاشرے میں جو انقلاب لے کر آتے ہیں، اُن کی زیادہ سے زیادہ کامیابی یہ رہی ہے کہ انہوں نے ایک گروہ کو، ایک طبقے کو، یا افرادِ بشر کے طبقات کوکسی دوسرے طبقے یا طبقات کے خلاف کھڑا کیا ہےمعاشرے میں دو محاذ وجود میں لے آتے ہیں، اور ایک محاذ کو دوسرے محاذ کے خلاف کمربستہ کردیتے ہیں ایک کے ہاتھ میں ڈنڈا اور دوسرے کے ہاتھ میں خنجر دے کر اُنہیں ایک دوسرے کے خلاف یلغار پرا بھارتے ہیں

البتہ یہ ایک اچھا کام ہے
کس مقام پر یہ کام اچھا ہے؟
اُس مقام پر جہاں ایک ظالم اور ایک مظلوم طبقہ پیدا ہوجائے
مظلوم کو اپنے حق کے حصول کی دعوت دینا، خود ایک انسانی عمل ہےیہ عمل اسلام میں پایا جاتا ہےانبیا نے بھی یہ عمل انجام دیا ہےخاص طور پر اسلام میں توظالم کے خلاف مظلوم کی حوصلہ افزائی کرنااور اسے تقویت پہنچانا شامل ہےاپنے دو عظیم بیٹوں حسن اور حسین کے نام حضرت علی ؑکی وصیتوں میں سے یہ بھی ہے کہ: کُوْنَا لِظَالِمِ خَصْماً وَ لِلمَظْلُومِ عَوْناً (ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنانہج البلاغہمکتوب ۴۷)

لیکن ایک اور عمل ہے جسے دوسرے انقلابی رہنما انجام دینے پر قادر نہیں، صرف انبیا اسے انجام دینے پر قادر تھےان کے سوا کسی اور میں اسے انجام دینے کی قدرت نہیںاور وہ عمل یہ ہے کہ وہ انسان کوخود اپنے خلاف ابھارتے تھےیعنی ایسا کام کرتے تھے کہ از خودانسان میں احساسِ گناہ پیدا ہواور پھر وہ خود اپنے خلاف قیام کرے، مقدس انقلاب بپا کرے، شورش کرےاسی کو توبہ کہا جاتاہےآپ کوانبیا کے سوا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ملے گاجس میں یہ قدرت پائی جاتی ہو کہ وہ لوگوں کو خود اپنی بدکاریوں اور جرائم کے خلاف قیام وانقلاب پر آمادہ کرےانبیا نہ صرف مظلوم کو ظالم کے خلاف ابھارتے تھے بلکہ اُنہوں نے خود ظالم کواُس کے اپنے ہی خلاف ابھارا!

اگر آپ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ اسلام نے مظلوم، مفلس، محروم رکھے گئے اور حقیر سمجھے جانے والے لوگوں کو ابو سفیان اورابو جہل جیسے اکڑ باز لوگوں کے خلاف بھی ابھارا اورابو سفیان اور ابو جہل کی صف اور طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خود اپنے خلاف بھی کھڑا کردیااور انہیں بھی ان محروم کئے ہوئے لوگوں کی صف میں لا کھڑا کیایہ طاقت صرف انبیا اور اولیا ہی میں پائی جاتی ہےانسان کو خود اُس کی بدکاریوں اور جرائم کے خلاف ابھارنا انبیا اور اولیا کے سوا کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام بغداد کے بازار سے گزر رہے تھےہم جانتے ہیں کہ امام کس حال میں ہوں گے (شور شرابے، دھوم دھڑکے کے ساتھ نہیں گزر رہے ہوں گے) ایک گھر سے ساز و آواز، رقص و سرود کی آوازیں بلند تھیںجس وقت امام اس گھر کے سامنے سے گزرے، عین اُسی وقت اُس گھر سے ایک کنیز باہر نکلی، اُس کے ہاتھ میں کوڑے کا تھیلا تھا، جسے وہ مثلاً اسلئے لائی تھی کہ شہر کی صفائی پر مامور عملا اسے اٹھا کے لیجائےامام نے اُس کنیز سے پوچھا:یہ صاحب ِ خانہ بندہ ہے یا آزاد؟ کنیز نے اس سوال پر اظہارِ تعجب کیا، اور بولی:ظاہر ہے آزاد ہے؟ اس گھر کا مالک شہر کی ایک معروف اورجانی پہچانی شخصیت ”بشر“ہےآپ یہ کیسا سوال کرتے ہیں؟

