فکرونظر

وقت کبھی نہیں ٹھہرا، مسلسل رواں دواں ہے، اور اپنے ساتھ تاریخ جغرافیے، انسانوں کی بود و باش، عادات و اطوار اور انداز ہائے فکر کو بھی پیہم بدلتا رہا ہے۔

اسلام، انسان کی ہدایت و رہنمائی اور اُس کی دنیا و آخرت کی سرخروئی کے لیے خدا کے پسندیدہ دین کے بطور نازل ہوا ہے، جو دو بنیادی مصادر (sources) قرآن اور سُنّت (یعنی معصوم کی گفتار، کردار یا کسی عمل پر اُن کی تائید) پر مشتمل ہے۔

نزولِ قرآن، پیغمبر اسلامؐ کی حیات ِمبارک ہی میں تیئس برس کی مدت میں مکمل ہو گیا تھا اور اِس کے شارح اور مفسر رسولِ کریمؐ اور (ہمارے عقیدے کے مطابق ) ائمۂ معصومینؑ مدت ِدراز تک اِس کے ساتھ رہے ۔ معصوم کی غیبت کے بعد مسلمان قرآنِ کریم کے بے عیب اور معصوم فہم سے محروم ہو گئے۔ لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں، وقت رواں دواں ہے، تاریخ پیہم سفر میں ہے، حالات و شرائط ہمیشہ تبدیلیوں کی زد پر ہیں، نئے مسائل، نئی مشکلات، نئے سوالات مسلسل سامنے آ رہے ہیں، جن کے متعلق واضح ہدایات اور اُن کا حل بظاہر قرآنِ کریم اور میّسرسُنّت ِمعصومین ؑمیںنظر نہیں آتا ہے۔ اِس صورتحال میں شرع کا مؤقف جاننے کے لیے اہلِ اسلام نے اجتہاد کا راستہ اپنایا، جس کے ذریعے علمائے دین، فقہا اور مجتہدین نئے حالات میں شرعی حکم معلوم کرتے ہیں۔ اِس طرح اسلام ہر دور کے مطابق (update) رہا اور ابدی اور دائمی دین کے بطور تسلیم کیا گیا۔

البتہ ایک طویل عرصے تک مسلمانوں کی سیاست اور اجتماعیت سے اسلام کی دوری اور مسلمانوں میں دین کے بارے میں مغربی طرز ِ فکر کے رواج کی بنا پر دین اسلام کو بھی محض بندے اور خدا کے باہمی تعلق اور چند رسوم و رواج اور مخصوص عبادات کی انجام دہی تک محدود سمجھ لیا گیا اور اِس کے زیر ِاثر اجتہاد بھی عبادات اورمعاملات کے محض فردی پہلو میں منحصر ہو کے رہ گیا اور دین کے اجتماعی، سیاسی اور معاشرتی پہلوئوں کے سلسلے میں اِسے نظر انداز کر دیا گیا۔ لیکن انیسویں صدی میں عالمِ اسلام میں، اسلام کی نشاۃثانیہ کے علمبرداراور مسلمان معاشروں میں دین کے نفاذ کا عزم رکھنے والے مفکرین کی مساعی کے نتیجے میں اسلام کی سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی تعلیمات پھر زیر ِبحث آنے لگیں، نئے سیاسی اور سماجی حالات کے لیے اسلامی مؤقف کا اظہار ہونے لگا، بالخصوص ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد شیعہ علما، فقہا اور مجتہدین نے سماجی اوراجتماعی موضوعات کے بارے میں اسلامی تعلیمات پر قابلِ قدر تحقیقی کام سرانجام دیے اور اسلام کو ایک ایسے دین کے بطور پیش کیا جو اجتماع، معاشرت، معیشت اور سیاست میں پاکیزہ، ارفع، واضح اور دوسرے تمام اجتماعی مکاتب سے کہیں بلند تر تعلیمات پر مشتمل ہے۔

آیت اﷲ سید محمد حسین فضل اﷲ، جن کا تعلق لبنان سے ہے اورجو عراق کی تحریک ِاسلامی کے قائد شہید آیت اﷲ سید محمد باقر الصدرؒ کے رفقا میں سے ہیں، اُنھیں ایسے ہی مفکر، علما اور مجتہدین کی صف میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔زیر ِنظر کتاب عقیدتی، سیاسی اور اجتماعی موضوعات پر آپ کے چند انٹرویوز اور تقاریر پر مشتمل ہے، جنہیں اسلامی جمہوریۂ ایران میں شائع ہونے والے مختلف دینی اور علمی جرائد سے اکٹھا کیا گیا ہے، یہ انٹرویوز اور تقاریر اپنے اندر غور و فکر کا بہت سا سامان لیے ہوئے ہیں ۔دورِ جدید کے تناظر میں اسلام کی اجتماعی اور سیاسی تعلیمات اور مختلف عقیدتی سوالات کے جواب جاننے کے خواہشمند قارئین اِس مجموعے سے یقینا مستفیض ہوں گے۔ پڑھنے والوں کی آراء و تجاویز کا ہمیشہ ہمیں انتظار رہتا ہے۔والسلام