شاید اس موقع پر اور سوال جواب بھی ہوئے ہوں، جو تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں درج نہیں ہوئےلیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کنیز کو واپس جانے میں تاخیر ہوگئیجب وہ گھر میں واپس آئی تو صاحب ِ خانہ ”بشر“ نے اس سے پوچھا: کیوں تاخیرہوئی؟ دروازے پرکیوں کھڑی رہی؟ اُس نے کہا: اس اس طرح کی وضع قطع کے ایک صاحب گھر کے سامنے سے گزر رہے تھےانہوں نے مجھ سے یہ یہ باتیں کیں، یہ سوال کیا جس کا میں نے یہ جواب دیا اور آخر میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ: اچھا، اب پتا چلا وہ بندہ نہیں آزاد ہےکیونکہ اگر وہ بندہ ہوتا تو یہاں سے اِس قسم کی آوازیں نہ آرہی ہوتیں، یہ رقص و سرود یہاں نہیں ہو رہا ہوتا، یہ شراب نوشیاں نہ ہوتیں، یہ عیاشیاں نظر نہ آرہی ہوتیں

بشر یہ فقرہ اور کنیز کی بتائی ہوئی علامات سن کر سمجھ گیا کہ وہ موسیٰ ابن جعفر ؑ تھے(یہ ہوتا ہے توبہ پر آمادہ کرنا اور انسان کے اندر سے انقلاب اٹھانااور یہ انبیا اور اولیا کے کاموں میں سے ہےانبیا اور اولیا کے سوا کسی اور میں اس قسم کے کاموں کی قدرت نہیں پائی جاتی) یہ شخص بغیر جوتے پہنے، ننگے پیر ہی دروازے کی طرف دوڑ ا، اور پوچھا وہ کس طرف گئے تھےاُسے بتایا گیا: اس طرفوہ دوڑتا ہوا امام کی خدمت میں پہنچا، اپنے آپ کو امام کے قدموں میں گرالیا، اور بولا: آقا! آپ نے صحیح فرمایا تھامیں بندہ ہوں، لیکن مجھے اپنے بندہ ہونے کا احساس ہی نہ رہا تھاحضور! اب اسی لحے سے میں واقعاً بندہ بننا چاہتا ہوں آپ کی خدمت میں توبہ کے لئے حاضر ہوا ہوں

اُس نے وہیں امام کے سامنے توبہ کی اور واپس اپنے گھر لوٹ آیاگھر پہنچ کر اُس سارے ساز وسامان کو اُٹھا کر پھینک دیاپھر اس کے بعد کبھی جوتے بھی نہ پہنےوہ بغدا د کے بازاروں اور گلی کوچوں میں ننگے پاؤں پھرا کرتااور لوگ اسے ”بشر حافی“یعنی، ننگے پاؤں رہنے والا بشر کہا کرتے تھےجب لوگ اُس سے پوچھتے کہ: ننگے پیر کیوں چلتے ہو؟ تو وہ کہتا تھا کہ: جب مجھے امام موسیٰ ابن جعفر کی خدمت میں (توبہ کی) وہ توفیق حاصل ہوئی تھی تو میں ننگے پیر تھااب میرا دل نہیں چاہتا کہ دوبارہ جوتے پہنوںمیں چاہتا ہوں کہ اسی حالت کو ہمیشہ محفوظ رکھوں جس میں مجھے وہ توفیق حاصل ہوئی تھی

بنی قریظہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک خیانت کے مرتکب ہوئےپیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے نمٹنے کا فیصلہ کیاان لوگوں نے کہا کہ ابو لبابہ کو ہمارے پاس بھیجئے، وہ ہمارا حلیف ہے، ہم اُس سے مشورہ کریں گےنبی کریم نے ابو لبابہ سے کہا کہ وہ جائیںوہ گئے، اور اُن سے مشورہ کیالیکن یہودیوں سے اپنے ایک خاص تعلق کے زیر اثر انہوں نے مشورت کے دوران اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کوپیش نظر نہ رکھااور ایک ایسا جملہ کہا، ایک ایسا اشارہ کیا جو جملہ یا اشارہ یہودیوں کے مفاد اور مسلمانوں کے نقصان میں تھا

جب وہ باہر آئے تو انہیں احساس ہوا کہ وہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں ابھی کسی کو بھی اس بات کی خبر نہیں ہوئی تھیجوں جوں وہ چلتے ہوئے مدینہ سے نزدیک ہورہے تھے، اُن کے دل میں لگی یہ آگ اوربھڑک رہی تھیوہ گھر آئے، البتہ اپنے بیوی بچوں سے ملنے کے لئے نہیں، بلکہ انہوں نے وہاں سے ایک رسی اُٹھائی اور مسجد ِ نبوی میں آکراس رسی کے ذریعے اپنے آپ کو مضبوطی کے ساتھ ایک ستون سے باندھ لیااور کہا کہ: بارِالٰہا! جب تک میری توبہ قبول نہ ہوگی میں اپنے آپ کو اس ستون سے نہیں کھولوں گاصرف نماز یا قضائے حاجت کے لئے ان کی بیٹی آکر ان کی رسی کھولتیوہ غذا بھی انتہائی مختصر کھاتے، بس ہر وقت التماس اور تضرع میں مشغول رہتےکہتے کہ: خدایا! میں نے غلطی کی ہے، گناہ کر بیٹھا ہوں، الٰہی! میں نے اسلام اور مسلمین سے خیانت کی ہے، تیرے پیغمبر سے خیانت کا مرتکب ہوا ہوں، بارِ الٰہا! جب تک میری توبہ قبول نہ ہوجائے میں خود کو اس ستون سے نہ کھولوں گا، یہاں تک کہ میری موت واقع ہوجائے

لوگوں نے رسول اﷲ کو آکے بتایا کہ ابو لبابہ نے ایسا کیا ہےآنحضرت نے فرمایا: اگر وہ میرے پاس آتا اور اقرار کرتا، تومیں بارگاہِ الٰہی میں اُس کے لئے استغفار کرتالیکن وہ براہِ راست خدا کے حضور چلا گیا ہے، اور اب خود خدااس کا فیصلہ کرے گامجھے نہیں معلوم دو شبانہ روز گزرے یا اس سے زیادہپیغمبر اسلام حضرت امِ سلمہ کے گھر پر تھے کہ آپ پر وحی نازل ہوئی کہ اس شخص کی توبہ قبول کی جاتی ہےپیغمبر نے حضرت امِ سلمہ سے فرمایا: امِ سلمہ اُس شخص کی توبہ قبول ہوگئیامِ سلمہ نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول! اجازت دیجئے کہ میں یہ بشارت اُسے سناؤں؟ آنحضرت نے فرمایا: کوئی حرج نہیںپیغمبر کے تمام حجروں کی ایک کھڑکی مسجد کی جانب کھلتی تھیاور انہیں مسجد کے اطراف تعمیر کیا گیا تھاامِ سلمہ نے اپنا سر کھڑکی سے نکالا اور کہا: ابو لبابہ! میں تمہیں بشارت دیتی ہوں کہ خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی ہےیہ بات مدینہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ خدا نے ابو لبابہ کی توبہ قبول کرلی ہےمسلمان اس کی رسی کھولنے کے لئے وہاں جمع ہوگئےابو لبابہ نے کہا: نہیں، کوئی میری رسی نہ کھولےمیری خواہش ہے کہ رسول اﷲ اپنے دست ِ مبارک سے مجھے کھولیں

لوگوں نے کہا: یا رسول اﷲ! ابو لبابہ کی خواہش ہے کہ آپ تشریف لائیں اور اپنے دست ِ مبارک سے اسے کھولیں آنحضرت تشریف لائے اور اسے رسیوں سے آزاد کیا(یہ ہے حقیقی توبہ) فرمایا: ابولبابہ !تمہاری توبہ قبول ہوئی، تم پاک ہوکر اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ (بے شک اﷲ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے) کے مصداق بن گئے ہواب تمہاری حالت اس بچے کی سی ہے جوابھی ابھی اپنی ماں سے متولد ہوا ہواب تمہارے وجود پر گناہ کا کوئی داغ نہیں ہے

جن لوگوں نے مدینہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ مسجد ِ نبوی کے ایک ستون پر اُسْطُوانَۃُ التَّوْبَہ یا اُسْطُوانَۃُ اَبی لُبابَہ تحریر ہےیہ وہی ستون ہے، لیکن اُس وقت یہ ستون لکڑی کا تھا، ا لبتہ ستونوں کی جگہ تبدیل نہیں ہوئی ہےیہ وہی ستون ہے جس سے پیغمبر اکرم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے ابولبابہ کوکھولا تھا

ابولبابہ نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول !میں اﷲ کی طرف سے توبہ قبول کئے جانے کی اِس نعمت کے شکرانے کے طورپراپنی تمام دولت راہِ خدا میں صدقہ دینا چاہتا ہوں آنحضرت نے فرمایا: نہیں، ایسا نہ کرواُس نے کہا: یا رسول اﷲ! میں اﷲ کی طرف سے توبہ قبول کئے جانے کی اِس نعمت کے شکرانے کے طوراپنی دولت میں سے دو تہائی راہِ خدا میں صدقہ دینا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا: نہیںاُس نے کہا: اجازت دیجئے کہ میں اپنی آدہی دولت راہِ خدا میں صدقہ کردوں آپ نے اس سے بھی منع کیااس پر ابو لبابہ نے کہا: اچھا مجھے اپنی ایک تہائی دولت راہِ خدا میں صدقہ کرنے کی اجازت دیجئےرسولِ کریم نے فرمایا: ہاں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے

یہ ہے اسلام، جو تمام امور کو اپنی ٹھیک ٹھیک جگہ پر رکھتا ہےتم کیوں اپنی ساری دولت صدقے میں دینا چاہتے ہو؟ تم کیوں اپنی آدھی دولت راہِ خدا میں صدقہ دینا چاہتے ہو؟ تمہارے بیوی بچے کیا کریں گے؟ کچھ مقدار، ایک تہائی مقدارراہِ خدا میں دے دو، بقیہ کو اپنے پاس رکھو(سفینۃ البحارج ۲ص ۵۰۳)

ایک شخص کی وفات ہوگئیپیغمبر نے اُس کی نمازِ جنازہ پڑھائیاس کے بعد پوچھا: اس کے کتنے بچے ہیں، اور اس نے اُن کے لئے کیا چھوڑاہے؟ (کسی نے جواب دیا) اے اﷲ کے رسول!اس کے پاس کچھ دولت تھی، لیکن مرنے سے پہلے اس نے وہ ساری دولت راہِ خدا میں دے دیآپ نے فرمایا: اگر تم لوگوں نے یہ بات مجھے پہلے بتائی ہوتی، تو میں اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھتا! یہ شخص معاشرے میں اپنے بھوکے بچے چھوڑکر گیا ہے؟

کہا جاتا ہے کہ اگر آپ وصیت کرنا چاہتے ہیں کہ میرے بعد میری دولت کو راہِ خدا میں اس طرح خرچ کیا جائے، تو اس دولت کے ایک تہائی کے بارے میں وصیت کیجئےایک تہائی سے زیادہ پر آپ کی وصیت لاگو نہیں ہوگیحتیٰ بعض علما کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کوئی بیمار شخص، اُس مرض کے دوران جو اُس کی موت پر منتہی ہو، اپنے ایک تہائی سے زیادہ مال کو، اپنی موت سے قبل راہِ خدا میں دینا چاہے، تو کیونکہ اُس نے یہ عمل اپنے مرضِ موت میں انجام دیا ہے اسلئے، چاہے اُس نے اسے وصیت کے عنوان سے نہ دینا چاہا ہو بلکہ خود اپنے ہاتھ سے یہ مال دیا ہو، تب بھی اُس کا ایسا کرنا جائز نہیں ہےکیوں؟ کیونکہ وہ صرف اپنے ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہے

البتہ توبہ کے درجات اور مراتب ہیں، لہٰذا ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئےہم نے خاص طور پر ان شبوں میں توبہ کی گفتگو چھیڑی ہے، کیونکہ یہ دعا، عبادت اور استغفار کی شبیں ہیں

برادران! پہلے درجے میں خود اپنے لئے استغفار کیجئے، مغفرت طلب کیجئےپہلے مرحلے میں کوشش کیجئے کہ آپ اپنے گزشتہ گناہوں سے پاک ہوجائیں آپ کا پاک ہونا یہ ہے کہ آپ پشیمان ہوجائیں، یہ ہے کہ آپ عزم کرلیں کہ اب دوبارہ گناہ نہیں کریں گے، یہ فیصلہ کرلیں کہ لوگوں کو اُن کے حقوق واپس لوٹائیں گے، خدا کے حقوق اسے واپس کریں گےبخدا! اگر آپ اپنے آپ کو پاک کرلیں، تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی تمام دعائیں مستجاب ہورہی ہیںلہٰذاتوبہ کیجئے

کل رات ہم نے آپ کی خدمت میں حر ابن یزید ریاحی کی توبہ کی داستان بیان کی تھیحسین ابن علی کے اصحاب میں ایک اور شخص شامل ہیں، جن کا نام ”زہیر ابن قین“ ہےان کا شمار بھی توابین میں ہوتا ہے، لیکن ایک دوسری صورت سےزہیر عثمانی تھے، یعنی حضرت عثمان کے شیعوں میں سے تھے، اُن لوگوں میں سے تھے جن کا عقیدہ تھا کہ حضرت عثمان مظلوم قتل کئے گئے ہیں، اور یہ تصور رکھتے تھے کہ نعوذ باﷲ ان فتنوں میں حضرت علی کا ہاتھ تھاحضرت علی کے بارے میں ان کے خیالات اچھے نہ تھےوہ مکہ سے عراق واپس جارہے تھےامام حسین بھی عراق تشریف لے جا رہے تھےزہیرکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ حسین ابن علی کاسامنا کریں یا نہ کریں؟ کیونکہ بہر حال وہ دل سے ایک مومن شخص تھے اور اس بات سے باخبر تھے کہ حسین فرزند ِرسول ہیں اور امت پر کیا حق رکھتے ہیںوہ خوفزدہ تھے کہ کہیں اُن کا امام سے سامنا ہو اورامام اُن سے کوئی ایسا تقاضا کربیٹھیں جسے وہ پورا نہ کرسکیں، اگر ایسا ہوا تو بہت بُرا ہوجائے گا

راستے میں ایک منزل پر وہ امام کے ساتھ پڑاؤ ڈالنے پر مجبور ہوگئےیعنی کسی پانی کے پاس یا کسی کنویں کے قریب پڑاؤ ڈالاامام نے ایک شخص کو ”زہیر“کو بلانے کے لئے اُن کے پاس بھیجاجب وہ شخص وہاں پہنچا تو اتفاقاً وہ کچھ لوگوں، اپنے ساتھیوں اور اپنے قبیلے کے افراد (زہیر اپنے قبیلے کے سردار تھے) کے ہمراہ ایک خیمے میں دوپہر کا کھانا کھا رہے تھےجوں ہی امام حسین کے بھیجے ہوئے شخص نے آکے کہا کہ: یَا زُہَیْرُ! اَجِبِ الْحُسَیْن یا اَجِبْ اَبا عَبْدِ اللّٰہ الْحُسَینزہیر کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اورانہوں نے (خود سے) کہا: جو میں نہیں چاہتا تھا وہی ہوگیا

لکھا ہے کہ زہیر اور اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے افراد کے ہاتھ دسترخوان پر جہاں تھے وہیں رکے کے رکے رہ گئےکیونکہ سب پریشان ہوگئے تھےنہ وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم آرہے ہیں اور نہ یہ کہہ سکتے تھے کہ نہیں آتےلکھتے ہیں: کَاَنَّہُ عَلیٰ رُؤُسِہِمُ الطَّیْرُ(گویا اُن کے سر پر پرندے بیٹھے ہوں) زہیر کی بیوی نیک اور مومنہ عورت تھیجب اسے معلوم ہوا کہ زہیر نے حسین کے نمائندے کے جواب میں خاموشی اختیار کرلی ہے، تو وہ آگے بڑھی اور عجیب ملامت آمیز لہجے میں بولی: زہیر! تمہیں شرم نہیں آتی؟ فرزند ِرسول، فرزند ِ زہرا نے تمہیں بلایا ہے، تمہیں توان کے پاس جانے پر فخر کرنا چاہئےتمہیں تردد ہے؟ اٹھو، کھڑے ہو! زہیر اٹھے اور چلے گئے لیکن طوعاً وکرہاً، بے دلی سے

مجھے نہیں معلوم، یعنی تاریخ میں درج نہیں ہے اور شاید کسی کوبھی نہیں معلوم کہ امام حسین اور زہیر کی ملاقات کے دوران کیا ہوا؟ اُن کے درمیان کیا ہوا؟ کیا گفت وشنید ہوئی؟ لیکن جو بات مسلَّم ہے، وہ یہ ہے کہ جب زہیر واپس آئے تو اُن کا چہرہ اُس چہرے سے بالکل مختلف تھا جب وہ گئے تھےجب وہ جارہے تھے تو اُن کا چہرہ افسردہ اورغمگین تھا لیکن جب وہ باہر نکلے، تو اُن کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا

ہمیں نہیں معلوم امام حسین نے اُن کے وجود میں کیا انقلاب ایجاد کیا، انہیں کیا بات یاد دلائی، ہم نہیں جانتےلیکن اتنا جانتے ہیں کہ زہیر کے وجود میں ایک مقدس انقلاب پیدا ہوچکا تھاآئے اور آکے بیٹھ نہیں گئے، بلکہ دیکھا کہ وہ وصیت کررہے ہیںمیرے مال ودولت کا یہ کرنا، میرے بچوں کا یہ کرنا، اپنی زوجہ کے بارے میں وصیت کی کہ اسے اس کے والد کے گھر پہنچا دیناوصیت مکمل کرنے کے بعد اپنے آپ کو تیار کیا اور کہا کہ میں جا رہا ہوںسب سمجھ گئے کہ اب زہیر نہیں آئیں گے

کہتے ہیں کہ جب وہ جانے لگے، تو اُن کی زوجہ نے آگے بڑھ کر اُن کادامن تھام لیا اور بولیں: زہیر! تم جارہے ہو اور ایک عظیم مقام حاصل کررہے ہو، حسین کے نانا تمہاری شفاعت کریں گےمیں آج تمہارا دامن پکڑتی ہوں کہ قیامت میں حسین کے نانااورحسین کی ماں میری شفاعت کریںاس کے بعد زہیر کربلا کی صف ِ اوّل کے اصحاب میں سے ہوگئے

عجیب عالم تھازوجۂ زہیر مضطرب تھی کہ کیا ہوتا ہے؟ جب اسے اطلاع ملی کہ حسین اور اُن کے تمام اصحاب شہید ہوگئے ہیں، توسوچنے لگیں کہ یقینا سب کے پاس کفن ہوگا لیکن زہیر کے پاس کفن نہیں تھا اور وہاں اُن کا کوئی نہیں ہےاس نے اپنے غلام کے ہاتھ ایک کفن بھیجااوراُس سے کہا کہ: جاؤ زہیر کی تکفین کرولیکن جب وہ غلام وہاں پہنچا توجو حالت اُس نے دیکھی اُس سے اُسے زہیر کو کفن دیتے ہوئے شرم محسوس ہوئی، کیونکہ اُس نے دیکھا کہ زہیر کے آقا کا بدن بھی بے کفن پڑاہے

 

لاٰحَوْلَ وَلَاٰ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ وَ صَلَّ اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِہِ الطَّاہِرِینَ

بارِ الٰہا! ہم سب کا انجام نیک فرما
بارِ الٰہا!ہم سب کو سچی توبہ کی، توبۂ نصوح کی توفیق عنایت فرما
بارِ الٰہا! اپنے لطف و کرم سے ہمارے گناہوں سے درگزر فرما
بارِ الٰہا! ہمیں ان راتوں کے فیض سے محروم نہ فرما
رَحِمَ اللّٰہُ مَنْ قَرَ ءَ الْفَاتِحَۃُ مَعَ الصَّلَوٰۃ